قرارداد یورپی یونین


یورپی یونین کی قرارداد پر سنجیدگی سے غور و خوض کرنے، بہتر پالیسیاں بنانے، حکمت عملی اپنانے اور اوورسیز میں موجود پاکستانی سفیروں کو برا بھلا کہنا اور دفاع میں یہ کہنا کہ یورپ انہیں ڈکٹیشن نہ دے۔ اور کہ سی جی ایس، پلس کا توہین رسالت سے کیا تعلق۔ ملک میں کام کرنے والی غیر ممالک سے تعلق رکھنے والی این جی اووز کو مورد الزام ٹھہرانا کوئی عقلمندی نہیں۔ یا مذہبی بنیاد پرستی کا نام دینا درست نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان ہی کیوں بار بار یورپی یونین کے زیر بحث آتا ہے۔

وقت کے حکمران اور خصوصاً پاکستانی عوام کے لئے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ اس کی نوبت ہی کیوں آئی۔ جن مذکورہ واقعات و حالات کی نشاندہی یورپی یونین نے کی ہے۔ اگر غلط ہیں تو دفاع کرنا بنتا ہے۔ نہیں تو انہیں درست کرنے کی ہے۔ کیونکہ صاف ظاہر ہے کہ فی الحال پاکستان ترقی یافتہ ممالک سے کٹ کریا الگ ہو کر معاشی مسائل سے نکل نہیں سکتا۔ خصوصاً ان ممالک سے جو پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اور اگر ہم یہ چاہتے کہ دوسرے ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کریں، سیاحت کو فروغ ملے۔ تو ملک کو بنیاد پرستی اور ایسی آلائشوں سے پاک کریں جو ملک کے لئے بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ مذہب چاہے کوئی بھی ہو وہ پیار اور محبت کا درس دیتا ہے۔ انسان کے قتل یا دوسرے مذاہب یا اس کے پیغمبروں کی توہین کی اجازت نہیں دیتا۔ آزادی رائے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کسی کے مسلک یا عقیدے کی توہین کی جائے۔ وہاں کی حکومت کو ایسے عناصر کے خلاف ایکشن لینے کی اشد ضرورت ہے۔ جو بین المذاہب میں انتشار کا سبب بنتے ہیں۔

ماضی ہو یا حال، تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے اسلامک ممالک کا اپنا ایک الگ بلاک بنانے کی کوشش کی ہے۔ وہ تو ایران، عراق، ترکی، شام، اور روس سے الگ ہونے والی کچھ اسلامی ریاستیں، اور سعودی بلاک آپس میں ایک دوسرے سے پوری طرح متفق نہیں ہوئے۔ اسلامک بلاک یورپین، یا دوسرے معنوں میں نیٹو سے متفق نہیں۔ جس کی بڑی وجہ ہے کہ امن اور ہم آہنگی کی فضا پیدا ہونے کی بجائے دن بدن مذہبی انتہا پسندی کو فروغ ملا اور اسلامک بلاک کبھی نہ بن سکا۔

پر امن اور بہتر سفارتی تعلقات استوار کرنا ابھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ 29 اپریل، جمعرات کے روز یورپی یونین نے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی، پریس کی آزادی، کم عمر جبری تبدیلی مذہب و نکاح، ریپ، اسے عناصر یا مذہبی جماعتیں جو اشتعال انگیز تقاریر سے مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیتے انہیں روکا جائے اور 295 C کے غلط استعمال کے خلاف اکثریت رائے سے قرارداد منظور کی ہے۔ 662 افراد نے اس کے حق میں اور تین نے مخالفت میں ووٹ ڈالے ہیں۔ اس قرار داد میں یورپی کمیشن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ 2014 ء میں پاکستان کو جنرلائزڈ سکیم آف پریفرنسز (جی ایس پی) پلس کے تحت دی گئی تجارتی رعایتوں پر فی الفور نظرثانی کرے۔

یورپی یونین کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کو سنہ 2014 میں جی ایس پی پلس کا درجہ دیے جانے کے بعد پاکستان اور یورپی یونین کے ملکوں میں تجارت میں 64 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے اقتصادی سروے سال 2019۔ 20 کے مطابق یورپی یونین پاکستان کی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ اس سروے میں کہا گیا ہے کہ جی ایس پی پلس کے تحت پاکستانی مصنوعات کو یورپی یونین کے 27 ملکوں میں بغیر کسی ڈیوٹی کے رسائی حاصل ہے۔ یورپی یونین کو بیچے جانے والے مال میں سب سے زیادہ مقدار ٹیکسٹائل مصنوعات کی ہے۔ پاکستان سے یورپی یونین برآمد کیے جانے والی اشیا میں 76 فیصد حصہ ٹیکسٹائل کی مصنوعات کا بنتا ہے۔

جی ایس پی سکیم کے تحت ترقی پذیر ممالک کی یورپی یونین کی منڈیوں میں آنے والی مصنوعات سے درآمدی ڈیوٹی ہٹا دی جاتی ہے۔

اگر کسی ملک کو یہ درجہ دیا گیا ہے تو اسے انسانی حقوق، مزدوروں کے حقوق، ماحولیات کے تحفظ اور طرز حکمرانی میں بہتری سمیت 27 بین الاقوامی معاہدوں کا نفاذ کرنا ہوتا ہے۔

یورپی یونین کی قرارداد میں خصوصی طور پر جس توہین مذہب کے کیس پر خدشے کا اظہار کیا گیا۔ وہ خصوصاً اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی شگفتہ کوثر اور شفقت عمانوایل کا ہے۔ قرارداد میں پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ شگفتہ کوثر اور شفقت عمانوایل کے خلاف توہین رسالت کے الزامات کے تحت سنائی گئی موت کی سزا کو واپس لے کر ان کو فوری طور پر رہا کریں۔ یاد رہے کہ ان دونوں کو 2014 میں توہین رسالت کے الزام میں سزا موت سنائی گئی تھی۔

یہ واضح رہے کہ ایک طرف یورپی یونین کی یہ قرار دار ہے تو دوسری طرف اوورسیز میں رہنے والے مسیحی پاکستانی ہیں جن کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ یورپی یونین یہ قرار داد کیوں آئی؟ عوام اور مذہب کے متوالے ان باتوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وہ قانون کو ہاتھ میں لینے سے پہلے یہ نہیں سوچتے کہ ان کے افعال سے ملک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ، لاء اینڈ آرڈر پر عمل درآمد کروانے والی ایجنسیوں اور حکومت کے لئے یہ لمحہ ء فکریہ ہے۔ اس کشیدگی کے موقع پر ایسے وہ تمام بیانات جو جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔ گریز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments