کورونا وبا کے دوران چین کی جانب سے امداد: کیا انڈیا کے اپنے ہمسایہ ملک کے ساتھ بگڑے تعلقات میں بہتری آ سکے گی؟


انڈیا چین

انڈیا اس وقت کورونا وائرس کی دوسری لہر سے نبردآزما ہے۔ ایسے میں پوری دنیا نے انڈیا کی مدد کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا ہے لیکن چینی اور انڈین میڈیا کی نظر ہمیشہ چین پر رہتی ہے کہ وہ کیا کرنے جا رہا ہے۔

سرحد پر کشیدگی کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات بےحد نازک دور سے گزر رہے تھے اور ایسی امید کی جا رہی ہے کہ کورونا وائرس کے حوالے سے کی جانی والی مدد دونوں ممالک کے تعلقات پر جمی برف کو پگھلا سکتی ہے۔

چین نے اب تک کیا کیا؟

گزرے ہفتوں میں چینی خبر رساں اجنسی شنہوا اور دیگر چینی سرکاری میڈیا بار بار اس بات کی طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ چین کی حکومت کورونا وائرس کی وبا کے دوران انڈیا کو کئی بار مدد کی پیشکش کر چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی 30 اپریل کو چینی صدر شی جن پنگ کی طرف سے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کو بھیجے گئے پیغام کے بارے میں بھی بتایا جا رہا ہے۔

انڈیا چین

یہ بھی پڑھیے

انڈیا چین سرحدی کشیدگی: چین پیچھے ہٹنے پر کیسے راضی ہوا؟

انڈیا چین سرحدی تنازع: نکُولا کا محاذ انڈیا کے لیے اہم کیوں ہے؟

انڈیا چین تنازع: کیا انڈیا کے مقابلے میں چین بہتر پوزیشن میں ہے؟

چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے بھی 30 اپریل کو فون پر انڈین وزیر خارجہ ایس جےشنکر کو ہمدردانہ پیغام بھیجا تھا اور اس بات کو دہرایا تھا کہ چین کووڈ۔19 سے نمٹنے کے لیے سامان کی سپلائی کے لیے انڈیا کی ہر ممکن مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔

چینی سرکار سے قریب سمجھے جانے والے اخبار گلوبل ٹائمز میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ چینی وزیر خارجہ نے 22 اپریل سے 30 اپریل کے درمیان ہونے والی سات مسلسل پریس کانفرنسوں میں انڈیا کے ساتھ ہمدردی اور افسوس کا اظہار کیا تھا اور امداد کی پیشکش کی تھی۔

انڈیا میں چین کے سفیر سن ویڈانگ نے ٹوئیٹر پر ان الزامات کا جواب دیا تھا جن میں کہا گیا تھا کہ چینی ائیر لائنز نے انڈیا کے لیے کارگو پروازوں کو منسوخ کر دیا ہے۔

چینی میڈیا نے سن ویڈانگ کے 29 اپریل کے ٹویٹ کا سکرین شاٹ دکھایا جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ چین نے اپریل سے اب تک انڈیا کو 5,000 وینٹیلیٹرز، 21,569 آکسیجن جینریٹرز اور 2.1 سے زیادہ سرجیکل ماسک اور 3.8 ہزار ٹن ادویات فراہم کرائی ہیں۔

https://twitter.com/China_Amb_India/status/1387749725177143302?s=20

یہ سب کچھ خیرات میں نہیں دیا گیا تھا بلکہ اسے مختلف طریقوں سے خریدا گیا تھا۔

بالی ووڈ اداکار سونو سود نے یکم مئی کو ٹویٹ کرکے چین پر رکاوٹیں کھڑی کرنے کا الزام لگایا تھا تو چینی سفیر نے یہ بھی یقین دلایا تھا کہ کارگو پروازیں معمول کے مطابق چلتی رہیں گی۔

کیا چینی میڈیا کشیدگی کم کرنے کے لیے پرامید ہے؟

مین لینڈ چائینا اور ہانگ کانگ کا میڈیا اس بات کے بارے میں کافی محتاط ہے کہ اگر انڈیا کووڈ۔19 کی سپلائی قبول کر لیتا ہے تو اس سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں مدد ملے گی۔

جون 2020 میں وادی گلوان میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں انڈیا کا بھاری جانی نقصان ہوا تھا اور چین کے بھی چند فوجیوں کی موت ہوئی تھی۔

ڈوکلام

دو مئی کو چینی ٹوئیٹر کہے جانے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ویبو پر گلوبل ٹائمز کے مدیر ہو سائیچن نے کہا تھا، ‘چین اور انڈیا کے درمیان سرحدی تصادم کو ہم بھول نہیں سکتے ہیں لیکن انڈیا کی وبا کے خلاف لڑائی کے حوالے سے چین کی حمایت نے ایک تعلق بھی بنایا ہے۔ یہ یقینی طور پر چین کے بارے میں انڈیا میں پائے جانے والے عمومی تاثر کا رخ طے کرنے میں مرکزی کردار ادا کرے گا۔’

چار مئی کو حالات حاضرہ کے جریدے ورلڈ افئیرز کے مدیر وو مینگکے نے ایک مضمون لکھا جس میں انھوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ کورونا کی دوسری لہر سے پہلے انڈیا کی مودی حکومت نے وبا کو ‘چین سے صنعتی تعلق کم کرنے اور مغربی ممالک اور امریکہ کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کے ایک موقعے کے طور پر دیکھا تھا۔’

ساتھ ہی میڈیا نے یہ بھی کہا ہے کہ انڈیا میں کووڈ۔19 کی وبا پر چینی سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر قوم پرستی کی وجہ سے رشتے ٹھیک کرنے کی چین کی کوشش میں مشکلات بھی پیش آ سکتی ہیں۔

انڈیا پر بھی تنقید کا سلسلہ جاری

دوسری جانب ویبو پوسٹ پر چار مئی کو انگریزی میں لکھے اداریے میں ہو سائیچن نے زور دیا کہ چین کے عوام کی رائے انڈیا یا کسی اور ملک کے مقابلے میں زیادہ ‘قوم پرست’ نہیں ہے اور انڈیا پر کچھ تنقید عام سی بات ہے۔

انھوں نے کہا، ‘سرکاری سطح پر چین انڈیا کی مضبوطی سے حمایت اور مدد کر رہا ہے جو چین کے رخ کو ظاہر کرتا ہے۔ وہیں معاشرے کی مختلف آوازیں چین میں خیالات کے تنوع کو ظاہر کرتی ہیں۔’

ان کا یہ تبصرہ تب سامنے آیا جب چین کی کمیونسٹ پارٹی اور وزارت عوامی تحفظ سے منسلک دو اکاؤنٹس نے چین میں کووڈ۔19 کے مریضوں کے لیے دس دن میں تیار ہونے والے ہسپتال کا مقابلہ انڈیا میں وبا کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں کی آخری رسومات کی تصاویر سے کیا تھا۔

یہ دونوں تصاویر 30 اپریل اور یکم مئی کو ویبو پر پوسٹ کی گئی تھیں جس کے بعد انڈین اور چینی سوشل میڈیا صارفین کے درمیان بحث شروع ہو گئی تھی اور بعد میں ان کو ڈلیٹ کر دیا گیا تھا۔

چین

انڈین میڈیا کا ردعمل

انڈین میڈیا اس بات پر زور دے رہا ہے کہ کیسے انڈیا نے اب تک چین کی طرف سے مدد کو قبول نہیں کیا ہے۔ دی ہندو اخبار نے لکھا، ‘انڈیا نے چین کا انتخاب تجارتی لحاظ سے طبی سپلائی کے ذریعے کے طور پر کیا ہے۔’

29 اپریل کو اخبار انڈین ایکسپریس میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا گیا تھا کہ انڈیا نے ہنگامی بنیادوں پر چین سے خاص طور پر آکسیجن سے متعلق مشینیں اور آلات خریدے ہیں جو ‘سولہ سالوں میں پالیسی کے حوالے سے بڑی تبدیلی ہے۔’

دی ہندو نے ذرائع کے حوالے سے 29 اپریل کو لکھا تھا کہ انڈیا کو چین سے سامان خریدنے میں کوئی ‘نظریاتی مسئلہ’ نہیں ہے۔ اس میں لکھا تھا کہ حال ہی میں انڈین ائیر لائینز ہانگ کانگ سے 800 آکسیجن کنسنٹریٹرز لے کر انڈیا پہنچی تھیں۔

26 اپریل کو اکنامک ٹائمز اخبار میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا گیا تھا کہ آکسیمیٹر جیسے چینی سامان انڈیا کے میڈیکل سامان میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں جو اس وقت دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک استحکام کی طرف اشارہ ہے۔

سرحدی کشیدگی اور امریکہ

انڈیا

انڈین میڈیا نے یہ بھی کہا ہے کہ سرحدی کشیدگی چین اور انڈیا کے دوستانہ تعلقات پر اب بھی حاوی ہے اور امریکہ ایک مضبوط سیاسی پارٹنر بنا ہوا ہے۔

دی ہندو میں 28 اپریل کو شائع ہونے والے ایک مضمون میں بتایا گیا کہ کیسے امریکہ نے کورونا ویکسین کے خام مال پر روک لگا دی تھی اور اس سے عوام ناراض تھے۔ دونوں ممالک کے تعلقات پر اس سے ‘شدید اثر’ پڑنے کا خدشہ تھا۔

دی پرنٹ نیوز ویب سائٹ نے ذرائع کے حوالے سے کہا تھا کہ لداخ میں کشیدگی کم کرنے کے لیے یکم مئی کو ہونے والی انڈیا۔چین کور کمانڈر سطح کے مذاکرات وبا کی وجہ سے کچھ ماہ تک نہیں ہو پائیں گے۔

ذرائع نے ویب سائٹ کو بتایا کہ انڈین فوجی ‘لداخ میں مستعدی سے بیٹھے ہوئے ہیں اور چین کی نقل وحرکت پر ڈرون کے ساتھ ساتھ نظر رکھ رہے ہیں، وہیں چینی فوجی مشرقی لداخ میں ایل اے سی کے بےحد قریب ہیں’، جتنا کہ وہ اپریل 2020 کے پہلے تھے۔

30 اپریل کو انڈیا ٹوڈے نے رپورٹ کیا کہ ‘کووڈ۔19 کی گرفت میں انڈیا کے آنے کے بعد مشرقی لداخ کے علاقوں میں چینی فوج نے اپنی موجودگی کو بڑھا دیا ہے اور وہاں پر مستقل ٹینٹ اور ڈیپو بنا لیے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp