کوکا کولا کا فارمولا تبدیل کرنے کا فیصلہ: وہ ’سب سے بڑی غلطی‘ جس نے کوک کو پیپسی پر برتری دلوائی


 

بری طرح ناکام ہونے والی 'نیو کوک' کا اشتہار

بری طرح ناکام ہونے والی ’نیو کوک‘ کا اشتہار

یہ سنہ 1985 کی بات ہے۔ گرمیوں کی آمد آمد ہے اور دنیا بھر میں ہر کسی کے لبوں پر بس ایک نام ہے: کوکا کولا۔

یہ میٹھا، گیس سے بھرا مشروب صرف امریکہ میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مقبول ہو چکا ہے۔ یہ کوکا کولا کمپنی کی جانب سے چلائی گئی ایک انتہائی کامیاب مارکیٹنگ مہم کا نتیجہ تھا۔

لیکن 1985 کی ابتدا ہوئی تو کمپنی کے حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں تھے۔ آپ کو یہ سن کر شاید حیرت ہو کیونکہ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں، اس کا وجود کوکا کولا کے بغیر ناممکن لگتا ہے۔ آج یہ کمپنی موسیقی اور کھیل کے بڑے سے بڑے میلوں سے لے کر مفادِ عامہ کے کاموں تک، زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں موجود ہے۔

لیکن سنہ 1980 کی دہائی کے وسط میں کوکا کولا کمپنی گھاٹے میں تھی اور اس کی وجہ صرف ایک تھی: پیپسی۔

مارک پینڈی گراسٹ کے مطابق مارکیٹ میں دستیاب ‘دوسری کولا’ سمجھا جانے والا مشروب پیپسی 20 برس سے کوکا کولا کے مارکیٹ شیئر کو کم کرتا چلا آ رہا تھا اور کوکا کولا کمپنی کے مالکان اس صورتحال سے بہت پریشان تھے۔

مارک امریکی ریاست جورجیا کے شہر ایٹلانٹا کے رہائشی ہیں۔ یہی وہ شہر ہے جہاں کوکا کولا کے عالمی ہیڈکوارٹر قائم ہیں۔

ان کا اس دیو ہیکل کمپنی سے ایک ذاتی رشتہ بھی ہے، مارک کے والد نے کوکا کولا کمپنی کے پہلے دفتر پر کام کرنے والے مزدوروں میں شامل تھے۔

کوک

چنانچہ یہ کمپنی بچپن سے ہی ان کی زندگی کا حصہ رہی۔ شاید اسی لیے ان کا کتاب کا نام بھی ‘فار گاڈ، کنٹری اینڈ کوکا کولا’ (For God, Country and Coca Cola) ہے۔

مارک کے مطابق کمپنی کے لیے صورتحال کافی مایوس کن تھی۔ ‘وہ اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کر رہے تھے۔ ایک بہترین مارکیٹنگ مہم، پوری دنیا میں مشروب کی مانگ اور ترسیل کا نظام، ان کے پاس سب تھا لیکن وہ پھر بھی ہر سال پیپسی کو اپنی مارکیٹ کھوتے رہتے۔

اس وقت کوکا کولا کے سی ای او کیوبن نژاد امریکی رابرٹو گزویٹا تھے اور ان کے لیے کوئی بھی چیز مقدس گائے نہ تھی۔

کوکا کولا کو نمبر 1 پر رکھنے کے لیے وہ ہر حد پار کرنے کو تیار تھے اور کسی بھی فارمولے سے چھیڑ خانی کے حق میں تھے اگر وہ پیپسی کو شکست دے پائے۔

تاہم انھیں اندازہ نہیں تھا ان کے پاس ایک جادوئی فارمولا پہلے سے موجود تھا۔ ان کے نزدیک کوکا کولا کا فارمولا اعلی معیار کا نہیں تھا کیونکہ بار بار چکھنے کے مقابلوں (Taste Tests) میں پیپسی ان کے مشروب سے بازی لے جاتی تھی۔

ایک ایسی کمپنی کے لیے جس کی تاریخ جیسی ہو اور اسے اپنی روایات پر فخر بھی ہو، کوکا کولا کے لیے یہ ضرب بہت گہری تھی۔ چنانچہ رابرٹو نے خفیہ طور پر کوکا کولا کے فارمولے سے چھیڑ خانی کی اجازت دے دی۔

جلد ہی کوک کے سائنسدانوں ایک ایسا فارمولا نکال لیا جو پیپسی کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہونے لگا۔ یہ ذائقے میں پیپسی کے قریب قریب تھا اور کوکا کولا سے کہیں زیادہ میٹھا۔ اس میں گیس بھی کم تھی اور اسی لیے اسے ‘نیو کوک’ کے نام سے متعرف کروایا گیا۔

کوک

اس مشروب کی رونمائی بھی ڈرامائی انداز میں ہوئی۔ نیو یارک کے مشہور سٹیچو آف لبرٹی پر ان دنوں مرمت کا کام جاری تھا اور قومیت کے جذبے سے سرشار یہ مشروب بھی سب سے پہلے ان مزدوروں کے ہاتھوں میں دیکھا گیا جو امریکی قومیت کی اس نشانی پر اپنا پسینہ بہا رہے تھے۔

کوکا کولا کو امید تھی کہ قومی فخر اور حب الوطنی کے جذبے کو اجاگر کرنے سے انھیں امریکی مارکیٹ میں کامیابی حاصل ہوگی۔

نئے مشروب کی رونمائی کے لیے منعقد ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں کوکا کولا کے عہدیداروں نے دعوی کیا کہ نئی کوک ذائقے میں نہ صرف پرانی کوک سے بہتر ہے بلکہ وہ اپنے سب سے بڑے حریف سے بھی زیادہ پسند کی جا رہی ہے۔

پیپسی نے فوراً فتح کا اعلان کر دیا۔ 185 میں بی بی سی پر نشر ہونے والی ایک خبر کے مطابق کمپنی کی جانب سے ایک خصوصی اشتہار چھاپا گیا جس میں لکھا تھا: ‘ہم 87 برسوں سے آنکھ سے آنکھ ملائے کھڑے تھے کہ اچانک دوسرے فرد نے پلک جھپک دی۔

پیپسی نے دعوی کیا کہ اپنا فارمولا تبدیل کر کے کوکا کولا نے ان کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔

لیکن کوکا کولا کے مداح مایوس تھے۔ ان کا پسندیدہ مشروب غائب ہو گیا تھا اور اس کی جگہ اس میٹھے سے محلول نے لے لی تھے۔ عوامی کی جانب سے ردعمل خاصہ سخت تھا اور ایک وقت آیا کہ کوکا کولا کمپنی کے دفاتر کو گاہکوں کی طرف سے احتجاج کی ایک دن میں آٹھ ہزار سے زائد کالز موصول ہوئیں۔

راتوں رات پرانی کوک کے دفاع میں تنظیمیں بن گئیں، مزاح نگار اور کامیڈی شوز کوک کی شکست پر جملے کسنے لگے۔

یہاں تک کہ کیوبا کے صدر فیدل کاسترو نے کوکا کولا کمپنی کی بدلتی قسمت کو امریکی سرمایہ دارانہ نظام کی ایک کمزوری قرار دے دیا۔

شائقین سے بھرے سٹیڈیم کوک کے اشتہاروں کے دوران نعرے لگاتے اور ہوٹنگ کر رہے تھے۔ مارک پینڈی گراسٹ کے مطابق 1985 کے وسط میں امریکی معاشرہ اجتماعی طور پر ایک ایسے مشروب کی وجہ سے پاگل ہو رہا تھا جو 99 فیصد محض چینی پر مشتمل ہے۔

کوک

پرانی کوک واپس لانے کا مطالبہ کرنے والی کئی تنظیمیں راتوں رات وجود میں آئیں

‘یہ کتنا ضرور تھا؟ بالکل نہیں۔’ مارک کے خیال میں کوکا کولا کمپنی اپنی ہی مارکیٹنگ مہم کی کامیابی کا خمیازہ بھگت رہی تھی۔

‘دراصل کوک امریکی عوام کے نفسیات میں بیٹھ چکا تھا اور وہ اپنے آپ کو امریکی طرزِ زندگی کا ایک لازمی حصہ بنانے میں کامیاب چکی تھی۔ کئی لوگوں کی زندگیوں کے سب سے اہم واقعات کی یادیں، جیسے کہ محبوبہ سے پہلی ملاقات یا پہلی ڈیٹ، کوکا کولا پینے سے جڑی تھیں۔’

اصل میں امریکی کوکا کولا کے ذائقے کے بارے میں اس لیے بھی جذباتی ہو رہے تھے کیونکہ ان کے ارد گرد دنیا بدل رہی تھی۔ امریکہ اب عالمی سطح پر اپنی تاقف کھوتا جا رہا تھا اور امریکی طرزِ زندگی بھی تبدیل ہو رہا تھا۔

‘بہت لوگوں کے لیے (کوکا کولا) ایک مستقل چیز تھی جس پر وہ بھروسہ کر سکتے تھے کہ وہ نہیں تبدیل ہوگی۔

لیکن کوکا کولا کمپنی کے مالکان اس حقیقت سے لاعلم تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ ان کے اس قدم کو عوام باآسانی تسلیم نہیں کریں گے اور کچھ مذمت تو ہوگی۔ انھیں اس بات کا بھی یقین تھا کہ ان کا مشروب ان کے حریف کے مقابلے میں کہیں بہتر تھا اور یہ بات ذائقے کے مقابلوں میں ثابت ہو چکی تھی۔

انھوں نے سوچا کہ میڈیا پر مچنے والا شور آہستہ آہستہ کم ہوجائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بھرے مجمعے میں لوگ نئی کوک گٹر میں بہا دیتے اور مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔

پھر آخرکار کمپنی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور جولائی میں اعلان ہوا کہ پرانی کوک کو ‘کلاسک کوک’ کے نام سے دوبارہ شروع کر دیا جائے گا۔

یہ اس وقت کی سب سے بڑی خبر تھی اور سرکاری ٹی وی اے بی سی نے اپنے پروگرام کی جگہ اسے بریکنگ نیوز کے ھور پر چلایا، جو اس زمانے کے لیے بڑی عجیب بات تھی۔

جہاں کئی لوگوں کے نزدیک یہ اعلان خوش آئند تھا، بہت سوں نے اس یو ٹرن پر کمپنی کو آڑے ہاتھوں بھی لیا۔ تاہم اس اعلان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کانگریس کے ایک رکن نے سینیٹ کے ایوان میں کھڑے ہو کر کوکا کولا کلاسک کی واپسی کو امریکی قوم کی تاریخ میں ایک ‘معنی خیز’ موقع قرار دیا۔

کوک

لیکن اگر آپ سمجھ رہے تھے کہ اس کہانی کا اختتام کوکا کولا کے لیے اچھا نہیں ہوگا تو پھر ٹوئسٹ کے لیے تیار ہو جائیں!

مارک کے مطابق عوام اور مارکیٹ کی قوّتوں نے کوک کلاسک کو راتوں رات کامیاب کیا۔

‘سنہ 1985 سے قبل کوکا کولا وہ مشرب تھا جس کا نام ہر بچے کے لبوں پر تھا لیکن ضروری نہیں تھا کہ وہ ہر کسی کے فریج میں بھی موجود ہو۔ تاہم اس یو ٹرن سے ملنے والی پزیرائی کے بعد یہ سب بدل گیا اور کوکا کولا کا مارکیٹ شیئر بڑھنے لگا، یہاں تک کہ وہ پیپسی کو کہیں پیچھے چھوڑ گئی۔

اس کامیابی کے باعث آج بھی کئی ایسے لوگ ہیں جو ‘نیو کوک’ کے تجربے کو کوکا کولا کمپنی کی جانب سے بچھایا گیا ایک جال قرار دیتے ہیں۔ سازشی نظریے والے ہر زمانے میں ہوتے ہیں اور مارک ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکیوں کو تو سازشوں میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی ہوتی ہے۔

‘میں آپ کو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ نیو کوک کا منصوبہ کمپنی کی جانب سے واقعی ایک ٹھوس قدم تھا، لیکن اس کا نتیجہ الٹ نکلا۔’

*یہ تحریر بی بی سی کے ایلن جونسٹن کے پروگرام ‘وِٹنس، کوکا کولا چینج 1985’ پر مبنی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp