انڈیا میں مچھلیوں کا شکار کرنے والی ضدی ’انوکھی‘ بلی کی نسل کی بقا کی کوششیں

کمالا تھیاگاراجن - بی بی سی فیوچر


ان کا آمنا سامنا 2012 کے موسم سرما کی ایک ٹھنڈی صبح کو انڈیا کے ساحلی شہر وشاکھاپٹنم میں ہوا۔ اس وقت ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی اور مورتی کانتیماہانتی بے سُدھ کھڑے پگڈنڈی پر لگے ہوئے اس دھات کے پھندے کو دیکھ رہے تھے جو گھنی جھاڑیوں اور لمبے نیم کے درختوں کی طرف جاتی تھی۔

پھندے کے اندر ایک بلی تھی، لیکن یہ کوئی معمولی بلی نہیں تھی۔ یہ گھروں میں پالے جانے والی بلی سے بڑی تھی، لیکن اتنی بڑی نہیں جتنا کہ شیر یا چیتا ہوتا ہے۔ اس کا چہرہ ایسا تھا جیسے یہ چکور یا چار کونوں والا ہو، سر کے سائز کے حوالے سے اس کے کان نسبتاً چھوٹے تھے، چھوٹی دم اور جستجو سے بھرپور جھلی دار پاؤں بالکل کسی آبی جانور کی طرح تھے۔

کانتیماہانتی ابھی ابھی سیتھاکونڈ ریزرو فارسٹ کے مرکز میں واقع اندرا گاندھی زولوجیکل پارک پہنچے تھے، جہاں وہ ماہر حیاتیات کے طور پر کام کیا کرتے تھے۔ وہ وہاں کی مقامی جنگلی حیات جیسے سامبر ہرن، ایشیاٹک جنگلی کتا، انڈین چیتا اور گور (جسے انڈین بائسن بھی کہا جاتا ہے) کو پارک کے قدرتی ماحول میں دیکھنے کے عادی تھے۔ پارک کے گرد جھاڑیوں کی دیوار اور ایک کھائی تھی۔ لیکن یہ بلی کچھ اور ہی چیز تھی۔

یہ بھی پڑھیے

انٹرنیٹ کی مقبول ’ناراض بلی‘ چل بسی

بلّی جو لفٹ لے کر دنیا کے سفر پر نکل پڑی

ایک گاؤں جو بلّیوں پر پابندی عائد کرنا چاہتا ہے

کانتیماہانتی چڑیا گھر میں رہنے والے جنگلی کتوں کے ماحول کے مطابق رہن سہن اور رویے پر تحقیق کرتے تھے، جو کہ مشرقی گھاٹ کے قریب واقع تھا، جو انڈیا کے جنوب مشرقی ساحل کے ساتھ حیاتیاتی تنوع سے بھرپور پہاڑوں کا ایک سلسلہ ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں کاجو اور آم کے باغات بہت زیادہ ہیں۔

چڑیا گھر والے اکثر جنگلی کتوں کو پکڑنے کے لیے پھندے لگاتے تھے اور وہ ان کے ردِعمل پر نظر رکھتے تھے۔ سردیوں کی اس صبح کو انھیں چڑیا گھر سے ایک ساتھی کا فون آیا جس میں اس نے انھیں پگڈنڈی کے ساتھ ایک خاص پنجرے کو دیکھنے کا کہا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں (اسے دیکھ کر) حیران رہ گیا۔

چڑیا گھر والے جنگلی کتوں کو پکڑنے کے لیے لوہے کے پھندے میں گائے کا گوشت لگاتے تھے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کے بجائے ایک بلی نے گائے کے گوشت کو پکڑا اور پھندے میں پھنس گئی۔‘ چڑیا گھر کے حکام اس جانور کے ویبڈ یا جھلی دار پیروں اور عجیب و غریب شکل و صورت کی وجہ سے حیران تھے۔ وہ کوئی معمولی بلی نہیں لگتی تھی۔

کانتیماہانتی نے فوراً ہی جانور کو پہچان لیا۔

تربیت یافتہ آنکھ کے لیے مچھلی پکڑنے والی بلی کو پہچاننا مشکل نہیں تھا۔ لیکن اگر کوئی بھی شک تھا تو اس کی ایک خاصیت ایسی تھی جس نے کانتیماہانتی کو فوری طور پر اسے شناخت کرنے میں مدد دی۔ وہ اس کا جارحانہ انداز تھا۔ گائے کے گوشت کا ٹکڑا کھانے کے بعد وہ بلی، جو ایک نر یعنی دراصل بِلا تھا اور وہ لوہے کے پھندے کے شکنجے کو بار بار توڑنے کی کوشش کر رہی تھا۔

کانتیماہانتی کہتے ہیں کہ ’اگر آپ کسی محقق سے جو جنگل بیابان میں مچھلیاں پکڑنے والی بلیوں کے رویے کا مطالعہ کرتے ہیں پوچھا جائے تو وہ آپ کو بتائیں گے کہ وہ (بلی) کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔ یہاں تک کہ جب وہ کسی انسان کو بھی دیکھتی ہے تو وہ اس سے ڈر کے نہیں بھاگتی۔‘

بلی کو نیند کا انجیکشن لگایا گیا، اس کے زخموں کا علاج کیا گیا اور اسے جنگل میں واپس چھوڑ دیا گیا۔ ساحلی وشاکھاپٹنم میں مچھلی پکڑنے والی بلی کو دیکھنے کا یہ پہلا دستاویزی ثبوت تھا۔

تیزی سے بڑھتی ہوئی انسانی سرگرمیوں سے انڈیا کے باقی بچے ہوئے گیلے یا مرطوب علاقے ختم ہوتے جا رہے ہیں

تیزی سے بڑھتی ہوئی انسانی سرگرمیوں سے انڈیا کے باقی بچے ہوئے ویٹ لینڈز یا گیلے اور مرطوب علاقے ختم ہوتے جا رہے ہیں

اس وقت تک مچھلی پکڑنے والی بلیوں کو صرف ریاست کی کورنگا وائلڈ لائف پناہ گاہ میں ہی دیکھا گیا تھا، جو یہاں سے چار گھنٹے کی دوری پر ہے اور مینگروو کے وسیع جنگلات کے لیے جانی جاتی ہے۔ مچھلیاں پکڑنے والی بلی کے رویے کے متعلق بہت کم معلومات ہیں حالانکہ یہ ایشیا کے 11 ممالک میں پائی جاتی ہے۔

مچھلیاں پکڑنے والی بلی کے ساتھ اس تصادم کے بعد ریاستی حکام کو یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ یہ بلیاں آندھرا پردیش کے آبی خطوں کا ایک قدرتی حصہ ہیں اور یہ اس سے کہیں زیادہ ہیں جتنا انھیں پہلے معلوم تھا۔ اس کے بعد انڈیا کی ان مچھلیاں پکڑنے والی بلیوں کے پہلے سروے کا جنم ہوا، جو 2014 اور 2018 کے درمیان کیا گیا۔ اس کے بعد سے آج تک کانتیماہانتی، جنھوں نے ایسٹرن گھاٹ وائلڈ لائف سوسائٹی بنائی، مچھلیاں پکڑنے والی بلیوں کے رویے کو سمجھنے میں لگے ہوئے ہیں۔

پہلا چیلنج یہ معلوم کرنا تھا کہ بلیاں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں۔

وائلڈ لائف انسٹیٹیوٹ آف انڈیا کے محققین نے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے ایک پراجیکٹ کے تحت کورنگا وائلڈ لائف پناہ گاہ کی سکیننگ شروع کر دی جو کہ ایک مشکل کام تھا۔

2015 میں کورنگا سے 150 کلومیٹر جنوب میں کرشنا وائلڈ لائف پناہ گاہ کا مشرقی گھاٹ وائلڈ لائف سوسائٹی اور آندھرا پردیش کے محکمہ جنگلات نے سروے کیا۔

چھپ کر لگائے گئے کیمروں کی مدد سے پتہ چلا کہ سمندری مینگروو کے جنگلات کے وسیع خطوں کے درمیان دس ایسی مچھلیاں پکڑنے والی بلیاں موجود ہیں جو بغیر گروپ بنائے تنہا شکار پر نکلتی ہیں۔

ان کی تعداد کے علاوہ مردم شماری میں اس بلی کے متعلق کچھ اور باتیں بھی پتہ چلیں۔

سروے میں شمالی آندھرا پردیش کے شری کاکولام ضلع کے ساتھ میٹھے پانی کے علاقوں میں پائی جانے والی پہلی ان لینڈ یا اندرون ملک مچھلی پکڑنے والی بلی کی شناخت کی گئی۔ اس کے بعد دسمبر 2020 میں، کانتیماہانتی چھپے ہوئے کیمرے میں بلی کی وہ فوٹیج دیکھ کر حیران رہ گئے جس میں وہ میٹھے پانی کے سانپ کا شکار کر رہی تھی جو زہریلا نہیں تھا۔

مچھلیوں کو ان بلیوں کی اصل خوراک سمجھا جاتا ہے اور بلیاں صرف اس وقت دوسرے جانوروں کا شکار کرتی ہیں جب مچھلی کی فراہمی کم ہوتی ہے، لیکن اس موقع پر مچھلی کافی مقدار میں دستیاب تھی۔

ایک اور واقعے میں گاؤں میں رہنے والے سمجھ رہے تھے کہ ان کے مویشیوں پر کوئی تیندوا حملہ کرتا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ حملے مچھلیاں پکڑنے والی بلی کرتی ہے۔ ایک اور کیمرے کی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ یہ بلی بکروں کا تعاقب کرتے ہوئے ایک ٹرین کے نیچے آ گئی۔

یہ بلی مختلف چیزوں کا شکار کرنے والی ایک زبردست شکاری ہے

کانتیماہانتی کہتے ہیں کہ ’(اسے) مچھلی پکڑنے والی بلی کہنا غلط ہے۔ یہ بلی مختلف چیزوں کا شکار کرنے والی ایک زبردست شکاری ہے۔ یہ اپنے سے بڑے جانوروں کا شکار کر سکتی ہے، کہیں بھی زندہ رہ سکتی ہے، کسی بھی چیز کو کھا سکتی ہے۔‘

اب انڈیا میں اس مچھلیاں پکڑنے والی بلی کے بارے میں بڑھتی ہوئی آگاہی نے جانوروں کے تحفظ کی سمت ایک یادگار سفر کا آغاز کیا ہے۔ اس انوکھی شکاری بلی پر تحقیق کرنے والے محققین ملک بھر میں اس کی عادات اور رہنے کی جگہوں کا سروے کر رہے ہیں اور آلودگی، انسانی اور ماحولیاتی خطرات کا مطالعہ کر رہے ہیں جو اسے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

بلیوں کی گنتی

انڈیا میں ایک بڑا ویٹ لینڈ یا گیلا علاقہ ہے جو اس کے تقریباً پانچ فیصد حصے پر مشتمل ہے۔ مغربی بنگال کی شمال مشرقی ریاست میں سندربن ملک کا سب سے مشہور ویٹ لینڈ ہے، جو کہ 4230 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ رامسار کنونشن کے مطابق گیلی زمین کے تحفظ سے متعلق ایک بین الاقوامی معاہدے کے مطابق ملک بھر میں کل 42 سائٹس کو ان میں حیاتیاتی تنوع کی وجہ سے بین الاقوامی اہمیت کے گیلے علاقوں میں سمجھا جاتا ہے۔

مچھلیاں پکڑنے والی بلی عام طور پر ویٹ لینڈ کے اندر دو طرح کی جگہوں پر پائی جاتی ہے: مینگروز میں اور دلدل میں۔ وہ سرکنڈوں والے کھیتوں میں پناہ لیتی ہے جو کہ لمبی لمبی ویٹ لینڈ گھاس ہوتی ہے جو دلدل میں اگتی ہے۔ کولکتہ میں مقیم ماہرِ ماحولیات اور دی فشنگ کیٹ پراجیکٹ کی شریک بانی تیاسا ادھیا کہتی ہیں کہ ’وہ کم گہرے پانی والے ویٹ لینڈز کو ترجیح دیتی ہیں اور (یہ) گھونسلے بنانے والی بلیاں ہیں۔‘ دلدل کے کنارے لگے ہوئے سرکنڈوں سے بنے ہوئے اور مینگرووز کے درختوں کے سوراخوں میں الگ تھلگ ان کے گھونسلوں سے ہی پتہ چلتا ہے کہ وہ اس سپیشیز کے ساتھ اتنے لازم و ملزوم کیوں ہیں۔ ادھیا کہتی ہیں کہ ’یہیں، آپ کو سنیک ہیڈ اور کیٹ فش جیسی مچھلیاں ملیں گی جو کہ مچھلی کا شکار کرنے والی بلی کی خوراک ہیں۔‘

بھیڑیوں کی طرح کے شکاری جانوروں کے متعلق مشہور ہے کہ وہ جہاں شکار کرتے ہیں وہاں کے لینڈ سکیپ کو بھی تشکیل دیتے ہیں لیکن ابھی تک یہ پتہ نہیں چلا کہ مچھلی پکڑنے والی بلی کس حد تک آبی خطوں کی نوعیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ لیکن جو واضح ہے وہ یہ ہے کہ مچھلی کا شکار کرنے والی بلیوں کی ایک صحت مند تعداد کا مطلب ہے کہ ان کو قائم رکھنے کے لیے ایک صحت مند ماحول ضرور موجود ہے۔

Though the cats range across 11 countries, very little is known about them (Credit: Ulat Ifanstasi/Getty Images)

اگرچہ یہ بلیاں تقریباً 11 ممالک میں پائی جاتی ہیں لیکن پھر بھی ان کے متعلق بہت کم معلومات موجود ہیں

ان ویٹ لینڈز میں سے ایک جو کہ شمال مشرقی ریاست اڑیسہ کی چِلیکا جھیل پر واقع ہے، انڈیا کی ایک سرکاری ایجنسی چلیکا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اشتراک سے، ان کے محفوظ جنگلی علاقوں سے باہر مچھلیاں پکڑنے والی بلیوں کی پہلی مردم شماری جاری ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مچھلیاں پکڑنے والی بلیاں دریائی نظام کے وسیع تر ڈیلٹا اور سیلاب والے علاقوں میں رہتی ہیں، یہ کم گہری گیلی زمینیں ہیں جو جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کے دریاؤں سے منسلک ہیں۔‘

رات کو جاگنے والا جانور ہونے کی وجہ سے ان بلیاں کو دن کے مقابلے میں رات کو زیادہ کیمرے کی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ چیلیکا جھیل پر تیس دن تک سو سے زیادہ کیمرے لگائے جائیں گے۔ ادھیا کہتی ہیں کہ وہ جھیل کے میٹھے پانی کے زیر اثر علاقوں پر زیادہ توجہ مرکوز کر رہی ہیں، جہاں وہ ایسے علاقوں میں کیمرے لگا رہی ہیں جہاں انھوں نے پنجوں کے نشان یا پگمارکس دیکھے تھے۔ ایک کیمرہ ٹریپ لگانے میں دو گھنٹے تک کا وقت لگ سکتا ہے اور ادھیا کی ٹیم نے مدد کے لیے مقامی لوگوں کو ساتھ ملایا ہے اور دو لاکھ نفوس پر مشتمل مضبوط ماہی گیری برادری کو بھی بتا دیا گیا ہے تاکہ کیمرے ٹریپس کو نقصان نہ پہنچے اور وہ بغیر کسی چھیڑ چھاڑ کے لگے رہیں۔

بلیوں کی اس گنتی میں بھی اسی طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے جیسا کہ ان کی تعداد کے متعلق پہلے سرویز میں دیکھا گیا ہے۔ مچھلی پکڑنے والی بلیوں کی تعداد کا اندازہ لگانا ایک مشکل کام ہے کیونکہ اس کا انحصار بلی کے جسم کے مخصوص نشانات، دھبوں، دھاریوں اور جلد کے داغوں پر ہوتا ہے جس کے لیے بلی کی واضح تصویر حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔

بڑھتے ہوئے خطرات

ادھیا سنہ 2010 سے ہی مچھلی پکڑنے والی بلی کا مشاہدہ کر رہی ہے، جب انھوں نے سندربن میں ایک محقق کی حیثیت سے اس کے پاؤں کے نشان کا پیچھا کرنا شروع کیا تھا۔ اس کے پاؤں کے نشانات نے ادھیا میں ایک تجسس پیدا کر دیا تھا۔ یہ تقریباً کسی کتے کے پنجے کے سائز کا نشان تھا، لیکن شیر کے پاؤں جتنا نہیں، اس سے چھوٹا تھا۔

انھیں پتہ تھا کہ مچھلی پکڑنے والی بلیاں آبی خطوں کا لازمی حصہ تھیں، لیکن اس کے علاوہ ان کے بارے میں بہت کم آگاہی تھی، یہاں تک کہ مقامی برادریوں کے درمیان بھی۔ اور حالیہ برسوں میں محققین کو کئی خطرات کا پتہ چلا ہے۔

پہلا خطرہ انسانوں سے ہے: ویٹ لینڈز براہ راست اور بالواسطہ لاکھوں افراد کی مدد کرتے ہیں، ماہی گیروں، مقامی برادریوں اور کسانوں کو روزگار مہیا کرتے ہیں۔ یقیناً تنازعات کے لمحات بھی ناگزیر ہیں۔

مغربی بنگال میں انسانوں کے ان بلیوں کو انتقامی طور پر مارنے کے واقعات عام ہیں۔ ا

دھیا نے آگاہی مہمات کا آغاز کیا اور مقامی لوگوں کو اس میں شامل کیا تاکہ ان شکاریوں کو روکا جا سکے جو گوشت کے لیے ان بلیوں کا شکار کرتے ہیں اور پھر اسے مقامی مارکیٹوں میں فروخت کرتے ہیں۔ کئی سال بعد اس میں کچھ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ ابھی بھی سڑک کے کنارے ان کی ہلاکتوں کی اطلاع ملتی ہے لیکن ان بلیوں کو انتقامی طور پر مارنے کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔‘

انڈیا کے مشرق میں واقع سندربن کے جنگلات ملک کے سب سے بڑے ویٹ لینڈز میں سے ایک ہیں

انڈیا کے مشرق میں واقع سندربن کے جنگلات ملک کے سب سے بڑے ویٹ لینڈز میں سے ایک ہیں

بلی کو درپیش ایک اور خطرہ آبی زراعت کا ہے۔

کانتیماہانتی کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں ملک بھر کے ویٹ لینڈز میں یہ ایک خطرے کا نشانی بن گئی ہے۔ ’لوگ تالاب کھودتے ہیں، کیمیائی کھاد ڈالتے ہیں تاکہ قدرتی طور پر پائی جانے والی مچھلی اور جھینگے مزید بڑے ہو سکیں اور وہ مارکیٹ میں بہتر قیمت حاصل کر سکیں۔ اس سے مٹی کی قدرتی نمکیات میں رد و بدل ہوتا ہے۔‘

آبی زراعت اکثر انسانوں اور مچھلیاں کھانے والی بلیوں کے مابین تنازع کا باعث بنتی ہے۔ بڑی مچھلیاں پکڑنے کے چکر میں آنے والی بلیوں کی اکثر انسانوں کے ساتھ مڈ بھیڑ ہو جاتی ہے۔

کچھ سال بعد، جب پانی زیادہ آلودہ ہو جاتا ہے تو تالاب ختم کر دیے جاتے ہیں، اور آبی زراعت کے کاشتکار کسی دوسرے تالاب کی تلاش میں نکل جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ساحلی آندھرا پردیش میں بہت سے ویران فارم نظر آتے ہیں۔

اس کے علاوہ دیگر خطرات میں غیر قانونی طور پر ریت کی کان کنی اور مٹی اور ریت کے لیے دریا کے کنارے کی کٹائی شامل ہے۔

کانتیماہانتی کہتے ہیں کہ ’دریا کے کنارے کھیتی اگانے والے دیہاتی ان لینڈ مچھلی پکڑنے والی بلی کو متاثر کرتے ہیں، کیونکہ پودوں کا یہ ٹکڑا اس کے ماحول کا ایک اہم حصہ ہے۔ ان دریاؤں کے بفر کا تحفظ ہمارے لیے ایک چیلنج ہے۔‘

ایک اور بڑھتا ہوا مسئلہ شہروں کا پھیلاؤ ہے۔

ادھیا کہتی ہیں کہ ’ترقیاتی پالیسیوں میں ویٹ لینڈز کو زیادہ تر بیکار زمین کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ایشین واٹربرڈ سینسس نے، جو ہر سال جنوری میں ہوتا ہے اور ویٹ لینڈز کے سروے کرنے کا عالمی سطح پر شروع کردہ ایک اقدام ہے، یہ ثابت کیا ہے کہ انڈیا کے ویٹ لینڈز، شہروں کے پھیلاؤ کی وجہ سے تیزی سے سکڑ رہے ہیں۔

ادھیا کہتی ہیں کہ ویٹ لینڈ کا علاقہ اکثر دھوکہ دے سکتا ہے۔

پانی کی سطح کا اتار چڑھاؤ موسمی ہے، ہر سال کے چھ ماہ تک دلدل میں پانی بھر جاتا ہے، لیکن باقی وقت وہ خشک نظر آ سکتی ہیں لیکن پانی کی سطح مٹی کے نیچے قریب ہی رہتی ہے۔ زیادہ تر ترقیاتی کام خشک موسم میں ہوتے ہیں، جب اسے بنجر زمین سمجھنے کی غلطی کی جاتی ہے جس کا نقصان بلیوں اور ڈویلپرز دونوں کو ہوتا ہے، جب ان کی زمین سیلاب زدہ ہو جاتی ہے۔ ادھیا کہتی ہیں کہ ’مچھلیاں پکڑنے والی بلی کے لیے رہنے کے ماحول کی تباہی سب سے بڑا خطرہ ہے۔

انڈیا میں ویٹ لینڈز کی حفاظت کے لیے قوانین موجود ہیں۔

سنہ 1972 کے وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ کے تحت ویٹ لینڈز کی محفوظ علاقوں کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے، خاص طور پر نیشنل پارکس میں۔ لیکن محققین کہتے ہیں کہ وِیٹ لینڈز کے ماحولیاتی نظام کا ایک ایسا اہم بھی حصہ ہے جو ان محفوظ علاقوں کی پہنچ سے باہر ہے۔

سنہ 2012 سے سرگرم کارکنان ان علاقوں میں شہری ترقی کے خلاف قانونی درخواستیں داخل کرا رہے ہیں۔ انھوں نے مچھلی پکڑنے والی بلیوں کے رہنے کے ماحول کی تباہی کو تحفظ کی ضرورت کی ایک بنیادی وجہ قرار دیا ہے۔ محققین کو امید ہے کہ انڈیا بھر میں مچھلی پکڑنے والی بلیوں کی گنتی سے ان کے ماحولیاتی نظام کی مزید تباہی رک سکتی ہے۔

تندرست مینگرووز، توانا بلیاں

آندھراپردیش میں دریائے گوداوری کے ڈیلٹا کے ساتھ مچھلی پکڑنے والی بلیوں کا مطالعہ کرنے والے گیریدھر مالا، جو وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا میں پی ایچ ڈی کے محقق ہیں اور سنہ 2013 سے اس کے آب و ہوا کی تبدیلی کے ساتھ تعلق کا مطالعہ کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ مینگروو کے جنگلات کو زندہ رہنے کے لیے ایک نازک توازن کی ضرورت ہوتی ہے۔ انھوں نے علاقے میں 15 مختلف مچھلی پکڑنے والی بلیوں کا پتہ لگایا ہے، اور ان کے رویے کو مانیٹر کیا ہے، خاص طور پر قمری مراحل کے دوران۔

مینگروو کے ایکو سسٹم یا ماحولیاتی نظام میں موجود ہر چیز کا انحصار پانی کے بہاؤ پر ہوتا ہے، جو چاند کی کشش کی وجہ سے آنے والی سمندری لہروں سے جڑا ہوتا ہے۔

گیریدھر کہتے ہیں کہ مچھلی پکڑنے والی بلی لو ٹائیڈ یا کم جوار بھاٹا کے دوران شکار کرتی ہے۔ بلیاں مناسب حالات کا کافی دیر تک انتظار کرتی ہیں۔ جب لہر اونچی ہوتی ہے تو پانی کے ساتھ مچھلی بھی آ جاتی ہے ، لیکن بلی کے شکار کے لیے پانی کا واپس جانا بھی ضروری ہے۔ گیریدھر کہتے ہیں کہ انھوں نے دیکھا ہے کہ ایک مچھلی پکڑنے والی بلی جوار کے کم ہونے کا آٹھ گھنٹے انتظار کرتی رہی تاکہ مچھلی پکڑے سے۔ ’یہ ایک ضدی، انوکھی بلی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ مینگروو کی صحت مچھلی پکڑنے والی بلی کی صحت سے جڑی ہوئی ہے۔ اگرچہ مینگروو کا ماحول بلی کے لیے مفید ہے، پر وہ کاربن سنک کی طرح بھی کام کرتا ہے، اور دوسرے درختوں کی نسبت چار گنا زیادہ کاربن الگ کرتا ہے۔ وہ آج کل موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے میں اس کے کردار کا مطالعہ کر رہے ہیں۔

کانتیماہانتی جو اکثر گیریدھر کے ساتھ بھی کام کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ’آنکھیں بند کر کے مینگرووز لگانا بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔‘ میٹھے پانی کے بغیر درخت زندہ نہیں رہیں گے، اور انھیں مناسب ماحول میں لگانا ہوتا ہے۔

ماہی گیروں نے ماضی میں اس انوکھی بلی کو کئی مرتبہ نشانہ بنایا ہے جو کہ ان کی قیمتی مچھلی چرا لیتی ہے

ماہی گیروں نے ماضی میں اس انوکھی بلی کو کئی مرتبہ نشانہ بنایا ہے جو کہ ان کی قیمتی مچھلی چرا لیتی ہے

دریا کے دونوں طرف بفر زمین کی عدم موجودگی مینگرووز کی افزائش کو بھی متاثر کر رہی ہے، کیونکہ فصلیں اس میٹھے پانی کو روکتی ہیں جس کا مینگروو کے جنگلات تک پہنچنا ضروری ہے۔ گیریدھر کہتے ہیں کہ انڈیا میں ڈیموں کی اندھا دھند بھر مار اس نازک ماحولیاتی نظام کے لیے بھی کافی تناؤ کا سبب بن سکتی ہے۔ اس وقت وہ حکام کے پاس ایک درخواست دائر کر رہے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ تھوڑی مقدار میں پانی کو نیچے کی طرف بہنے دیا جائے تاکہ مینگروو کو زیادہ نقصان نہ پہنچے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب مینگروو کی پنیری مٹی میں گرتی ہے تو اسے اگنے اور پھلنے پھولنے کے لیے میٹھے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

دریائے گوداوری جہاں گیریدھر اپنا فیلڈ ورک کرتے ہیں، گنگا کے بعد انڈیا کا دوسرا سب سے بڑا دریا ہے۔ پچھلی دہائیوں میں، دریا پر کئی بند باندھے گئے ہیں، جس سے علاقے میں میٹھے پانی کا بہاؤ کم ہوا ہے۔ ڈیموں کے اثرات میں ساحلی کٹاؤ شامل ہے کیونکہ یہ دریا کے ڈیلٹا میں گاد کے بہاؤ کو کم کرتا ہے۔

گیریدھر کا کہنا ہے کہ ’مینگروو کو کم پانی ملنے کا مطلب ہے کہ مچھلی کا ذخیرہ بھی کم ہو گا، کیونکہ یہ مچھلی کے جانے کی جگہوں کو کم کرتا ہے۔ اس کا ماہی گیروں کی روزی روٹی پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔‘

چونکہ مینگروز اور مچھلی پکڑنے والی بلیوں کی جڑی ہوئی قسمت کے بارے میں زیادہ آگاہی کی ضرورت تھی، اس لیے گیریدھر نے سنہ 2016 میں چلڈرن فار فشنگ کیٹس کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ بچوں کو بالغوں کی نسبت آسانی سے تعلیم دی جا سکتی ہے اور انھوں نے اس سلسلے میں اپنے والدین کو سمجھانے میں بھی بہت مدد کی ہے۔ اس کے بعد گیریدھر نے مچھلی پکڑنے والی بلی کے سفر کے بارے میں بچوں کے لیے ایک کتاب شائع کی ہے اور اس کے علاوہ ’فشینگ کیٹ اینڈ کریک‘ نامی ایک بورڈ گیم بھی تیار کی ہے۔

اگر کوئی کھلاڑی پورے چاند کی رات کو اونچی لہر کے بعد مینگروو کے علاقے میں آتا ہے تو اس کی مچھلی پکڑنے والی بلی کو زیادہ مچھلی ملے گی۔ جو مچھلی پکڑنے والی بلی زیادہ کھاتی ہے وہ جیت جاتی ہے۔ گیریدھر کہتے ہیں کہ علاقے کی ماہی گیر برادری کی طرف سے بورڈ گیم کے بارے میں زیادہ تر مثبت آرا ہی ملی ہیں اور اس مسئلے کے متعلق آگاہی بھی بڑھی ہے۔

گیریدھر کی طرح انڈیا بھر میں وہ محققین جو مچھلی پکڑنے والی بلی کے ماحول کو بچانے اور اس کی نسل کو تحفظ پہنچانے کے لیے کام کر رہے ہیں کہتے ہیں کہ مقامی برادریوں کو ساتھ ملانے سے فائدہ ہوتا ہے۔

بلی

ادھیا کہتی ہیں کہ ’ہر ویٹ لینڈ زمین کا حصہ پسے ہوئے طبقات کو روزی روٹی فراہم کرتا ہے۔‘ وہ ایک مقالے کی شریک مصنف ہیں جو ویٹ لینڈ کے ماحولیاتی نظام پر مقامی برادریوں کے انحصار پر مبنی ہے۔

اس میں بتایا گیا ہے کہ مغربی بنگال کے ایک گاؤں جھاکاری میں 72 فیصد جواب دہندگان اپنی بنیادی معاش کے لیے ویٹ لینڈز پر ہی انحصار کرتے ہیں۔

لیکن دوسری طرف شاید مچھلی پکڑنے والی بلی اس سے کہیں زیادہ سخت سپیشیز ثابت ہو رہی ہے جیسا کہ پہلے سوچا گیا تھا۔ اگرچہ آئی یو سی این نے مچھلی پکڑنے والی بلی کو خطرے سے دوچار قرار دیا ہے، لیکن ایشیا میں ان بلیوں کا مطالعہ کرنے والے محققین حیرت زدہ بھی ہیں کہ کیسے یہ اپنے آپ کو ماحول کے مطابق ڈھال لیتی ہیں۔

انیا رتنائیکا سری لنکا کی ایک محقق ہیں جو شہری ماحول میں مچھلی پکڑنے والی بلیوں کے طرز عمل اور ان کے ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کا مطالعہ کرتی رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو کا بیس مربع کلومیٹر علاقہ ایک قدرتی ویٹ لینڈ ہے۔ مچھلی پکڑنے والی بلی نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ یہاں اس شہری ویٹ لینڈ کے ماحول میں بھی انسانوں کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکتی ہے۔‘

انھوں نے اس پر 2015 میں کام شروع کیا تھا جب مچھلی پکڑنے والی بلیوں کے بارے میں تنازعات میں اضافہ ہوا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’لوگ شہر سے انھیں بلی کے لاوارث بچوں کے طور پر اٹھا لاتے تھے لیکن جلد ہی ان کے جارحانہ رویے سے پریشان ہو کر انھیں حکام کے حوالے کر دیتے تھے۔‘

اسی سال ایک مچھلی پکڑنے والی بلی کو کیمرے پر دیکھا گیا جو ایک تالاب سے مہنگی جاپانی کوئی مچھلی چوری کر رہی تھی۔ رتنائیکا نے مختلف مقامات پر دس کیمرہ ٹریپ نصب کیے اور کئی ماہ تک شہر کے مختلف حصوں میں جی پی ایس آلے کی مدد سے ان کا پیچھا کرتی رہیں۔

’میں حیران تھی۔ یہ ہر جگہ گئی۔ یہ لوگوں کے باغات میں گئی، چھتوں پر دھوپ سینکی، نجی تالابوں سے کھانا کھایا۔ یہاں تک کہ یہ شہر کے وسط میں واقع ایک فلم تھیئٹر میں بھی گئی جہاں فلم ’منکی کنگڈم‘ کا پریمیئر ہو رہا تھا۔‘

اگر اس تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں مچھلی پکڑنے والی بلیوں کا انسانوں کے ساتھ ساتھ رہنے کا بندوبست ہو جائے تو شاید یہ اس کی بقا کے لیے مفید ثابت ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32551 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp