تعلیم، تدبر اور توازن ( 2 ) ۔


سپریم کورٹ سے فیصلہ آنے کے دو چار روز بعد تک سکوت کا سا عالم رہا۔ انگریزی اخبار نے بھی فیصلے کو ’سرپرائز‘ قرار دیتے ہوئے محض ایک اداریہ لکھنے پر اکتفا کیا۔ وکلاء اور صحافیوں کی دو ایک تنظیموں کے چند عہدیداروں نے آئین اور قانون کی سربلندی کے عزم کا اظہار کیا۔ تاہم وہ ولولہ، وہ جشن کا سا سماں جو عزت مآب افتخار چوہدری کی بحالی پر دیکھنے میں آیا تھا، اس بار اس کا عشر عشیر بھی ہمیں دیکھنے کو نہیں ملا۔ ایسے مواقع پر اچانک سے سوشل میڈیا پر جو گھڑی گھڑائی پوسٹیں راتوں رات گردش میں آجاتی ہیں، پراسرار طور پر وہ بھی دیکھنے کو نہ ملیں۔ بس گھٹی گھٹی کچھ سرگوشیاں تھیں۔ اس بحر سکوت میں تلاطم بالآخر عزت مآب چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے ان ریمارکس نے پیدا کیا جن کی گونج سرحد پار تک سنی گئی۔

اپنے ایک گزشتہ کالم میں، جو کہ قومی اسمبلی میں جناب شاہد خاقان عباسی کے نامناسب رویے کے تناظر میں لکھا گیا تھا، صراحت کے ساتھ عرض کیا تھا کہ مذکورہ مضمون میں قائد اعظم کا موازنہ عصر حاضر کے کسی سیاست دان سے کرنا ہر گز مقصود نہیں۔ اگرچہ میرے پڑھنے والوں میں سے اکثر نے اس کے باوجود بیزاری کا اظہار فرمایا، تاہم گزشتہ دنوں رونما ہونے والے چند واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ گزشتہ مضمون سے وہی اقتباس یہاں ایک بار پھر دہرایا جائے۔ ایک بار پھر عرض ہے کہ میرے پیش نظر اس بار بھی کوئی موازنہ مقصود نہیں۔

”نوجوان محمد علی جناح نے لندن میں حصول تعلیم کے بعد قانون دان بننے کا فیصلہ کیا۔ لنکنز ان میں تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ، طالب علموں کے لئے گریٹ ہال کے اندر خاص تعداد میں پر تکلف (Formal) عشائیوں میں شرکت کرنا لازم ہوتا کہ جن میں نوجوان طالب علم، تجربہ کار بیرسٹرز اور بینچ کے ارکان کے ساتھ بیٹھتے۔ برتنوں اور کٹلری کے درست استعمال سے لے کر باوقار گفتگو تک کا سلیقہ سیکھتے۔ قانونی مباحث میں حصہ لیتے، اپنی ذہنی صلاحیتوں کو نکھارتے۔

نوجوان جناح نے قانونی تربیت کے دوران دو سال بیرسٹرز چیمبر میں Reading Apprenticeship کے دوران دنیا کے بہترین قانون دانوں کی تحریریں پڑھنے میں صرف کیے۔ نوجوان جناح بہت جلد اپنی اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں، مزاج میں رکھ رکھاؤ، بود و باش اور رہن سہن کی بناء پر ایک ایسے قانون دان کی صورت ڈھل گئے جو اپنے کردار اور گفتار، لہجے اور الفاظ کے چناؤ کی بناء پر ناصرف لندن بلکہ ہندوستان واپسی پر قانونی اور سیاسی حلقوں میں نمایاں مقام بنانے میں کامیاب ہو گئے۔

محمد علی جناح عدالت میں مقدمہ اٹھاتے تو دلائل شیکسپیرئن زیر و بم کے ساتھ ڈرامائی مکالموں کی صورت یوں پیش کرتے کہ سننے والوں پر سحر طاری ہو جاتا۔ جناح سخت سے سخت بات سلیقے سے کہنے کا گر جانتے تھے۔ نوجوان قانون ساز نے مسلمانوں کے ’وقف‘ بارے قوانین مرتب کیے تو حکومتی، سیاسی اور قانونی حلقوں میں دھاک بٹھا دی۔ وائسرائے کی سنٹرل ایگزیکٹو کونسل کے سب سے کم عمر رکن کی حیثیت سے شامل ہوئے۔ عدالت یا کسی قانون ساز مجلس میں محمد علی جناح اپنے الفاظ اس احتیاط سے چنتے کہ زندگی بھر انہیں اپنا کہا ایک لفظ واپس نہ لینا پڑا۔

مقننہ کی کارروائیوں میں جناح بولتے تو سناٹا چھا جاتا۔ اقلیتوں کے حقوق کے لئے سینئر قانون سازوں کی کمیٹی بنی تو پارلیمنٹ میں نوجوان جناح کی کا کردگی کو دیکھتے ہوئے انہیں اس کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا۔ کمیٹی جناح کے نام سے پہچانی جانے لگی۔ لارڈ ولنگڈن کی رخصت کے وقت ٹاؤن ہال میں ان کا مجسمہ نصب کرنے کی تقریب میں محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں نے احتجاج کیا تو یہ پہلا اور آخری واقعہ تھا جب محمد علی جناح دھکم پیل کا شکار ہوئے وگرنہ ایک باوقار سیاسی رہنما کے طور ساری عمر قانون کی پاس داری میں بسر کی۔

جناح صاحب نے اکابرین کی طرح کوئی کتاب تو نہیں لکھی، تاہم ان کی تقریروں پر مبنی درجنوں کتابیں موجود ہیں۔ فی البدیہہ تقریروں کا بھی ایک ایک حرف جیسے چن چن کر ٹانکا جاتا ہو۔ ’سٹینلے ولپرٹ کے مطابق ستمبر 1943 ء میں لندن بھیجے گئے ایک خفیہ خط میں لارڈ ویول نے لکھا،‘ جناح کی عدم موجودگی میں مسلمانوں میں ان کی سی قابلیت کا حامل شخص دور دور تک موجود نہیں۔ ’کانگرس کے برعکس مسلمانوں کے ہاں یہ کمی کیونکر محسوس کی گئی؟

ہندوؤں نے جدید تعلیم کے حصول کی خاطر کلکتہ میں ہندو کالج کے قیام کی قرارداد 1823 ء میں پیش کی تھی۔ مختار مسعود کے مطابق، ’کلکتہ میں ہندو کالج اور علی گڑھ میں مدرسۃ العلوم کی رسم افتتاح کے درمیان یہ وہی ساٹھ سالہ تعلیمی فاصلہ ہے، جو برصغیر کے مسلمان قیام پاکستان تک طے نہ کر سکے‘ ۔ آر۔ سی۔ موجمدار کی ’تاریخ آزادی‘ کے مطابق سر سید کی درس گاہ کے قیام کے وقت ہندوستان کے سرکاری تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم 17,350 طالب علموں میں سے صرف 1630 مسلمان تھے۔ 104 مقامی ڈاکٹرز تھے جن میں سے صرف ایک مسلمان تھا۔ پورے برصغیر میں صرف تین مسلمان انجنیئر تھے۔ 1636 ہندو گریجویٹس اور 240 بار ایٹ لاء کے اندر سارے ہندوستان میں صرف 27 گریجویٹس اور محض ایک مسلمان بار ایٹ لاء تھا۔ قیام پاکستان کے وقت 55 فیصد مسلم آ بادی والے صوبہ پنجاب کی لاہور ہائی کورٹ کی 81 سالہ تاریخ میں صرف سات مسلمان جج گزرے تھے۔

ہندوستان تقسیم ہوا تو دیگر اثاثوں کے ساتھ ساتھ، تعلیمی اثاثے، زرخیز سیاسی و قانونی دماغ بھی اوپر بیان کی گئی نسبت سے دونوں آزاد ممالک کے حصے میں آئے۔ گزرے 73 سالوں کے دوران پاکستان میں دیگر شعبہ جات کی طرح ہمارا نظام تعلیم بھی مزید تنزل کا شکار ہوا ہے۔ کسی زمانے میں پاکستان دنیابھر کو متعدد شعبہ جات میں تکنیکی ماہرین فراہم کیا کرتا تھا۔ مڈل ایسٹ کی تعمیر پاکستانی ہنر مندوں کے ہاتھوں ہوئی۔ مغرب میں پاکستانی ڈاکٹرز اور سائنسدان قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔

تاہم ہر گزرتے دن اب ان ممالک کے اندر بھارتیوں کی نسبت، پاکستانی ماہرین کی تعداد بے حد کم ہو چکی ہے۔ اس کے برعکس، گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے میں ہمارے ہاں وکلاء کی تعداد اور اسی لحاظ سے ان کے سیاسی اثر و رسوخ میں بے مثال اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت 55 فیصد مسلم آ بادی والے صوبہ پنجاب کی جس ہائی کورٹ کی 81 سالہ تاریخ میں صرف سات مسلمان جج گزرے تھے، آج اس میں بیک وقت پچاس سے زیادہ معزز ججز ہر روز جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ عزت مآب چیف جسٹس کی عدالت سے آنے والے ریمارکس بھی عدلیہ کے قوت کا احساس دلاتے ہیں۔
انصاف کی فراہمی کے باب میں ایک حالیہ عالمی درجہ بندی کے مطابق مگر ہمارا انصاف کا سیکٹر 124 ممالک میں حیران کن طور پر 120 ویں نمبر پر بتایا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments