فلسطینیوں پر اسرائیل کا ظلم: مسلمان ممالک کیا کر سکتے ہیں؟


اسرائیلی پولیس اور فوج نے گزشتہ دو روز سے مسجد اقصیٰ اور اس کے گرد و نواح میں نمازیوں اور فلسطینی نوجوانوں کو منتشر کرنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا جس میں 300 کے لگ بھگ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ نوجوانوں کے پتھراؤ سے کچھ اسرائیلی پولیس افسر بھی زخمی ہوئے۔ بیت المقدس میں امن و امان بحال کرنے کے لئے پولیس اور فوج کے تازہ دم دستے طلب کیے گئے ہیں۔ مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر تشدد کے بعد غازہ میں بھی احتجاج کیا گیا ہے اور وسیع پیمانے پر اشتعال محسوس کیا جا رہا ہے۔

دنیا بھر کے لیڈروں نے رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں فلسطینیوں کے خلاف اشتعال انگیز کارروائی کی مذمت کی ہے اور اسرائیلی حکومت سے امن و امان بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس دوران مصری حکومت اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان پیدا ہونے والی تازہ ترین کشیدگی کو ختم کروانے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم مشرقی بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں میں شیخ جراح کے علاقے میں چند فلسطینی خاندانوں کو جبری بے دخل کرنے کے عدالتی فیصلہ خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ایک مقامی عدالت نے چند فلسطینی خاندانوں کو اپنے خاندانی گھر اور املاک چھوڑنے کا حکم دیا ہے تاکہ وہاں یہودی آباد کار اپنے گھر بنا سکیں۔ اس فیصلہ کے خلاف اسرائیلی سپریم کورٹ سوموار کو مقدمہ کی سماعت کرے گی۔ اعلیٰ عدالت میں شنوائی نہ ہونے پر بیت المقدس میں عرب آبادی کے عدم تحفظ میں اضافہ ہو گا جو طویل المدت بے چینی اور اشتعال کا سبب بن سکتا ہے۔

اقوام متحدہ، یورپی یونین، امریکہ اور روس سمیت متعدد ملکوں نے اسرائیلی وزیر اعظم پر پولیس گردی اور تشدد کا راستہ ترک کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف عرب اور مسلمان ملکوں نے جمعۃ الوداع کے روز اور لیلۃ القدر کے موقع پر فلسطینیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی شدید مذمت کی ہے۔ پاکستان کے صدر عارف علوی، وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اپنے بیانات میں اس سانحہ پر شدید غم و غصہ اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’اس اقدام سے تمام انسانی اقدار اور بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں۔ ہم فلسطینی عوام کے ساتھ ہیں اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فلسطینی عوام کے حقوق کو یقینی بنایا جائے‘ ۔ صدر عارف علوی نے ایک بیان میں اس واقعہ کو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی اپارتھائیڈ قرار دیا اور کہا کہ ’اب وہ وقت قریب آ گیا ہے جب عالمی سیاست مفادات کی بجائے اخلاقی اصولوں پر استوار ہوگی‘ ۔

پاکستانی صدر کی یہ خواہش تو نہ جانے کب پوری ہوگی لیکن فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جبر میں کمی کا فی الوقت کوئی امکان نہیں ہے۔ فلسطینی قیادت عرصہ دراز سے اسرائیل کا بطور ریاست حق تسلیم کرچکی ہے جو اس تنازعہ کی بنیاد تھا لیکن اسرائیل مسلسل جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینیوں کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمانہ حکمت عملی اختیار کرنے اور دو ریاستی فارمولے کی بنیاد پر اس مسئلہ کا سیاسی حل تلاش کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ خاص طور سے فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادیوں کا مسئلہ انسانیت سوز اور فلسطینیوں کے لئے زندگی اور موت کا معاملہ بنا ہوا ہے۔ لیکن اقوام متحدہ سمیت کوئی عالمی ادارہ یا ملک اسرائیل کو روکنے اور غیر منصفانہ پالیسیوں کو ترک کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ تو اسرائیل نوازی اس حد تک بڑھ چکے تھے کہ انہوں نے صدر بنتے ہی امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا حالانکہ عالمی طور سے بیت المقدس کو متنازعہ علاقہ سمجھتے ہوئے اسے اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اسرائیل بیت المقدس کو اپنا تاریخی مرکز قرار دے کر اس پر مکمل دسترس کا دعوے دار ہے جبکہ فلسطینی مشرقی بیت المقدس کو مستقبل میں کسی فلسطینی ریاست کے لئے دارالحکومت کے طور پر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

بیت المقدس پر اسرائیل کا یک طرفہ دعویٰ یوں بھی ناقابل قبول ہے کہ یہ علاقہ صرف یہودیوں کے لئے مقدس نہیں ہے بلکہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے متبرک مقامات بھی اسی علاقے میں موجود ہیں۔ اس لحاظ سے اس شہر پر سب عقائد سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی رسائی اور آزادی سے عبادت کرنے کا حق تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد سے اسرائیل نے عرب ملکوں کی کمزوری اور امریکہ کی سرپرستی کی بنیاد پر وسیع فلسطینی علاقوں پر قبضہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق اسرائیل کو 1967 میں قبضہ کیے گئے علاقوں کو فلسطینیوں کے حوالے کرنا چاہیے لیکن وہ اس متفقہ عالمی رائے پر عمل کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ نیتن یاہو کی انتہا پسند حکومت کے دور میں مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودی آبادکاریوں کی وجہ سے یہ تنازعہ زیادہ شدید ہو گیا ہے لیکن عرب ممالک اس ایک نکاتی ایجنڈے پر ایک آواز ہو کر اسرائیل کو مجبور کرنے کی بجائے، یکے بعد دیگرے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کر کے دو طرفہ تعلقات بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

اسرائیل کو تسلیم کر کے اس سے سفارتی تعلقات بحال کرلینا شاید وقت کا تقاضا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات اور عالمی سفارت کاری اب تصادم اور ضد کی متحمل نہیں ہو سکتی لیکن عرب ملکوں نے اسرائیل کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے فلسطینی کاز پر کوئی ضمانت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بظاہر سب عرب ممالک فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہیں اور کسی ناخوشگوار واقعے کے بعد ہر عرب دارالحکومت سے مذمتی بیان بھی زور شور سے جاری کیے جاتے ہیں لیکن کسی عالمی فورم یا بین الملکی تعلقات میں دولت مند عرب ممالک نے فلسطین کو کبھی اپنے ایجنڈے پر سر فہرست نہیں رکھا۔ اس لئے یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے کہ اسرائیلی حکومت بھی فلسطینیوں کے بنیادی انسانی حقوق کو نظر انداز کرتی ہے اور طاقت کے زور پر ان کی آزادی کو سلب کیے ہوئے ہے۔ عرب ممالک جس شد و مد سے ایران کے خلاف محاذ آرائی کرتے ہیں یا سعودی عرب کی قیادت میں یمن پر جنگ مسلط کی گئی ہے اگر اس کا عشر عشیر بھی فلسطینیوں کے حقوق کی حفاظت کی خاطر دیکھنے میں آتا تو اسرائیل کو ضرور فلسطینی عوام کا حق دینے کے لیے کسی معاہدے پر راضی ہونا پڑتا۔

موجودہ صورت حال میں عرب ممالک کے بیانات تو فلسطینیوں کی حمایت میں ہوتے ہیں لیکن ان کی پالیسیاں اسرائیلی جبر و تسلط کی تائید کا تسلسل ہیں۔ اسرائیلی حکومت کو اچھی طرح خبر ہے کہ کون سا عرب ملک اس سے معاملات کرنے میں کس حد تک جانے پر آمادہ ہے۔ قول و فعل کا یہی تضاد دراصل فلسطینیوں کے مصائب اور عرب دنیا کی ہزیمت کا سبب بنا ہوا ہے۔ اسی تصویر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف فسطائی ہتھکنڈے اختیار کرنے اور مسلسل حالت جنگ میں رہنے کے باوجود اپنے ملک میں جمہوری نظام مستحکم کیا ہے اور اپنے عوام کو بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیاں فراہم کی ہیں۔ لیکن کوئی عرب یا دوسرا مسلمان ملک ویسی ہی آزادیاں اپنے شہریوں کو فراہم کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ جمہوریت اور انسانی حقوق بیشتر اسلامی دنیا میں اجنبی اصطلاح کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اپنے ہی شہریوں کو آزادیوں سے محروم رکھنے والے ممالک کس منہ سے اور کس بنیاد پر فلسطینی عوام کی آزادی اور بنیادی حقوق کے لئے سرگرم ہو سکتے ہیں۔

پاکستان سمیت مسلمان ممالک میں اسرائیلی پالیسیوں اور فلسطینی عوام کی صورت حال کو انسانی ضمیر پر بوجھ قرار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ دنیا کے مہذب ممالک کو اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی تمام مسلمان ممالک اپنے نظام ہائے حکومت اور حکمرانی کے طریقوں سے یہی پیغام عام کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو آزادی کی بجائے طاقت سے دبائے رکھنے کی ضرورت ہے۔ اپنے عوام پر جبر اور آمرانہ طرز حکومت مسلط کرنے والے حکمران آخر اپنے مغربی ہم منصبوں سے بات چیت میں اس طرز عمل کی کوئی وضاحت تو ضرور پیش کرتے ہوں گے۔ ان میں یقینی طور سے ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اسلام مغربی طرز کی جمہوریت کا حامی نہیں ہے۔ جو لیڈر اور ممالک عقیدے کی بنیاد پر جمہوری روایت اور انسانی وقار سے منکر ہوں، وہ کیوں کر فلسطینیوں سے روا رکھی جانے والی نا انصافی کے خلاف مزاحمتی دیوار بن سکتے ہیں۔

چین، بھارت، میانمار، سری لنکا اور دیگر ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ برتے جانے والے امتیازی اور ظالمانہ سلوک کے علاوہ فلسطین اور کشمیر کے خطوں میں گزشتہ ستر سالوں سے وہاں کے عوام کے خلاف نظام مسلط کیے گئے ہیں۔ اسرائیل اور بھارت کے اس ظلم پر قراردادیں منظور کرنے اور بیان جاری کرنے کے باوجود فلسطینیوں اور کشمیریوں کے حق آزادی کو تسلیم نہیں کروایا جا سکا۔ مسلمان قیادت اگر اپنے گریبان میں جھانکے تو اس کی بنیادی ذمہ داری ان پر ہی عائد ہوتی ہے۔ دوسرے ملکوں کے مسلمانوں کو حقوق دلوانے اور کشمیر و فلسطین کو آزاد کروانے کے لئے پہلے مسلمان ملکوں کو آزادی اور جمہوریت کے بنیادی تصور کو تہ دل سے تسلیم کرنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments