کورونا سے متاثرہ مریم احمد نے کوما میں بیٹی کو جنم دیا

نیلی برڈ - بی بی سی نیوز


Marriam Ahmad and baby Khadija

ڈاکٹروں نے مریم کو بتایا تھا کہ وہ شاید کبھی بھی اپنی بچی کو نہ دیکھ پائیں

مریم احمد جب جنوری میں کورونا سے متاثر ہو کر کمرین کے گرینج ہستپال پہنچیں وہ رات کے لیے اپنا بیگ بھی ساتھ نہیں لے کر گئیں۔ انھیں توقع ہی نہیں تھی کہ وہ اتنے لمبے عرصے کے لیے ہسپتال جا رہی ہے۔

مریم احمد 29 ہفتے سے حاملہ تھیں۔ مریم اور ان کے شوہر عثمان نے ابھی اپنے دوسرے بچے کے لیے نام بھی طے نہیں کیا تھا۔ لیکن ہسپتال میں مریم کی طبعیت بہت تیزی سے بگڑنے لگی۔

ستائیس سالہ مریم احمد جنھیں دمہ بھی ہے، بہت جلد ہی خطرناک صورتحال میں پہنچ گئیں۔

مریم احمد بتاتی ہیں:’ چانک میرے آکسیجن ماسک کے نمبروں کو بڑھا دیا گیا۔ میں شور سے کچھ سن بھی نہیں پاتی تھی۔ کوئی میرا خیال کر رہا تھا، میرا چہرہ صاف کر رہا تھا۔ میں بہت کمزور ہو گئی تھی۔‘

الوداع کہہ دو

مریم کی ڈاکٹر نے سی سیکشن کے ذریعے بچے کی پیدائش کی باتیں شروع کر دیں۔ ابتدا میں انھوں نے کہا کہ آپریشن کے دوران وہ ہوش میں ہوں گیں۔

مریم کو بتایا گیا کہ ان کا بچہ شاید زندہ نہ رہ سکے۔ جوں جوں دن آگے بڑھا ڈاکٹروں کی ٹیم نےمریم کو کوما میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر نے مریم کا ہاتھ پکڑ کر کہا ’شاید تم کبھی جاگ نہ سکو۔‘

Marriam Ahmad and baby Khadija

کوما میں جانے سے پہلے مریم کی اپنے والدین سے بات کرائی گئی

’یہ سب کچھ پانچ منٹوں میں ہو گیا۔ انھوں نے مجھے بتایا ’آپ کو وینٹیلیٹر پر ڈالا جا رہا ہے، آپ کا سی سیکشن ہو گا، جب بچہ پیدا ہو گا، آپ بے ہوش ہوں گیں ۔ شاید آپ زندہ نہ رہ سکیں۔ الوداع کہہ دو۔‘

مریم نے سوانزی میں اپنے والدین کو فون کیا۔ ڈاکٹر نے نیوپورٹ میں ان کے شوہر سے بات کی جو گھر میں اپنے ایک سالہ بیٹے یوسف کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔

’نہ تو میری اپنے شوہر سے بات ہوئی نہ ہی اپنے ایک بیٹے سے جسے میں نے کبھی ایک رات بھی اپنے سے الگ نہیں رہنے دیا۔ میں نے اپنے امی ابو کو فیس ٹائم کیا۔ میں رو رہی تھی۔ یہ مشکل سے دو منٹ کی کال ہو گی۔ میری امی کہہ رہی تھی تم کیا کہہ رہی ہو۔ میں بہت تنہا اور خوفزدہ تھی۔‘

اٹھارہ جنوری رات آٹھ بج کر ستائیس منٹ پر مریم کی بیٹی پیدا ہوئی جسے ہسپتال والے چند دن تک ’بے بی احمد‘ کہہ کر پکارتے رہے۔ بچی کا وزن صرف اڑھائی پونڈ تھا۔

ڈاکٹروں کے خدشات کے باوجود مریم احمد دوسرے روز کوما سے جاگ گئیں۔

یہ بھی پڑھیئے

کووڈ سے متاثرہ حاملہ خاتون کی ڈاکٹروں سے التجا ’میرا بچہ بچا لیں‘

کووڈ 19 کے دوران کیا گزری؟ تین مریضوں کی کہانیاں

وہ بتاتی ہیں:’مجھے کچھ اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہوا۔ ہاں مجھے یہ پتہ چل گیا کہ میرے پیٹ میں اب کچھ نہیں ہے اور مجھے شدید درد تھا۔‘

مریم ایک ہفتے تک اپنی بچی کو نہیں دیکھ سکیں۔ نرسوں نے بچی کی تصاویر اور ویڈیو بنا کر مریم کی دکھائیں۔ مریم انتہائی نگہداشت کے یونٹ سے باہر آ چکیں تھیں لیکن انھیں مسلسل نگرانی میں رکھا جا رہا تھا۔

ہسپتال کا عملہ انھیں حالات سے مکمل آگاہ رکھ رہا تھا۔ مریم کہتی ہیں: ’آئی سی یو میں صفائی کرنے والے کو بھی میں یاد تھی۔ وہ میرے پاس آ کر کہتا تمھارا کیا حال ہے، بے بی احمد کیسی ہے، اس کا کیا نام رکھو گی۔ کوئی خاص نام دینا۔ یہ بہت باہمت بچی ہے۔‘

بہادر بچی کے لیے کوئی خاص نام

ایک ہفتے بعد مریم اور عثمان اپنی بچی سے ملے۔ انھوں نے اپنی بہادر بچی کا نام خدیجہ رکھا۔ مریم کہتی ہیں: ’ اسلام میں خدیجہ ایک باہمت اور آزاد عورت کا علامت ہیں۔‘

Marriam Ahmad and baby Khadija

مریم نے اپنی بیٹی نام خدیجہ رکھا ۔ اسلام میں خدیجہ کے نام کو بہادری او ر آزاد عورت کی علامت تصور کیا جاتا ہے

مریم احمد کہتی ہیں: ’میرے خیال میں خدیجہ بہت باہمت ہے۔ اس کو کوئی مسئلہ نہیں ہے، خاص طور ایسی بچی کو جو وقت سے پہلے ہی پیدا ہوئی ہو۔ ڈاکٹر مجھے تمام ممکنہ پیچیدگیوں کے بارے میں بتلا رہے تھے، خدیجہ کو ان میں سے کوئی مسئلہ بھی نہیں ہے۔ یہ ایک معجزہ تھا۔‘

مریم احمد کو بالاخر اپنی بچی کو دیکھنے اور اسے اٹھانے کا موقع مل گیا۔ وہ کہتی ہیں: اس کے باوجود وہ نیپی پہنے تاروں میں لپٹی ہوئی تھی مجھے بہت خوبصورت لگی۔ مجھے لگا یہ میری بچی ہے۔ یہ اتنا قدرتی تھا۔‘

اس کے بعد خدیجہ کو انتہائی نگہداشت کے یونٹ سے نکال کر سوانزی کے سنگلٹن ہسپتال منتقل کر دیا گیا تاکہ مریم اپنی خاندان کے قریب رہ سکے۔

اگلے کچھ ہفتے بہت مشکل تھے۔ مریم احمد کا اصرار تھا کہ وہ اپنی بچی کو اپنا دودھ پلائیں گیں اور اس لیے ہر روز ماں کا دودھ ہسپتال پہنچایا جاتا تھا۔

بہت مشکور ہوں‘

آٹھ ہفتوں تک ہسپتال میں رہنے کے بعد خدیجہ اب اپنی ماں کے پاس گھر پر ہے۔ ساڑھے تین ماہ کی خدیجہ صحت مند اور خوش ہے۔ اس کا وزن اب چار کلو ہو چکا ہے۔

مریم مانتی ہیں دو چھوٹے بچوں کے ساتھ زندگی آسان نہیں ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اس کے بارے میں سوچتی نہیں ہے۔

وہ کہتی ہیں’میں ابھی زندہ ہوں، یہ ابھی زندہ ہے میں بہت شکر گذار ہوں۔‘

’یہ میرے لیے بہت مشکل وقت تھا۔ میں اب چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے شکر ادا کرتی ہوں۔ بس اپنے خاندان کے ساتھ وقت گذارنے پر میں ہر موقع پر شکر ادا کرتی ہوں۔ میں نے اس سے یہی سیکھا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp