اگر کیڑے واقعی ’سپر فوڈ‘ ہیں تو انھیں کھانے میں ہچکچاہٹ کیوں؟

ازابیل گیریسٹسن - بی بی سی فیوچر


کیڑے

یہ خیال ہی کتنا عجیب محسوس ہوتا ہے کہ آپ کھانے کے لیے ایک ایسا برگر ہاتھ میں پکڑے ہوئے ہیں جس میں اچھی طرح مسل کر جھینگر شامل کیے گئے ہیں یا ایسے فرائیڈ رائس جن میں آٹے میں پائی جانے والی سُنڈیاں اچھی طرح مکس کی گئی ہوں۔

شاید اس خیال سے ہی آپ کو اُبکائی آ جائے مگر حقیقت یہ ہے کہ کیڑے ہماری روزمرہ کی غذا کا ایک اہم حصہ ہو سکتے ہیں۔ اور اُن چند محققین کا کیا کیجیے کہ جن کا اصرار ہے کہ کیڑوں کو ہماری غذا کا لازمی جزو ہونا چاہیے۔

اگرچہ مغربی ممالک (اور چند ایشیائی ممالک بھی) میں بسنے والے اس خیال سے ہی ایک انجانے دباؤ کا شکار محسوس کریں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے چند خطوں میں کیڑوں کو غذا کا حصہ بنانا ایک عام رواج ہے۔

ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ کے چند ممالک میں کیڑوں کی دو ہزار سے زائد اقسام کھائی جاتی ہیں۔

تھائی لینڈ میں خستہ اور کرارے گھاس کے ٹڈے، جنھیں ڈیپ فرائی کیا جاتا ہے، بازاروں میں باآسانی دستیاب ہوتے ہیں جبکہ جاپان میں بھڑوں (پیلی مکھی یا تمبوڑی) کے نوخیز حشرے یعنی لاروے بہت رغبت سے کھائے جاتے ہیں، اور وہ بھی زندہ حالت میں۔

مگر دوسری جانب صورتحال کچھ یوں ہے کہ یورپیئن کنزیومر آرگنائزیشن کی جانب سے کروائے گئے ایک حالیہ سروے میں صرف 10 فیصد یورپی شہریوں نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ اپنی روز مرہ خوراک میں استعمال ہونے والے گوشت کی جگہ کیڑے استعمال کر پائیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا اپنا پیشاب پینا صحت کے لیے مفید ہے؟

مستقبل کے پانچ کھانے انسان، زمین دونوں کے لیے مفید

’کراچی والے ٹڈی سے گھبرائیں نہیں، کھانا چاہیں تو کھا لیں‘

کیا آپ ان کراہت انگیز کھانوں میں سے کوئی چکھنا چاہیں گے؟

ان میں سے چند لوگ ایسے بھی تھے جو سمجھتے ہیں کہ (انسانوں کا) کیڑوں کو کھانے کے لیے تیار نہ ہونا ایک موقع کھو دینے جیسا ہے، وہ موقع جو آپ کے پاس دستیاب ہے۔

بیٹا ہیچ کی چیف ایگزیکٹیو ورجینیا ایمری کا کہنا ہے ’کیڑے ہمارے کھانے کے نظام کا ایک بہت اہم لاپتہ حصہ ہیں۔‘

بیٹا ہیچ ایک امریکی سٹارٹ اپ ہے جس میں ایسی لائیو سٹاک یا گوشت حاصل کرنے والے جانور پالے جاتے ہیں جن کی روزمرہ کی غذا میں کیڑے شامل ہوتے ہیں۔ ورجینیا کہتی ہیں کہ ’وہ (کیڑے) یقینی طور پر ایک سپر فوڈ ہیں۔ غذائی اجزا سے بھرپور، ایک چھوٹے سے جسم میں مکمل غذائیت۔‘

کیڑے

فارم پر پالے جانے والے کیڑوں کو اپنی غذا کا جزو بنا کر ہم دنیا کے دو سب سے بڑے مسائل سے نمٹ سکتے ہیں: خوراک کا بحران یا عدم تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے زراعت اور خوراک (ایف اے او) کے مطابق زراعت کا شعبہ عالمی حیاتیاتی تنوع کو نقصان پہنچانے اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا سب سے بڑا معاون ہے۔

جبکہ گوشت کے حصول کے لیے مویشیوں کو پالنے کی صنعت کا عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں تناسب 14.5 فیصد ہے۔

ماہر حیاتیات سارہ بینن کا کہنا ہے کہ ’ہم ایک حیاتیاتی تنوع کے بڑے پیمانے پر ختم ہونے کے وسط میں ہیں، ہم موسمیاتی تبدیلی کے بحران کے وسط میں ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کو خوراک بھی فراہم کرنی ہے۔ ہمیں تبدیلی لانی ہو گی، درحقیقت ہمیں ایک بڑی تبدیلی لانی ہو گی۔‘

سارہ بینن ویلز کے بگ فارم پر کیڑوں پر مبنی خوراک تیار کرتی ہیں۔

کیڑوں کی فارمنگ یعنی ’انسیکٹ فارمنگ‘ میں روایتی فارمنگ کی نسبت زمین، توانائی اور پانی کا بہت کم استعمال ہوتا ہے اور اس کا ماحول پر اثر انتہائی معمولی ہوتا ہے۔ نیدرلینڈ کی یونیورسٹی آف ویگننگن کے محققین کی تحقیق کے مطابق جھینگے گائیوں کی نسبت 80 فیصد کم میتھین اور خنزیر کی نسبت 8 سے 12 گنا کم امونیا پیدا کرتے ہیں۔

میتھین ایک انتہائی طاقتور گرین ہاؤس گیس ہے جس کا گلوبل وارمنگ پر اثر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی نسبت 84 گنا زیادہ ہوتا ہے جبکہ امونیا ایک تیز گیس جو کہ فضائی آلودگی، مٹی میں تیزابیت، زمینی آلودگی اور ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہے۔

دنیا بھر میں کیڑوں کی فارمنگ کی مدد سے زمین کے وسیع قطعات دستیاب ہو سکتے ہیں جو فی الحال مویشیوں کی بڑے پیمانے پر فارمنگ اور ان کو درکار خوراک کاشت کرنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔

کیڑے

ایڈنبرا یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں کھائے جانے والے مویشیوں کے گوشت کے آدھے حصے کو اگر سنڈیوں اور جھینگوں کے گوشت سے بدل دیا جائے تو فی الوقت زراعت اور مویشیوں کی فارمنگ کے لیے استعمال ہونے والی کل زمین کے تیسرے حصے کو چھڑایا جا سکتا ہے۔ یہ تیسرا حصہ لگ بھگ 1680 ملین ہیکٹر ہو گا، یعنی برطانیہ کے رقبے سے 70 گنا زیادہ۔ اور اس کی مدد سے ماحولیاتی اثرات بھی کم ہو سکتے ہیں۔

ایڈنبرا یونیورسٹی میں فوڈ سکیورٹی کے ایک سینیئر محقق پیٹر الیگزینڈر کا کہنا ہے کہ ’اگر پروٹین کی پیداوار کے حوالے سے بات کی جائے (یعنی مویشیوں اور کیڑوں سے ملنے والے پروٹین کا تقابل کیا جائے) تو مویشیوں کے مقابلے میں کیڑے زمین کا آٹھواں حصہ استعمال کرتے ہیں۔‘

ان نتائج کے باوجود پیٹر الیگزینڈر کا کہا ہے کہ بین برگر کھانا ایک زیادہ پائیدار آپشن ہے کیونکہ کیڑوں کی فارمنگ کے لیے درکار توانائی اس سے کہیں زیادہ ہے جو پودوں کی فارمنگ کے لیے درکار ہوتی ہے۔

تاہم لندن کے امپیریئل کالج میں سینٹر برائے ماحولیاتی پالیسی سے وابستہ ایک سینیئر فیلو ٹیلی کولنس کا مؤقف ہے کہ کیڑے کچھ ایسی ضروریات پوری کر سکتے ہیں جو پودوں پر مبنی کھانے کی چیزیں نہیں کر سکتی ہیں۔ ’پلانٹ پر مبنی غذا اکثر کاربن مائلیج کے ساتھ آتی ہے۔ بہت سے پودے جنھیں انسان کھانا چاہتے ہیں ماحولیات کے لیے تباہ کن نتائج کے حامل ہو سکتے ہیں۔ کیڑوں کی مؤثر طریقے سے فارمنگ زیادہ بہتر آپشن ہے۔‘

کولنز کہتی ہیں کہ کہ کیڑے ترقی پذیر ممالک میں غذائیت کا ایک خاص اور اہم ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ’ہم برطانیہ میں بہت اچھی غذا استعمال کرتے ہیں۔ ہم غذائیت سے بھرپور غذا کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن افریقہ میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ بہت سارے افریقی ممالک میں انسانوں اور جانوروں دونوں کی غذا کے طور پر کیڑوں کی فارمنگ میں تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے۔

بہت سی مثالوں کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ کیڑوں کی فارمنگ ایک عمدہ فن کی شکل میں تبدیل ہونے والی کارکردگی کی ایک مثال ہے۔ پہلے یہ کہ وہ رفتار جس سے کیڑے پرورش پاتے اور بڑے ہوتے ہیں، مہینوں یا سالوں کی بجائے جیسا کہ مویشیوں میں ہوتا ہے، یہ ہزاروں کی تعداد میں اپنی نسل انتہائی کم وقت میں آگے بڑھاتے ہیں۔

بینن کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ کیڑے مویشیوں کے مقابلے میں اپنے کھانے کو پروٹین میں تبدیل کرنے میں 12 سے 25 گنا زیادہ مؤثر ہوتے ہیں۔ ایف اے او کے مطابق سنڈیوں کو مویشیوں سے چھ گنا کم کھانا، بھیڑوں سے چار گنا کم جبکہ خنزیروں سے دو گنا کم خوراک درکار ہوتی ہے۔

پیٹر الیگزینڈر کا کہنا ہے کہ اس استعداد کار کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کیڑے سرد خون کے حامل ہوتے ہیں اور اس وجہ سے اپنے جسم کی حرارت کو برقرار رکھنے میں کم توانائی ضائع کرتے ہیں۔

کیڑوں کی فارمنگ سے بھی بہت کم فضلہ پیدا ہوتا ہے۔ ’دوسری بڑی بات یہ کہ مویشیوں میں سے بہت سے گوشت ضائع بھی ہوتا ہے جبکہ کیڑوں میں کچھ ضائع نہیں ہوتا بلکہ ہم پورے کا پورا کیڑا کھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘

کولنز کا کہنا ہے کہ کم فضلہ پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ کیڑے کھانے اور بائیو ماس کو بھی زندہ رکھ سکتے ہیں جو سرکلر معیشت میں معاون ہیں، جہاں وسائل کی بحالی اور انھیں دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے۔ کیڑوں کو زرعی فضلہ کھلایا جا سکتا ہے، جیسا کہ ان پودوں کے تنے اور ڈنڈیاں جو کہ انسانی خوراک کا حصہ نہیں بنتیں یا جنھیں فوڈ ویسٹ کے نام پر ضائع کر دیا جاتا ہے۔

ری سائیکلنگ چین کو مکمل کرنے کے لیے کیڑوں کے فضلے کو فصلوں کے لیے بطور کھاد استعمال کیا جا سکتا ہے۔

کیڑوں کی پیداوار کے اس مستحکم عمل اور ان میں چھپی غذائیت کے باوجود انھیں بڑے پیمانے پر غذا کا حصہ بنانے کے لیے شاید ہمیں ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔

کھانے پینے کے صارفین کے محقق جیوانی ساگری کا کہنا ہے کہ ’ہم کیڑوں کو کھانے کے علاوہ ہر چیز سے جوڑ دیتے ہیں۔ میرا مطلب گندگی، خطرہ، کوئی ناگوار چیز جس سے ہمیں بیمار ہونے کا احساس ہوتا ہے۔‘

کیڑے

لیکن رویوں میں بدلاؤ آنے لگا ہے۔ سنہ 2027 تک خوردنی کیڑوں کی مارکیٹ 4.63 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے اور یورپی کمپنیاں یورپی فوڈ سیفٹی اتھارٹی کی منظوری کے بعد خوردنی کیڑوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔

پیٹر الیگزینڈر کہتے ہیں کہ ’لوگوں کے کھانے کے بارے میں خیالات بدل جاتے ہیں، لیکن یہ عمل آہستہ آہستہ ہوتا ہے۔ وہ لابسٹر (جھینگا مچھلی) کی مثال کی طرف اشارہ کرتے ہیں ، جو چند برسوں پہلے تک ایک انتہائی ناپسندیدہ کھانا سمجھا جاتا تھا اور اکثر جیلوں میں قیدیوں کے لیے پکتا تھا، مگر اب لابسٹر کھانا ایک لگژری ہے۔‘

جیوانی ساگری کا کہنا ہے کہ کہ بہترین تجارتی تجویز یہ ہے کہ کیڑوں کو پاؤڈر کی شکل میں پیس لیں اور ان کو پروسیسڈ فوڈ (ڈبوں والی خوراک) میں شامل کریں بجائے انھیں ایک مکمل خوراک کے طور پر پیش کرنے کے۔ شیف اینڈی ہولکرافٹ جو بگ فارم میں برطانیہ کے پہلے خوردنی کیڑوں کا ریستوران چلاتے ہیں وہ اس تجویز سے متفق ہیں۔

ہولکرافٹ کہتے ہیں کہ ’سلاد پر پورے کیڑوں کو چھڑکنے کے بجائے، اگر ہم اسے مرکزی دھارے کے فوڈ کلچر میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے مجموعی طور پر پوری پراڈکٹ کے کچھ فیصد کے طور پر شامل کیا جائے۔‘

’بلآخر آپ کے پاس صحت مند، انتہائی غذائیت بخش اور پائیدار پراڈکٹ ہو سکتی ہے لیکن جب تک کہ اس کا ذائقہ صارفین کو اچھا نہ لگ جائے اور لوگ اسے قبول کرنے پر راضی نہ ہوں تب تک اس چیز کو حاصل کرنا بہت زیادہ مشکل ہو سکتا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp