چلغوزے اور ہم سب (محمد مدثر)۔


(محمد مدثر)۔

\"\"میرے علم میں نہیں ہے کہ خواتین کس بات پر زیادہ سیخ پا ہیں۔ اگر تو معاملہ خواتین کو چلغوزے یا کسی اور کھائے جانے والی چیز سے تشبیہ دینے کا ہے تو صاحبو معاملہ حل ہی سمجھیے کیونکہ خواتین بذات خود اپنے بچوں سے لاڈ کرتے اسی جرم کا ارتکاب کرتی ہیں۔ ویسے بھی اپنی پوسٹ میں مفتی صاحب نے اپنی بہنوں کو مخاطب کیا ہے نہ کہ پورے جہاں کی خواتین کو۔ ویسے خواتین کو جن القابات سے گلی محلوں میں نوازا جاتا ہے وہ زیادہ باعث شرمندگی ہے۔ گلیوں اور چوراہوں پر بھی دو طرح کے لوگ آوازیں کستے ہیں ایک تو میری طرح کے اوباش جو کہ خواتین کو ان کی شباہت کے حساب سے نام دیتے ہیں۔ مگر کچھ لوگ تھوڑے مذہبی ہوتے ہیں وہ بس ماشاللہ اور سبحان الله کا ورد زبان پر جاری رکھتے ہیں۔ اس سے مقصد بھی پورا ہوتا ہے اور زبان بھی پاک رہتی ہے۔ ہماری ان تمام حرکات کے باوجود خواتین خاموشی اختیار کئے رکھتی ہیں جس سے ہماری حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ الله بھلا کرے اس سوشل میڈیا کا جس نے خواتین کو بھی زبان بخش دی ہے۔ اب بولنا ہی ہے تو مدعا بھی ہونا چاہیے یوں ہی لٹھ لے کر کسی کے پیچھے نہیں پر جانا چاہیے۔

اب بات کرتے ہیں اصلی مدعے \”حجاب\” کی۔ قارئین کرام مفتی صاحب نے اپنی بہنوں کو بالکل اسی انداز سے ایک مثال کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کی جس انداز سے \”اتفاق میں برکت\” کہانی کا کردار ایک بوڑھا شخص اپنے بچوں کو لکڑیوں سے تشبیہ دیتے ہوئے کرتا ہے۔ خیر اس کہانی کی اشاعت کے اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی کسی مرد نے احتجاج نہیں کیا کہ ہمیں ایک بے جان چیز سے تشبیہ کیوں دی جا رہی ہے۔ خیر بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ فکری آزادی کے داعی مفتی صاحب کی عالمانہ سوچ پر قدغن لگانا چاہتے ہیں۔ اپنے عیال کو حجاب کی تعلیم دینا یا حجاب کے فوائد گنوانا کچھ غلط تو نہیں ہے۔ اب رہی بات ماننے یا نہ ماننے کی تو وہ بہنوں کا انفرادی معاملہ ہے۔ شخصی آزادی کا ڈھنڈورہ پیٹنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر لبرل لوگوں کے ساتھ ساتھ اسلامی، مدنی اور کئی دوسرے فرقوں سے تعلق رکھنے والی بہنیں بھی موجود رہتی ہیں جو اس قسم کی علمی پوسٹ سے اپنے ایمان کو تازہ رکھتی ہیں۔ ناقدین کے لیے یہی مشورہ ہے کہ جلنے اور کڑھنے کی بجائے ایسی پوسٹ کو نظر انداز کر دیا کریں۔

اب آتے ہیں کاپی رائٹس والے معاملہ پر۔ اس بات کا پتہ لگانے کے لئے کہ پوسٹ مفتی صاحب کی تھی یا رضوان صاحب کی تصویر میں موجود چلغوزوں کے چھلکے درکار ہوں گے۔ جو صاحب پہلے چھلکوں کی تصویر  پہلے دستیاب کر دیں گے فیصلہ ان ہی کے حق میں ہو گا مگر چند گزارشات کے ساتھ۔

اول: اگلی بار جب بھی اپنی سوشل میڈیا والی بہنوں کو مخاطب کریں تو ازراہ کرم الفاظ کا چناؤ وہی ہونا چاہیے جو آپ اپنے گھر میں کرتے ہیں۔

دوم: حجاب کی تلقین ضرور کریں مگر دل آزاری کی صورت میں نہیں۔

سوم: احساس برتری ہی گروہ بندی کی جڑ ہے برائے مہربانی اجتناب کریں۔

چہارم: اسلام کے وضح کردہ اصولوں کو سمجھانے کے لئے اچھی، صحت مند اور اخلاقی امثال کو ترجیح دیا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments