طلاق کا بڑھتا رجحان اور بیرونی دنیا میں قائم ہونے والی بہتر مثالیں


دنیا کے چوتھے امیر ترین انسان اور مائیکرو سافٹ کمپنی کے مالک بل گیٹس اور ان کی سابقہ اہلیہ ملینڈا کے مابین طلاق پہ پاکستان میں ایک حیرت کا سماں ہے کہ کیا اتنی چپ چاپ سکون کے ساتھ اور بغیر کسی تہمت کے بھی بھلا کوئی طلاق ہوتی ہے۔ چلیں اچھا ہوا ہم پہ طلاق کی ایک یہ جہت بھی کھلی کہ ضروری نہیں کہ عورت کو چھوڑنے سے پہلے اسے بد چلن اور نافرمان کہہ کر کسی اور قابل بھی نہ چھوڑا جائے۔ لیکن ایک اور پہلو بھی نہایت عمدہ ہے جسے ہمارے ہاں قانون کی شکل میں نافذ کیا جا سکتا ہے اور وہ ہے طلاق کی صورت میں عورت کو بے آسرا اور معاشرے کی بھینٹ چڑھانے کی بجائے مرد کی جائیداد سے حصہ دینا۔ بل گیٹس اس طلاق کے بعد اپنی جائیداد کا نصف تقریباً 73 ملین ڈالر اپنی سابقہ بیوی کو دینے کے پابند ہیں۔ اس سے قبل امریکی ای۔ کامرس کی کمپنی ایمیزون کے مالک بھی اپنی بیوی کو طلاق کی صورت میں دنیا کی مہنگی ترین طلاق دے چکے ہیں۔

ہم نے جب سے اسلام کا لبادہ اوڑھا ہے اسے اپنے مفاد کے لیے شیلڈ کے طور پہ ہی استعمال کیا ہے۔ ہمارے قانون ساز ادارے کبھی بھی ایسی قانون سازی نہیں کر سکے جس سے معاشرے میں تربیت کے پہلو نکل سکیں۔ پاکستان میں بھی طلاق کی شرح نہایت بلند ہے۔ لیکن معاشرے میں کبھی اس کے تدارک کے لیے کوئی بھی قدم نہ ہی ریاست کی جانب سے اور نہ جنہوں نے مذہب کا علم اٹھایا ہوا ہے ان کئی جانب سے اٹھایا گیا ہے۔ اس سے قبل انڈین سپریم کورٹ نے ایک مسلمان عورت کی درخواست پر مسلمان مرد کے ایک ہی نشست میں تین بار طلاق دے کر شادی کے مقدس بندھن کو ختم کرنے کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ ایسا کرنے والے کو جرمانے کے ساتھ تین برس تک قید کی سزا بھی سنائی جا سکے گی۔

عورت معاشرے کی چکی کا وہ پاٹ ہے جس کے بغیر معاشرے کی تکمیل ناممکن ہے۔ لیکن افسوس کہ عورت خود اسی چکی میں پس رہی ہے۔ اسلام نے جو عورت کو مقام دیا آج اس کی سب سے زیادہ نفی اسلامی معاشرے میں ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ طاقت کی زیادتی انسان کو اندھا کر دیتی ہے جس سے وہ حق تلفی پہ اتر آتا ہے۔ نکاح عورت اور مرد کے مابین ایک باہمی سمجھوتے کا نام ہے جو دونوں کو یکساں حقوق دیتا ہے۔ نکاح سے مرد کو عورت پہ حکمرانی کا اختیار قطعاً نہیں مل جاتا۔ مرد کے پاس طلاق کا ایک ایسا ہتھیا ر ہے جس کا استعمال معاشرے کو تباہی کی نہج پہ لے آتا ہے۔

طلاق ایک راستہ ہے اس باہمی سمجھوتے کو ختم کرنے کا۔ لیکن اسے جذبات کی بھینٹ چڑھا کر ختم کرنا پشیمانی، خاندانی نظام کی تباہی اور بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اکثر یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ لوگ ایک ہی نشست میں تین طلاقیں دے کر نکاح ختم کر دیتے ہیں لیکن جذبات کے بہاو سے باہر نکلتے ہی انھیں اپنے فیصلے کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے تو ہاتھ ملنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اسلام نے طلاق کی متعدد اقسام بیان کی ہیں۔ جنھیں بطور قانون نافذ کر کے اس ہیجان خیز کیفیت سے نکلا جا سکتا ہے۔

شرعی ماہرین ایک ساتھ تین طلاقوں کو طلاق بدعت کہتے ہیں۔ بدعت کے مسئلے پر امت میں اتنے سخت موقف کے باوجود ایک ساتھ تین طلاقوں کو امت نے گلے گلا کر معاشرتی نظام کو تہس نہس کر دیا ہے۔ حکومت اس خوف سے باہر نہیں نکل پا رہی کہ کسی شرعی مسئلے پہ پارلیمان کو حرکت میں لائی تو مذہبی جماعتوں کا ردعمل نا قابل برداشت ہو جاتا ہے۔ مذہبی حلقوں نے اسلام میں تحقیق کو شجر ممنوعہ قرار دے رکھا ہے چاہے کسی بنا پر کسی کی زندگی تباہ ہی کیوں نہ ہو جائے وہ اس نزاکت سے خود کو ماورا سمجھتے ہیں۔ ایسے میں حکومت ہی کو معاشرے کو صراط مستقیم پر لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

انڈین سپریم کورٹ کے قابل تحسین فیصلے نے کم از کم ہندوستان کی مسلمان خواتین کو ایک طرح سے راحت ضرور پہنچائی ہے کہ اگر کبھی ایسی نوبت آ بھی جائے تو ان کے پاس رجوع کرنے کی مہلت موجود ہو گی۔ اسلام کی تشریح کے لا متناہی اختیار علما کو دے دینے سے اسلام ناقابل عمل مذہب بننے کے راستے پہ گامزن ہو رہا ہے۔ علما اپنی مسلکی وابستگی سے نکلنے کو تیار نہیں اور ان کے مسلک کا ماضی انہیں مستقبل میں جھانکنے کی اجازت نہیں دیتا۔ طلاق جائز ہونے کے باوجود اللہ تعلیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک نا پسندیدہ ترین عمل ہے۔ اگر ایک مسئلے پر ایک سے زیادہ آپشن موجود ہیں تو ان میں بہترین عمل کو ریاستی طاقت سے نافذ کرنے میں اسلام کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔

طلاق ہی کے مسئلے پر ایک سے زیادہ آپشن موجود ہیں۔ جیسا کہ طلاق کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی ایک وقت میں چاہیے جتنی بار بھی طلاق کا لفظ بول دے وہ ایک ہی طلاق تصور کی جائے گی۔ اگر شوہر اپنی بیوی سے تین ماہ تک رجوع نہیں کرتا تو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ اس دوران دونوں اپنی باہمی رضا مندی سے کسی وقت بھی اپنے رشتے کو بچا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف وقفوں سے بھی تین طلاق دینے کی صورت موجود ہے۔ جس سے سوچ اور بچار کے لیے مناسب ترین وقت میسر آ جاتا ہے جسے ”کولنگ پیریڈ“ کہا جاتا ہے۔ ایک صورت خلع کی بھی ہے جس میں عورت بھی نکاح کے بندھن کو توڑ سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے اسے عدالتی کارروائی کے ذریعے عدالت سے تنسیخ نکاح کا سرٹیفیکیٹ لینا پڑتا ہے۔

خاندانی نظام کی حفاظت کی خاطر طلاق کا حق بھی شوہر سے لے کر خلع کے طرز پر عدالت کو دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ معاشرے میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح سے کہیں یہ ثابت نہیں ہو رہا کہ مرد زیادہ باشعور ہے جو اس طلاق کے حق کو عدل تحمل اور فہم و فراست کے ساتھ استعمال کر رہا ہے۔ دوسرا امریکی قانون کی طرز پہ طلاق کے بعد عورت کو بے سہارا چھوڑنے کی بجائے مرد کی جائیداد سے حصہ دینے کے اہتمام سے بھی خاندانی نظام میں سنجیدگی آ سکتی ہے۔

پاکستانی شرعی عدالت کے جج جسٹس شفیع محمدی صاحب حلالہ کو حرام اور غیر قانونی قرار دے چکے ہیں اس کے باوجود اس پر کسی قسم کی کوئی معاشرتی اگاہی مہم حکومت کے پلیٹ فارم سے نہیں چلائی گئی جس سے عام آدمی ان پڑھ، جاہل اور ہوس زدہ مولویوں کی حلالے کی بھینٹ چڑھنے سے بچ جائیں۔ حکومت معاشرہ سازی کے عمل کا نام ہے۔ معاشروں میں کثیر الانواع افراد کی درست سمتوں میں رہنمائی صرف حکومتی وژن ہی سے ممکن ہے۔

انڈین سپریم کورٹ نے 34 برس قبل شہر بانو کیس میں ایک ایسے شوہر کو طلاق کے بعد بھی بیوی کے اخراجات برداشت کرنے کا حکم دیا جو زندگی کے 40 برس اس کے ساتھ گزار چکی تھی اور شوہر نے بڑھاپے میں طلاق دے کر گھر سے بے گھر کر دیا۔ لیکن ہمارے ہاں آج بھی زندگی کا سارا حسین وقت شوہر کی نذر کرنے کے باوجود شوہر بیوی کو غلطی سے بھی طلاق دے دے تو اس کے لیے واپسی کا سفر حلالے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ نہ ہی اس بیوی کا شوہر کے روپے پیسے پہ کوئی حق ہے جس کے ساتھ وہ اپنی جوانی گزار کے آئی ہے۔

انڈین سپریم کورٹ نے شمیم آراء بنام ریاست اتر پردیش میں یہ بھی حکم جاری کیا کہ کوئی طلاق اس وقت تک مکمل نہیں ہو گی جب تک مصالحت کا عمل مکمل نہ ہو جائے۔ علما نے تو عورت کو باندی سے زیادہ کا درجہ سے انکار کر دیا ہے افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری عدالتیں بھی خوف زدہ ہیں۔ اسلام کی تشریح کا جو فریضہ مختلف کیسسز میں انڈین سپریم کورٹ سر انجام دے رہی ہیں پاکستان کی عدلیہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

اس ضمن میں حکومت کو نصاب تعلیم کو از سر نو ترتیب دینا چاہیے اور وہ تمام امور جن سے آج کے ننھے طالب علم کا مستقبل میں واسطہ پڑنا ہے اس پہ اس کی ذہن سازی کی جائے۔ بچوں کو سکھایا جائے کہ خاندان کی کیا حیثیت ہے؟ شوہر اور بیوی کے تعلق کی نوعیت کیسی ہے؟ تاکہ مجازی خدا کے تصور کو ختم کرنے میں مدد مل سکے۔ یہ بھی سکھانے کی ضرورت ہے کہ کامیاب شادی شدہ زندگی یہ نہیں جب میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہ رہے ہوں بلکہ اصل کامیاب زندگی یہ ہے کہ جب میاں بیوی کا ایک دوسرے کے بغیر رہنا پر امن نہ ہو۔

تربیت میں مولانا وحید احمد خان کی یہ بات شامل کی جائے کہ ہم سیکھیں کہ ایک عورت اور ایک مرد جب نکاح کے رشتے میں بندھ کر ایک ساتھ اکٹھا ہوتے ہیں تو یہ دو متضاد شخصیت کا اجتماع ہوتا ہے۔ عورت اپنی پیدائش کے اعتبار سے جذباتی (emotional) ہوتی ہے اور مرد اپنی پیدائش کے اعتبار سے انانیت پسند (egoist) ہوتا ہے۔ یہ دونوں باتیں فطری ہیں۔ وہ لازمی طور پر ہر عورت اور مرد کی شخصیت کا حصہ ہوتی ہیں۔ اس معاملے میں کسی کا بھی کوئی استثنا نہیں۔

اب ان دونوں صفات کا ایک مثبت پہلو ہے اور دوسرا ان کا منفی پہلو۔ اگر ان صفات کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تو وہ انسانیت کے لئے خیر ثابت ہوں گے اور اگر ان کو منفی انداز میں استعمال کیا جائے تو انسانیت کے لئے شر بن جائیں گے۔ انانیت (ego) کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کے اندر کسی مقصد کے لئے جمنے کا مزاج پیدا ہوتا ہے۔ اگر آدمی کے اندر یہ صفت نہ ہو تو وہ موم کی مانند ہو جائے گا اور عزم و ہمت کے ساتھ وہ کوئی کام نہ کر سکے گا۔ انانیت کا منفی پہلو یہ ہے کہ آدمی کے اندر گھمنڈ کا مزاج پیدا ہو جائے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی انانیت کو اس منفی حد تک نہ جانے دے، ۔ ورنہ وہ تعمیر پسند انسان کے بجائے ایک تخریب پسند انسان بن جائے گا۔

اسی طرح عورت پیدائشی طور پر جذباتی (emotional) ہوتی ہے۔ اس صفت کے بھی مثبت اور منفی پہلو ہیں۔ اس صفت کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس کی وجہ سے عورت کے اندر نرمی اور شفقت کا مزاج زیادہ ہوتا ہے۔ جو بلاشبہ ایک خوبی کی بات ہے۔ اس صفت کا منفی پہلو یہ ہے کہ عورت کے اندر ضد کا مزاج پیدا ہو جائے۔ وہ معاملات میں ضدی پن دکھانے لگے۔ یہ دوسرا پہلو اس صفت کا منفی پہلو ہے۔ اگر عورت کے اندر یہ منفی مزاج پیدا ہو جائے تو اس کی فطری صفت اپنا مثبت فائدہ کھو دے گی۔ عورت اور مرد دونوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اس فطری مزاج کو سمجھیں۔ وہ شعوری طور پر اس کا اہتمام کریں کہ ان کا یہ مزاج مثبت دائرے میں رہے، وہ منفی رخ اختیار نہ کرے۔ اس انضباط میں عورت اور مرد دونوں کے لئے کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے۔

جہیز، نکاح، طلاق اور وراثت کے اسلامی احکام کی درست تشریح اور ان پر نمایاں عدالتی فیصلوں کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ دنیا بھر میں ہونے والی ڈویلپمنٹ کو بھی طالب علموں کو آگاہ رکھا جائے۔ مسلک کو مذہب پہ حاوی کرنے کی کوشش کی مذمت کی جائے اور ریاست کو ماں کی حیثیت سے تمام مذاہب کے لیے یکساں سلوک کرنا چاہیے۔ میڈیا نے آج کے دور میں شعور اور آگاہی کا ایک انقلاب برپا کر دیا اسے اس ضمن میں آگے آنا چاہے۔ ہم نے اپنی نسل کو دار الحرب اور دارلامن میں الجھا رکھا ہے اس لیے کسی نے انڈین سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو محض ایک ہندو ملک کی عدالتوں کی اسلام دشمنی سے ہی تعبیر کیا ہو گا۔ لیکن آج جب ہمارے چراغ اندھیرے بانٹ رہے ہیں تو پھر ان اندھیروں کی طرف منہ کر لینے میں کوئی حرج نہیں جو روشنی کی امید بنے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments