وزیرِاعظم عمران خان کا پمز ہسپتال میں ’ہائی رسک والے کورونا وارڈ کا یوں دورہ کرنا مناسب ہے؟‘

عمر دراز ننگیانہ - بی بی سی اردو لاہور


پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان پیر کی شب دارالحکومت اسلام آباد کے ایک سرکاری ہسپتال پمز میں پہنچ گئے جہاں انھوں نے کورونا کے مریضوں کے لیے مختص حصے کا دورہ کیا۔ ان کے اس دورے کی تصاویر اور ویڈیوز جلد ہی پاکستان میں سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھیں۔

ان ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا تھا کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے کورونا وارڈ میں داخلے کے لیے ضروری حفاظتی لباس پہن رکھا تھا اور ماسک پہن رکھا تھا۔ وہاں موجود ڈاکٹر انھیں کورونا وارڈ میں داخل مریضوں کی حالت کے بارے میں بتا رہے تھے۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر منہاج السراج نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں وزیرِاعظم کی آمد سے محض 20 منٹ قبل اطلاع کی گئی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ وزیرِاعظم عمران خان بغیر پروٹوکول کے ہسپتال پہنچے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

’اس حکومت میں کام کرنے والا واحد شخص عمران خان کا کیمرا مین ہے‘

عمران خان کے انسٹاگرام اکاؤنٹ سے امیتابھ کی فلم کا کلپ کیوں ڈیلیٹ کیا گیا؟

سوشل میڈیا بحث: ’مجھے یقین ہے جمائما اندر سے کچھ ٹوٹ گئی ہوں گی‘

https://twitter.com/PakPMO/status/1391786934826061829

تاہم عمران خان کے پمز کے کورونا وارڈ کے دورے کی تصاویر اور ویڈیوز سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر موضوعِ بحث رہیں۔ وزیرِاعظم کے دفتر کے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری کردہ ویڈیو کو ہزاروں افراد دیکھ چکے ہیں اور اس پر اپنی آرا بھی دے چکے ہیں۔

پمز ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر منہاج السراج کے مطابق ہسپتال کی طرف سے کسی قسم کی کوئی ویڈیو یا تصویر نہیں بنائی گئی تھی اور نہ ہی جاری کی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیرِاعظم کے ہمراہ آنے والے سینیٹر فیصل جاوید نے ویڈیوز بنائی تھیں جو بعد ازاں ٹوئٹر پر بھی پہنچ گئیں۔

ٹوئٹر پر جاری بحث کے دوران جہاں زیادہ تر صارفین نے ان کے اس اقدام کو سراہا وہیں کچھ نے ان کی صحت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا تو کئی صارفین نے وزیرِاعظم عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

پاکستان کے وزیرِاعظم کی تعریف کرنے والوں میں سرحد پار انڈیا سے بھی چند صارفین نے اس بحث میں حصہ لیا۔ ان میں زیادہ تر نے دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کا موازنہ کیا۔

ایک صارف اشوک سوین نے لکھا کہ ’پاکستان کا وزیرِاعظم کورونا کے مریضوں کی حالت دیکھنے اور انھیں ملنے والی سہولیات کا جائزہ لینے ہسپتال کا دورہ کرتا ہے۔ قیادت صرف تقاریر کرنے اور دوسروں کو برا بھلا کہنا نہیں ہے بلکہ مشکل وقت میں موجود ہو اور ہمدردی کا اظہار کرے۔‘

چوہدری کاشف نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’جن کورونا وبا کے مریضوں کو گھر والے دیکھنے سے ڈرتے ہیں لیکن ریاست کا سربراہ خیریت پوچھنے چلا گیا۔ سلامتی ہو آپ پر وزیرِاعظم صاحب۔‘

ہسپتال کے ڈاکٹروں کا ردِ عمل کیا تھا؟

پمز کے ڈائریکٹر منہاج السراج نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیرِاعظم کا بغیر پروٹوکول کے کورونا کے وارڈ میں آنا ’نہ صرف وہاں کام کرنے والے ڈاکٹروں اور نرسوں کے لیے حوصلہ افزائی کا سبب تھا بلکہ مریضوں کو بھی انھیں اپنے درمیان دیکھ کر کافی حوصلہ ملا تھا۔‘

’ایک مریض کے لیے ظاہر ہے سب سے پہلی ترجیح اچھا علاج ہے اور پھر اس کے بعد اگر ریاست کا سربراہ خود اس کو ملنے والی سہولیات کو دیکھنے کے لیے آ جائے تو اسے اور کیا چاہیے۔ اس بیماری میں مبتلا مریضوں کا حوصلہ بڑھانا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔‘

ڈاکٹر منہاج السراج نے بتایا کہ ان کے ہسپتال میں گزشتہ تین روز کے دوران مریضوں کی تعداد میں کمی دیکھنے میں آئی ہے جو لگ بھگ ڈیڑھ سو مریض روزانہ سے 109 مریضوں پر آ گئی ہے۔ ہسپتال میں نو مریض منگل کے روز تک وینٹیلیٹر پر موجود تھے۔

’وہ سمجھیں گے وزیرِاعظم جا سکتا ہے تو رشتہ دار کیوں نہیں‘

وزیرِاعظم عمران خان کے اس اقدام کو سراہنے والے چند صارفین نے بھی ان کی ذاتی حفاظت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا اور ساتھ ہی ان کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنانے والے صارفین کا استدال تھا کہ اس طرح کرنے سے انھوں نے اپنے ساتھ ساتھ مریضوں کو بھی خطرے میں ڈالا۔

صحافی بینیظر شاہ نے لکھا کہ ’ایک ایسے وقت میں جب ملک کورونا کی تیسری لہر کی زد میں ہے اور تمام تر سرکاری ہدایات یہ ہیں کہ غیر ضروری نقل و حرکت سے بچا جائے اور گھروں میں رہا جائے، کیا وزیرِاعظم کے لیے ایک انتہائی رسک والے کورونا وارڈ کا یوں دورہ کرنا موزوں ہے؟‘

عائشہ اعجاز خان نامی صارف کو بھی وزیرِاعظم عمران خان کے اس اقدام پر حیرت ہوئی تھی۔ وزیرِاعظم کی ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے سوالیہ انداز اپنایا۔

‘کیا؟ وزیرِاعظم نے کووڈ وارڈ کا دورہ کیا؟ انھیں (مریضوں) کو اس وقت علیحدگی میں ہونا چاہیے اور کوئی ان سے ملے نہیں۔ اس فرسودہ چال سے جانوں کا زیاں ہو گا کیونکہ لوگ یہ سمجھیں گے کہ اگر وزیرِاعظم دورہ کر سکتا ہے تو ان کے رشتہ دار کیوں نہیں؟

کیا وزیرِاعظم نے رسک لیا؟

پمز ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر منہاج السراج کے مطابق ایک ڈاکٹر ہونے کے ناتے انھیں اس بات کا علم تھا کہ وزیرِاعظم عمران خان حال ہی میں کورونا سے صحتیاب ہو چکے تھے اس لیے ان کے جسم میں بیماری کے خلاف مدافعت پائی جاتی تھی۔

’اس کے علاوہ انھیں ویکسین بھی لگ چکی تھی۔ اس لیے بظاہر ذاتی طور پر انھیں کوئی فوری خطرہ لاحق نہیں تھا۔ اس کے باوجود بھی ہم نے یقینی بنایا تھا کہ وہ تمام تر حفاظتی انتظامات کے ساتھ ہی وارڈ میں جائیں۔ ان کے ساتھ آنے والے سینیٹر فیصل جاوید کو بھی پی پی ایز پہنائی گئیں تھیں۔‘

ان کا کہنا تھا کیونکہ وزیرِاعظم بغیر پروٹوکول کے ہسپتال آئے تھے اس لیے ان کے لیے سماجی فاصلے کے اصول پر عملدرآمد بھی آسان تھا اور مریضوں کے لیے بھی پریشانی کا باعث نہیں بنا۔

’پہلے سے طے شدہ دوروں سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘

وزیرِاعظم عمران خان کے اس اقدام پر تنقید کرنے والے صارفین کو لگتا ہے کہ ’اس قسم کے دورے زیادہ تر نمائشی نوعیت کے ہوتے ہیں۔‘

چند صارفین نے وزیرِاعظم کو مشورہ دیا کہ وہ ہسپتال کے دیگر شعبہ جات یا ملک کے بڑے شہروں کے ہسپتالوں کا رخ کریں اگر وہ واقعتاً حقیقت جاننا چاہتے تھے۔

احمد فراز نامی صارف کے مطابق ’اگر انھیں دورہ کرنا ہی تھا تو وہ لاہور کے سروسز، جناح یا دوسرے ہسپتالوں کا دورہ کریں جن پر (کورونا کے مریضوں) کا دباؤ زیادہ ہے، تا کہ انھیں زمینی حقائق کا علم ہو پائے۔ نئی بنی عمارتیں اور پہلے سے طے شدہ دوروں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘

محمد ذیشان اعوان نامی ایک صارف نے وزیرِاعظم کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ ’وہاں ٹیسٹ کے وقت بھی دیکھنا تھا کہ کیا حالات ہیں، کتنے لوگوں کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں اور انھیں کتنا انتظار کروایا جاتا ہے۔‘

چند صارفین کے مطابق اس طرز کے دورے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ’وزیرِاعظم صاحب یہ وہی شہباز شریف صاحب والا انداز ہے۔ اس انداز کے بجائے دو رس، دانشمندانہ، قابلَ عمل پالیسیاں زیادہ بہتر ہوں گی۔‘

تاہم ویڈیو پر تبصرہ کرنے والے زیادہ تر صارفین کے لیے وزیرِاعظم کا ان حالات میں کسی ہسپتال کے کورونا وارڈ کا دورہ کرنا احسن اقدام تھا جس سے ’فرنٹ لائن پر کام کرنے والے‘ تمام افراد کی حوصلہ افزائی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32468 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp