آئی جی پنجاب سے ایک مکالمہ


پولیس میں اصلاحات ہمیشہ سے ایک اہم ایجنڈا رہا ہے۔ جو بھی حکومت ہوتی ہے وہ پولیس کے نظام میں اصلاحات پر زور تو بہت دیتی ہے مگر عملی طور پر اس نظام کی بہتری میں کوئی بڑی کارکردگی دکھانے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پولیس کا مجموعی نظام عوامی و سیاسی توقعات کے برعکس ہی رہا ہے۔ پاکستان میں اگر ہم ادارہ جاتی سطح پر لوگوں میں موجود تصورات کو جاننے یا جانچنے کی کوشش کریں تو ہمیں عملاً سب سے زیادہ شکایات پولیس کے نظام کے تناظر میں ہی سننے کو ملتی ہیں۔

پولیس کے نظام کی بہتری میں دو سطحوں پر مسائل ہیں۔ اول داخلی اور دوئم خارجی محاذ پر۔ عمران خان کی حکومت جو بنیادی طور پر اصلاحات کے ایک بڑے ایجنڈے کے ساتھ حکومت میں آئی تھی او راس میں پولیس کا شعبہ بھی سرفہرست تھا۔ عمران خان حکومت میں آنے سے قبل بھی پولیس ریفارمز اور بالخصوص اپنی صوبائی حکومت خیبر پختونخوا میں اپنی پولیس کی کار کردگی کو مثال بنا کر پیش کرتے تھے۔

عمومی طور پر ہم جب پولیس کے نظام کا جائزہ لیتے ہیں تو اس میں سب سے زیادہ زیر بحث نکتہ اس نظام میں سیاسی مداخلتوں، سازگار ماحول کا نہ ہونا، پولیس تشدد، جرائم پیشہ افراد اور پولیس کے درمیان گٹھ جوڑ، جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی پر دی جاتی ہے۔ پاکستان میں کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جہاں مسائل نہ ہوں۔ مسائل کا ہونا ایک فطری امر ہوتا ہے۔ اہم بات ادارہ جاتی سطح پر مسائل کی سمجھ بوجھ، ادراک اور اسے حل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔

کیونکہ جب تک ہم مسائل کو مسئلہ نہیں سمجھیں گے اصلاحات کا عمل پس پشت ہی رہتا ہے۔ دنیا میں آج کل پولیس کے نظام کو موثر او راس نظام میں شفافیت کو پیدا کرنے کے لیے نئے نئے جدید طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ ان میں کمیونٹی پولیس، ٹیکنالوجی کا استعمال، شہریوں اور پولیس کے نظام میں اعتماد کی بحالی کے لیے نئے طور طریقے، مقدمہ کی تفتیش کے لیے جدید طریقہ کار، اسی طرح بے جا پولیس تشدد کی بجائے نفسیاتی طور پر ملزموں سے تفتیش کا نظام شامل ہے۔

پچھلے دنوں آئی جی پنجاب انعام غنی سے ایک فکری نشست کا موقع ملا۔ اس نشست میں دیگر صحافیوں میں منصور اعظم قاضی، شہزادہ عرفان، احسن ضیا، اسد اللہ خان، دردانہ نجم، عمار چوہدری شامل تھے۔ آئی جی پنجاب انعام غنی ایک پروفیشنل پولیس افسر ہیں اور پچھلے سات ماہ سے پنجاب پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ان کے بقول وہ تسلیم کرتے ہیں کہ معاشرے میں پولیس او راس کے نظام کے بارے میں مجموعی طور پر اچھے تصورات موجود نہیں۔

اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سب سے مشکل کام بھی ہے اور چیلنج بھی رکھتا ہے۔ کیونکہ روزمرہ کے معاملات میں عام آدمی کا پولیس کے نظام سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس تعلق میں ہر فرد کی توقعات پر پورا اترانا او رجب آپ پر چاروں طرف سے تنقید بھی ہو رہی ہو تو اس نظام کی ساکھ کو قائم کرنا مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ آئی جی پنجاب کے بقول ہم محض میڈیا میں اپنی تشہیر کر کے ساکھ قائم نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ہماری ساکھ براہ راست ہماری کارکردگی سے جڑی ہوتی ہے او راس کارکردگی یا عوامی توقعات پر پورا اتر کی ہی ہم اپنی ساکھ قائم کر سکتے ہیں۔

وہ تسلیم کرتے ہیں کہ پولیس کے نظام میں خرابیاں ہیں اور ان کو دور کرنا ہماری بنیادی ذمہ داریوں کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن اسی پولیس کے نظام میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو عوام کی جان و مال کے تحفظ کی جنگ بھی لڑتے ہیں اور اس میدان میں شہادت کا رتبہ بھی پاتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے لوگ پولیس کے نظام کی خرابیوں کو تو خوب اجاگر کرتے ہیں لیکن اسی نظام میں جو لوگ بہتر کارکردگی کے ساتھ پولیس شعبہ کو جو عزت و احترام دیتے ہیں یا اپنی جانوں کا نذرانہ دیتے ہیں ان کی پذیرائی کرنے میں ہم کنجوسی پن مظاہرہ کرتے ہیں۔

پولیس کے نظام پر ضرور تنقید ہونی چاہیے لیکن جب یہ ہی نظام میں موجود کوئی بھی فرد یا ادارہ اچھا کام کرے تو اس کی پذیرائی ضرور ہونی چاہیے۔ کیونکہ پولیس کے لوگوں میں یہ گلہ پایا جاتا ہے کہ پورے پولیس نظام کو ایک ہی انداز میں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے پولیس میں اچھا کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔

آئی جی پنجاب انعام غنی کے بقول اس وقت ہماری پوری کوشش ہے کہ ہم پولیس اور عوام میں جو فاصلے پائے جاتے ہیں ان کو ہر سطح پر کم کیا جائے۔ ہماری کوشش ہے کہ پولیس اور شہریوں کے درمیان باہمی رابطوں کو موثر بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا جائے اور ایسی ایپس متعارف کروائی جائیں جو لوگوں کی پولیس نظام میں رسائی کے عمل کو زیادہ سے زیادہ آسان اور قابل قبول بنائے۔ ان کے بقول آپ اب اگر پولیس اسٹیشن کا دورہ کریں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ ہم ٹیکنالوجی کے استعمال کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اس میں تواتر کے ساتھ نئی نئی اصلاحات متعارف کروائی جا رہی ہیں۔ ان کے بقول اب پوری دنیا میں پولیس کے نظام میں جو بڑی مثبت تبدیلیاں سامنے آ رہی ہیں ان میں ٹیکنالوجی کا بڑا حصہ ہے۔ یعنی ہمیں پورے پولیس کے مجموعی نظام کو آئی ٹی سے جوڑنا ہوگا او راس کے لیے پولیس کے لوگوں کو بھی جدید ٹیکنالوجی سے استعمال کی طرف لانا ہوگا۔

آئی جی پنجاب انعام غنی نے پچھلے دنوں ایک بڑے قدم کے طور پر ان تمام ایس ایچ اوز کو جن کے خلاف کسی بھی قسم کے کریمنل مقدمات ہیں ان کو کسی تھانے کا ایس ایچ او نہ لگایا جائے کا قدم اٹھایا۔ یہ واقعی ایک بڑی پیش رفت ہے ان کے بقول اس پر ان کو اپنے داخلی نظام میں کافی مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اسے آپ پولیس کے داخلی احتسابی نظام کی طرف ایک بڑا قدم کہہ سکتے ہیں اور یہ محض ایس ایچ اوز تک ہی محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ دیگر افسران تک بھی اس کا اطلاق بڑھنا چاہیے۔

پولیس کے نظام کی نچلی سطح پر شفافیت کے سوال پر پولیس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے اور ہمارا نظام نچلی سطح تک یعنی گاؤں اور محلہ کی سطح پر موجود ہے۔ لیکن اس کے لیے ہمیں بہت زیادہ وسائل، جدید تربیت سے جڑے معاملات، پولیس کی نگرانی کا شفافیت پر مبنی نظام درکار ہے۔ کیونکہ محض لاہور سے بیٹھ کر پورے صوبہ کی نگرانی خود ایک چیلنج ہے۔ لیکن اب جو اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں تھانوں کی سطح پر اس سے یقینی طور پر لوگوں کا پولیس پر اعتماد بڑھ رہا ہے لیکن یہ ایک مشکل کام ہے جسے ہم نے چیلنج سمجھ کر قبول کیا ہے۔

تحریک لبیک کے حالیہ احتجاج کی لہر میں پولیس نے بہت زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہے کہ ہم نے اس انداز میں اپنی حکمت عملی ترتیب دی جس سے لاہور کے نظام کو مکمل طور پر مفلوج کرنے کی کوششوں کو ناکام بنایا۔ اگرچہ سوشل میڈیا پر بلاوجہ ہراس کی کیفیت پیدا کی گئی مگر عملی طور پر پولیس کی مجموعی کارکردگی اس بحران سے نمٹنے میں کامیاب رہی اور ہم نے کسی بھی سطح پر ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں ہونے دیا۔

آئی جی پنجاب نے اعتراف کیا کہ پولیس میں جو نئی بھرتیاں اور نئے افسران آرہے ہیں وہ بہت زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں اور کچھ کرنے کا جذبہ بھی ان میں موجود ہے۔ اس لیے آپ اگلے چند برسوں میں دیکھیں گے کے پولیس کے نظام میں آپ کو اور زیادہ مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ ہماری کوشش ہے کہ لوگوں کو واقعی عملی طور پر محسوس ہو کہ آنے والے دنوں میں پولیس کا انفرادی فرد اور خود ادارہ بھی لوگوں میں دی جانی والی سہولیات کے تناظر میں خود کو مثالی ادارہ کے طور پر پیش کرسکے۔ ان کے بقول پولیس کا کام پالیسی بنانا نہیں بلکہ ان پالیسیوں پر عمل درآمد کے نظام کو شفاف بنانا ہے۔ اگر ہم بطور پولیس ادارہ اس شفافیت کو قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو اس سے پولیس اور شہریوں کے درمیان نئے تعلقات دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments