سوئز کینال


قرآن مجید مستقبل کی عالمگیر علامات سے بھر پور ہے۔ سورة الرحمان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وہ دو سمندروں کو ملا دے گا جو بڑھ بڑھ کر ایک دوسرے سے ملیں گے۔ (سر دست) ان کے درمیان ایک روک ہے (جس سے ) وہ تجاوز نہیں کر سکتے۔ پس (اے جن و انس) تم دونوں اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے۔ دونوں میں سے موتی اور مرجان نکلتے ہیں۔ (سورة الرحمان 19۔ 22 ) قرآن کریم کے الفاظ موجودہ زمانے میں بے مثال انداز میں نہر سویز اور نہر پانامہ کی صورت میں پورے ہوتے نظر آتے ہیں۔

بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کے درمیان آبی گزرگاہ کی انسانی خواہش تو صدیوں پرانی تھی۔ سولہویں صدی میں عثمانی ترکوں نے بھی ایسا سوچا تھا۔ پھر 1798 ء میں نیپولین کے دور میں فرانسیسی ماہرین تعمیرات بھی مصر گئے تھے مگر انہوں نے اس کو ناقابل عمل قرار دیا۔ اس کے بعد برطانوی ماہرین کا تجربہ اور اس کا نتیجہ بھی ایسا ہی رہا تھا۔

بالآخر انیسویں صدی میں یہ کامیابی ایک فرانسیسی شخص فرڈینانڈ دے لیسیپ (Ferdinand de Lesseps) کو ملی جس نے اس جگہ نہر بنانے کا منصوبہ بنایا اور اس کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ نہر سوئز کی تعمیر 1859 میں شروع ہو اور 17 نومبر 1869 کو اس کا باقاعدہ طور پر افتتاح ہوا۔ ابتدائی تعمیر کے بعد سوئز کینال کی متعدد بار توسیع اور مرمت ہوئی۔ توسیع کے بعد نہر کی موجودہ لمبائی 193.3 کلو میٹرز اور کم از کم چوڑائی 205 میٹر ہے اور اس کی گہرائی 24 میٹر ہے۔

سوئز سے لے کر بحر روم تک یہ نہر تین جھیلوں سے گزرتی ہے۔ اس نہر کی تعمیر سے مشرق و مغرب کے مابین تجاری سفر میں ایک انقلاب پیدا ہو گیا۔ اس سے قبل مشرق سے یورپ اور امریکا کی طرف جانے والے جہاز براعظم افریقہ کے چکر لگا کر اپنی منزل مقصود تک پہنچتے تھے۔ مگر نہر کی تعمیر کے بعد یہ سمندری سفر تقریباً 8900 کلو میٹرز کم ہو گیا۔ سوئز کینال میں پاناما کینال کے برعکس لاک سسٹم نہیں ہے۔ جہاز کو نہر سے گزرنے کے لئے 12 سے 16 گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔

مصر میں سوئز کینال کے مقام دریائے نیل اور بحر احمر کو ملانے کے لئے نہر بنانے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ بعض روایات کے مطابق عیسوی سن سے قبل فراعین مصر کے زمانہ میں بھی مصر میں دریائے نیل سے مشرق میں موجود Great Bitter Lake تک نہر کی تعمیر کی گئی تھی جس کا مقصد ارد گرد کے علاقہ میں آب پاشی کرنا تھا بعد میں آنے والے بادشاہوں کے زمانے میں اس نہر کو بحر احمر سے جوڑ دیا گیا تاکہ سیلاب کے دنوں میں کشتی کی مدد سے سمندر تک بھی رسائی ممکن ہو سکے۔ اس کو Canal Of Pharaohsکہا جاتا تھا۔ ایک روایت یہ بھی اسی نہر کو دارا اول کے زمانہ میں دوبارہ بھی تعمیر کیا گیا تھا اور پہلے سے بہتر بنایا گیا تھا۔ بعد میں آنے والے زمانے میں یہ نہر معدوم ہو گی۔

اسلامی روایات کے مطابق خلافت راشدہ کے زمانہ میں عرب میں قحط پڑنے کی وجہ سے حضرت عمرؓ نے مصر کے گورنر عمر بن العاص کو حکم دیا کہ وہ مصر سے غلہ بھجوائیں۔ زمینی راستہ کی طوالت کی وجہ سے دریائے نیل سے بحر احمر تک ایک نہر بنائی گی اور اس کے ذریعہ آسانی سے غلہ عرب بھجوایا جانے لگا۔ اس کو نہر امیر المؤمنین کہا جاتا تھا۔ چند روایات اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ خلافت عمرؓ کے زمانے میں دریائے نیل سے بحر احمر تک بنایا جانے والا یہ راستہ آٹھویں صدی عیسوی تک زیر استعمال رہا۔ بعد میں عباسی خلیفہ المنصور نے سیاسی اور فوجی وجوہات کی بنا پراس کو بند کروا دیا۔ ممکن ہے کہ اس زمانہ میں کوئی ایک ایسی نہر یا دریائی گزر گاہ، اس علاقہ میں پہلے سے تعمیر شدہ ہو اور حضرت عمرؓ کے حکم پر اس کی صفائی وغیرہ کروا کر زیر استعمال لا یا گیا ہو۔

سولہویں صدی میں عثمانی بادشاہ (مصر سلطنت عثمانیہ کے ماتحت تھا) نے بحر روم سے بحر احمر تک سمندری راستہ بنانے کا ارادہ کیا مگر منصوبہ کی بے تحاشا لاگت کی وجہ سے اس کو ترک کرنا پڑا۔ یورپی حکمرانوں میں سے نپولین بونا پارٹ پہلا شخص تھا جس نے اس جگہ سمندری گزر گاہ بنانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ نپولین کے دور میں فرانسیسی ماہرین تعمیرات اور انجینئرز نے اس علاقہ کا سروے کرنے اور اپنے ابتدائی تعمیراتی تخمینے لگا کر یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ایسا کوئی بھی منصوبہ حقیقت پسندانہ نہیں ہو گا۔ اس پر یہ منصوبہ ترک کر دیا گیا۔

1854 میں اس منصوبے پر عملی پیش رفت فرڈینانڈ دے لیسیپ (Ferdinand de Lesseps) نے کی۔ اس نے مصری حکمران محمد سعید سے اس علاقہ میں سروے کرنے اور ایک سمندری گزر گاہ تعمیر کرنے کے لئے رضامندی حاصل کی۔ پھر اس مقصد کے لئے 15 دسمبر 1858 کو سوئز کینال کمپنی کی بنیاد رکھی۔ ابتدا ء میں برطانوی حکومت اس منصوبہ کے خلاف تھی کیونکہ اس سے بحر ہند میں ان کی تجارت اور فوجی تسلط کو زک پہنچنے کا خطرہ تھا۔ بعد ازاں اس کمپنی میں فرانس اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد نے شیئرز خرید لئے۔

کئی مشکلات سے گزرنے کے بعد 25 اپریل 1859 کو اس منصوبہ پر عملی کام شروع ہوا۔ شروع میں اس نہر کی تعمیر کے لیے شروع میں ہزاروں یورپی کارکن وہاں لائے گئے تھے۔ جب وہ بھی کم پڑ گئے، تو محمد سعید نے 1861 ء میں بالائی مصر سے مزید تقریباً 10 ہزار کارکنوں کو زبردستی بلوایا، جنہوں نے اس منصوبے میں مدد کی۔ اس کے ایک سال بعد اس پروجیکٹ پر کام کرنے کے لیے مزید 18 ہزار کارکن بلانا پڑے تھے۔ نہر کی تعمیر کی دوران ہزاروں کی تعداد میں مزدور جاں بحق بھی ہوئے۔ 17 نومبر 1869 کو فرانسیسی حکومت کے تحت اس کا افتتاح ہوا۔

1870 ء میں اس آبی راستے سے 486 بحری جہاز گزرے تھے، جن میں تقریباً ً 27 ہزار مسافر سوار تھے۔ 1913 ء میں ان بحری جہازوں کی تعداد تقریباً ً 5100 ہو گئی تھی، جس میں سفر کرنے والے مسافروں کی تعداد بھی تقریباً ً دو لاکھ 35 ہزار بنتی تھی۔ 1966 میں یہاں سے گزرنے والے جہازوں کی تعداد 21250 تھی۔

تعمیر کے بعد سے اس نہر کی ملکیت زیادہ تر برطانوی فرانسیسی کمپنی سوئز سوسائٹی کے پاس تھی۔ جولائی 1956 میں مصر کے صدر جمال عبد الناصر نے سوئز نہر کو سوئز کمپنی سے لے کر ریاستی ملکیت (Nationalized) میں لے لیا۔ اس پر مصر میں بہت زیادہ خوشیاں منائی گئی تھیں لیکن یورپ میں اس اقدام پر نا امیدی کا اظہار کیا گیا تھا۔ مذاکرات کی ناکامی کے بعد فرانس، برطانیہ نے اسرائیل کی مدد سے مصر پر حملہ کر دیا اور سوئز کینال والے علاقہ پر قبضہ کر لیا۔

جس کے بعد معاملہ ایک تنازعے کی صورت میں جب اقوام متحدہ میں پہنچ گیا، تو امریکا اور سابقہ سوویت یونین کے مشترکہ دباؤ کے باعث فرانسیسی، برطانوی اور اسرائیلی دستے اس مصری علاقے سے واپسی پر مجبور ہو گئے تھے۔ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران ایک مرتبہ پھر یہ کینال بند کر دی گئی اور پھر 1975 میں دوبارہ یہ نہر آمد و رفت کے لئے کھول دی گئی۔

2014 میں مصر کے صدر نے نہر سوئز کو مزید چوڑا کرنے اور ایک بائی پاس بنانے کے منصوبے کی منظوری دی تاکہ ایک ہی وقت میں بڑے جہاز آ اور جا سکیں۔ اس منصوبہ پر کام 2015 ء میں مکمل ہو گیا تھا۔ اس کے بعد سے اس آبی راستے کی ٹرانسپورٹ کی اہلیت بھی تقریباً ً دگنی ہو چکی ہے۔ پہلے اگر روزانہ تقریباً ً 49 بحری جہاز ہی اس نہر سے گزر سکتے تھے، تو آج یہ تعداد 100 ہو گئی ہے۔

یہ آبی راستہ آج بھی مصر کے لیے آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ سال 2020 میں اس نہر سے مصر کو حاصل ہونے والی آمدنی 5.61 بلین امریکی ڈالرز تھی۔ جبکہ اس نہر سے گزرنے والے جہازوں کی تعداد 18829 تھی اور تقریباً 1.19 بلین ٹن کارگو سامان اس نہر سے گزرا۔

نہر سوئز آج بھی مشرق اور مغرب کے درمیان تجارت کا اہم ذریعہ ہے۔ آج دنیا کی 12 فیصد تجارت سوئز کینال سے ہوتی ہے اور تقریباً 9 ارب ڈالرز کا سامان روزانہ اس سے گزرتا ہے۔ شروع میں اس نہر کو ’ہائی وے آف دا برٹش ایمپائر‘ کا نام دیا گیا تھا اور اس کی وجہ سے لندن اور ممبئی کے درمیان سمندری فاصلہ تقریباً ً 20 ہزار کلومیٹر سے کم ہو کر ساڑھے گیارہ ہزار کلومیٹر رہ گیا تھا۔ اس سے جہاز رانی کی بین الاقوامی صنعت کو بھی بہت ترقی ملی تھی۔

نہر سوئز کی تعمیر کے منصوبے نے اس دور کے مصر کو بھی بہت زیادہ بدل دیا تھا۔ اس نہر کے کنارے آباد ہونے والے شہروں میں سے پورٹ سعید ایک ایسا بڑا تجارتی مرکز بن گیا، جس کا رابطہ باقی ماندہ ساری دنیا کے تجارتی نیٹ ورک سے قائم ہو گیا تھا۔ نہر سوئز مصر کے لیے شروع سے ہی قومی اہمیت کی ایک علامت ہے اور قاہرہ اسے اپنی ریاستی پیش رفت کا استعارہ بھی سمجھتا ہے۔ نہر سوئز کے افتتاح کے موقع پر مصری حکمران اسماعیل پاشا کی طرف سے 17 نومبر 1869 ء کے روز کہی جانے والی بات آج سچ ثابت ہو گئی کہ ”میرا ملک اب صرف افریقہ کا حصہ نہیں رہا۔ میں نے اسے یورپ کا حصہ بھی بنا دیا ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments