یروشلم میں دہشت گردی اور ملالہ کا ٹویٹ


رمضان کے مقدس مہینے میں فلسطین کے مسلمانوں پر اسرائیل کی جانب سے دہشتگردی کی بزدلانہ کارروائیاں پچھلے چند روز سے جاری ہیں۔ جن میں بچوں سمیت بہت سے معصوم مسلمان شہری شہید ہو چکے ہیں۔ میرا یہ مطالبہ ہے کہ یہ دہشت گردی بند کی جائے اور فلسطین پر ناجائز اسرائیلی قبضہ ختم کر کے آزاد، خودمختار اور جمہوری فلسطینی ریاست قائم کی جائے

یہ وہ ٹویٹ ہے جو مجھ سمیت بہت سے پاکستانیوں کی دلی خواہش ہے کہ نوبل انعام ملالہ یوسف زئی کو کرنا چاہیے تھا۔ یہ ان تمام لوگوں کی بھی خواہش ہے جو پہلے سوشل میڈیا پر آواز بلند کر رہے تھے کہ ملالہ خاموش کیوں ہے؟ پھر جب ملالہ کا ٹویٹ آیا تو یہ بحث شروع ہوئی کہ اس میں یہ یہ الفاظ غلط ہیں۔ اس میں لفظ دہشت گردی استعمال نہیں کیا گیا، اس میں لفظ ”بچے“ کیوں لکھا، مسلمان کیوں نہیں؟ لفظ ”قبضہ“ کیوں نہیں لکھا؟ وغیرہ وغیرہ۔

میں خود سے اور ان تمام لوگوں سے چند سوالات پوچھنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں جو پورے ذوق و شوق سے ملالہ کے ٹویٹ کا پوسٹ مارٹم کر کے اپنی تجزیاتی مہارت کا بھر پور استعمال کر رہے ہیں۔ اگر ملالہ اوپر دیا گیا فرضی ٹویٹ کر دیں تو کیا ہم سب ناپسندیدگی کا وہ عنصر ختم کر دیں گے جو ہمارے دلوں میں ملالہ کے لیے ہے؟ کیا ملالہ کی بچوں کی تعلیم کے لیے جاری جدوجہد کو جائز قرار دیا جائے گا اور اس کو ملنے والے نوبل انعام کو پذیرائی ملے گی؟

کیا پھر یہ حقیقی معنوں میں تسلیم کر لیا جائے گا کہ ملالہ یہودیوں کی ایجنٹ نہیں ہے اور سچی مسلمان اور پاکستانی شہری ہیں؟ اس کی لکھی ہوئی کتاب کسی یہودی نے نہیں لکھی ہے؟ یہاں تک کہ ملالہ کے سر میں واقعی طالبان نے گولی ماری تھی اور یہ سب مغرب کا ڈرامہ نہیں تھا؟ اگر ملالہ اوپر دیا گیا فرضی ٹویٹ کر دیں تو کیا ابھی تک کی ان کی تمام باتیں، تقریریں، انٹرویوز اور ملنے والے انعامات ٹھیک اور جائز ٹھہریں گے؟

سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب ممکن ہے تو سوشل میڈیا پر بے عزتی کرنے کی بجائے کوئی ملالہ کو پرائیویٹ خط کیوں تحریر نہیں کرتا؟ اگر یہ سب ممکن نہیں تو ملالہ کچھ بھی کہے یا بالکل بات نہ کرے تو ہمیں کیوں فرق پڑتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ملالہ اہم ہیں، ان کا ٹویٹ اور بولنا بھی اہم ہے۔ مگر ہم چاہتے ہیں کہ ملالہ وہ بولے جو ہم چاہیں، ہم اسے اہمیت چاہے نہ دیں مگر اس کے منہ میں ہمارے الفاظ ہوں، جدوجہد بھی وہ کرے، اپنے ہی ہم وطنوں سے گالیاں بھی کھائے مگر بولے وہ جو ہم چاہیں۔

خدا کے لیے منافقت چھوڑیں، ملالہ کو ملالہ رہنے دیں، باقیوں کو باقی رہنے دیں، فلسطینی عظیم جدوجہد کر رہے ہیں، قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں، اس لیے وہ بھی آج یا کل ضرور سرخرو ہوں گے۔ ہم مسجد اقصیٰ میں ہونے والی دہشت گردی پر دکھ میں ہیں اور بھر پور مذمت بھی کرتے ہیں، مگر ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا نہیں بھولنا چاہیے، ملالہ کو برا بھلا کہنے سے پہلے محترم لیاقت بلوچ کے ٹویٹس کو غور سے پڑھیں اور سمجھ بھی سکیں تو بہت اچھا ہے۔ بلاشبہ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments