12 مئی کا کراچی: ’وہ دن جب کسی حملہ آور کو کوئی ڈر نہیں تھا‘

جعفر رضوی - صحافی


مشتعل افراد اپنے حریفوں پر پتھراؤ کرتے ہوئے

‘گولی اس کے گلے میں لگی تھی۔ اِس حالت میں بھی اُس نے زخم سے اُبلتا ہوا خون روکنے کے لیے اپنا ہاتھ گردن پر رکھا ہوا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ جان بچانے کے لیے اُس کی مدد کروں مگر مسلسل گولیاں چل رہی تھیں۔ نہ تو خود میری جان محفوظ تھی نہ ہی اس کے پاس کوئی امید یا ذریعہ کہ میں اُسے بچانے کی کوشش کر سکتا۔’

12 مئی 2007 کو کراچی میں ہونے والی قتل و غارت گری کی منظر کشی کرتے ہوئے پاکستانی ٹی وی چینل جیو نیوز سے وابستہ صحافی قاضی حسن تاج کا لہجہ، 14 برس بعد بھی جذبات سے بھرپور ہے۔

قاضی حسن اُن بہت سے صحافیوں، عینی شاہدین، سیاسی رہنماؤں اور تجزیہ نگاروں میں شامل ہیں جن سے اُس دن کی روداد اور یہ کہانی اب دوبارہ لکھنے کے لیے طویل گفتگو ہوئی۔

اور پھر جو الزامات، تجزیے یا دعوے اس تحقیق میں اب سامنے آئے اُن پر جواب اور موقف لینے کی خاطر خود سابق چیف جسٹس اور اپنی سیاسی جماعت بنا لینے والے افتخار محمد چوہدری سے بھی کئی ہفتوں تک رابطے کی متواتر کوششیں کی گئیں مگر وہ دستیاب نہ ہوسکے۔

الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ کے اُس دھڑے، جسے اب ایم کیو ایم لندن کہا جاتا ہے، کے ترجمان مصطفیٰ عزیز آبادی نے اُن تمام الزامات کو رد کیا ہے جو سیاسی رہنماؤں، صحافیوں یا تجزیہ نگاروں نے عائد کیے اور اس واقعے یا اس سے جُڑے تمام واقعات کو اپنی تنظیم کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔

اب ایم کیو ایم (بہادر آباد دھڑے) سے وابستہ کراچی کے سابق میئر وسیم اختر 12 مئی 2007 کو وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیرِ داخلہ تھے اور انھوں نے بھی اُس وقت اپنے کردار اور حکومتی اقدامات کا دفاع کیا۔

12 مئی 2007 کے جس واقعے کے بارے آپ یہ داستان پڑھ رہے ہیں اُس روز پاکستان کے (اُس وقت) معزول کر دیے جانے والے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری (اُس وقت کے) فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے حکم پر اپنی معطلّی کے خلاف کراچی میں، وکلا اور قانون دانوں کے جلسے میں شرکت کرنا چاہتے تھے۔

اس دوران شہر میں دن بھر لاقانونیت، بدترین تشدد اور بھیانک قتل و غارت بھی جاری رہی اور مختلف واقعات میں کم از کم 48 افراد قتل ہوئے۔ سیاسی حلقے مقتولین کی تعداد 56 یا اُس سے بھی زیادہ بتاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

12 مئی، کراچی کی سیاست کا ‘ٹرننگ پوائنٹ’

اُس ایک ہی دن میں ڈھائی سے تین سو کے لگ بھگ افراد گولیاں لگنے یا دیگر پرتشدد حملوں کی وجہ سے زخمی ہوئے جن میں دعووں کے مطابق پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم سمیت کئی سیاسی جماعتوں کے کارکنان شامل تھے۔

مسلّح جتھوں کے ہاتھوں پورا شہر یرغمال دکھائی دیا اور تقریباَ ہر اہم شاہراہ پر اور ہر علاقے میں شہری زندگی دن بھر مفلوج رہی۔ عینی شاہدین اور ذرائع ابلاغ کے مطابق پولیس، انتظامیہ اور سرکاری ادارے بھی دن بھر جاری رہنے والی اس کشمکش کے دوران یا تو ‘منظر سے غائب’ رہے یا پھر ‘خاموش تماشائی’ کا کردار ادا کرتے رہے۔

اُس روز ہلاک و زخمی ہونے والوں کے نام تو پولیس کارروائی اور عدالتی مراحل میں سامنے آگئے مگر قاتل اس روز بھی ہمیشہ کی طرح ‘نامعلوم’ تھے اور آج بھی ‘نامعلوم’ ہی ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں تھا کہ پولیس، انتظامیہ یا ریاستی اداروں کو علم ہی نہیں تھا کہ شہر کی سڑکوں پر کون کس کو اور کیوں قتل کر رہا ہے۔

تحقیق کے دوران بی بی سی کو اس دن سے متعلق کراچی پولیس کے اُس وقت کے سربراہ کا ایک خفیہ مراسلہ ملا۔ سی سی پی او کے دفتر سے 11 مئی 2007 کو پولیس کی اعلیٰ قیادت کو بھیجے گئے اس مراسلے میں تمام متعلقہ حکام کو متنبہ کیا گیا تھا کہ جہاں ایک طرف حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں چیف جسٹس کا استقبال کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں وہیں ایم کیو ایم نے بھی جنرل مشرف کی جانب سے چیف جسٹس کے خلاف بھیجے جانے والے صدارتی ریفرینس کے ‘پولیٹیسائزڈ’ ہونے یعنی غلط انداز میں سیاسی مفاد کے لیے استعمال کیے جانے کے خلاف تبت سینٹر پر مرکزی جلسے اور شہر بھر میں جلوسوں کے انعقاد کا اعلان کر رکھا ہے۔

اس خط میں پولیس کے سربراہ نے خبردار کیا تھا کہ ‘اس موقع پر شہر میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ لہٰذا حکم دیا جاتا ہے کہ متعلقہ افسران چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت تمام انسانی جانوں کی حفاظت یقینی بنائیں اور ممکنہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے امن و امان برقرار رکھنے کی خاطر انتظامات و اقدامات کیے جائیں۔’

تاہم حیرت انگیز طور پر اس خط میں دو جگہ انتہائی پرزور انداز میں حُکام کو تنبیہ کی گئی کہ ‘جلسے، جلوس کے دوران کوئی بھی پولیس اہلکار کسی بھی طرح کے اسلحہ سے لیس نہیں ہو گا۔’ (یہ وہ نکتہ ہے جس پر متاثرہ سیاسی جماعتیں آج بھی سوال اٹھاتی ہیں۔)

پولیس سربراہ کے مراسلے سے واضح تھا کہ ریاست اور اُس کے تمام ادارے اس صورتحال اور ممکنہ لاقانونیت کے تمام خدشات سے بخوبی واقف تھے اور جانتے تھے کہ کون سی قوّتیں کیا کچھ کرسکتی ہیں۔

چلی ہوئی موٹر سائیکلیں اور پولیس اہلکار

جب چیف جسٹس کراچی پہنچے

چیف جسٹس افتخار چوہدری کا دورۂ کراچی اس تحریک کا ہی حصہ تھا جو ان کی عہدے سے معطلی کے بعد شروع ہوئی تھی اور ملک بھر میں وکلا تنظیموں نے فیصلہ کیا تھا کہ جسٹس افتخار چوہدری ملک میں مختلف بار ایسوسی ایشنز سے خطاب کریں گے۔ اسی سلسلے میں ملک کے کئی شہروں میں افتخار چوہدری کے ایسے ’طوفانی اور ہنگامی‘ دورے شروع ہوئے جس میں جج اور وکلا بھی شامل ہوتے چلے گئے اور اس ساری احتجاجی لہر نے ایک قسم کی مشرف مخالف سیاسی تحریک کا رخ اختیار کر لیا۔ لاہور ، ایبٹ آباد ، ساہیوال ، جیسے شہروں میں ایسے اجتماعات منعقد ہوتے رہے اور ایسے میں ہی 12 مئی کا وہ دن طلوع ہوا جب چیف جسٹس اسلام آباد سے کراچی کے ہوائی اڈّے تک تو پہنچ گئے تھے مگر شہر میں داخل ہونے کی اُن کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی ، یا “ناکام” بنا دی گئی۔ اسی روز جنرل مشرف نے اسلام آباد میں اپنا جلسہ کرنے کا اعلان کیا جس میں انہوں نے مکّے لہرا کر اپنی طاقت کا وہ اظہار کیا جو ذرائع ابلاغ کی توجّہ کا مرکز بنا۔ ادھر کراچی میں جنرل مشرف کی مخالف تمام سیاسی جماعتوں نے اعلان کیا کہ افتخار چوہدری کا استقبال جلوسوں کی شکل میں کیا جائے گا اور دوسری طرف الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ نے اعلان کیا کہ جسٹس چوہدری کے خلاف ریفرینس کے سیاست زدہ ہو جانے کے خلاف کراچی بھر میں جلسے جلوس منعقد کئے جائیں گے۔

قیوم صدیقی اُن صحافیوں میں شامل تھے جو جسٹس افتخار چوہدری کو کراچی لے جانے والے طیارے میں اُن کے ہمراہ تھے۔ ان کے مطابق جنرل مشرف کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا تھا کہ کسی بھی قیمت پر جسٹس افتخار چوہدری کو کراچی کے ہوائی اڈّے کی عمارت سے باہر نہیں نکلنے دیا جائے گا۔ ‘فیصلہ تھا کہ انھیں کراچی میں جہاز سے اترنے کے بعد ایئر لفٹ کر کے (یعنی ہیلی کاپٹر کے ذریعے) واپس اسلام آباد منتقل کر دیا جائے گا۔’

افتخار محمد چودھری

12 مئی کو افتخار محمد چودھری نے سندھ ہائی کورٹ بار کے 50 سالہ تقریب سے خطاب کرنا تھا

قیوم صدیقی نے بتایا کہ پی کے 301 جو افتخار چوہدری کو لے کر کراچی جا رہی تھی اُس کے مسافروں میں اکثریت وکلا کی تھی۔ ان کے بقول جب افتخار چوہدری اسلام آباد کے ہوائی اڈے پہنچے تو وہیں وکلا کی بڑی تعداد ان کے حق میں اور جنرل مشرف کے خلاف زبردست نعرے بازی کر رہی تھی۔

اسلام آباد کے ہوائی اڈّے پر خفیہ اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی بھی بڑی تعداد موجود تھی اور قیوم صدیقی کو یاد ہے کہ طیارے میں سوار ہونے سے پہلے ہی کراچی سے خبریں آنے لگیں کہ وہاں کیا صورتحال بن چکی ہے۔

‘جب جہاز کراچی کے ہوائی اڈے کے قریب تھا تو اچانک چوہدری افتخار نے میری طرف دیکھا اور پوچھا کہ ہاں بھئی قیوم کیا خبریں ہیں کراچی سے، کچھ پتا ہے کیا ہو رہا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ جیسے اتریں گے میں (کراچی کے ساتھیوں سے) آپ کو پوچھ کر بتاؤں گا۔

‘جب ہم اتر کر جہاز سے باہر آئے تو لاؤنج میں موجود کئی افراد نے افتخار چوہدری کو ایک جانب چلنے کو کہا مگر اعتزاز احسن چیف جسٹس کا ہاتھ پکڑ کر یہ کہتے ہوئے انھیں دوسری جانب لے گئے کہ آپ ان کے ساتھ نہ جائیں۔

‘باقاعدہ وہاں ایک دھکّم پیل یا دھینگا مشتی کی سی کیفیت تھی کہ سادہ لباس میں نامعلوم لوگ افتخار چوہدری کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے مگر اعتزاز احسن اور اطہر من اللّہ (موجودہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ) نے دیگر وکلا کے ساتھ مل کر باقاعدہ یہ کوشش ناکام بنا دی۔’

قیوم صدیقی کے مطابق پھر وکلا نے فیصلہ کیا کہ وہ اور چیف جسٹس ہوائی اڈّے کے سی آئی پی لاؤنج میں بیٹھ کر استقبال کے لیے آنے والے وکلا کا انتظار کریں گے۔

‘کچھ دیر میں سندھ کے ہوم سیکریٹری وہاں پہنچے اور انھوں نے افتخار چوہدری کو بتایا کہ باہر حالات بہت خراب ہیں لہٰذا ہم آپ کو باہر جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ وہ سیکریٹری صاحب غالباً کوئی ریٹائرڈ بریگیڈیئر تھے اور اُن سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر منیر ملک کی لفظی جھڑپ بھی ہوئی۔

‘باہر سے مختلف آوازیں بھی آتی رہیں۔ یوں لگتا رہا جیسے آس پاس کچھ ہو رہا ہے۔ ایک مرتبہ تو ایسا لگا کہ کچھ لوگ زبردستی ہوائی اڈّے کے اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ڈر تھا کہ کہیں فائرنگ یا حملے کا کوئی واقعہ وہاں ایئرپورٹ پر ہی نہ ہو جائے۔’

ایئرپورٹ کے باہر کیا ہو رہا تھا؟

مگر کراچی ایئرپورٹ کے باہر کیا ہو رہا تھا یہ بتایا کراچی میں تعینات جیو نیوز کے ایوی ایشن رپورٹر طارق ابوالحسن نے جو اس وقت وہیں موجود تھے۔

‘ہمیں اپنے دفتر میں ایک رات پہلے ہونے والے اجلاس کے دوران ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ آنے والی صبح کیا کچھ ہو سکتا ہے’۔

صحافیوں کے مطابق رات ہی سے شہر کے راستے اور بیشتر سڑکیں بند کر دی گئیں۔ 11 مئی کی شام ہی سے ایسا ماحول بن گیا جو ہُو کا عالم کہلاتا ہے اور عموماً ایم کیو ایم کی ہڑتال کے موقع پر ہوتا تھا۔

طارق ابوالحسن نے بتایا کہ ‘ہم نے رات کو ہی کیمرہ گاڑی کی ڈگی میں چھپا کر ایئرپورٹ جانے کی کوشش کی مگر کورنگی کاز وے کے قریب کچھ لوگ سڑک پر کھڑے تھے جنھوں نے ہمیں واپس کردیا کہ آپ آگے نہیں جا سکتے۔

‘ہم ملیر ندی کے کچے پکے راستے سے گزر کر رات قریباً تین بجے وائرلیس گیٹ پر پہنچے مگر راستہ پھر بند ملا اور پولیس کے ساتھ کچھ لوگ کھڑے تھے جنھوں نے پھر ہمیں آگے نہیں جانے دیا۔ بالآخر ہم اندرونی راستوں سے ہوتے ہوئے کسی نہ کسی طرح صبح سات بجے کے قریب کراچی ایئرپورٹ کے جناح ٹرمینل پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔’

طارق ابوالحسن نے بتایا کہ ‘تقریباً ساڑھے آٹھ بجے ہمیں پتا چلا کہ ملیر گوٹھ سے وکیلوں کا ایک قافلہ روانہ ہوا تھا جس پر ملیر پندرہ کے قریب حملہ ہوا ہے۔ جلوس میں شریک وکلا نے ہمیں فون کر کے بتایا کہ ان کے دو، تین ساتھی گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے ہیں۔

‘جب مختلف سمتوں سے ہم کو کئی مقامات سے دھواں اٹھتا نظر آیا تو اندازہ ہوا کہ اب شاہراہ فیصل پر گاڑیاں جلائی جا رہی ہیں۔ پھر ہر تھوڑی دیر بعد تشدد کی کوئی نہ کوئی خبر موصول ہوتی رہی تاہم حیرت انگیز طور پر ہوائی اڈّے یا اس کی عمارت کے آس پاس کہیں پولیس نظر نہیں آئی۔’

طارق کے مطابق ‘ساڑھے دس بجے کے لگ بھگ یہ اطلاع آئی کہ ملیر ہالٹ پر زبردست فائرنگ ہوئی ہے۔ پھر عوامی نیشنل پارٹی کے کچھ لوگوں نے ہم سے رابطہ کیا کہ اُن کے کچھ ساتھی اس حملے کا نشانہ بنے ہیں۔ جماعت اسلامی کے لوگوں کا فون آیا کہ وہ شاہ فیصل کالونی کے علاقے سے ایئرپورٹ پہنچنا چاہتے تھے اور اُن پر بھی حملہ ہوا ہے۔

‘گیارہ بجے کے قریب وکلا کا ایک گروہ کسی طرح ہوائی اڈّے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ ان وکلا نے وہاں پہنچتے ہی نعرے بازی شروع کر دی تو ایم کیو ایم کے کچھ لوگ جو پی آئی اے اور سول ایوی ایشن کے ملازمین تھے جماعت کے جھنڈے لیے موٹر سائیکلوں پر وہاں پہنچ گئے اور انھوں نے وہاں سے ان وکلا کو بھگا دیا۔ ہم بھی وہیں موجود تھے مگر کسی نے ہمیں کام کرنے سے نہیں روکا۔’

طارق ابوالحسن کے مطابق ‘انتظامیہ ہو یا پولیس اور رینجرز، کوئی ان واقعات کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہا تھا جو تب تک پوری شاہراہ فیصل پر پھیل چکے تھے۔’

جیو ٹی وی کے کیمرہ مین تاج اور اُن کے ڈرائیور بھی فائرنگ کی زد میں آئے جنھیں ‘معجزانہ’ طور پر بچایا جیو نیوز کراچی کے بیورو چیف فہیم صدیقی نے۔ وہ بتاتے ہیں ‘میں اس وقت خود شاہراہ فیصل پر تھا اور پیپلز پارٹی کی ایک ریلی پر مسلّح افراد کا حملہ دیکھ چکا تھا۔ یہ حملہ دو جلوسوں پر ہوا جن میں سے ایک کی قیادت پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو اور دوسرے کی قیادت شہلا رضا کر رہی تھیں۔’

فہیم کا کہنا ہے کہ درجنوں مسلّح افراد وہاں پہلے سے موجود تھے اور اس حملے میں دونوں جانب سے فائرنگ ہوئی اور کئی گاڑیاں جلا دی گئیں۔ فہیم کے مطابق اس تصادم کے وقت ایم کیو ایم کراچی کی تنظیمی کمیٹی کے اُس وقت کے سربراہ حماد صدیقی بھی وہیں موجود تھے۔

ایک زخمی سیاسی کارکن

اچانک آواز آئی کہ انھیں روکو، اس گاڑی میں اسلحہ ہے

یہ تفصیل بتاتے ہوئے فہیم صدیقی نے جو کچھ بتایا اسے شاید 12 مئی کو ہونے والے تشدّد کے سب سے بھیانک واقعات میں سے ایک قرار دیا جا سکتا ہے۔

‘تاج اور ڈرائیور دونوں ہی مختلف اطراف سے ہونے والی فائرنگ کے بیچ پھنس گئے اور اُن کے پاس کوئی چارہ نہیں بچا سوائے اس کے کہ فائرنگ کی وجہ سے رُک جانے والی ایک منی بس کے نیچے لیٹ کر جان بچائیں۔

‘تاج کی فون کال کے بعد دفتر نے مجھ سے رابطہ کیا۔ چونکہ حماد صدیقی وہیں تھے تو میں نے اُن سے کہا کہ ملیر میں ہمارا کیمرہ مین دونوں جانب سے فائرنگ میں گھر گئے ہیں پلیز آپ ہماری مدد کیجیے۔ حماد نے کسی سے بات کی اور مجھ سے کہا کہ اچھا آپ وہاں چلے جائیں۔ لوگ آپ کو جانتے ہیں اور آپ کی مدد کی جائے گی۔ آپ اپنے ساتھیوں کو خود لے آئیں۔

‘جب میں حماد صدیقی کے بتائے ہوئے مقام پر پہنچا تو آپ نے شاید فلموں میں تو دیکھا ہو گا کہ گاڑی میں مشین گن لگی ہوئی ہے اور اس کی گولیوں کا پٹّہ الگ لٹک رہا ہے مگر میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار یہ حقیقت میں دیکھا کہ ایک صاحب نے مشین گن اٹھائی ہوئی تھی اور دوسرے نے گولیوں کا پٹّہ سنبھالا ہوا تھا۔

‘گاڑی سے اترتے ہی ایک صاحب نے مجھے شناخت کر کے کہا کہ اچھا آپ اپنے لوگوں کو لینے آئے ہیں۔ وہ سامنے کھڑی منی بس کے نیچے آپ کے لوگ لیٹے ہوئے ہیں اُنھیں لے جائیں۔ انھیں فون کر دیں کہ نکل آئیں تب تک کوئی فائر نہیں ہو گا۔

‘میں نے تاج کو فون کیا تو وہ نکل کر آ گئے۔ جب وہ میرے پاس آئے تو تاج نے بتایا کہ منی بس میں اندر بھی کچھ لوگ ہیں اور ان میں سے کچھ زخمی بھی ہیں۔ میں نے وہاں موجود مسلّح افراد سے کہا کہ آپ ان لوگوں کو بھی جانے دیں تو ان مسلّح افراد نے کہا کہ اور بھی کوئی جانا چاہتا ہے تو چلا جائے۔ بس سے لوگ اترے تو مسلّح افراد نے ان کی تلاشی لے کے کر ایک ایک کر کے جانے دیا۔

‘بعد میں یہ ہوا کہ اسی منی بس سے اتر کر کچھ لوگ ایک گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے جانے لگے کہ اچانک آواز آئی کہ انھیں روکو۔۔۔انھیں روکو، اس گاڑی میں اسلحہ ہے۔

کراچی 12 مئی 2007

سڑکے کے درمیان کھلے دروازوں والی گاڑی اور اس کے گرد گری لاشوں کی تصویر 12 مئی 2007 کے ہنگاموں کی پہچان بن کر رہ گئیں

‘گاڑی میں چار لوگ سوار تھے، انھیں اتارا گیا اور ایک مسلّح شخص نے جس کے دونوں ہاتھوں میں اسلحہ تھا، دونوں ہاتھوں سے گولیاں چلا کر ہمارے سامنے ہی ان سب کو ختم کر دیا’۔ 14 برس بعد بھی یہ واقعہ بتاتے ہوئے فہیم صدیقی کے الفاظ اُن کے حلق میں اٹک کر رہ گئے۔

‘آپ نے شاید 13 مئی کے اخبارات میں اس کی تصویر دیکھی ہو گی (کہ ایک گاڑی کے باہر لوگ مردہ پڑے ہیں) شاید روئٹرز کی جانب سے آئی تھی۔ وہ اسی واقعے کی تصویر تھی جو میرے ہی ساتھ وہاں جانے والے فوٹو گرافر ضیا مظہر نے کھینچی تھی اور غالباً تمام اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔’

فہیم نے بھیانک واقعے کی منظر کشی کی تو ان کی آواز میں آج بھی خوف محسوس کیا جا سکتا تھا۔ وہ بولے ‘آپ نے بھی اور ہم سب نے بھی تشدّد کے بدترین واقعات کور کیے ہیں مگر جب بھی ہم کسی موقع پر پہنچے تو حملہ آور جا چکے ہوتے تھے۔ 12 مئی وہ دن تھا جب کسی حملہ آور کو کوئی ڈر نہیں تھا کہ پولیس آ جائے گی’۔

ایم کیو ایم الطاف حسین (دھڑے) کے ترجمان مصطفیٰ عزیز آبادی کا کہنا تھا کہ وہ واقعہ بہ واقعہ ہر پیشرفت کی وضاحت نہیں کر سکتے بس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ’12 مئی وہ دن تھا جب اسٹیبلشمنٹ کے بعض عناصر نے ایم کیو ایم کے خلاف سازش کی۔’

’جان بچانے کو تھانے میں گھسنا چاہا تو دروازہ اندر سے بند تھا‘

پاکستانی ٹی وی چینل نیوز ون ٹی وی کے رپورٹر احسان کوہاٹی بھی ایسی ہی قتل و غارت کے عینی شاہد ہیں۔

‘ہم بلوچ کالونی پل سے کسی نہ کسی طرح شاہراہ فیصل پر پہنچے تاکہ ایئرپورٹ کی جانب جا سکیں۔ ڈرگ روڈ کے قریب اُس جگہ جہاں ریل کی پٹڑی ہے وہاں پر ایک طرف سٹیشن ہے تو دوسری طرف تھانہ۔ وہاں ریلوے پھاٹک بند تھا۔ اُس کے پیچھے بسوں کی لمبی قطار تھی اور ایم کیو ایم کے جھنڈے لیے سینکڑوں افراد وہاں موجود تھے۔ ہم نے فیصلہ کیا اب یہیں رُک کر دیکھتے ہیں کیونکہ اب جو کچھ ہو گا یہیں پر ہو گا۔

12 مئی کے بعد کراچی میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوگئی

‘دوپہر کے وقت اچانک موٹر سائیکل پر سوار کچھ افراد جن کے ہاتھوں میں پیپلز پارٹی کے جھنڈے تھے ‘جئے بھٹّو’ کے نعرے لگاتے ہوئے صدر کی طرف سے شاہراہ فیصل پر آتے دکھائی دیے۔ نعرہ بازی کرنے والے اُن موٹرسائیکل سواروں کے پیچھے پیپلز پارٹی کی ریلی کے بہت سے شرکا تھے جن میں وقار مہدی (پیپلز پارٹی سندھ کے موجودہ جنرل سیکریٹری اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے مشیر) بھی تھے۔’

احسان کوہاٹی کے مطابق ‘جیسے ہی یہ لوگ نعرے لگاتے وہاں پہنچے جہاں ایم کیو ایم کے پرچم بردار افراد پہلے ہی سے موجود تھے تو ایم کیو ایم کے لوگوں نے اپنے ہتھیار نکال لیے اور پھر ایم کیو ایم والی طرف سے بغیر کچھ کہے سنے بلادریغ گولی چلا دی گئی۔’

احسان کے مطابق ‘دوسری طرف یعنی پیپلز پارٹی والی سائیڈ پر بھی لوگ خالی ہاتھ نہیں تھے۔ ریلی میں شریک لوگوں نے بھی اپنے ہتھیار نکال لئے اور جوابی فائرنگ شروع کر دی۔ جب پیپلز پارٹی کی طرف کے موٹرسائیکل سوار گولیاں لگنے سے گرے تو پھر تو دونوں جانب سے زبردست فائرنگ شروع ہو گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اتنی خطرناک صورتحال بن گئی کہ خود مجھے لگا کہ کہیں مجھے بھی گولی ہی نہ لگ جائے اور جان بچانے کی خاطر میں بھاگتا ہوا وہاں موجود پیدل چلنے والوں کے لیے بنے پُل کی سیڑھیوں کے نیچے جا کے بیٹھ گیا۔ وہ جگہ بھی زیادہ محفوظ نہ لگی تو میں بھاگ کر شاہراہ فیصل تھانے کی عمارت میں گھسنا چاہا مگر پولیس سٹیشن کا دروازہ اندر سے بند تھا۔ پولیس جسے اس قتل و غارت کو روکنا تھا وہ حفاظت سے اپنے گھر (تھانے) میں تھی۔’

احسان کوہاٹی نے بتایا کہ ‘میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے جو اپنی جان بچانا چاہتے تھے۔ جب ہم سب نے ہاتھ اندر ڈال کر تھانے کا بند دروازہ کھولا تو اندر ڈی ایس پی چوہدری سہیل فیض موجود تھے۔ وہ مجھے جانتے تھے لہٰذا مجھے اندر آنے دیا گیا۔ ہم تھانے کی چھت پر پہنچے اور دیکھا کہ دونوں جانب سے گولیاں چلائی جا رہی تھیں۔

‘جب فائرنگ رُکی تو پولیس کے ایک ایس ایس پی تھے عارف خان (اب شاید ڈی آئی جی ہیں) اُن کو میں نے باہر جاتے دیکھا تو میں بھی اُن کے ساتھ باہر آیا مگر عارف خان کے ساتھ سپاہیوں کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا اور ایم کیو ایم کے وہ لوگ جن کے اپنے ہاتھوں میں اسلحہ تھا وہ پولیس افسر سے کہہ رہے تھے کہ دیکھیں وہ لوگ (پیپلز پارٹی کے جھنڈے بردار مسلّح افراد) ہم پر گولیاں چلارہے ہیں آپ اُن کو روکیں۔ آپ ان پر فائرنگ کیوں نہیں کرتے ان کو روکیں۔’

احسان کوہاٹی کے مطابق ‘اُس دن کراچی شہر میں بہت بُرے حالات تھے۔ پولیس نظر نہیں آ رہی تھی اور جو تھی وہ غیر مسلّح تھی۔ تمام سڑکیں اس مہارت سے بند کی گئی تھیں کہ کوئی گاڑی آگے نہیں جا سکتی تھی۔

‘آپ اسے مسلّح تصادم کہیں یا فائرنگ کا تبادلہ بس یہی ہو رہا تھا۔ اس سوال پر کہ صرف ایم کیو ایم کے لوگ فائرنگ کر رہے تھے، باقی جماعتوں نے کیا کچھ نہیں کیا، احسان کوہاٹی نے کہا کہ ‘میں نے پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے لوگوں کو تو مسلّح دیکھا۔

مشیر داخلہ کی بریفنگ

‘اے این پی والے اوپر پُل پر تھے۔ میں نے اُنھیں نہیں دیکھا تو اس لیے میں اُن کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اُس دن جو بھی سڑک پر آیا تھا ناں، وہ اپنے انتظام کے ساتھ آیا تھا۔ جس کے پاس ہتھیار یا ہتھیار چلانے والے تھے وہی سڑک پر تھا۔’

احسان کوہاٹی کے مطابق میڈیا کی گاڑیوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ ‘میں گاڑی میں اپنے کیمرہ مین جنید خان کے ساتھ ایف ٹی سی پل پہنچا۔ سامنے لائنز ایریا کی عمارتوں کی چھتیں نظر آ رہی تھیں اور چھتوں پر مسلّح لوگ تھے۔ میری نظر پڑی تو وہ اپنا اسلحہ سیدھا کر چکے تھے اور ہماری گاڑی اُن کے نشانے پر تھی۔ میں نے جنید سے کہا، نیچے ہو جاؤ۔ ہم دونوں نیچے ہوئے ہی تھے کہ کسی نے ہماری گاڑی کو بھی نشانہ بنایا اور گولیاں چلائیں مگر ہمارا ڈرائیور تھا عارف کسی طرح گاڑی بھگا کر لے گیا۔

‘ہماری گاڑی پر واضح طور پر چینل کا نام لکھا تھا اور پتا چل رہا تھا کہ یہ میڈیا کی گاڑی ہے مگر انہوں نے ہمیں بھی ٹارگٹ کیا۔’

احسان کوہاٹی اور اُن جیسے دیگر صحافیوں، سیاستدانوں اور تجزیہ نگاروں نے جو الزامات عائد کیے اُس پر ایم کیو ایم الطاف حسین دھڑے کے ترجمان مصطفیٰ عزیز آبادی کا کہنا تھا کہ یہ سب الزامات بےبنیاد ہیں۔

’12 مئی ایک بڑا سانحہ تھا جس میں تو خود ہمارے بھی 14 کارکنان شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔ اگر ایم کیو ایم پر الزام لگایا جاتا ہے تو پھر ہمارا سوال یہ ہے کہ ہمارے وہ 14 کارکنان جن کے نام، پتے تفصیلات ہم نے جاری کیں اُن کو کس نے شہید کیا؟’

‘یہ واقعہ دراصل تھا ہی ایم کیو ایم کے خلاف ایک بہت بڑی سازش کا حصّہ۔’ مصطفیٰ عزیز آبادی نے کہا۔

شکار کی طرح ہمارے ساتھی مارے جارہے تھے

لیکن احسان کوہاٹی کی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے بھی کئی رہنما اور قائدین 12 مئی 2007 کے دن شہر بھر میں جاری رہنے والی قتل و غارت کے عینی شاہد ہیں۔

پیپلز پارٹی کے کراچی کے سابق صدر اور موجودہ رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل بھی اپنے جلوس کے ہمراہ تھے۔

ان کا کہنا ہے ‘پولیس کو بہت اچھی طرح اندازہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ یہاں تک کہ ایم کیو ایم لیبر ونگ کے ایک ذمہ دار نے جو میرے ذاتی دوست تھے اور میں اُن کا نام آپ کو اس گفتگو میں نہیں بتا سکتا انہوں نے بھی مجھے 11 مئی کو آکر کہا کہ کل گھر سے نہ نکلیے گا۔ بہرحال 12 مئی کو ہم نکلے تو ٹاور کے بس سٹاپ کے پاس پل پر ناہید خان ، صفدر عباسی وغیرہ بھی ہمارے ساتھ ہو گئے۔ کیماڑی جانے والے راستے کی طرف سے کوئینز روڈ پر اترتے وقت میں نے دیکھا کہ اے این پی کے شاہی سیّد بھی کھڑے ہوئے تھے۔جماعت اسلامی کے جھنڈے بھی نظر آئے اور یوں آہستہ آہستہ حزب اختلاف کی قریباً تمام سیاسی جماعتوں کا قافلہ سا بن گیا تھا۔

جب ہم صدر تھانے کے بالکل قریب شاہراہ فیصل پہنچے تو وہاں سڑک پر کنٹینرز کھڑے کرکے رکاوٹیں بنا دی گئیں تھیں۔ جب سڑک بند ملی تو ہم نے متبادل راستہ اختیار کرنے کے لیے یو ٹرن لیا تو شاہی سید جو بالکل پیچھے تھے وہ آگے ہوگئے۔ اب ہم واپس جانے والے راستے پر تھے اور شاہی سید آگے جا چکے تھے اور ہم بالکل آخر میں یو ٹرن لے کر مڑے اور ابھی سڑک عبور کر ہی رہے تھے کہ اچانک چاروں جانب سے ہم پر گولیوں کی بوچھاڑ ہو گئی۔

‘قطار میں فلائی اوور پر بھاری ہتھیار لیے مسلّح افراد کھڑے تھے اور ہم پر گولیاں چلا رہے تھے۔ یہ تو معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ کون لوگ تھے مگر یہ تو سب کو پتا تھا کہ ایم کیو ایم والے نہیں چاہتے کہ ایسا ہو (کوئی جلوس نکلے)۔

میں سڑک پر آیا تو ناہید خان میرے لیے پریشان ہو رہی تھیں۔ اچانک میرے ساتھی حسین بادشاہ اور فضل اکبر کو گولی لگ گئی۔یہ دونوں میرے پاس ہی تھے اور میں بس معجزانہ طور پر بچ گیا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو ایک ایسی سیاہ رنگ کی کرولا گاڑی آئی جیسی کہ اس وقت ٹاؤن ناظمین کو دی گئی تھیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس گاڑی میں سے مزید اسلحہ نکال کر ان مسلّح افراد کو دیا گیا۔

شاہی سید صاحب فلائی اوور برج کے بالکل نیچے پہنچ چکے تھے، وہ پناہ کے لیے ایف ٹی سی کی عمارت میں جا گھسے۔سڑک پر کھڑے ہم لوگوں کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اپنی جان بچائیں یا گولیاں لگنے سے زخمی ساتھیوں کو سڑک پر سے اٹھائیں۔

ہسپتال پہنچ کر یہ بھی پتا چلا کہ ہمارے ملیر کے ساتھیوں پر بھی ایسے ہی حملے ہوئے ہیں۔ ملیر میں ہمارے ضلعی صدر راجہ رزاق کی گاڑی جلائے جانے کی اطلاع بھی ہسپتال میں ہی ملی۔

عبدالقادر پٹیل نے دعویٰ کیا کہ جب حملہ ہوا تو ناہید خان نے اور ہم نے شاید ہی کوئی محکمہ ہو جس سے رابطہ کرکے یہ بتانے کی کوشش نہ کی ہو مگر کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا۔

‘شکار کی طرح ہمارے ساتھی مارے جا رہے تھے مگر ہم اتنے بے بس تھے کہ بہت سوں کو تو اٹھا بھی نہیں سکے۔ شاید پاکستان میں کبھی کسی سیاسی جماعت کو مین ہنٹ یا لائسنس ٹو کل کی طرح ایسی اجازت نہ کبھی ملی تھی اور خدا نہ کرے کہ کبھی آئندہ ملے۔’

حالات بگڑنے کے بعد اگلے دن شہر میں فوج تعینات کر دی گئی

حالات بگڑنے کے بعد اگلے دن شہر میں فوج تعینات کر دی گئی

عبدالقادر پٹیل کے اس الزام پر مصطفیٰ عزیز آبادی کا کہنا ہے کہ یہ الزامات سراسر غلط ہیں۔ ‘ہم نے بھی اُس دن کے تمام شواہد جمع کرکے ایک ویڈیو بھی ریلیز کی تھی جس کا نام ہے “بٹر ٹرتھ” اس میں آپ دیکھ لیں ریلی میں پیپلز پارٹی کے عوامی نیشنل پارٹی کے لوگ اور دیگر جماعتوں کے لوگ مسلّح جدید ہتھیار لیے ریلی میں شریک ہیں، ویڈیوز موجود ہیں کہ ایم کیو ایم کے لوگوں کو مارا جا رہا ہے، فائرنگ ہو رہی ہے۔’

جب مصطفیٰ عزیز آبادی سے پوچھا گیا کہ آپ کے لوگ مسلّح نہیں تھے تو انھوں نے کہا ‘اب دیکھیں یہ یک طرفہ الزام ہے ناں! سارا الزام صرف اور صرف ایم کیو ایم پر۔ یہ سراسر غلط ہے۔ اگر ایم کیو ایم کا کسی بھی ریکی پر حملے کرنے یا کسی کو مارنے کا منصوبہ ہوتا تو اُسی روز ایم کیو ایم کے تبت سینٹر پر عدلیہ کی آزادی کے حق میں ریلی کا اعلان کیا تھا اور ہماری جو ریلیاں (ریلی) وہاں جا رہی تھی اُس میں شریک ہونے کے لیے نوجوان ، بزرگ ، خواتین ، بچّے پوری پوری فیملیز وہاں جا رہی تھیں۔تو ہمارا اگر کوئی منصوبہ یا ارادہ ہوتا تو ہمارے لوگ ماؤں ، بہنوں اور بچّوں کو لے کر شریک ہوتے؟’

صحافی قاضی حسن تاج کوریج کے لیے شاہراہ فیصل پر ایف ٹی سی فلائی اوور پر ہی موجود تھے۔ وہ اس دن کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں ‘دوپہر کے وقت بلوچ کالونی کے پُل پر ایم کیو ایم کے پندرہ بیس لوگ موٹرسائیکل پر نظر آئے۔ اتنے میں ایک منی بس جس پر اے این پی کے جھنڈے لگے ہوئے تھے آتی نظر آئی۔ جب وہ بالکل ہمارے سامنے پل کے بالکل نیچے پہنچے تو اوپر پُل پر پہلے ہی سے موجود مسلّح افراد نے منی بس کو ہدف بنا کر گولیاں چلانی شروع کر دیں۔

بہت زبردست اور بھرپور فائرنگ ہورہی تھی۔ بس اب اُس صورتحال میں تھی کہ نہ آگے جاسکتی تھی ، نہ پیچھے۔ اُس کے لیے سب سے محفوظ مقام یہی تھا کہ پل کے نیچے ہی رک جائے کیونکہ اوپر دونوں جانب یعنی پُل کے نیچے جانے یا باہر نکلنے والی طرف سے بھرپور گولیاں چلائی جا رہی تھیں۔ مگر ایسا نہیں تھا کہ صرف بس پر حملہ ہورہا تھا ۔ خود اس بس سے بھی جوابی فائرنگ کی گئی اور اندر بس میں سوار افراد نے بھی گولیاں چلانی شروع کر دیں۔

میں اپنی جگہ سے ذرا ہی آگے بڑھا تو دیکھا (اور کیمرے میں ریکارڈ بھی کیا) کہ کچھ لوگ زخمی وہاں پڑے ہیں اور مدد کے لیے چیخ چلّا رہے ہیں لیکن فائرنگ اتنی شدید تھی کہ کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا تھا۔

اسی دوران پاکستانی بحریہ (نیوی) کی ایک جیپ میں سوار شاید کوئی افسر وہاں پہنچے اور ہم نے دیکھا کہ مسلّح نوجوانوں نے اس سرکاری جیپ کا راستہ بھی روکا۔

جیپ میں سے باوردی سپاہی اترے جن سے مسلّح افراد کی کوئی بات ہوئی۔ ہم دور تھے سُن تو نہیں سکے مگر اندازہ ہوا کہ شاید وہ افسر آگے جانا چاہتے تھے اور اُن کے ساتھ تعینات سپاہی مسلّح افراد سے آگے جانے کی بات کررہے تھے مگر بڑی تعداد میں مسلّح افراد نے انہیں جانے نہیں دیا۔ بالآخر وہ جیپ واپس جانے پر مجبور ہوگئی اور اُس دن مجھے عملی طور پر ادراک ہوا کہ ریاست کی اندر ریاست کیا ہوتی ہے۔

جب ہم وہاں سے نکلے تو ایسے مناظر دیکھے جو اب بیان کرنا بھی مشکل ہے” قاضی حسن تاج کے لہجے میں جذبات ابھرنے لگے۔

“انسان کو مرتے دیکھ رہے ہیں اور کچھ کر بھی نہیں پا رہے ۔ ہوسکتا ہے کہ ریسکیو ادارے بھی چاہتے ہوں کہ سڑکوں پر پڑے زخمیوں کو اٹھائیں مگر کچھ کر نہیں پا رہے تھے۔ مجھے نہیں پتہ جس منی بس کو نشانہ گیا تھا اُس میں کتنے لوگ ہلاک ہوئے لیکن تین زخمی تو میں نے خود اپنی آنکھ سے دیکھے تھے۔

اُن میں ایک شخص تھا گولی اس کے گلے میں لگی تھی۔ اِس حالت میں بھی اُس نے زخم سے اُبلتا ہوا خون روکنے کے لیے اپنا ہاتھ گردن پر رکھّا ہوا تھا۔ وہ بولنے کی کوشش کررہا تھا میں دس سے پندرہ فٹ کے فاصلے سے اسے دیکھ تو سکا مگر کچھ کر نہیں پایا سوائے اس کے کہ میں خود اپنی جان بچا کر وہاں سے نکلوں۔

جنگ زدہ ماحول میں بھی لوگوں کو پتا ہوتا ہے کہ کون کس کو کیوں مار رہا ہے مگر وہاں تو شاید مارنے والے کو بھی نہیں پتا تھا کہ میں کس کو مار رہا ہوں اور مرنے والے کو بھی نہیں پتا تھا کہ اُسے کون کیوں مار رہا ہے۔

اے این پی کے صوبائی صدر شاہی سید شاہراہِ فیصل پر پیش آنے والے واقعات کے عینی شاہدین میں سے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ‘صرف ہمارے لوگ نہیں ہر قوم، ہر پارٹی کے لوگ جان سے گئے۔ 48 لوگ قتل ہو گئے جن میں 20، 22 تو ہمارے کارکنان تھے۔ اس روز سرکاری بربریت تھی۔ سرکار کون تھی، کس کی حکومت تھی یہ سب چیزیں ریکارڈ کا حصّہ ہیں۔’

‘ٹی وی چینلز دیکھ لیں ، عدالت کا ریکارڈ دیکھ لیں اس وقت جو وزیر داخلہ تھا اُن سے پوچھیں کہ پولیس کہاں تھی، پولیس کا اسلحہ کہاں تھا؟ ہم نے تو اس وقت بھی جنرل مشرف سے مطالبہ کیا تھا کہ آپ وزیر داخلہ سے پوچھیں کہ اس کی ذمہ داری بنتی ہے وہ بتائے کہ گولیاں کس نے چلائیں۔’

وسیم اختر

مئی 2007 میں امورِ داخلہ کے لیے وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر وسیم اختر کا کہنا ہے کہ 12 مئی کے دن وہ مکمل طور پر صورتحال کے انچارج نہیں تھے

صورتحال اتنی گھمبیر ہو گئی تھی کہ مشیر داخلہ تو میٹر ہی نہیں کر رہا تھا’

اے این ہی سندھ کے صدر شاہی سید نے جو الزامات عائد کئے اُن پر ردّعمل میں اُس وقت وزارت داخلہ سندھ کے سربراہ صوبائی مشیر داخلہ وسیم اختر تھے جو اس سلسلے میں ایم کیو ایم اور اپنے کردار کا دفاع کرتے نظر آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘پولیس ایک فورس ہوتی ہے جس کا افسر ہوتا ہے آئی جی اور پھر ہوم سیکریٹری اور انھوں نے جو اقدامات لیے تھے شہر کے سارے ڈی آئی جیز کے ساتھ اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں جیسے ملٹری انٹیلیجینس ، آئی ایس آئی، آئی بی اور کراچی بار ایسوسی ایشن، سب نے اجلاس کیا تھا اور یہ سب اقدامات لیے تھے کہ کیا تقاضے ہیں ، کیا ہونا چاہیے تاکہ صورتحال کو قابو میں رکھا جا سکے۔’

انھوں نے کہا ‘آپ کے پاس بھی وہ خط ہے جو پولیس کے سربراہ نے لکھا تھا۔ ذمہ دار آئی جی کی ہوتی ہے کہ بطور سربراہ کس کس جگہ پر پولیس فورس کو تعینات کیا جائے ، کس کس جگہ پر سڑک بند کی جائے ، کس کے پاس ہتھیار ہونا چاہیے یا نہیں۔ یہ فیصلہ وہ کرتے ہیں ، جو انھوں نے کیا اور یہ رپورٹ عدالت میں پیش بھی کی گئی۔’

‘عدالت کے احکامات میں نشاندہی کی گئی ہے کہ فورس (پولیس) کی جانب سے غفلت برتی گئی ہے۔’ وسیم اختر نے کہا۔

جب وسیم اختر سے سوال کیا گیا کہ ان کے پاس تمام اختیار تھا تو کیا انھوں نے بطور سربراہ وزارت داخلہ اپنی ذمہ داری نبھائی؟ تو وسیم اختر نے کہا کہ وہ مکمل طور پر صورتحال کے انچارج نہیں تھے۔ ‘ یہ معاملہ سب کے سامنے تھا۔ آئی جی ، ڈی آئی جی ، گورنر ، آئی بی کے صوبائی سربراہ ، ایم آئی کے صوبائی سربراہ ، آئی ایس آئی کے صوبائی سربراہ یہ سب بیٹھے تھے گورنر کے ساتھ اور یہ سب فیصلہ کر رہے تھے کہ کیا کرنا چاہیے۔ صورتحال اتنی گھمبیر ہو گئی تھی کہ مشیر داخلہ تو میٹر ہی نہیں کر رہا تھا۔’

وسیم اختر کے مطابق ‘جو(قانون نافذ کرنے والے اداروں کا) اجلاس ہوا جس میں میں بھی تھا اُس میں بتایا یہ گیا تھا کہ خدشہ ہے کہ اگر چیف جسٹس صاحب ایئرپورٹ سے ہائی کورٹ جائیں گے تو خدشات ہیں کہ اُن پر کوئی حملہ ہو سکتا ہے تو یہ طے کیا گیا کہ چیف جسٹس صاحب کو کمشنر (کراچی) بتائیں جو کہ انھوں نے بتایا کہ یہ خدشات ہیں، آپ (چیف جسٹس) تعاون کریں تو ہم (انتظامیہ) آپ کو بکتر بند گاڑی سے یا ہیلی کاپٹر سے ہائی کورٹ لے جائیں۔کمشنر نے بتایا اور چیف جسٹس نے منع کر دیا۔

کراچی میں وکلا کی ایک ریلی

‘خیر وہ نہیں ہوا اور نقصان ہوا، جانیں ضائع ہوئیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ وفاقی حکومت کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے، صوبائی حکومت کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے۔ میں تو بہت چھوٹے عہدے پر تھا بڑے عہدیدار جیسے گورنر یا وزیر اعلیٰ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ سب فیصلے کر رہے تھے۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘میں تو خود حیران تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ مجھ پر تو سارے الزامات سیاسی مخالفت میں لگائے جاتے ہیں۔ یہ سب بیان بازی ہے۔ میں تو اپنی ذمہ داری پوری کر رہا تھا۔ ہم صرف مشورہ دے رہے تھے۔ پولیس ہینڈل کر رہی تھی۔ وہاں ساری ایجینسیز تھیں۔ پولیس وزیراعلیٰ کو رپورٹ کرتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ 12 مئی کو ‘وسیم اختر ناکام نہیں ، نظام ناکام ہوا۔ یہی عدالت نے بھی کہا تھا۔میری تو کوئی سنوائی ہی نہیں ہو رہی تھی۔ میں تو مشیر تھا وزیراعلیٰ کا ، خود وزیراعلیٰ کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اگر ناکامی تھی تو انتظامیہ کی مجموعی ناکامی تھی۔ اگر تحقیقات کرنا ہے تو مشرف صاحب، گورنر اور وزیراعلیٰ کو بھی بلا لیں’۔

اس سلسلے میں مصطفیٰ عزیز آبادی کا بھی کہنا تھا کہ ‘اس روز حکومت بھی، وزیر داخلہ بھی سب (حالات کو قابو کرنے میں) بےبس نظر آئے۔

ججوں کو محکمۂ اطلاعات کا دروازہ پھاند کر عدالت تک پہنچنا پڑا

سیاستدان کچھ بھی کہیں حقیقت یہ تھی کہ 12 مئی کو کراچی کی صورتحال اتنی دگرگوں ہوچکی تھی کہ ایک جانب چیف جسٹس ائیرپورٹ پر ایک قسم کے محاصرے میں تھے تو دوسری جانب ہائی کورٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہو جانے والے وکلا اور جج بھی محصور دکھائی دیے۔

جمال خورشید انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ کے کورٹ رپورٹر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ‘سارا علاقہ مسلّح افراد کے کنٹرول میں تھا۔ مجھے یہ اطلاعات ملیں کہ ہائی کورٹ کے وکلا پر تشدد کیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کی گاڑی پر لوگوں نے لاتیں ماریں۔ بعض ججوں کو تو محکمۂ اطلاعات کا دروازہ پھاند کر عدالت تک پہنچنا پڑا اور میں نے راستے میں صدر تھانے میں اس صوتحال میں بھی پولیس اہلکاروں کو تاش کھیلتے دیکھا۔’

مسلّح افراد کو لائیو دکھانا شروع کیا تو زبردست فائرنگ شروع ہو گئی

وکلا اور ججوں کو جس صورتحال کا سامنا تھا کراچی میں میڈیا بھی کچھ ویسی ہی صورتحال کا سامنا کر رہا تھا۔ ممتاز صحافی طلعت حسین 12 مئی کو ملک کے نجی ٹی وی چینل “آج ٹی وی” کے ڈائریکٹر نیوز اینڈ کرنٹ افئیرز تھے۔

طلعت حسین نے بتایا کہ اس دن دفتر پہنچنے تک انہوں نے جو صورتحال دیکھی تو فیصلہ کیا کہ شہر کا مزاج ریکارڈ کرنے کے لیے گُرومندر پر واقع چینل کے دفتر کی چھت پر ہی دو کیمرے نصب کروا دیے جائیں۔

‘ہمارے دفتر کے ہاس مسلّح افراد جمع تھے۔ لائیو دکھانا شروع کر دیا تب ہی زبردست فائرنگ شروع ہو گئی۔ دوسری طرف پٹیل پاڑہ کی جانب سے بھی زبردست فائرنگ ہو رہی تھی۔ ابھی ٹی وی کے ذریعے یہ دکھایا جا ہی رہا تھا کہ آج ٹی وی کے مالکان میں سے وامق زبیری نے مجھے فون کرکے کہا کہ ایم کیو ایم کے وزیر (دراصل مشیر) داخلہ وسیم اختر کہہ رہے ہیں کہ لائیو کوریج بند کر دیں۔

اتنی دیر میں کیمرہ مین نے نیچے آکر بتایا کہ گُرومندر پر فائرنگ کرنے والے اب کیمرے کی طرف گولیاں چلا رہے ہیں تو میں نے ہدایت کی کیمرہ آن رکھ کر کیمرہ مین کو نیچے بلوا لیں۔

تھوڑی دیر بعد وامق زبیری نے پھر کہا کہ وسیم اختر اب کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ نے کوریج بند نہیں کی تو ہم آپ کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔ میرا فیصلہ تھا کہ اس کو چلنے دیا جائے۔ ابھی یہ بات چل ہی رہی تھی کہ فائرنگ کی آواز بہت شدید ہو گئی اور ہمارے سامنے نیوز روم پر گولیاں لگنا شروع ہو گئیں اور شیشے ٹوٹنے لگے۔

‘ہم نیچے بیٹھ گئے اور رپورٹنگ شروع کر دی کہ ہمارے دفتر کی عمارت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ فائرنگ مسلسل ہونے لگی اور وامق زبیری نے مجھ سے کہا کہ آپ یہ (لائیو کوریج) بند کر دیں۔ میں نے کہا کہ نشانہ تو وہ بنا چکے اب یہ چلنے دیں۔ اس دوران پتا چلا کہ نیوز روم میں سے ہی کوئی حملہ آوروں کو بتا رہا تھا کہ کون کوریج کروا رہا ہے۔

ہماری نیوز اینکر نادیہ مرزا (جو اب پی ٹی وی سے وابستہ ہیں) آن ائیر تھیں۔ میں اُن کو ہدایات دے رہا تھا کہ آپ تبصرہ کرتی رہیں جو کچھ دکھایا جارہا ہے۔ تو وہ بولتی رہیں۔

ہماری نشریات میں نہ تو کسی کا نام لیا گیا اور نہ ہی یہ خبر دی کہ وسیم اختر ہمارے ٹی وی کی انتظامیہ سے کیا کہہ رہے ہیں۔

پھر انتظامیہ کو (کراچی کے سابق ناظم اور اب پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال کا فون آیا کہ آپ صرف ایم کیو ایم کو کیوں دکھا رہے ہیں ؟ پٹیل پاڑہ سے بھی تو گولیاں چلائی جارہی ہیں وہ بھی دکھائیں۔

میں نے کہا کہ اگر آپ ہماری ٹیم کو پٹیل پاڑہ جانے دیں تو ہم وہ بھی دکھا دیں گی۔ اتنے میں دفتر کے باہر کھڑی ہوئی خود ہماری اینکر نادیہ مرزا کی گاڑی جلا دی گئی اور اینکر نے لائیو ٹرانسمیشن (براہ راست نشریات میں خود) اپنی گاڑی کو ٹی وی پر جلتے ہوئے دیکھا۔پھر حملہ آوروں نے چھت پر لگا ہوا کیمرہ بھی گولی مار کر توڑ دیا۔’

آج ٹی وی کے دفتر پر لگنے والی گولیوں کے نشان

آج ٹی وی کے دفتر پر لگنے والی گولیوں کے نشان

طلعت حسین کے مطابق ‘حملے کے بعد وامق زبیری اور انتظامیہ نے مجھے کہا کہ آپ کی وجہ سے یہ سب ہوا ہے آپ نے یہ حملہ کروا دیا۔’

اس بارے میں جب وسیم اختر سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا ‘خواہ مخواہ جھوٹی باتیں ہیں یہ۔ میری آج تک کبھی اس سلسلے میں زبیری برادران سے کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔ جھوٹ پر مبنی بات ان کو زیب نہیں دیتی۔ اگر میں نے دھمکی دی تو انھوں نے ریکارڈ کر لیا ہو گا سنوا دیں ناں !’

طلعت حسین نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ کوریج کے بعد آج ٹی وی کے رپورٹرز کے گھروں پر آنے والے ایم کیو ایم سے متعلق افراد نے اُنھیں دھمکیاں دیں اور پھر انھیں اپنے رپورٹرز کو کسی اور مقام پر منتقل کرنا پڑا۔ اس پر وسیم اختر کہتے ہیں کہ ‘دیکھیں، نائین زیرو والے کیس میں ابھی سب بری ہو گئے، ولی بابر کے مقدمے میں بری ہو گئے ناں اب میں کیا کہوں ؟ اب میڈیا کچھ بھی کہتا رہے۔’

مصطفیٰ کمال کا بھی کہنا ہے کہ ‘پٹیل پاڑہ سے پیپلز پارٹی والے فائر کررہے تھے اور یہاں سے ایم کیو ایم والے کر رہے ہوں گے ، مگر ٹی وی پر کوئی حملہ نہیں ہوا۔’

پولیس کہاں تھی؟

جیو نیوز کے رپورٹر طارق ابوالحسن شام تک کراچی ایئر پورٹ پر ہی موجود رہے جہاں اندر چیف جسٹس عملاً محصور تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘سات بجے کے قریب آئی جی کراچی پولیس نیاز صدیقی سمیت اعلیٰ افسران وہاں نمودار ہوئے تو ہم نے اُن سے پوچھا کہ دن بھر پورے شہر میں لوگوں کو قتل کیا جاتا رہا تو آپ سب کہاں تھے تو اُن کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ ہمیں جواب دیے بغیر دوڑ کر ایئرپورٹ کی عمارت کے اندر چلے گئے۔’

تقریباً تمام صحافیوں ، تجزیہ نگاروں ، سیاستدانوں قائدین و رہنماؤں نے اس نکتے پر بھی اصرار کیا کہ 12 مئی کو جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو پولیس کہاں تھی ، قانون نافذ کرنے والے وہ حُکّام جن کی ذمہ داری شہر کے امن و امان کو ہے صورت قائم رکھنا تھا وہ سب کیا کررہے تھے۔

اس سلسلے میں جب موقف جاننے کے لیے اس وقت کی کراچی پولیس کے سربراہ اظہر فاروقی سے رابطہ کیا گیا تو وہ ان کا کہنا تھا کہ اب تو وہ اس معاملے سے لاتعلق ہیں چونکہ اب وہ ریٹائر ہوچکے ہیں۔

جب ان سے درخواست کی گئی کہ اس وقت جب یہ سب ہو رہا تھا تب تو وہ ہی متعلقہ افسر اعلیٰ (پولیس سربراہ) تھے تو حیرت انگیز طور پر انہوں نے کہا ‘پتا نہیں۔ مجھے اب یاد نہیں ہے ۔۔’ اور فون بند کرکے رابطہ منقطع کردیا۔

اس وقت کے ڈی آئی جی آپریشن مشتاق شاہ کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کے باوجود ان سطور کے لکھے جانے تک دستیاب نہ ہو سکے۔

اسی رات جنرل پرویز مشرف اور ان کی کابینہ نے اسلام آباد میں ایک ’جشن‘ منایا

12 مئی کے اس سانحے میں اگرچہ ہلاک ہونے والے 48 ہوں یا 56 ایک بات تو طے ہے کہ اُن میں سے کسی کو بھی انصاف نہیں مل سکا۔

عدالت سیاست اور ریاست کے بیچ 12 مئی کو جو بھی کچھ ہوا ، ایم کیم ایم (الطاف دھڑے) کے ترجمان مصطفیٰ عزیز آبادی کا یہ مطالبہ بہت دانشمندانہ نظر آتا ہے کہ ایک آزاد کمیشن قائم کیا جائے اور تمام متاثرین شواہد کے ساتھ کمیشن میں پیش ہوجائیں۔ مگر پاکستان میں عدالت سیاست اور ریاست ان حالات سے دو چار رہے ہیں کہ اب اعتبار ، اعتماد اور اعتقاد ہی لرز کر رہ گئے ہیں۔

12 مئی کی یہ کہانی دوبارہ لکھنے کے لیے میرے مدد کرنے والے تمام افراد، چاہے وہ سیاستدان ہوں یا صحافی، تجزیہ نگار ہونا یا عینی شاہد سب کے سب اس ایک نکتے پر متفق ہیں کہ ان کی امیدیں اور توقعات کبھی پوری نہیں ہو سکیں۔

2008 کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آئی تو بھی اسے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کرنے میں ایک برس کا عرصہ لگ گیا اور تب بھی پاکستان کے ٹی وی چینلز پر کھلے عام کہا گیا کہ ایسا اس وقت پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مداخلت سے ہی ممکن ہوا۔

ادھر بحال ہوجانے کے بعد افتخار چوہدری ‘نجات دہندہ’ کا وہ کردار ادا نہ کر پائے جس کی توقعات پورا پاکستان اُن سے وابستہ کر چکا تھا۔

اے این پی سندھ کے صدر شاہی سیّد کا کہنا تھا ‘ہمیں تو گلہ افتخار چوہدری سے ہے کہ وہ بالکل خاموش ہو گئے تھے۔ وہ تو خود اپنے لیے انصاف نہ لے سکے۔’

پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل کے خیالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں’ ہمیں تو افسوس ہوا کہ ہم نے کیوں جانیں دیں ان کے لیے انہوں نے ہمارے ساتھ ہی زیادتی کر دی۔ ہم تو قانون کے رکھوالے کے لیے جا رہے تھے اب وہ رکھوالا ایسا نکلا تو ہمیں افسوس ہوا۔ یہاں تک کے ان کی وکیل کرد صاحب جیسے لوگوں کو افسوس ہوا’۔

ایم کیو ایم کے ایک سابق رہنما نے ، جو جماعت کے حصّے بخرے ہونے کے بعد اب سیاست سے لاتعلق ہو چکے ہیں مگر اب بھی الطاف حسین کے جانبدار یا حمایتی سمجھے جاتے ہیں، ایک فکر انگیز نکتے کی نشاندہی کی۔

‘پہلی بات تو یہ افتخار چوہدری نے تو امیدوں کے ساتھ وہ کیا کہ پھر کبھی کراچی والے دوبارہ کسی کے بھی لیے سڑک پر نہیں نکلے۔۔۔پھر یہ سمجھا جاتا ہے کہ 12 مئی کی ساری ذمہ داری ایم کیو ایم پر ہے۔ سب کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم نے ریاست کے ساتھ مل کر چیف جسٹس کی ریلی کو ناکام بنانے کے لیے سب کچھ کر دیا۔ کبھی آپ نے یہ سوچا کہ اگر ریاست نہیں چاہتی تھی کہ چیف جسٹس کراچی میں جلوس کے ساتھ ہائی کورٹ جائیں یا ریاست چاہتی تھی کہ کراچی میں اُن کا خطاب نہ ہونے پائے تو کیا وہ جہاز جو چیف جسٹس کو کراچی لایا اسلام آباد سے اُڑ سکتا تھا، ریاست کی مرضی کے بغیر؟ کبھی سوچیے گا!’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp