ٹین پائنز: وہ کمپنی جہاں آپ کی تنخواہ آپ کے ساتھ کام کرنے والے طے کرتے ہیں


کمپنی فوٹو

10Pines

ایک سافٹ ویئر فرم اپنے ملازمین کے ساتھ برتاؤ میں بنیادی تبدیلی لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ’ٹین پائنز‘ نامی یہ کمپنی اپنے طریقہ کار میں زیادہ سے زیادہ شفافیت اور جمہوریت لانے کی کوشش کر رہی ہے حتٰی کہ یہ بھی ملازمین پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی تنخواہ کا تعین کریں۔

ایریئل امینسکی نے دسمبر 2020 میں اپنی تنخواہ میں سات فیصد اضافہ قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اپنے ساتھ کام کرنے والے ساتھیوں کے سامنے وہ اس اضافے کا کوئی قابل قبول جواز پیش نہیں کر سکیں گے۔

درحقیقت پچھلے پانچ برسوں کے دوران یہ دوسرا موقع تھا جب انھوں نے ٹین پائنز میں اپنی تنخواہ میں اضافہ کرنے سے انکار کیا۔

امینسکی کا کہنا ہے کہ ’میں نے خود کو غیر محفوظ محسوس کیا کیونکہ اس طرح میری تنخواہ ان لوگوں کے برابر یا ان سے زیادہ ہو جاتی جن کی کارکردگی میری نظر میں مجھ سے کہیں بہتر تھی۔ یہ تو دھوکا ہوتا۔‘

یہ بھی پڑھیے

چھ عوامل جو آپ کی تنخواہ میں اضافہ کروا سکتے ہیں

اچھی تنخواہ حاصل کرنے کے لیے اب دو ڈگریاں ضروری

ٹیکنالوجی کی دنیا میں سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے سی ای او

ایک ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پانے والے نابینا ڈاکیا

ارجنٹینا کی اس کمپنی میں سال میں تین بار تنخواہیں طے کی جاتی ہیں جن کے لیے ’ریٹس میٹنگز‘ طلب کی جاتی ہیں۔ ان میٹنگز میں ماسوائے ان ملازمین کے جو پروبیشن یا آزمائشی دور سے گزر رہے ہوں تمام عملہ شرکت کرتا ہے۔

اس موقع پر ملازمین یا ان کے سینیئر تنخواہ میں اضافے کا معاملہ سب کے سامنے رکھتے ہیں، جس کے بعد اس پر کھل کر بحث ہوتی ہے۔

بیونس آئرس میں قائم ٹین پائنز نے سنہ 2010 میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں 85 ملازمین کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کیا تھا۔ یہ سٹاربکس اور برگر کنگ جیسی کمپنیوں کے لیے سافٹ وئیر مثلاً صارفین کے لیے آن لائن لوئلٹی کارڈ، ایپس اور ای کامرس پلیٹ فارم تیار کرتی ہے۔

ہر سال ہونے والے منافع کا 50 فیصد ملازمین میں بانٹ دیا جاتا ہے۔

میٹنگ

10Pines
ملازمین کی تنخواہ جیسے معاملات اس طرح کے عام اجلاس (کووڈ سے پہلے) میں زیر بحث آتے ہیں

امینسکی کہتے ہیں کہ ’اس (تنخواہوں کو ظاہر کرنے) کا ایک بنیادی پہلو یہ جاننا نہیں کہ کون کتنا کما رہا ہے بلکہ یہ کہ کون کس سے زیادہ کماتا ہے یعنی کون کس رتبے پر فائز ہے، ٹھیک؟‘

ٹین پائنز کی کوشش ہے کہ تمام مراتب ایک جیسے ہوں اور جس حد تک ہو سکے ملازمین کے درمیان شفافیت پیدا کی جائے۔ تین ماہ کی آزمائشی مدت کے بعد نئے ملازمین بھی ہر ماہ ہونے والے اجلاسوں میں شریک ہو سکتے ہیں۔ ان اجلاس میں کمپنی کے اہم فیصلے کیے جاتے ہیں، جیسا کہ نئے کلائنٹس کی نشاندہی، اخراجات، کپمنی کے مالی امور اور ظاہر ہے کہ ملازمین کی تنخواہیں۔

یہاں کوئی سی ای او یا منیجر نہیں البتہ سینئر ارکانِ عملہ ہیں جو پارٹنر، ایسوسی ایٹس یا ماسٹر کہلاتے ہیں۔

ٹین پائنز کے شریک بانی اور ماسٹر جورج سِلوا کا کہنا ہے کہ ’چونکہ یہاں پر کوئی باس نہیں جو تنخواہ میں اضافے کا فیصلہ کرے، اس لیے یہ کام عملے کو سونپ دیا گیا ہے۔

’ہم امریکہ کی طرح تنخواہوں میں امتیاز نہیں چاہتے۔‘

نئے آنے والے کسی حد تک اپنی تنخواہ طے کرنے کے لیے گفت و شنید کر سکتے ہیں، جو ابتدا میں مسئلہ بھی پیدا کر سکتی ہے۔ ان کی مجوزہ تنخواہ کے بارے میں کمپنی کے اندر موجود اسی طرح کا تجربہ رکھنے والوں سے بات کی جاتی ہے تاکہ ان کی رضامندی حاصل کی جا سکے۔

بھرتی کے عمل میں آخری انٹرویو کے دوران امیدوار کی 80 سے اوپر اراکینِ عملہ سے ملاقات کروائی جاتی ہے۔ یہ کمپنی کے طریقہ کار سے متعارف کروائے جانے کا ایک انداز ہے۔ اس موقع پر کسی طرح کے پیچیدہ سوالات نہیں پوچھے جاتے بلکہ لوگوں کی دلچسپی کے بارے میں جاننے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس بات کا موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ نئے آنے والے ٹین پائنز کے نظام سے روشناس ہو سکیں۔

سِلوا کہتے ہیں ’میں اس عمل کے دوسری جانب تھا، یہ مشکل تھا مگر تھا غیر رسمی لیکن ہم اس مرحلے پر بھرتی کا عمل روک دیتے ہیں جب ہم یہ محسوس کریں کہ وہ ٹیم کے ساتھ نہیں چل سکتے تو چاہے وہ بہت اعلیٰ دماغ بھی ہوں ہم انھیں ملازم نہیں رکھتے۔‘

تنظیمی خاکہ

10Pines
ایک کمپنی کا خاکہ اس طریقہ کار کا جائزہ پیش کر رہا ہے جس کے مطابق ایک وسیع البنیاد ٹیم میں اوپن گروپس کام کرتے ہیں

ٹین پائنز اپنے اس طریقہ کار کو ’سوشیوکریسی‘ یعنی سماجیت کہتی ہے۔ اس کا آغاز برازیل کے بزنس مین رِکارڈو سیملر نے اپنی خاندانی فرم سیمکو میں تبدلیاں لا کر کیا تھا۔ اس سے کمپنی چھوڑ کر جانے والے ملازمین کی تعداد میں نمایاں کمی آئی اور عملے کے اندر کام کرنے کا نیا جوش و خروش پیدا ہوا۔ انھوں نے اس بارے میں ایک کتاب بھی لکھی جس کا عنوان ’میورِک‘ یعنی آوارہ رکھا۔

سِلو کہتے ہیں کہ ’ہم نے اسے الہامی کتاب سمجھ کر اپنا لیا۔‘

ہیومین ایکسپیریئنس ایٹ ورک نامی کتاب کے مصنف بین وِٹر کا کہنا ہے کہ اس طرح کی ترقی پسند اور شفاف کمپنیاں اور بھی ہیں۔ ان کے خیال میں تنخواہوں میں شفافیت مرد و خواتین کے لیے ایک جیسا میدان فراہم کرتی ہے۔

بہت سے ادارے ملازمین کی تنخواہیں پوشیدہ رکھتے ہیں جس سے یہ خدشہ پیدا ہو جاتا ہے کہ تنخواہیں کارکردگی کی بجائے اس بات پر طے ہوتی ہیں کہ ’کون کسے جانتا ہے۔‘

ان کے خیال میں ٹین پائنز کے انتظام کے کچھ نقائص بھی ہیں۔ مثلاً 80 ملازمین کے لیے تو یہ نظام ٹھیک کام کر رہا ہے مگر جب ان کی تعداد دگنی ہو جائے گی تو مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اور بھرتی ہوتے وقت امیدوار کا تمام عملے سے ملنا دھیمی طبیعت والے افراد کے لیے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔

کمپنی ملازمین

10Pines
وبا کے بعد سے میٹنگز آن لائن یا کھلے میں ہوتی ہیں

پھر عملے کے ارکان جب کسی کے بارے میں اپنی رائے دیں گے تو اس بات کا امکان ہے کہ بجائے اپنی ذاتی رائے دینے کے وہ دوسرے ساتھیوں کی آرا سے متاثر ہو جائیں۔ اس سے کسی ادارے میں تنوع اور شمولیت کے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔

تاہم ٹین پائنز کا کہنا ہے کہ وہ تنوع کے لیے مختلف طرح کے پروگرام چلاتی ہے، جسیا کہ خواتین کے لیے مخصوص اپرینٹِس شپ سکیمیں وغیرہ اور اسے یقین ہے کہ اس کے کام کا طریقہ کسی بھی آزمائش پر پورا اترنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یہاں کام کرنے والی ایک سافٹ ویئر انجینیئر انجیلیس ٹیلا ارینا کہتی ہیں ’ہم نے 12 برسوں میں حالات سے مطابقت پیدا کی۔ مثلاً ہم نے تنخواہوں کے بارے میں بحث کا آغاز اس وقت کیا جب یہاں 30 ملازمین تھے اور ہمیں خدشہ تھا کہ یہ نظام 50 ملازمین کے ساتھ نہیں چلے گا مگر ہم خود کو حالات کے مطابق ڈھالتے رہے۔ آپ کو طریقہ کار میں بہتری لانا ہوتی ہے تاکہ اعتماد قائم رہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اگر کمپنی میں ملازمین کی تعداد اسی طرح بڑھتی رہی تو ایک نیا دفتر قائم کیا جا سکتا ہے جو اس نظام کو خود بخود اپنا لے گا۔

جورج سِلوا کا کہنا ہے کہ ’بنیادی بات مساوی اور عدل کے درمیان فرق کو سمجھنا ہے۔ ہم سب برابر نہیں ہیں مگر ہم عدل سے کام لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم اس طرح کی کمپنی نہیں بننا چاہتے جو ملازمین کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتی ہے اور ان سے بچوں جیسا سلوک کرتی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp