سفیروں کی ناقص کارکردگی اور وزیراعظم کا خطبہ


پاکستان میں ہمہ گیر اصلاحاتی عمل مکمل ہوتے ہی وزیراعظم نے اپنی گوناگوں مصروفیات میں سے تھوڑا سا وقت نکال کر بیرون وطن نگاہ ڈالی۔ دنیا بھر میں متعین پاکستانی سفیروں کی زبردست ڈانٹ ڈپٹ کی کہ وہ اپنے فرائض منصبی میں کوتاہی برت رہے ہیں۔ دفتر خارجہ کے بابووں نے اس کا بہت برا مانا۔ اسلام آباد کے قدیم شہرزاد ہوٹل میں زلزلہ سا آ گیا جہاں آج کل وزارت خارجہ کے دفاتر ہیں۔ دو سابقہ خارجہ سیکریٹریز، جلیل عباس اور تہمینہ جنجوعہ نے وزیراعظم کی سرزنش پر احتجاج کیا۔ باہر سے فونوں کا تانتا بندھ گیا۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو تمام مصروفیات منسوخ کر کے دفتر خارجہ میں کچہری لگانا پڑی جہاں وہ دو گھنٹے سے زائد تک سینئر افسران کی دل آزاری پر دلداری کا مرہم لگاتے رہے۔

وزیراعظم کو زیادہ دکھ اس بات کا تھا کہ ملک میں بھاری زرمبادلہ بھیجنے والے سمندر پار پاکستانیوں کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ وزیراعظم صاحب پر غالباً واضح نہیں کیا گیا کہ سہولت کاری کی براہ راست ذمہ داری ایک ایسے افسر کی ہوتی ہے جسے ”کمیونٹی ویلفیر اتاشی“ (CWA) کہا جاتا ہے۔ اس کا تقرر دفتر خارجہ نہیں، حکومت وقت کے دیگر متعلقہ شعبے کرتے ہیں۔ تین برس میں وزیراعظم اتنا تو جان ہی گئے ہوں گے کہ عوامی خدمت اور سہولت کاری پر متعین ان افسران کا انتخاب کس طرح ہوتا ہے؟ ان کی اہلیت، صلاحیت، استعداد کار اور خدمت کے رضاکارانہ جذبے کی جانچ کا معیار کیا ہے اور انہیں سمندر پار پاکستانیوں کی خدمت سے کہیں زیادہ، کس کی خوشنودی خاطر عزیز ہوتی ہے؟ رہے شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور ویزا جیسے معاملات تو یہ بھی دفتر خارجہ کے بجائے نادرا، وزارت داخلہ اور کئی نوع کی دیگر ایجنسیوں کی ذیل میں آتے ہیں۔ ان افسران اور اہلکاروں کا تقرر بھی دفتر خارجہ نہیں، متعلقہ وزارتیں یا محکمے کرتے ہیں۔ یہ سب سفارت خانوں میں بیٹھتے ہیں اس لئے سفیر کی کمان میں خیال کیے جاتے ہیں۔

یہاں تک تو بات ٹھیک ہے لیکن اس سے ہٹ کر دیکھا جائے تو وزیراعظم کا غم و غصہ بڑی حد تک درست بلکہ مبنی برحق قرار دیا جا سکتا ہے۔ غیرجانبداری یا جناب وزیراعظم کی آنکھ سے دیکھا جائے تو پاکستانی سفیروں کی ناکام، بے ثمر اور بے نتیجہ سفارت کاری کی بیسیوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ وزیراعظم نے بجا طور پر یاد دلایا کہ اگر پاکستانی سفیروں کی کارگزاری کا موازنہ بھارتی سفارت کاروں سے کیا جائے تو ہمارے سر ندامت سے جھک جاتے ہیں۔

کس کس بات کا رونا رویا جائے۔ حال ہی میں یورپی یونین پارلیمنٹ نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو حاصل جی۔ ایس۔ پی۔ پلس سہولت پر نظر ثانی کی جائے۔ وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ پاکستان، انسانی حقوق، محنت کشوں کے حقوق، ماحولیات کے تحفظ، مذہبی اور صحافتی آزادیوں کے بارے میں ستائیس ( 27 ) بین الاقوامی کنوینشنز کی پوری طرح پاسداری نہیں کر رہا۔ یہ بات بظاہر بے محل اور بے موسمی سی لگ رہی ہے کہ پاکستان کو جی۔ ایس۔ پی۔ پلس سٹیٹس، 2014 میں ملا تھا جب نواز شریف نامی شخص پاکستان کا وزیراعظم اور اسحاق ڈار نامی فرد وزیرخزانہ تھا۔ اس خصوصی رعایت کے باعث یورپی ممالک کو پاکستان کی برآمدات ساٹھ گنا بڑھ کر 2018 میں چھ ارب یورو تک پہنچ گئی تھیں۔

ان دونوں کو اب چوروں، ڈاکووں، اشتہاریوں اور مفروروں کے گروہ میں دھکیل کر حکومتی بندوبست ایک صاف ستھری انقلابی شخصیت کے حوالے کر دیا گیا ہے لیکن خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ اگر خدانخواستہ پاکستان کو اس رعایت سے محروم کر دیا گیا تو ہماری برآمدات کو شدید دھچکا لگے گا۔ نقصان کا تخمینہ تین ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے۔

اگرچہ یورپی قرارداد میں پاکستان پر جو فرد جرم عائد کی گئی ہے اس کا تمام تر تعلق ملک کی داخلی صورت حال، بدانتظامی، ناقص حکومتی کارکردگی اور نا اہلیت سے ہے لیکن متعلقہ سفیر کیا کر رہے تھے؟ اگرچہ جواباً جناب وزیراعظم سے پوچھا جاسکتا ہے کہ جہاں یورپی پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے وقت ہمارے مخالف 681 اور ہمارے حق میں صرف 6 ووٹ پڑیں تو افلاطونی ذہانت کا مالک کوئی سفیر بھی کیا کر لیتا؟ وہاں تو آر۔ ٹی۔ ایس قسم کی کوئی چیز بھی نہ تھی کہ اس کا تار کھینچ لیا جاتا۔

کہا جاتا ہے کہ یورپی یونین کی یہ قرارداد ’فاٹف‘ کا شکنجہ مزید سخت کر سکتی ہے جس کا اجلاس اگلے ماہ ہو رہا ہے۔ یہاں پھر وہی نواز شریف اور اسحاق ڈار یاد آتے ہیں جو پاکستان کو بلیک سے گرے اور گرے سے وائٹ میں لائے تھے۔ پھر وسیع تر قومی مفاد میں ایک انقلاب عظیم بپا ہوا اور آج گرے سے نکلنے کے لالے پڑے ہیں۔ فاٹف کا کوئی ایک بھی مطالبہ پاکستانی سفیروں کے حوالے سے نہیں، اس کی ساری چارج شیٹ پاکستان کے داخلی معاملات سے تعلق رکھتی ہے۔ برسوں قبل سمجھایا گیا تھا کہ ”یار لوگو اپنا گھر ٹھیک کرو“ یہ تلخ نوائی تب ناگوار ٹھہری تھی اور اس کے ڈانڈے ملک دشمنی سے ملا کر اس گستاخی کے مرتکب کو نشان عبرت بنا دیا گیا تھا۔ آج حب الوطنی کے وہی پیکر دہائی دے رہے ہیں۔ ”پہلے اپنا گھر ٹھیک کرنا پڑے گا“ ۔ اس سے سفیروں کا کیا لینا دینا؟

مانا کہ بار بار پاکستان کے آئین پر حملے ہوئے۔ مانا کہ یہاں 33 برس مارشل لا رہا۔ مانا کہ ہر مقبول وزیراعظم عبرت کا نشان بنا دیا گیا، مانا کہ عوام کے ووٹ کی کبھی عزت نہ کی گئی۔ مانا کہ ان دنوں جو تصاویر اور خبریں، اخبارات کے صفحہ اول کی زینت بنی ہوئی ہیں وہ ہمارے جمہوری نظام کے بارے میں کوئی اچھا پیغام نہیں دے رہیں، مانا کہ میڈیا شدید سینسر شپ کا شکار ہے، مانا کہ صحافیوں کو اغوا کرنا، غائب کر دینا، گولیاں مارنا، ہتھکڑیاں ڈالنا اور زندانوں کی نذر کرنا معمول بن چکا ہے، مانا کہ آزاد سوچ رکھنے والا ہر صحافی عتاب کا نشانہ ہے، مانا کہ وزیراعظم اور ان کی پوری ٹیم صبح شام پاکستان کو کرپٹ ترین ملک ثابت کرنے میں لگے ہیں، مانا کہ جتھا بند گروہوں کی ناز برداری کی گئی، یہاں تک کہ انہیں کام سے فراغت کے بعد واپسی کے لئے ”زاد راہ“ بھی دیا گیا، مانا کہ ریاستی اہلکاروں نے ان کے ساتھ معاہدے کیے ۔ مانا کہ ایک وزیر باتدبیر نے کہا کہ ہمارے پائلٹ جعلی ہیں جس پر یورپی یونین نے ہماری فلائٹس بند کر رکھی ہیں اور ہمیں اربوں روپے کا خسارہ ہو رہا ہے۔ لیکن سفیران کرام کچھ تو کریں!

اور تو اور، غضب خدا کا، جب امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو ضرورت پڑی کہ وہ ”ڈیپ سٹیٹ“ یعنی ریاست کے اندر ایک اور ریاست کے معنی و مفہوم کو واضح کرے تو اس نے جھٹ سے پاکستان کی مثال پیش کردی۔ آخر ایسا کیوں ہوا؟ کس پر عائد ہوتی ہے اس کی ذمہ داری؟ امریکہ میں پاکستانی سفیر کو ڈوب نہیں مرنا چاہیے تھا؟ وزیراعظم کو یہ بھی یاد دلانا چاہیے تھا کہ فارن سروس کی رگوں میں تازہ اور متحرک خون رواں رکھنے کے لئے، حکومت کس قدر محنت شاقہ سے، نادر روزگار ہیرے جمع کرتی ہے۔ اگرچہ انہیں سیاسی تقرریاں کہا جاتا ہے لیکن ان کا مقصد سفارتخانوں کی صلاحیت کار میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ اس وقت بھی چالیس فی صد کے لگ بھگ تقرریاں ایسی ہی ہیں۔ ان میں قومی سلامتی اور دفاعی امور کا وسیع تجربہ رکھنے والے مسلح افواج کے اعلی ریٹائرڈ افسران بھی شامل ہیں۔ بھارت ایسا کر کے تو دکھائے۔ اس کے باوجود ہمارے کیرئیر سفیروں کی ناقص کارکردگی کا کیا جواز ہے؟

ایک بات، بصد ادب وزیراعظم صاحب سے عرض کرنی ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں، ارب پتی اور کھرب پتی سرمایہ کار، پاکستانی سفیروں کی چکنی چپڑی باتیں سن کر، ڈالروں کے تھیلے اٹھائے پاکستان نہیں آ جاتے، چند ٹکوں کی سرمایہ کاری کے لئے بھی وہ پاکستان میں تعینات اپنے سفیروں سے معلومات حاصل کرتے ہیں جو انہیں مسلسل کہتے ہیں کہ خبردار! ادھر کا رخ نہ کرنا۔ سی پیک کا حشر نہیں دیکھ رہے؟ تھوڑا صبر کرلو۔ اور مناسب سمجھیں تو جناب وزیراعظم بیرون ملک اپنے سفیروں کو یہ بھی بتا دیں کہ ہماری کشمیر پالیسی اب کیا ہے اور ان دنوں ہم کس عالمی اور علاقائی بلاک سے پینگیں بڑھا رہے ہیں؟

جناب وزیراعظم نے سفیروں کی سرزنش کرتے ہوئے کہا۔ ”اب نوآبادیاتی دور والا رویہ نہیں چلے گا“ ایسا ہی ہے تو نہ جانے کیوں وزیراعظم صاحب نے نوآبادیاتی دور کی ایک کہنہ یادگار کو وزارت خارجہ کی مسند پر بٹھا رکھا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments