جب ایک فلسطینی نے مرتضیٰ بھٹو سے منہ پھیر لیا


ہمارے دوست فرخ سہیل گوئندی نے، جو ایک معروف دانشور، کالم نگار اور پبلشر ہیں، چند سال قبل ایک کتاب کی تقریب رونمائی منعقد کی.

جس میں ہمارے بزرگ دوست، پیپلزپارٹی راولپنڈی کے سابق صدر اور سابق سینیٹر سردار سلیم جب ایک طویل عرصے بعد پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو سے ملے تو بلاول نے سردار صاحب سے کہا کہ انہیں ان کے ماموں یعنی ذوالفقار علی بھٹو کے بیٹے مرتضیٰ بھٹو سے متعلق کوئی دلچسپ واقعہ سنائیں.

جب جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تو سردار صاحب جیسے سینکڑوں کارکنوں کو پابند سلاسل کیا گیا. سردار سلیم پر ملڑی کورٹ پر مقدمہ چلا دس کوڑے مارنے کی سزا سنائی گئ سزا کے بعد جیل منتقل کر دیا گیا. جب پی آئی اے کا طیارہ اغوا ھو کر کابل پہنچا تو ہائی جیکرز نے جنرل ضیاء الحق کی حکومت سے سیاسی قیدی رہنماؤں اور کارکنوں کی جیل سے رہائی کے عوض طیارے کی ہائی جیکنگ ختم کرنے کا مطالبہ کیا.

یہ تاریخ کی سب سے طویل ہائی جیکنگ تھی۔ مطالبات کی منظوری کے بعد سردار سلیم، کرنل (ر) حبیب علی، بابا شیخ منصور، فرخندہ بخاری، ڈاکٹر غلام حسین اور راجہ انور سمیت 54 افراد کابل پہنچے اور بعد ازاں مرتضیٰ بھٹو اور شاہ نواز بھٹو کی معیت میں پہلے لبییا اور پھر حافظ الا اسد کے سرکاری مہمان بن کر دمشق شام میں جا پناہ لی.

ان دنوں سردار سلیم مرتضیٰ بھٹو کے متعمد خاص تھے لہذا بلاول بھٹو نے سردار سلیم سے یہ سوال اس پس منظر میں پوچھا تھا.

سردار سلیم بتانے لگے کہ ان دنوں ہم استنبول سے دمشق بذریعہ پرواز عازم سفر تھے. مرتضیٰ بھٹو اور میرے ساتھ ایک فلسطینی اور ایک ترک مسافر بھی بیٹھا تھا۔ دوران پرواز فلسطینی نے جیب سے سگریٹ نکالتے ھوئے مرتضیٰ بھٹو سے لائٹر طلب کیا.

یاد رہے کہ ان دنوں ہوائی جہاز میں نشستوں کی ترتیب سموکنگ اور نو سموکنگ کے حساب سے ہوتی تھی۔ اسگریٹ نوش مسافر سموکنگ نشستوں کا انتخاب کرتے تھے.

جب مرتضیٰ بھٹو نے لائٹر فلسطینی ہم سفر کو دے دیا اور اس نے اسگریٹ سلگا لیا تو تعارف ہوا۔ فلسطینی مسافر نے اپنا نام اور فلسطین سے نسبت بتائی.

مرتضیٰ بھٹو نے جب اپنا تعلق پاکستان سے بتایا تو اس فلسطینی نے منہ پھیر لیا اور کچھ خاص رغبت کا مظاہرہ بھی نہ کیا.

دوران پرواز جب چند گھنٹوں کے بعد ائیر ھوسٹس کی جانب سے کھانا پیش کیا گیا تو کھانے کے بعد مرتضیٰ بھٹو نے اسگریٹ سلگاتے ھوئے ساتھ بیٹھے فلسطینی کو دوبارہ لائٹر اور اسگریٹ پیش کیا تو فلسطینی نے کہا کہ وہ اسگریٹ نوش ہی نہیں کرتا.

اس پر مرتضیٰ بھٹو نے دفعتاً حیرت سے دریافت کیا کہ ابھی چند گھنٹے قبل تو آپ مجھ سے لائٹر طلب کر کے اسگریٹ نوشی کر رہے تھے اور اب آپ اسگریٹ نوشی سے ہی انکاری ہو چکے ہیں.

جس پر فلسطینی نے کہا کہ اس وقت مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ آپ پاکستانی ہیں. دراصل میں پاکستانیوں سے نفرت کرتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ھے کہ پاکستانی محسن کش قوم ہیں۔ انہوں نے عالم اسلام کے عظیم راہنما ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی۔ اگر قوم اس عظیم راہنما کی قدر کرتی تو عالمی استعمار کے ایجنٹ جنرل ضیا الحق کی کیا مجال اور جرات تھی کہ وہ رات کی تاریکی میں اس عظیم راہنما کی زندگی کو ختم کر سکتا.

فلسطینی مسافر کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو فلسطینیوں کے بہت بڑے وکیل تھے۔ ان کی موت سے فلسطین کاز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ مسلمان منقسم ھوئے اور فلسطین کاز کو نقصان پہنچا.

یاد رہے کہ اس وقت مسلم دنیا کو قیادت نصیب تھی جس میں نہ صرف بھٹو بلکہ یاسر عرفات، حافظ الاسد، شاہ فیصل شہید، کرنل قذافی، احمد بن بیلا اور صدام حسین وغیرہ شامل تھے کہ جن کے دم سے دنیا بھر کے پسے ہوئے مظلوم اور مجبور مسلمانوں کو مسلم کاز اجاگر کرنے کے حوالے سے بڑی مثبت امیدیں وابستہ تھیں.

خیر جب مرتضیٰ بھٹو نے اس فلسطینی ہم سفر کو اپنا تعارف کروایا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے فرزند ارجمند ہیں تو اس فلسطینی کی آنکھیں فرط جذبات سے بھیگ گئیں اور اس نے فرط عقیدت سے مرتضیٰ بھٹو کا ھاتھ تھام لیا.

آج یہ واقعہ اس وجہ سے بھی یاد آیا کہ آج فلسطین اور غزہ کی پٹی پر پھر برق فروزاں ھے.

بیت المقدس اور یروشلم میں مظلوموں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دئیے گئے ہیں لیکن افسوس ناک امر یہ ھے کہ مظلوم فلسطینیوں کو ایٹمی صلاحیت اور طاقت کے حامل مسلم دنیا کے اہم ملک پاکستان کی قیادت سے کوئی امید وابستہ نہیں.

کیونکہ پاکستان کا شمار اب ان ملکوں میں ھوتا ھے جو زکوٰۃ، صدقات اور فطرانہ کے حصول پر خوشی مناتا ھے.

اور جس کے وزیر اعظم یہ بیان دیتے ہیں کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اگر ہماری مالی مدد نہ کرتے تو ہم دیوالیہ ہو چکے ھوتے.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments