ادب اور فلٹر والا کیمرہ


ادب معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے جس میں ہمیں اس معاشرے کا حقیقی عکس دکھائی دیتا ہے۔ اسی میں ہمیں معاشرے کے تمام خد و خال اور نقوش دکھائی دیتے ہیں اسی میں ہمیں اس کی خوبصورتی اور دلکشی کے ساتھ اس کی ہر کجی اور کمزوری بھی بعینہ دکھائی دیتی ہے۔ اسی آئینے میں معاشرے اپنا آپ سنوارتے اور اپنے کمزوریوں اور کجی کو دور کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ یا اگر موجودہ حالات میں اس کی تعریف کی جائے تو کہہ لیں ادب کیمرے کی طرح ہوتا ہے جو کیمرہ جتنی واضح اور صاف تصویر بناتا ہے یہی اس کی خوبی اور قدر و قیمت کا تعین کرتا ہے۔

اب اگر اس تعریف کو الٹ کر دیکھا جائے تو یہ مطلب بنتا ہے کہ جو آئینہ بہتر عکس پیش نہ کر رہا یا جو کیمرہ واضح تصویر پیش نہیں کر رہا وہ کم تر درجہ اور کم قدر و قیمت کا حامل ہوگا۔ یہ ادب ہی ہے جس نے ہر ترقی یافتہ معاشرے کو ترقی راہ پر گامزن کیا۔ آپ دنیا کے کسی بھی انقلاب کے بنیادی محرکات کا مطالعہ کر لیں آپ کو اس کے پیچھے اس دور کا ادب اور ادیب نظر آئے گا۔ میکسم گورکی، کارل مارکس، پشکن، والٹیر، فرانز فینن، شیلے اور بائرن سمیت بہت سے ایسے ادیب ہیں جو انقلاب روس، انقلاب فرانس اور برطانیہ اور امریکہ میں انقلاب اور بہتر سماج کی بنیاد بنے۔

وہ انقلاب فوجی آمریت کے خلاف ہو، مذہبی اشرافیہ کی چیرہ دستیوں کے خلاف ہو یا مطلق العنان بادشاہتوں کے خلاف۔ یہاں تک 1857 کی جنگ آزادی کو بھی علماء و ادباء کی تحریک کہا جاتا ہے یہی وجہ ہے اس جنگ کے بعد جو پچاس ہزار سے زائد پھانسیاں دی گئی ان میں ستائیس ہزار سے زائد علماء اور ادباء شامل تھے۔ سو ایسی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ ادیب ہی معاشرے کی حقیقی تصویر کو اپنی تحریروں میں پیش کرتا ہے جس عوام شعور اور آگہی حاصل کرتے ہیں۔

ادب ہی اپنے عوام کی ذہن سازی کرتا ہے ان کی تربیت کرتا ہے۔ انہیں حالات اور واقعات ماضی اور حال کی روشنی میں پرکھنا اور اس سے سبق حاصل کرنا سکھاتا ہے۔ اب اس تمام حقائق کو سامنے رکھ کر ایک نظر ڈالئے اپنی ستر سالہ ادبی تاریخ پر اور اس میں تخلیق کہے جانے والے ادب پہ اور خصوصاً ً اس ادب پر جسے سرکاری اور مقتدر قوتوں کی آشیرباد حاصل رہی۔ شاعری، ناول، افسانہ، ڈرامہ، گانا اور فلم سمیت ہر شعبہ ہائے ادب کو دیکھ لیں کہ اس ستر سالوں میں ہمارے ہاں کیسا ادب تخلیق ہوتا اور فروغ پاتا رہا۔

یہاں ہم فروغ پانے اور فروخت ہونے پانے والے ادب کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ غور فرمائیں کہ 70 ء اور 80 ء کی دہائی میں جب امریکہ میں ایلون ٹافلر کی موج سوم اور فیوچر شاک پڑھی جا رہی تھی اور لوگ اکیسویں صدی کے لیے خود کو تیار کر رہے تھے تب ہم راجہ گدھ، شہاب نامہ، الکھ نگری اور علی پور کا ایلی کا پڑھ کر کسی روحانی بابے کی آمد کا انتظار کرنا سیکھ رہے تھے۔ پھر جب دنیا میں ریڈر ڈائجسٹ جیسے رسالے سائنس اور فکشن کو باہم ملا کر معجزات کی راہ ہموار کر رہے تھے ہم آداب عرض، جواب عرض، شعاع اور خواتین ڈائجسٹ پڑھ رہے تھے اور ہم عشق اور امور خانہ داری کو ایک ساتھ لے کے چلنے کا نسخہ تیار کر رہے تھے۔

آج دنیا یوال نوح ہراری کو پڑھ اگلے سو سال کی تیاری کر رہی ہے، ارون دھتی رائے کو پڑھ کر ایٹمی ہتھیاروں اور ڈیمز کی تباہ کاریوں پر بحث کر رہی ہے، نام چومسکی اور ڈیوڈ کورٹن کو پڑھ کر کارپوریٹ کلچر کی سفاکیوں کا ادراک حاصل کر رہی ہے۔ عین اس وقت ہم نمرہ احمد، عمیرہ احمد، تہذیب حافی اور علی زریوں کو پڑھتے اور لوٹن کبوتر بنتے نظر آ رہے ہیں۔ رہی سہی کسر جاوید چوہدری کے کالمز، حسن نثار کے ٹاک شوز، اوریا مقبول جان کے تھوک اڑاتے تجزیے، قاسم علی شاہ اور ننھے پروفیسر جیسے موٹیوشنل سپیکرز پوری کر رہے ہیں۔

کبھی ایک لمحے کے لیے غور کریں کہ قدرت اللہ شہاب، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی، عمیرہ احمد، نمرہ احمد، حسن نثار، اوریا مقبول، قاسم علی شاہ اور ننھے پروفیسر، تہذیب حافی اور علی زریون میں ایسی کون سی قدر مشترک ہے جو یہ شہرت اور مقبولیت کی بلندی پہ کھڑے ہیں؟ ان سب میں ایک ہی خوبی ہے کہ یہ معاشرے کی اصل تصویر کبھی سامنے نہیں آنے دیتے یہ موجودہ نظام کے خلاف کبھی بات نہیں کریں گے۔ یہ ہمیشہ آپ کو ایک افیون زدہ ادب پیش کریں گے جس سے ہر چیز سکون پرور اور خوبصورت دکھائی دے گی۔

کوئی آپ کو جو ہے جیسا ہے پر صبر و شکر کی تلقین کرے گا، کوئی آپ کو دنیا کی کامیابی سے نفرت دلائے گا، کوئی آپ کی ہر کمی کا ذمہ دار کسی کامیاب ریاست یا شخص کو قرار دے گا، کوئی آپ کو بتائے گا کہ آپ کی ساری مشکلات آپ کے گناہوں کا نتیجہ ہیں۔ کوئی اپنے شعر سے بتائے گا فلسفہ ریاضی اور الجبرا سے کہیں بڑھ اس کے گھر کا پتا جاننا ضروری ہے وغیرہ۔ یہ کبھی آپ کو عملی طور پر کچھ کرنے ترغیب نہیں دیں گے، کبھی غور و فکر کی دعوت نہیں دیں گے۔

یہ کبھی کوئی اس مروجہ نظام کے خلاف بات نہیں کرے گا یہ کبھی آپ کو اس طرف دیکھنے ہی نہیں دیں گے۔ با الفاظ دیگر یہ اس استحصالی نظام کے محافظ ہیں اور غیر مرئی طور پر اس کی حفاظت کر رہے ہیں استحصالی قوتوں کے جبر پر پردہ ڈالے ہوئے ہیں۔ یہی وہ قدر مشترک ہے کہ یہ لوگ آپ کو پچھلے ستر سال سے ہمارے ادبی منظر پہ چھائے ہوئے نظر آئیں گے یہی وہ قدر ہے جو سبط حسن میں نہیں ہے، اقبال احمد میں نہیں ہے، علی عباس جلالپوری میں نہیں ہے اسی لیے ہمارے طلباء ان کا نام بھی نہیں جانتے۔ اس ساری صورتحال سے ہم اسی نتیجے پر پہنچے ہیں ادب کیمرے کی طرح ہوتا ہے لیکن اگر کیمرے پہ فلٹر لگا ہوتو تصویر پیاری آتی ہے اور لائکس اور کمنٹس بھی زیادہ آتے ہیں۔ سو ہم ادب بھی فلٹر لگا کر پڑھنے کے عادی ہیں۔ اور فلٹر بھی پنک والا۔ سمائل پلیز!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments