مٹتے ہوئے نقوش



بابو دینا ناتھ، جو کہ آزادی سے پہلے نکلنے والے اخبار ہندوستان کے اڈیٹر و مالک تھے، کا تعلق حافظ آباد سے دس میل دور گاؤں چبہ سندھواں سے تھا۔ حافظ آباد کی زرخیز زمین نے دو نامور اور دبنگ صحافی پیدا کیے ہیں، بابو دینا ناتھ اور دیوان سنگھ مفتون۔ دینا ناتھ جی اور مفتون جی اپنے وقت کے نہایت روشن خیال اور انسان دوست صحافی تھے۔ اخبار ہندوستان کی اشاعت اس وقت اردو اخبارات میں سب سے زیادہ تھی۔ ہندوستان اخبار پر مقدمہ چلنے کے بعد یہ تنزلی کا شکار ہوتا چلا گیا۔

جیل سے رہائی کے بعد بابو دینا ناتھ جی کے اظہاریے اور اداریے کی روش بھی ہندو پسند ہوتی گئی۔ اس کے وجہ چند مسلم اخبارات کی انگریزی دربار میں مخبری تھی۔ یہی مخبری تھی جس نے بابو دینا ناتھ جیسے روشن خیال کو شدت پسند بنایا، اور چند ہندو انتشار پسندوں نے اسے مزید مہمیز دی۔ جلد ہی اخبارات بھی ہندو اور مسلم ٹھہرے۔ انہی اخبارات نے ہندو مسلم تعلقات کی خلیج کو وسیع کیا جو بعد کو تقسیم پر آ کے رکی۔ بابو دینا ناتھ جی نے صحافتی کام پیسہ اخبار سے شروع کیا۔

مولوی محبوب علی اور بابو دینا ناتھ کی آپس میں گاڑھی چھنتی تھی، باپ بیٹے کی سی محبت تھی۔ پیسہ اخبار کے مالک و اڈیٹر مولوی محبوب علی صاحب کا تعلق بھی گوجرانوالہ سے تھا۔ ان کے ابا کی وفات کے بعد مولوی صاحب قصور سے گوجرانوالہ منتقل ہوئے اور وہیں سے پیسہ اخبار کا اجرا کیا۔ بعد میں یہ اخبار لاہور منتقل کیا گیا۔ اک چھوٹے سے گاؤں سے کیسا نابغہ اٹھا اور دنیائے صحافت کے آسمان پر تابندہ ستارہ بن کے طلوع ہوا۔

بابو دینا ناتھ کے گاؤں میں سکھ شاہی دور کے آثار اب تک موجود ہیں مگر گندگی سے اٹے پڑے ہیں۔ ہمارے گاؤں میں بھی سکھوں کی اب تک مڑھی ہے جو شاید بابا دندو رام جی کی ہے۔ رام گڑھ، کوٹ لدھا بھی ضرور کچھ نہ کچھ تاریخی اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ یہاں موجود آثار اس بات کی بہت حد تک نشان دہی کرتے ہیں۔ بھڑی شاہ رحمان کے قبرستان میں شاہ جہان کے دور کے دو چند جھروکے ہیں جو کسی سکھ کا تحفہ تھے مگر نا اہلی کی بنا پر ریزہ ریزہ ہو رہے ہیں۔

یہ بات تحقیق طلب ہے کہ رام گڑھیوں کی مثل کا تعلق اسی رام گڑھ کے علاقے سے تو نہیں جو کوٹ لدھا اور چبہ سندھواں کے درمیان مکمل شان سے اب تک استادہ ہے؟ اس تاریخی گاؤں، رام گڑھ، پہ نام کی بنا پر ہم مسلمانوں کی طرف سے افتاد یہ پڑی کے اس کا نام اسلام گڑھ رکھ دیا گیا۔ مگر وہ تاریخ جو لوگوں کی زبان سے ناموں کی صورت میں پھوٹتی ہے، لاشعور میں محفوظ ہوتی ہے نام بدلنے سے کھرچی نہیں جا سکتی، غتر بود نہیں کی جا سکتی۔ تاریخ شاہی ایوانوں اور درباروں کے ساتھ ساتھ گلی محلوں اور کوچہ و بازاروں میں بھی پرورش پاتی ہے۔

عزیز علی شیخ واحد ایسے شخص ہیں جنہوں نے حافظ آباد کی تاریخ پہ کام کیا ہے۔ یہ کام تاریخ حافظ آباد کی صورت میں منظر عام پہ آ چکا ہے۔ مگر یہ کتاب صرف حافظ آباد کا احاطہ کرتی ہے اس سے متصل چھوٹے گڑھوں اور گاؤں کا ذکر بہت قلیل کرتی ہے۔ حافظ آباد میں اکبر اور شاہ جہاں کے زمانے میں بسائے گئے محلے اور عمارتیں ہماری تاریخ کے صفحات سے محو ہو رہے ہیں۔ ان کی بقا کا ضامن کوئی بھی نہیں۔ وہ جھروکے، وہ حویلیاں، وہ گلیاں، وہ چوبارے سب وقت کے نادیدہ مگر قوی ہاتھوں سے برباد ہو رہے ہیں۔

قلعہ دیدار سنگھ میں تقسیم سے پہلے کی سکھوں کی شاندار حویلیاں اور قلعے ان کی موجودگی کے گواہ ہیں مگر اس وقت یہ مکمل طور پہ خستہ حال ہیں۔ تقسیم کے زمانے کی لگی آگ کی سیاہی اب تک ان حویلیوں کے در و دیوار پہ دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ گھروندے جو کبھی آباد تھے، یہ حویلیاں جو کبھی کھنکتی تھیں، یہ محلے، یہ کوچے، یہی بازار جو کبھی رستے بستے تھے اب تاریخ کے اوراق میں بمشکل محفوظ ہیں، اپنی بربادی کا نوحہ سناتے محسوس ہوتے ہیں، مگر نوحہ آشنا کوئی بھی نہیں۔ محکمہ آثار قدیمہ کی نا اہلی کہہ لیجیے جو اس قیمتی سرمائے کی حفاظت کرنے سے غافل ہے۔

آثار کے تباہ ہونے سے تاریخ بھی تباہ ہو جاتی ہے۔ اس کے صرف مفروضوں ہی کی پرداخت ہوتی ہے۔ آثار جب تک ثبت رہتے ہیں وہ اقوام کے حافظے میں نقش رہتے ہیں۔ برصغیر کی مٹی میں تاریخی شعور نمو پا ہی نہیں سکا اور نہ ہی پاتا نظر آ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments