کووڈ 19: پاکستان میں کورونا وائرس کی ویکسین سے متعلق خدشات کی وجہ کیا؟

سحر بلوچ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


پاکستان، کووڈ ویکسین

بطور لیڈی ہیلتھ ورکر مبینہ نوید کی ذمہ داری ہے کہ وہ گھر گھر جا کر لوگوں کو کووڈ ویکسین لگانے کے لیے قائل کریں اور جو پہلے سے مان گئے ہیں، ان سے مزید معلومات اکٹھی کریں جیسا کہ کیا گھر کے باقی افراد نے ویکسین لگوالی ہے؟ اور اگر نہیں تو پھر وہ کیسے خود کو رجسٹر کر کے جلد از جلد ویکسین لگوا سکتے ہیں۔

اس دوران بی بی سی اردو نے بھی ان کے ساتھ ان گھروں کا دورہ کیا اور دیکھا کہ اب تک ویکسین لگانے کے بارے میں کیا لوگ آمادگی کا اظہار کر رہے ہیں۔

اسلام آباد کے جی سیون تھری ون کے علاقے میں ایک گھر کے دروازے پر کھڑی ایک خاتون سے جب مبینہ نے پوچھا کہ آپ نے اب تک ویکسین کیوں نہیں لگوائی، تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے فیس بُک اور ٹِک ٹاک پر دیکھا تھا کہ یہ ویکسین قابلِ اعتماد نہیں اور صرف ایک تجربہ ہے۔ تو میں نے سوچا پہلے دیکھ لوں لیکن میں عید کے بعد لگوا لوں گی۔‘

پاکستان میں لوگوں کی ویکسین کے بارے میں دو رائے اور ہچکچاہٹ کے نتیجے میں ویکسین کا عمل خاصا سست روی سے چل رہا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی بائیس کروڑ کی آبادی میں سے اب تک صرف دو فیصد لوگوں کو ہی ویکسین لگ سکی ہیں۔

اس کے علاوہ لیڈی ہیلتھ ورکرز بتاتی ہیں کہ کس طرح سوشل میڈیا پر پھیلنے والی غلط خبریں اور لوگوں کی طرف سے پھیلائی گئی افواہیں اس سستی کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں ویکسین سے متعلق رازداری اور اتنی سکیورٹی کی وجہ کیا ہے؟

کورونا ویکسین پر طبی عملے کے خدشات: ’ڈر ہے کہ حکومت ہم پر تجربہ نہ کر رہی ہو‘

کورونا وائرس کی نئی انڈین قسم: کیا ویکسینز اس کے خلاف مؤثر ہوں گی؟

ویکسین سے متعلق خدشات کیوں؟

پاکستان میں لوگوں کے ویکسینیشن سے متعلق خدشات بہت زیادہ ہیں اور ان خدشات کے پیچھے ایک بڑی وجہ سنہ 2011 میں امریکی سی آئی اے کی جانب سے ویکسینیشن مہم کا استعمال کرتے ہوئے اسامہ بن لادن تک رسائی حاصل کرنے سے جڑا ہے۔

اگر رواں سال کے اوائل کی بات کریں تو پاکستان کی حکومت نے ویکسینیشن کا عمل دیر سے شروع کیا تھا اور اس دوران ملک بھر میں مرحلہ وار ہیلتھ ورکرز سے شروع کرتے ہوئے دیگر افراد کو ویکسین لگانے کا عمل اب بھی جاری ہے۔

لیکن اس دوران ویکسینیشن کے بارے میں ہچکچاہٹ اپنی جگہ بڑھتی رہی۔ اس کی ایک وجہ وزیرِاعظم عمران خان کا ٹی وی پر کووڈ کا انجیکشن لگانے اور دو دن بعد کووڈ کا ٹیسٹ مثبت آنے کو بھی خیال کیا جاتا ہے۔

حالانکہ ڈاکٹروں، ماہرین اور وزرا کی جانب سے متعدد وضاحتیں دی گئیں کہ وزیرِاعظم کو ویکسین لگانے سے پہلے کووڈ ہو چکا تھا لیکن اس کے باوجود چند لوگوں نے ویکسین کی افادیت کو ماننے سے انکار کر دیا اور سوشل میڈیا پر اس بارے میں بات چیت کا زیادہ تر دارومدار غیر تصدیق شدہ خبروں اور افواہوں سے منسلک رہا۔

پاکستان، کووڈ ویکسین

یہ غیر ضروری عمل نہیں

تاہم اب بھی کچھ افراد ویکسین لگوانے اسلام آباد اور ملک بھر کے مختلف ویکسینیشن سینٹرز پر پہنچ رہے ہیں۔

چک شہزاد کے فیڈرل جنرل ہسپتال میں ایک خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے کہا گیا کہ ویکسین بالکل غیر ضروری ہے، اس کا کوئی فائدہ نہیں۔‘

وہ بتاتی ہیں ’کچھ لوگوں نے تو اتنا تک کہا کہ تم مر جاؤ گی لیکن میری بیٹی، میرے شوہر اور میں نے سوچا کہ نہیں یہ غیر ضروری عمل نہیں۔ یہ میری اور میرے شوہر کی ویکسین کی دوسری خوراک ہے اور لوگوں کی طرف سے جتنا ڈرایا گیا تھا ایسا کچھ بھی نہیں۔‘

ویکسین کی کمی

پاکستان کو اس وقت چین اور روس سے ویکسین ملی ہے لیکن حکام کا کہنا ہے کہ اب بھی مزید ویکسین کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ اس وقت پاکستان میں نجی طور پر سپوتنک وی ویکسین محدود مقدار میں صرف کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں دی گئی ہے جبکہ فروری سے شروع ہونے والے سرکاری ویکسینیشن پروگرام میں 70 برس سے بڑی عمر کے افراد کو کانسینو ویکسین لگائی جا رہی ہے جبکہ 60 برس سے بڑی عمر کے افراد کو چینی ساختہ سائنو فارم لگائی جا رہی ہے۔

اس وقت 40 برس سے زائد عمر کے تمام افراد کے لیے ویکسین کا عمل جاری ہے جبکہ 30 برس سے زائد عمر کے افراد کی ویکسینیشن کی رجسٹریشن 16 مئی سے شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ اب تک چین کی طرف سے 15 لاکھ ویکسین مل چکی ہے لیکن اب بھی مزید ویکسین کا انتظار ہے۔

اس بارے میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے ایک نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مئی کے آخر تک چین سے مزید ویکسین کی کھیپ پاکستان پہنچ جائے گی اور اس کے علاوہ جون میں ویکسین کی 18 لاکھ خوراکیں آنا متوقع ہے۔

وقافی حکومت اس وقت پوری کوشش کررہی ہے کہ لوگ ویکسین لگوانے کو ترجیح دیں۔

اس بارے میں ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے بی بی سی کو بتایا کہ ’لوگوں کے ذہنوں میں ویکسین سے متعلق خدشات ہیں کہ شاید ہم لوگ یعنی حکومت ان سے جھوٹ بول رہی ہے یا پھر یہ تمام کاوش کسی پروپیگنڈا کا حصہ ہے لیکن ظاہر ہے ایسا کچھ بھی نہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’لیڈی ہیلتھ ورکرز کو گھر گھر بھیجنے کے علاوہ ہم نے علما اور خطیب کو بھی اس میں شامل کیا تاکہ مساجد میں ویکسین کے حوالے سے مثبت پیغام لوگوں تک پہنچ سکے۔‘

پاکستان میں مساجد کا صحت اور دیگر معاملات میں ایک بڑا عمل دخل رہا ہے۔ علما اور خطیب ملک میں جاری کسی مہم کو بنانے اور بگاڑنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اسی لیے حکومت نے علما کی مدد بھی حاصل کی ہے۔

اس کی ایک مثال پولیو مہم سے لی جا سکتی ہے۔ جس کے دوران صوبہ سندھ کے شہر کراچی اور خیبر پختونخوا میں علما کو شامل کیا گیا اور فتوے جاری کرائے گئے جس میں لوگوں کو اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی تلقین کی گئی۔

اسی طرح اب کووڈ سے نمٹنے کے معاملے میں بھی مساجد اور علما کا کردار پھر سامنے آ رہا ہے۔

ویکسین لگوانے والی پمز ہسپتال کی نرس رضوانہ یاسمین

ویکسین لگوانے والی پمز ہسپتال کی نرس رضوانہ یاسمین

اسلام آباد کے سیکٹر جی سِکس ٹو میں مسجد کے امام محمد اسماعیل سے جب کووڈ ویکسین کے بارے میں اعلانات کرنے کی بات کی گئی تو انھوں نے کہا کہ ’اب ہمیں دھمکایا جا رہا ہے کہ ویکسین کے بارے میں اعلانات کرو۔ ہم کر رہے ہیں لیکن لوگوں کا اس پر عمل کرنا نہ کرنا ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ ہماری شکایت صرف یہ ہے کہ کیا کووڈ صرف مساجد سے پھیل رہا ہے؟‘

دوسری جانب سیکٹر جی سِکس تھری کی بلال مسجد میں مولانا ذوالفقار احمد پچھلے چار ہفتوں سے جمعے کی نماز سے پہلے ویکسین کے حوالے سے اعلانات کرتے آ رہے ہیں اور مسجد کے اندر سماجی دوری اور ماسک پہننے کو ترجیح دینے سے منسلک آگاہی بھی دے رہے ہیں۔

ویکسین کے بارے میں اعلانات کرنے کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ’ہم ویکسین کے بارے میں مزید اعلانات کریں گے۔ لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے لیکن یہ عمل تو پوری دنیا میں جاری ہے اور ویکسین لگانے کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں۔‘

لیکن اسی مسجد میں جمعے کے خطبے کے دوران لوگوں کا ایک جمِ غفیر ہوتا ہے اور اس دوران سماجی دوری کا کوئی نظام نظر نہیں آتا۔

مسجد میں رش کے بارے میں مولانا ذوالفقار نے کہا کہ ’عام دنوں میں تو لوگ نماز پڑھتے ہوئے دوری رکھتے ہیں لیکن جمعے کے روز ایسا ممکن نہیں کیونکہ اگر ایسا کریں تو سڑک تک صفیں چلی جائیں گی اور نظام مزید درہم برہم ہو جائے گا۔‘

’اس کے علاوہ لوگ اعلان ہونے سے پہلے ہی نماز پڑھ کے چلے جاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں اب اعلانات جمعے کی نماز کے بعد کرنے کے بجائے، نماز سے پہلے کرنے کو کہا جا رہا ہے۔‘

انڈیا میں کووڈ کے نتیجے میں ہونے والی اموات اور دل دہلا دینے والی صورتحال کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے لیے اس وقت کورونا وائرس کو محدود اور پھر ختم کرنا بہت اہم ہے اور اس سے بھی زیادہ اہم عوام کو ویکسین لگانا ہے لیکن جس طرح سے لوگ اس بارے میں خدشات کا اظہار کر رہے ہیں، اس سے ایسا لگتا ہے کہ ابھی ایسا ہونے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp