اشرافیہ کا تسلط اور زنجیروں میں جکڑے عوام


فیصل آباد جڑانوالہ کے نواحی علاقے بنڈالہ میں ایک شخص نے بے روزگاری، غربت اور گھریلو جھگڑوں سے تنگ آ کر اپنے چاروں بچوں کو قریبی نہر میں پھینک دیا۔ عید پر کپڑے نہ بنانے پر میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہوا، بیوی معاشرے کے رواج کے مطابق ناراض ہو کر اپنے میکے چلی گئی اور شوہر نے معاشی اور گھریلو مسائل کے حل کا نتیجہ یہ نکالا کہ اس نے اپنے چار بچوں جن کی عمریں بالترتیب سات، چھ، چار اور ڈیڑھ سال تھیں، انھیں کپڑے لے کر دینے کے بہانے لے جاکر نہر میں پھینک دیا۔

اس تصور ہی سے روح کانپ جاتی ہے کہ ان معصوم بچوں کو عید کے نئے کپڑوں کی خریداری کی جگہ جب نہر میں پھینکا گیا ہوگا تو ان پرکیا بیتی ہوگی؟ ایک طرف غربت اور ذہنی پسماندگی کا یہ حال ہے دوسری جانب اسراف، نمائش اور ذہنی پستی کی ایک صورت یہ ہے کہ ڈسکہ میں فوت ہونے والے 65 سالہ شخص جو کہ مریدین کا حلقہ بھی رکھتا تھا، اس کی وصیت کے مطابق اس کے جنازے پر مریدین اور عزیز و اقارب نے نوٹ نچھاور کیے۔

ستر کی دہائی میں ملک کی معیشت پر 22 خاندانوں کی اجارہ داری تھی اور پاکستان منصوبہ بندی کے سابق ڈپٹی چیئرمین اور پی آئی ڈی ای ڈاکٹر نعیم الحق اور امین حسین کی ریسرچ میں بتایا یہ گیا ہے کہ اب ملک کی معیشت اور کاروبار پر 31 خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ چند روز قبل وزیر اعظم پاکستان نے بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ ملک پر اشرافیہ کا قبضہ ہے۔ ان کے مطابق اس ساری صورتحال کی ذمہ دار وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو گزشتہ تیس سال سے اقتدار میں ہیں۔

وزیر اعظم نے درست نشاندہی کی ہے لیکن اس ساری صورتحال کا ذمہ داران سیاسی جماعتوں کو قرار دینا جو تیس سال سے اقتدار میں ہے ان کے سیاسی تعصب اور پاکستان کی سیاسی اور معاشی تاریخ سے عدم واقفیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر وزیر اعظم کی بات کو سو فیصدی درست مان بھی لیا جائے تو ایک سربراہ مملکت جس کے پاس اختیارات ہی اختیارات ہیں اسے کن رکاوٹوں کا سامنا ہے جو وہ ملک کی معیشت اور سیاست پر اشرافیہ کے تسلط کے خلاف کارروائی میں حائل ہیں؟

یہ سیاسی تعصب اور دشمنی ہی تو ہے کہ پانامہ لیکس میں تقریباً ساڑھے چار سو پاکستانی شہریوں کے نام تھے لیکن ایک نواز شریف کے خلاف کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔ تحریک انصاف کے اقتدار کو تقریباً تین سال ہونے والے ہیں، کیا وزیراعظم یہ بتا سکتے ہیں کہ پانامہ لیکس کے باقی 449 کے خلاف کارروائی کب ہوگی؟ اسی طرح آٹا اور چینی کا بحران پیدا کرنے والوں کے خلاف کارروائی بھی جوڑ توڑ اور سیاسی مصلحتوں کی نذر ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ سیاسی تعصب ہی ہے کہ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا لے کر تحریک انصاف نے جو اقتدار حاصل کیا ہے، بھان متی کے کنبے کی ایک کثیر تعداد ماضی میں کسی نہ کسی حکومت کا حصہ رہی ہے، ایسے میں وزیر اعظم کے بیان کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ صرف نواز شریف اور

زرداری کرپٹ تھے اور جو لوگ ماضی میں ان کے ساتھ تھے اور آج تحریک انصاف کا حصہ ہیں وہ کسی بھی قسم کی کرپشن میں ملوث نہیں تھے۔ یہ سیاسی تعصب اور مصلحت ہی ہے کہ چوہدری برادران کو عمران خان نہ جانے کن کن القابات سے نوازا کرتے تھے آج وہ ہی چوہدری برادران ان کی آنکھ کا تارا ہیں۔ چوہدری برادران پر یاد آیا کہ کرپشن پر معروف قانون دان ایس ایم ظفر کے کالموں کا ایک مجموعہ ”پاکستان بنام کرپشن عوام کی عدالت میں“ آج سے تقریباً پچیس سال قبل بیت الحکمہ ( ادارہ ہمدرد) کے تعاون سے شائع ہوا تھا۔

اس میں ایک جگہ یہ جملہ موجود ہے کہ ”زرداری اچانک امیر ہو جائے تو چور کہلائے۔ چوہدری ظہور الہی کا خاندان ایک ہی نسل کے درمیان آدھے پنجاب پر تسلط کر لے تو اچھا جہاندیدہ تاجر کہلائے۔ یہ کون سا انصاف ہے؟“ ’۔ بعد میں جنرل پرویز مشرف کے زیر سایہ بنائی جانے والی مسلم لیگ قائد اعظم جس کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین تھے، ایس ایم ظفر مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے اور غالباً جماعت کا کوئی عہدہ بھی ان کے پاس تھا۔

وزیر اعظم عمران خان نے ملک کی سیاست پر صرف دو خاندانوں کی اجارہ داری ختم کی ہے۔ لیکن ملک کے چینی، تیل و گیس، ادویات، پاور، آٹا، چینی، گھی، جاگیردار اور پراپرٹی مافیا ان کی اپنی صفوں میں موجود ہیں۔ ان مافیا کے خلاف لڑنے کے لیے عمران خان ہوں یا کوئی اور سیاسی لیڈر، ادیب ہو یا دانشور، جب تک وہ سیاسی تعصب کی عینک نہیں اتارے گا، سماج کی طبقاتی ساخت کو نہیں سمجھے گا اور عوام کے اکثریتی طبقے کو اپنی حمایت اور طاقت نہیں بنائے گا ممکن ہی نہیں ہے کہ ملک میں سماجی اور معاشی انصاف پر مبنی معاشرہ وجود میں آ سکے۔ لاکھ احتساب کے ادارے بنیں، ہزار ہا تحقیقاتی کمیشن بنائے جائیں ممکن ہی نہیں ہے کہ موجودہ صورتحال میں مطلوبہ نتائج دے سکیں۔

ادھر عوام کا حال یہ ہے کہ وہ زبان، برادری اور فرقے در فرقے کی زنجیروں میں اس قدر جکڑے ہوئے ہیں کہ وہ اپنے لخت جگر نہر میں پھینک سکتے ہیں لیکن غلامی اور قید کی زنجیریں توڑنا نہیں چاہتے ہیں۔ وہ اپنے جنازوں پر نوٹ نچھاور کرنے کی وصیت تو کر سکتے ہیں لیکن زندوں کے لئے کچھ کرنے کی توفیق سے محروم ہیں۔ ہمارے دوست اور معروف ادیب عرفان جاوید جو فکشن اور خاکہ نگاری میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں، ان کی نئی کتاب ”عجائب خانہ“ حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ اس میں باب ”زندگی کی گود سے“ میں ایک پیرا ہے جسے میں پاکستان کے عوام کی حالت کی عکاسی سمجھتا ہوں۔

لکھتے ہیں ”ایک مرتبہ ایک شخص ہاتھیوں کے پاس سے گزر رہا تھا۔ وہ یہ دیکھ کر تذبذب کا شکار ہو گیا کہ قوی الجثہ ہاتھیوں کے اگلے پاؤں کو چھوٹی رسی سے باندھ دیا گیا تھا اور وہ اس رسی کو توڑ کر آزاد ہونے کی کوشش بھی نہیں کر رہے تھے۔ نہ تو وہ پنجرے میں تھے اور نہ ہی وہاں کوئی زنجیریں نظر آ رہی تھیں۔ اس نے مہاوت سے پوچھا کہ وہ تمام ہاتھی اپنی چھوٹی چھوٹی رسیاں توڑ کر آزاد ہونے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے تھے۔ مہاوت نے جواب دیا“ جب یہ چھوٹے بچے تھے تو ہم نے انھیں انھی چھوٹی رسیوں سے باندھا کرتے تھے اور یہ رسیاں ان کے لیے کافی تھیں۔ جب یہ بڑے ہو گئے تو ان کا پرانا والا تاثر قائم رہا کہ یہ رسیاں نہیں توڑ سکتے۔ اس لیے یہ ایسی کوئی کوشش ہی نہیں کرتے۔ ”وہ ہاتھی اپنے تاثر کے غلام تھے۔“ کاش کہ امجد اسلام امجد کی نظم کے یہ چند اشعار کبھی قبولیت کا درجہ حاصل کر لیں اور میرے وطن کے عوام بھی تیرگی کا غبار بن کر جینے سے انکار کردیں :

یہ رات اپنے سیاہ پنجوں کو جس قدر بھی دراز کر لے
میں تیرگی کا غبار بن کر نہیں جیوں گا
کرن ہو کتنی نحیف لیکن کرن ہے پھر بھی
وہ ترجمان ہے کہ روشنی کا وجود زندہ ہے
اور جب تک
یہ روشنی کا وجود زندہ ہے رات اپنے
سیاہ پنجوں کو جس قدر بھی دراز کر لے
کہیں سے سورج نکل پڑے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments