افغانستان کے بدلتے حالات: ساری نظریں پاکستان اور طالبان پر


کبھی جب ”غم جاناں“ نہیں ہوا کرتا تھا تو سنا کرتے تھے کہ جوانی دیوانی، مستانی اور لا ابالی ہوا کرتی ہے لیکن جیسے غربت بچوں کو تہذیب سکھا دیتی ہے اسی طرح محرومیاں اور مشکلات بھی بچوں کو وقت سے پہلے بڑا کر دیتی ہیں۔ اب بھی دنیا کے بہت بڑے حصے میں بچے اور جوان اپنے حصے کی زندگی جی رہے ہیں لیکن اس پختون خطے میں نوجوانوں کو گھر کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ نوجوان گھر کے معاملات میں کب دخل دیتے ہیں؟ اس وقت ناں جب انہیں احساس ہو جائے کہ گھر کے بڑے یا تو نہیں رہے یا وہ اپنی ذمے داریاں پوری کرنے سے غافل ہیں۔

اس تمہید کا مقصد ایک ہی ہے کہ علاقے اور دنیا کے داروغگان کو احساس دلایا جاسکے کہ وہ پختونوں کی سرزمین افغانستان کے لئے جو بھی منصوبہ بندی کریں اوریا کسی بھی معاملے سے آنکھیں چرائیں تو وہ یہ ضرور ذہن میں رکھیں کہ کوئی دیکھ رہا ہے اور جو دیکھ رہا ہے وہ اب بچہ نہیں رہا وہ نہ صرف سوال کرنے والا ذہن اور زبان رکھتا ہے بلکہ وہ اگر مزید پریشان ہوا یا پریشان کیا گیا تو وہ کسی بھی معاملے میں ہاتھ ڈال کر آپ کو روک بھی سکتا ہے۔

کئی دنوں سے افغانستان کے معاملے پر مختلف ذرائع سے دستیاب ہونے والا مواد پڑھنے کا موقع مل رہا ہے بلکہ اب تو لوگ لکھنے سے زیادہ کیمرے کے سامنے بول کر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں جس کو سمجھنا زیادہ آسان ہوتا ہے یہ بھی دیکھے اور سب سے اہم جگہ پر اس حوالے سے جو کچھ سننے کو ملا وہ چند راتیں قبل افغانستان سے امریکی انخلا کے تناظر میں ایک مباحثہ تھا جس کا اہتمام سماجی رابطوں اور اظہار خیال کے اہم ترین ذریعے ٹویٹر پر کیا گیا تھا اس مباحثے کی اہم بات یہ تھی کہ اس کے شرکا پڑھے لکھے اور سوچنے والے لوگ اور زیادہ تر جوان تھے اور ان کو جواب دینے کے لئے اس نشست کے مہمان خاص انسانی حقوق اور قوم پرست سیاست کے معروف نام افراسیاب خٹک صاحب تھے جو افغانستان کے گزشتہ چالیس سالہ بحران کے تناظر میں اپنے تجربے کی روشنی میں افغانستان کا مستقبل بھی بیان کر رہے تھے اور اس حوالے سے اپنی معلومات کے مطابق حاضرین کے ذہنوں میں پائے جانے والے سوالوں اور خدشات کے جواب بھی دے رہے تھے۔ چونکہ اس سے پہلے بھی میں اپنے بعض پاکستانی اور افغان صحافی دوستوں کی زبانی افغانستان کے اندر بدلتے حالات کے بارے میں لوگوں کی پریشانی سے واقف ہو چکا تھا ایسے میں اس سوال جواب نے سرحد کے اس پار یہاں کے نوجوانوں کے ذہنوں میں پنپتے مسائل کا بھی ادراک کرنے کے قابل بنایا۔

ان تمام ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات، سوالات اور خدشات کو اگر میں یکجا کرنا بھی چاہوں تو ممکن نہیں البتہ یہ کوشش کی جا سکتی ہے کہ نئے حالات کو ایک سادے سے پیرائے میں لکھ کر لوگوں خصوصاً حکومتوں اور ان گروہوں کے سامنے رکھا جاسکے کہ ان کے اقدامات کے بارے میں اس جنگ کے وہ فریق کیا سوچتے ہیں جو اس کو لڑتے تو نہیں ہاں اس سے ذہنی و نفسیاتی طور پر متاثر ضرور ہوتے ہیں۔

سب سے پہلے سب کو یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ افغانستان اب وہ افغانستان نہیں رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا بلکہ اب اس نے کافی ترقی کرلی ہے اور اب خدانخواستہ جنگ یا تشدد کے راستے اس کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے کے خواہش مندوں کو یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ اب اس کے شہریوں کو تشدد کے ذریعے دبانے کی بجائے ان کے ساتھ رہنا سیکھنا ہوگا اور اس حوالے سے سب سے بڑی ذمے داری امریکہ کے ساتھ امن معاہدہ کرنے والے طالبان پر عائد ہوتی ہے جن کو یہ سوچ کر اپنی مستقبل کی پالیسی بنانی ہوگی کہ اب وہ اگر خود کو نئے حالات کے مطابق نہیں ڈھالتے تو پھر افغانستان واپس بہت پیچھے چلا جائے گا۔ ان تمام مباحث میں کہیں پر اس بات کی وضاحت نہیں ملی کہ افغانستان میں طالبان کا آئندہ کا بیانیہ اور پالیسی کیا ہوگی کہ آیا وہ وہی طالبان ہوں گے جو نوے کی دہائی میں آئے تھے یا وہ بدل چکے ہیں۔

طالبان کے ساتھ ساتھ جس فریق کی بات ہو رہی ہے وہ ہے پاکستان، جس کے بارے میں یہ تاثر تو عام ہے کہ وہ نئے بدلتے حالات میں بھی سب سے اہم ہے اور مخالفین کے ساتھ ساتھ ناقدین کی زبان پر بھی اگر شکوے شکایتیں ہیں تو وہ پاکستان ہی سے کیے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ پاکستان اب تک یہ فیصلہ ہی نہیں کر پایا کہ وہ خطے میں شروع ہونے والی اس کشمکش میں افغانستان کے معاملے سمیت مستقبل کی صف بندی پر آنے والے دنوں میں دو بین الاقوامی بلاکس یعنی امریکہ اور چین میں سے کس کا ساتھ دے گا۔

کابل جو اب ترقی اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چند بڑے شہروں میں سے ایک بنتا جا رہا ہے کی بدلتی ہیئت پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں کہ اس کی یہ ہیئت بھی اس بات کی متقاضی ہے کہ اب اس کو ایک جنگ زدہ ملک کے دارالحکومت کی بجائے دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک سمجھ کر اس کی ضروریات کو سمجھنا ہوگا اور اسے جنگی نہیں جمہوری انداز میں چلانے کا بندوبست کرنا ہوگا، ساتھ ہی ساتھ افغانوں پر بھی زور ڈالا جا رہا ہے کہ وہ بھی اب یورپی ممالک کی طرح بتدریج قبائلی ازم کو ترک کر کے ترقی یافتہ مین سٹریمنگ کا حصہ بنیں اور ایسا نہ کیا گیا تو حالات کبھی بھی افغانوں کی مرضی کے مطابق نہیں ہوں گے۔

جب یہ سب کچھ پڑھ اور دیکھ رہے ہیں تو ساتھ ہی ذہن میں یہ سوال بار بار سر اٹھا رہا ہے کہ افغانستان میں ایک بڑی نئی تبدیلی اور اس کے اثرات کے حوالے سے پاکستان کی سیاسی قیادت کیوں اتنی لاتعلق ہے وہ کیوں اس کا ادراک نہیں کر رہی کہ آنے والے دن پھر بدل رہے ہیں ان سیاسی جماعتوں نے ابھی تک یہ کوئی تاثر کیوں نہیں دیا کہ وہ اپنے عوام کے ساتھ ساتھ ہمسایہ افغانستان کے بارے میں بھی کوئی فکر رکھتے ہیں ہم نے ابھی تک کسی بھی سطح پر کوئی کانفرنس یا مباحثہ نہیں دیکھا جس سے دل کو تسلی ہو کہ ہماری سیاسی قیادت کو گزشتہ چار دہائیوں سے شروع اس کشمکش کے دوران ایک بار پھر بدلتی فضا کے بارے میں کوئی غم لاحق ہے۔ اس سیاسی قیادت کے بارے میں یہ سوال اب ذرا زیادہ کھل کر کیا جا رہا ہے کہ افغان قیادت سے بات چیت میں پاکستان کی سیاسی قیادت کیوں آگے نہیں آ رہی اور سارا کام فوج یا اس کے سربراہ کو ہی کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟

اس معاملے پر جاری ان تبصروں میں امریکہ کی افغانستان سے واپسی کے بعد اس کی افواج کے پھر بھی خطے میں موجودگی کے حوالے سے گرما گرم بحثیں چل رہی ہیں اور اس پر بھی بات ہو رہی ہے کہ پاکستان سے مستقبل میں افغانستان کی سلامتی کے معاملے پر کوئی دوطرفہ معاہدہ کرایا جائے اور اس کی مدد سے افغانستان میں کسی بھی متوقع تشدد کا راستہ روکا جائے۔

باتیں بہت ساری ہیں اور ان سب باتوں کا نتیجہ ایک ہی ہے کہ امریکہ جو بظاہر جا رہا ہے لیکن وہ خطے سے کہیں نہیں جا رہا وہ اس کے بعد بھی اس خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے یہاں رہنا چاہتا ہے اور اس کے لئے اسے شاید پاکستان یا کسی سنٹرل ایشین ریاست میں اڈے حاصل کرنے کی ضرورت ہو، دوسرا اہم مسئلہ جو زبان زدعام ہے کہ پاکستان کو اب مفادات کے ٹکراو کی اس فضا میں اپنے مستقبل کا کوئی فیصلہ کر ہی لینا چاہیے کہ وہ چین اور امریکہ کے بلاکس میں سے کس کا ساتھ دے گا اور اس میں جب ووٹ کی بات آتی ہے تو قریبا زیادہ تر ناقدین و دوستوں کی رائے چین کے حق ہی میں ہوتی ہے۔ پاکستان افغانستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو بدلے اور اسے جیو اکنامک تعلقات میں ڈھالے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments