شمس الرحمن فاروقی کا ناول: کئی چاند تھے سر آسماں (تلخیص – قسط نمبر 2)



نواب مرزا کے رامپور جانے سے پہلے وزیر خانم اپنے باپ یوسف سادہ کار کو بیٹے کی وجہ سے دوبارہ ملنے لگیں تھیں۔ مگر جیسے ہی نواب مرزا 1836 میں رامپور بھیجے گئے۔ وہ سلسلہ پھر منقطع ہو گیا۔ اور پھر 1840 میں یوسف سادہ کار کی صحت بگڑ گئی۔ وزیر خانم سنتے ہی دوڑی اپنے والد کے پاس پہنچیں۔ وہاں حکیم صاحب افسردہ گھر سے باہر نکل رہے تھے۔ وزیر خانم انھیں دیکھتے ہی بولیں، حکیم صاحب، میرے ابا جی کیسے ہیں؟ ، للہ انھیں بچا لیجیے۔ حکیم صاحب بولے، بی بی اب سب اللہ کے ہاتھ میں ہے، ہم یہاں بے بس ہیں۔ یہ حالت دیکھ کر وزیر خانم نے اپنا سر باپ کے قدموں میں رکھ دیا اور ان سے معافی کی خواستگار ہوئیں۔ ان کے باپ نے وزیر کو کلمہ شہادت پڑھنے کا کہہ کر ایک ہچکی لی اور اس دنیا کو چھوڑ گئے۔

وزیر خانم کی بیوگی کو 7 سال کا عرصہ بیت چکا تھا۔ یہ 1842 کی بات ہے کہ نواب شمس الدین کی بہن نے اپنے ایک رشتہ دار آغا مرزا تواب علی کے لئے وزیر خانم کے رشتے کا اشارہ کیا۔ وزیر خانم اپنے گیارہ، بارہ سال کے بیٹے کے ہوتے ہوئے یہ سوچ بھی نہ سکتی تھیں۔ مگر اپنی بہن کے اصرار پر کہ ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے اور کب تک یوں اکیلی رہو گی۔ وزیر خانم نے اس نظریے کے پیش نظر کہ کوئی سہارا تو پہاڑ جیسی زندگی گزارنے کے لئے مجھ دکھیاری کو درکار ہوگا، ہاں کردی۔ گو کہ انھیں یہ توقع نہ تھی کہ انھوں نے جس شان و شوکت، نوکروں کی فوج اور وسائل زندگی سے بھرپور عرصہ اپنے سابقہ رفیقوں کے سنگ گزارا تھا، ایسا پھر کبھی ممکن ہوگا۔ مگر اپنی بہن کی اس بات پر کہ نواب مرزا کی تربیت اور خوشحال زندگی کے لئے یہ ضروری ہے۔ وہ ماں ہونے کے ناتے پگھل گئیں۔

1842 میں ہی وزیر خانم کا نکاح ہوا، جو پہلے بطریق اہل سنت اور پھر بطریق مذہب اثنا عشریہ باندھا گیا۔ ڈھائی سو اشرفیاں حق مہر مقرر ہوا، نصف جس کا معجل تھا۔ ان کی رخصتی اپنی بہن کی حویلی واقع رامپور سے ہوئی۔ اور وہ آغا مرزا تراب علی کی رفیق حیات بن گئیں۔ وزیر خانم نے اپنے بیٹے نواب مرزا سے باقاعدہ اس بارے رائے بھی لی تھی، جس پر نواب مرزا نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ نواب یوسف نے شادی کی ساری ذمہ داری اپنے سر لی اور اپنی حیثیت کے عین مطابق دھوم دھام سے شادی کی۔ نواب محمد سعید خان بہادر کی طرف سے دلہا و دلہن دونوں کے لئے شیرینی، جوڑے اور انگشتریاں آئیں۔ نواب مرزا بھی ان کے ساتھ نئے گھر میں منتقل ہو گئے۔ وزیر خانم نے دلی کا گھر اپنے قبضہ میں رکھا جس کی صفائی ستھرائی کا کام ان کی بہن کے ذمے تھا۔

انکے شوہر، انتہائی شریف النفس آدمی تھے۔ خوشحال تھے اور وزیر خانم کو حد درجہ محبت کرتے تھے۔ وہ کہنے کو تو مولوی تھے مگر ان میں مولویوں جیسا تقشف اور ملایان مکتبی جیسی پیوست نام کو نہ تھی۔ نہ ہی انھیں اپنے سید ہونے کے بل بوتے پر کوئی احساس تفاخر تھا جس کی بنا پر وہ وزیر خانم کو کمتر سمجھتے۔ ان کا مزاج عاشقانہ و شاعرانہ تھا۔ وہ، وزیر کا اس قدر لحاظ کرتے کہ نہ انھیں چھوٹی بیگم کہتے اور نہ ہی وزیر خانم کہتے، مبادا ماضی کی کوئی تلخ یاد انھیں ستانے لگے۔

مولوی صاحب انھیں ہمیشہ ”وزیر بیگم“ بلاتے۔ وہ وزیر کا اس قدر خیال کرتے کہ انھوں نے ان کی بھولی بسری شاعری کی لگن کو بھی جگانے کی کوشش کی۔ ادھر وزیر خانم کو بھی نکاح کے بعد اپنی زندگی اچھی گزرتی محسوس ہوتی تھی۔ اس پر ایک بیٹے کی نعمت نے ان دونوں کو اور خوشحال کر دیا۔ بیٹے کا نام شاہ محمد آغا مرزا رکھا گیا۔ وزیر خانم او ر ان کے شوہر دونوں اردو اور فارسی کی شاعری کا نہ صرف یہ کہ اچھا فہم رکھتے تھے بلکہ شعر کہا بھی کرتے تھے۔

ساتھ ہی ساتھ وزیر خانم کے بڑے بیٹے نواب مرزا بھی شاعری میں اپنا لوہا منوا رہے تھے۔ نواب یوسف خود بھی شعر کہتے تھے انھوں نے حکیم مومن خان مومن کی شاگردی اختیار کر رکھی تھی اور جب وہ نہ رہے تو غالب کے شاگرد ہوئے جن کے کہنے پر ناظم تخلص اختیار کیا اور اسی تخلص نے شہرت پائی۔ نواب صاحب ان دنوں رامپور میں ماہانہ مشاعرہ کی رسم عام کر چکے تھے۔ ایسے ہی دنوں میں رامپور میں ایک مشاعرہ ہوا جس کے بہانے اور اپنے شوہر کے کہنے پر وزیر خانم نے ایک غزل کہی جس کو نواب یوسف نے پڑھا تو بے اختیار داد کے ڈونگرے برسائے۔ ان دنوں یہ روا نہ تھا کہ کسی خاتون کی کہی ہوئی غزل مشاعرے میں پڑھی جائے یا وہ خود جلوہ افروز ہو کر پڑھے، اور اگر ایسا ہوتا تو یقینی طور پر اس پر داد و تحسین کی بارش ہوتی۔ وہ غزل یہ تھی۔

ہے زلف یار حلقہ ’زنجیر ہو بہو
رکھتی ہے آنکھ سحر کی تاثیر ہو بہو
اس کے بیاض رخ پر وہ نور سحر کی چھوٹ
چھلکا پڑے ہے رنگ طباشیر ہو بہو
اس کوچے میں دل اپنا جہاں چھوڑ آئے ہم
جنت کی ایک ہے وہیں تعمیر ہو بہو
بالیں پہ میری شمع رخ یار وقت نزع
جیسا تھا خواب ویسی ہے تعبیر ہو بہو
گم گشتہ دشت شب میں وہ ننھی سی آبجو
ہے میرے بخت خفتہ کی تصویر ہو بہو
تاب نظارہ کس کو ہے گلشن میں صبح کے
اس کا جمال مہر کی تنویر ہو بہو
اس پائے مرمریں پہ نہیں برگ گل کا داغ
منشور شہ پہ زر کی ہے تحریر ہو بہو

انکے شوہر نامدار گھوڑوں اور ہاتھیوں کی تجارت کرتے تھے۔ آغا صاحب 1843 میں ایک تجارتی سفر کے سلسلے میں سون پور روانہ ہوئے تو واپس نہ آئے۔ انھیں اس زمانے کے مشہور ٹھگوں نے قتل کر دیا اور یوں تیسری بار وزیر خانم محض 32 سال کی عمر میں بیوہ ہو گئیں۔ جس دن آغا صاحب کے انتقال کی خبر آئی وزیر خانم کو سکتہ ہو گیا وہ ساری رات دروازے کی طرف ٹکٹکی باندھے رہیں کہ اب آتے ہی ہوں گے۔ انھیں کچھ خبر نہ ہوئی کب ان کی چوڑیاں ٹھنڈی کی گئیں اور کب سفید دوپٹہ اڑھا دیا گیا۔

مذکورہ ٹھگ ہندوستان میں اس قدر مشہور تھے کہ کمپنی نے میجر جنرل ولیم ہنری سلیمن کو ان کے انسداد پر مامور کیا تھا۔ اور کامیاب انسداد پر انھیں سر کا خطاب دیا تھا۔ ان ٹھگوں کی واردات کی تیاری، واردات کے اصول، واردات کے وقت کے مخصوص الفاظ اور نعرے، واردات کے ہتھیار یہ سب اتنی تفاصیل سے اس کتاب میں موجود ہیں کہ جیسے ٹھگی باقاعدہ کوئی پیشہ تھا، جرم نہ تھا۔ اس کے کرنے والے ہر مذہب، رنگ و نسل کے لوگ تھے اور اپنے کام میں اس قدر کایاں، ماہر اور قابل تھے کہ مدتوں ان کی دبائی ہوئی لاشوں کا کچھ پتہ نہ چلتا اور وہ معاشرے میں عام لوگوں کی طرح بے فکر گڈ مڈ رہتے۔

وزیر خانم کے شوہر کا انتقال کیا ہوا، ان پر اپنے شوہر کا گھر ہی تنگ پڑ گیا۔ ان کے شوہر کے انتقال کے بعد وہ حویلی جو انھیں شوہر کی طرف سے ملی تھی دربار نوابی کو واپس ہو گئی۔ وہ آغا صاحب کے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ ایک گھر میں منتقل ہو گئیں جہاں آغا صاحب کی ایک بیوہ بہن اور پھوپھی بھی رہتیں تھیں۔ ان کی پھوپھی ساس اور نند ان کو منحوس خیال کرنے لگیں اور ہر وقت کے کوسنوں میں رکھتیں۔ ایسے حال میں نواب مرزا نے بہت اصرار کیا کہ وہ ماں کے ساتھ رہیں مگر وزیر خانم نے انھیں اپنی خالہ کے ہاں روانہ کر دیا۔ نواب اپنی ماں کے حالات سے بے خبر نہ تھے سو ایک دن ان کے پاس انھیں یہ کہنے کے لئے آئے کہ وہ بھی آ کر ان کے ساتھ رہیں۔

اس دوران ماں بیٹے میں جو گفتگو ہوئی وہ گفتگو دونوں کی عقل، بصیرت، دانائی اور باہمی احساس و محبت کا ایک نادر نمونہ تھی۔ نواب مرزا اپنی ماں کے دکھ کو سمجھتے تھے سو انھوں نے بات یہاں سے شروع کی۔

امان جان، وہ لوگ (وزیر خانم کی نند اور پھوپھی ساس) محمد آغا کو آپ سے لینا چاہتے ہیں۔

وزیر چھلکتی آنکھوں سے کہنے لگیں، معلوم ہوتا ہے کہ میرا مقدر یہی ہے کہ بچے جنوں اور پھر ان سے ہاتھ دھو لوں۔

نواب مرزا بولے میں بھی تو آپ کا جایا ہوں، میں کہاں آپ سے دور جاتا ہوں؟

وزیر خانم بولیں وہ زمانہ ایسا تھا کہ جب انگریز بھی دشمن تھا اور لوہارو میں بھی شنوائی نہ تھی، سو آپ کو رامپور بھیجنا ضروری تھا۔

نواب مرزا بولے، یہ سب درست ہے، مگر میں آپ کا بیٹا ہوں، اور آپ کا سایہ میرے سر پر رہے تو میں کچھ نہ کچھ کر کے دکھا دوں گا۔ میری رگوں میں بھی نواب شمس الدین کا خون ہے، آپ کے لئے میں آفات زمانہ کے خلاف سد سکندری بن جاؤں گا۔

وزیر خانم کے سینے میں فخر اور امتنان کی ایک شمع سی روشن ہوئی۔ نواب مرزا نے کہا، تو یہاں کی تنگ رہائش کو چھوڑیے اور خالہ جان کے ہاں چلیے میں انتظام کیے دیتا ہوں۔

وزیر بولیں، آپ شوق سے وہاں جائیں پر محمد آغا تو یہاں ہیں؟ جن پر ان کی پھوپھی اور دادی قبضہ جمائے بیٹھی ہیں۔ آپ مجھے اپنے خیالات کا پابند نہ کریں۔

پھر وہ گویا ہوئیں، نواب مرزا آپ میرے جگر کے ٹکڑے ہیں۔ مگر اول و آخر مرد ہیں۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا کے اسرار اور تمام دلوں کے نہاں گوشے ان پر منکشف ہیں۔ یا اگر نہیں بھی ہیں تو وہ سب فیصلے کرنے کے مجاز ہیں۔ مرد یہی سمجھتے ہیں کہ عورتیں اسی مزاج کی ہوتی ہیں جیسی مردوں نے اپنے دل میں گمان کر رکھا ہے۔ اور اگر نہیں بھی ہیں تو یہ مسئلہ عورت ذات کا ہے مرد کا نہیں۔

نواب مرزا بولے، ٹھیک ہے مجھے قادر مطلق نے مرد بنایا مگر شریعت اور رواج نے مجھے یہی سمجھایا کہ میری ماں کا قول، خیال اور فیصلہ سب مردوں پر مقدم ہے۔ اور کیا بہن، بیٹی اور ماں کی مشکل میں ان کے کام نہ آنا چاہیے؟

وزیر خانم بولیں، آپ نے یہ کیوں فرض کر لیا کہ میری مشکل کی کشائش آپ پر لازم ہے؟ بیٹا، ماں، بہن یا بیٹی کو معذور کیوں سمجھے اور یہ کیوں قرار دیا جائے کہ اس مشکل کا حل کوئی مرد ہی نکال سکتا ہے۔ کیا آپ میری جگہ اپنے باپ کو مشکل میں دیکھتے تب بھی یہی تجویز کرتے؟

نواب مرزا، جو اپنی ماں کے استدلال کے پہلے ہی قائل تھے سٹپٹا کر وہ گئے۔ کچھ نہ بن پڑا تو بولے، مرد تو اپنے معاملات میں۔

دیکھا نواب مرزا، وزیر خانم بولیں، آپ جوش محبت میں بھلے مجھے سب پر فوقیت دیں مگر آپ کی عقل کچھ اور راہ آپ کو سجھاتی ہے۔ مگر، شریعت کا بھی تو یہی کہنا ہے؟ مردوں کو عورتوں پر فوقیت حاصل ہے۔ اور علما اور کتابیں بھی تو یہی درس دیتی ہیں۔ نواب بولے۔

وزیر خانم بولیں، سب کتابیں مردوں کی لکھی ہوئیں، سارے علما، قاضی مرد۔ شرعی حیثیت کا مجھے پتہ نہیں مگر بابا فرید کا قول مجھے یاد ہے کہ جب جنگل میں شیر نمودار ہوتا ہے تو کوئی نہیں پو چھتا کہ شیر ہے یا شیرنی۔ آخر رابعہ بصری بھی تو عورت تھیں؟

نواب بولے، وہ تو ولی اللہ تھیں۔
جی ہاں، اور میں ایک بے خدا، دنیا دار بندی جس کا بال بال گناہوں سے پرویا ہوا ہے۔

نواب روہانسے ہو گئے، کہنے لگے میری بات کا یہ مطلب ہر گز نہ تھا مجھے بس آپ کی عافیت مطلوب ہے۔ ماں کی مامتا جوش میں آ گئی۔ بلائیں لینے لگیں اور انھیں واپس ان کی خالہ جان کے ہاں روانہ کر دیا۔

شہر رامپور کا یہ حال تھا کہ رشک دلی و لکھنؤ بنا چاہتا تھا۔ بس گنجان آبادیوں کے لحاظ سے لکھنؤ اور عمارات کے حسن و وسعت کے لحاظ سے دلی رامپور سے آگے تھے۔ نواب سعید خان کی فرمانروائی میں رامپور پھل پھول رہا تھا۔ ترقی، امن و امان، مرفہ الحالی اور چمک دمک کے اعتبار سے قرب و جوار کے تمام شہر آنولہ، سنبھل، امروہہ، حسن پور، شاہ آباد یہاں تک کہ مراد آباد اور بریلی بھی رامپور کے آگے ماند پڑتے نظر آتے تھے۔

یہ شہر 1774 سے 1794 تک کے عرصے میں ہی دارلامن و دارلعلوم کے سفر پر گامزن ہو گیا تھا۔ دور دور سے مختلف نسلوں، قومیتوں اور مذاہب کے لوگ یہاں آ کر آباد ہو رہے تھے۔ منو لال مورخ رامپوری کے بقول کوئی پانچ سو علما و فضلا ایسے تھے جنھیں خزانہ ریاست سے مشاہرہ ملتا تھا اور سرکاری خدمت کی کوئی شرط نہ تھی۔ وہ چاہیں تو اپنے گھر سے پڑھائیں اور چاہیں تو مدرسے میں جا کر پڑھائیں۔ دہلی اور بیرون ملک سے آ کر رامپور میں رہ جانے والے مشہور لوگوں میں حافظ جمال اللہ، شاہ درگاہی، شاہ بغدادی، شاہ جمال الدین شامل تھے۔ یہاں قائم کردہ ایک لائبریری ”رضا لائبریری“ اور ”مدرسہ عالیہ“ بہت مشہور ہوئے۔ یہ سب تھا مگر اپنے شوہر کی بے وقت موت پر نالہ کناں ہوتیں وزیر خانم رامپور میں جیسے نہ تھیں۔

ادھر دلی شہر میں ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ ثانی تخت پر تھے اور بیرونی اور اندرونی لٹیروں کی تاخت و تاراج ایک مدت سے بند تھی۔ حسن و عشق، علم و فضل، ہیئت و ہندسہ، منطق و ریاضی، نجوم و رمل، شعر و ادب، اور زہد و تصوف کی شمعوں کی جگمگاہٹ نے دلی کو بغداد و قرطبہ بنا رکھا تھا۔ کھیل کود، موسیقی و غنا، مصوری و خوشنویسی، ہاتھ کی ہر صنعت و حرفت، مرصع سازی و سادہ کاری، طباخی و دوا سازی، ہر فن کے ماہر شاہجہان آباد میں یوں موجود تھے کہ ایک ڈھونڈو تو چار کا پتہ ملتا تھا۔ آداب و علوم مملکت و جہانبانی و کشور کشائی و فوج کشی و جہانستانی کے سوا کوئی شعبہ حیات ایسا نہ تھا کہ جس کے علما اور ماہرین دلی میں نہ ہوں۔ دلی کسی بھی بین الاقوامی شہر کے جیسے تھا جہاں امیر اپنے مال میں اور فقیر اپنی کھال میں مست تھا۔

وزیر خانم کا حال اس دلی کے ہوتے ہوئے ایسا تھا کہ کئی پہروں پڑی رہتیں اور خاموشی سے کہیں نگاہ ٹکا کر وہاں سے نگاہ کو نہ اٹھاتیں۔ کھانا پاس دھرا ٹھنڈا ہو جاتا، پہلے کی طرح نوکروں چاکروں کی فوج نہ تھی، ایک ملازمہ تھی با ر بار کھانا گرم کرتی مگر وزیر خانم کو اس کی طلب ہی نہ تھی۔ وہ سوچتیں کہ انھوں نے زندگی میں بس اتنا چاہا تھا کہ جس کے ساتھ رہوں وہ مجھے چاہے، پھر میں دیکھوں گی کہ میں اسے چاہوں گی یا نہیں۔

اس میں کیا غلط تھا جو زندگی نے انہیں پے در پے امتحان میں ڈالے رکھا۔ وہ عام عورت کی طرح جینا نہ چاہتی تھی کہ کسی متمول شخص سے شادی یا ساتھ رہنے کو پسند کرتیں اور بے رنگ زندگی گزار دیتیں۔ اسی زمانے میں کتنی ہی عورتیں، انگریزوں کے ساتھ بغیر کسی نکاح رہیں، اگر انہوں نے بھی ایسا کر لیا تو کون سا ظلم ہوا، جو زیست نے یہ سلوک روا رکھا۔

نواب مرزا ایک اچھے شاعر کے طور پر سامنے آ رہے تھے۔ خوب شہرت اور داد سمیٹ رہے تھے۔ داغ تخلص کرتے تھے۔ ایسے شعر ان سے سرزد ہوئے کہ استادوں نے تحسین کی اور تو اور غالب جیسے شاعر نے ان کو بلا بھیجنے اور ملاقات کا قصد کیا کہ ایسے ہونہار شاعر کی ہمت افزائی ضروری ہے۔ ان دنوں خواجہ حیدر علی آتش کی ایک غزل کے چرچے دلی میں عام تھے۔ سب نے طرح مصرعے پر غزلیں کہیں۔ نواب مرزا نے بھی سعی کی اور چند لازوال اشعار کہے۔ جو دلی کی گلیوں میں مشہور ہو گئے اور لوگ جا بجا گاتے پھرتے۔ اشعار ملاحظہ ہوں۔

رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے
جگر تک آتے آتے سو جگہ گرتا ہوا آیا
ترا تیر نظر آتا ہے یا مستانہ آتا ہے۔

آخر وہ دن آیا نواب مرزا اور غالب کی باوجود اس کے ملاقات ہوئی کہ انھیں نواب مرزا کے والد سے پرخاش تھی اور دونوں اس بات سے واقف تھے مگر پھر بھی تہذیب اور مروت کا یہ عالم تھا کہ اس امر کا ذکر نہ ہوا۔ غالب نے نواب مرزا سے ان کے اشعار سنے، مضمون آفرینی، تک بندی اور خیال پر جی بھر کر داد دی۔ اگلی بار شیخ جرات کی زمین میں غزل کے ساتھ آنے کی تاکید کی۔ نواب مرزا نے دو ہی دن میں غزل کے بائیس اشعار کہ ڈالے۔

جرات کا مصرعہ تھا۔
نہ لوٹنا دل پر اضطراب سے چھوٹا
بلا سے جان گئی، میں عذاب سے چھوٹا
نواب مرزا نے جو غزل کہی اس کے اشعار یہ تھے۔
یہ عشق کب دل خانہ خراب سے چھوٹا
بہشت میں بھی نہ میں اس عذاب سے چھوٹا
نگاہ مست نے سرشار کر دیا مجھ کو
شراب مجھ سے چھٹی میں شراب سے چھوٹا

مرزا غالب نے خوب تعریف کی اور خوش ہو کر اپنا پیچوان عطا کیا۔ غالب چاہتے تھے کہ تھوڑی بہت اصلاح کر دیں مگر اس خیال سے کہ نواب مرزا کہیں اسے شاگردی میں لینے کا حربہ نہ سمجھیں، جانے دیا اور دعاؤں سے رخصت کیا۔

نواب مرزا کے کچھ اشعار ایسے تھے جنھیں سن کر اس وقت کے سکہ بند شاعر بھی جھومے بغیر نہ رہ سکے۔ ظاہر ہے اس خاندان نے وقت کی چکی میں اپنے آپ کو پیسا تھا۔ دکھ وزیر خانم نے دیکھے نواب مرزا ان کو الفاظ دیتے رہے، رہی سہی کسر تب پوری ہوئی جب انھیں اپنی ایک رشتہ دار (خالہ کی بیٹی) سے انسیت ہو گئی۔ ایسے میں جو شعر ہوئے تو امام بخش صہبائی جیسا دبنگ استاد اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور نواب مرزا کو گلے لگا لیا۔ کچھ اور شعر دیکھیے۔

تم کو آشفتہ مزاجوں کی خبر سے کیا کام
تم سنوارا کرو بیٹھے ہوئے گیسو اپنا
لگ گئی چپ تجھے اے داغ حزیں کیوں ایسی
مجھ کو کچھ حال تو کمبخت بتا تو اپنا

نواب مرزا جہاں اپنی شاعری سے شاعری کے افق پر چھا رہے تھے وہاں اپنی ماں کی حالت پر بھی دامن گیر تھے۔ مگر ان میں یہ حوصلہ اور ہمت نہ تھی کہ اس بارے ان سے کوئی بات کرتے۔ ان کے نزدیک وہ ایک باہمت، دور اندیش، معاملہ فہم، اپنے بل بوتے پر جینے والی خاتون تھیں۔ کوئی ان سے ان کی مرضی کے بغیر کچھ منوا نہ سکتا تھا۔ مگر ایسے میں صاحب عالم مرزا فخرو کے دل میں وزیر خانم کی پسندیدگی کا نواب مرزا کو پتہ چلا۔ وہ ایسے کہ صاحب عالم نے اس وقت کے ایک بہترین مصور سے وزیر خانم کی تصویر بنوائی تھی۔

جسے وہ اپنے پاس رکھتے تھے۔ کہتے ہیں مصور نے جس تصویر کو دیکھ کر ایک تازہ تصویر بنائی تھی محض اس پرانی تصویر میں وزیر خانم کے سراپے کو دیکھ کر اسے جھر جھری آ گئی تھی۔ اس شاندار تصویر کے عوض صاحب عالم نے دو سو روپے انعام عطا کیا اور تصویر کو اپنے پاس رکھ لیا۔ صاحب عالم ابو ظفر محمد سراج الدین کے چوتھے بیٹے تھے۔ اور وزیر خانم سے نکاح کے خواہاں۔ انھیں یہ بھی خیال تھا کہ وہ نواب ضیا الدین کے پیغام پر انکار کر چکی ہیں جو کہ نواب شمس الدین کے خاندان سے تھے۔ کوئی تدبیر سجھائی نہ دیتی تھی۔ شیخ محمد ابراہیم ذوق مرزا فخرو کے استاد تھے۔ ان سے شعر کہ کر دل کا حال کہ دیا۔ ذوق نے خیال کیا کہ وزیر خانم پر قسمت ایک اور دروازہ وا کیے دیتی ہے۔

مرزا فخرو کی پہلی شادی اپنی عم زاد سے ہوئی جو ابو ظفر سراج الدین کے چھوٹے بھائی کی صاحبزادی تھیں۔ ان سے ایک بیٹا مرزا ابوبکر پیدا ہوا۔ جلد ہی ان کی پہلی بیوی کا وصال ہو گیا۔ مرزا فخرو کی دوسری شادی مرزا الہی بخش (یہ وہی ہیں جن کے بارے میں مشہور تھا کہ انگریزوں کے جاسوس ہیں بعد کے وقتوں میں جب دلی فتح ہوا تو انگریزوں نے انھیں خوب نوازا جو ان کے کردار پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے ) کی بیٹی حاتم زمانی، سے ہوئی۔

اپنی اس شادی سے وہ خاص خوش نہ تھے، ان کی کبھی آپس میں بنتی نہ تھی۔ اور یہ کہ اس بات کا احساس ان کے والد کو بھی تھا۔ مگر مرزا فخرو باوجود اس کے، دوسری عورتوں کی طرف مائل نہ تھے۔ انھیں ایک ایسی شریک حیات کی تلاش تھی، جو نہ صرف حسن میں یکتا ہو، بلکہ ان جیسی طبیعت کی بھی حامل ہو۔ وزیر کے حسن کے چرچے اور پھر ان کی تصویر دیکھ کر ان کا دل وزیر خانم کو محض ایک عورت سمجھنے کو تیار نہ تھا۔ ایسا نہ تھا کہ ان کو وزیر کے حالات کی خبر نہ تھی، یہ تو سارے دلی پر منکشف تھا۔

سچ تو یہ تھا کہ نور بائی کے بعد اگر شرفا کے زمرے کی کوئی عورت یا کوئی غیر لکھنؤ عورت ایسی تھی کہ جس کے حسن اور دلبری کا چرچا ہر زبان پر تھا تو وہ صرف چھوٹی بیگم (وزیر خانم) تھیں۔ ہر ایک ان کا نادیدہ دلدادہ تھا۔ سو اب وہ وزیر خانم کے تصور میں جینے لگے تو انھیں یہ خواب پورا ہوتا نظر آتا تھا۔ مگر انھیں یہ سمجھ نہ آتا تھا کہ وہ دل کا حال وزیر خانم تک کیسے پہنچائیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments