حماس کے راکٹوں کا ‘توڑ’ اسرائیل کا ‘آئرن ڈوم’ میزائل شکن نظام کیا ہے؟


رپورٹس کے مطابق، اسرائیل کے پاس اس میزائل سسٹم کی 10 بیٹریز ہیں۔ 
 

ویب ڈیسک — اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کے درمیان جاری لڑائی میں، جہاں اسرائیلی طیارے غزہ میں اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں، وہیں فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کی جانب سے اسرائیلی علاقوں میں راکٹ داغے جا رہے ہیں۔

اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ حماس کی جانب سے داغے جانے والے بیشتر راکٹوں کو میزائل شکن دفاعی نظام ‘آئرن ڈوم’ کی مدد سے ناکارہ بنایا جا رہا ہے۔

اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے ترجمان کیپٹن بین روسنر نے بدھ کو امریکی اخبار ‘نیو یارک پوسٹ’ سے گفتگو میں دعویٰ کیا تھا کہ حماس کی جانب سے تازہ لڑائی میں اب تک غزہ سے ایک ہزار سے زائد راکٹ داغے گئے، جن میں سے 85 فی صد کو ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی ناکارہ بنا دیا گیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ حماس کی جانب سے ‘آئرن ڈوم’ میزائل شکن نظام پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن حملوں کو روکنے کے لیے یہ نظام نہایت مؤثر رہا ہے۔

‘آئرن ڈوم’ میزائل شکن نظام ہے کیا؟

‘آئرن ڈوم’ میزائل شکن نظام جدید ریڈار کی مدد سے اپنے ہدف کو تلاش کرتا ہے اور محض 20 سے 45 سیکنڈ کے اندر ہدف (داغے گئے راکٹ) کو راستے میں روک کر اسے ناکارہ بنا دیتا ہے۔

‘آئرن ڈوم’ کے ذریعے داغے گئے میزائل کی رینج 2.5 میل سے 44 میل تک ہوتی ہے۔

امریکی اخبار ‘واشنگٹن پوسٹ’ کی ایک رپورٹ کے مطابق، یہ نظام ‘اسرائیلی رفال ایڈوانس ڈیفنس سسٹم’ اور ‘اسرائیلی ایئرو اسپیس انڈسٹریز’ نے امریکی مالی وسائل اور تیکنیکی مدد سے بنایا ہے۔ اس کا مقصد گنجان آباد اسرائیلی علاقوں اور اہم تنصیبات کو کم فاصلے تک مار کرنے والے راکٹ حملوں سے بچانا ہے۔

آئرن ڈوم لانچر سے میزائل داغا جا رہا ہے۔
آئرن ڈوم لانچر سے میزائل داغا جا رہا ہے۔

اس کا استعمال سب سے پہلے 2011 میں کیا گیا جب غزہ کی جانب سے اسرائیلی علاقوں کو نشانہ بنانے کے لیے داغے گئے راکٹوں کو اسرائیل کے جنوبی شہر بیٔرشیبہ میں نصب ‘آئرن ڈوم’ میزائل سسٹم کی ایک بیٹری نے ناکارہ بنایا۔

یہ نظام ریڈار کے ذریعے ہدف کی درست نشان دہی، جدید کنٹرول سسٹم اور راکٹ لانچر پر مشتمل ہوتا ہے۔

رپورٹس کے مطابق، اسرائیل کے پاس اس میزائل سسٹم کی 10 بیٹریز ہیں۔ ایک بیٹری میں تین یا چار راکٹ لانچرز ہوتے ہیں جب کہ ہر لانچر میں 20 میزائل نصب کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔

اسرائیلی حکام کے مطابق، اس جدید ایئر ڈیفنس سسٹم کی ضرورت 2006 میں اسرائیل، لبنان جنگ کے دوران محسوس کی گئی تھی جب مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل پر میزائل داغے گئے تھے۔

آئرن ڈوم میزائل کم فاصلے تک مار کرنے والے راکٹ یا میزائلوں کو ناکارہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
آئرن ڈوم میزائل کم فاصلے تک مار کرنے والے راکٹ یا میزائلوں کو ناکارہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

‘آئرن ڈوم’ سے داغا گیا میزائل ہدف کو کیسے ناکارہ بناتا ہے؟

‘آئرن ڈوم’ میزائل سسٹم کی بیٹری ریڈار یونٹ اور کنٹرول سینٹر پر مشتمل ہوتی ہے جو کسی بھی سمت سے داغے گئے میزائل یا راکٹ کی نشان دہی، اس کی اُونچائی اور رفتار کا تخمینہ لگا کر سیکنڈز میں مذکورہ ہدف کو نشانہ بناتی ہے اور فضا میں ہی اسے ناکارہ بنا دیا جاتا ہے۔

‘آئرن ڈوم’ سے داغے گئے ‘انٹر سیپٹر میزائل’ کا رُخ ہوا میں موڑا بھی جا سکتا ہے جب کہ یہ مخالف سمت سے آنے والے راکٹ یا میزائل سے ٹکرانے کے بجائے اس کے بالکل قریب جا کر پھٹ جاتا ہے۔

غزہ کی جانب سے اسرائیلی علاقوں کی جانب راکٹ داغے جا رہے ہیں۔
غزہ کی جانب سے اسرائیلی علاقوں کی جانب راکٹ داغے جا رہے ہیں۔

دونوں میزائلوں کا ملبہ زمین پر پھر بھی کسی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ تاہم یہ راکٹ حملے سے ہونے والی تباہی کو روکنے میں معاون ثابت ہو رہا ہے۔

اسرائیلی حکام کے مطابق، غزہ کی پٹی کے قریب آباد اسرائیلی آبادی کے رہائشیوں کے پاس راکٹ حملوں سے بچنے کے لیے 15 سے 90 سیکنڈز ہوتے ہیں۔ راکٹ حملوں سے آگاہ کرنے کے لیے سائرن بجائے جاتے ہیں۔ اس دوران ‘آئرن ڈوم’ میزائل سسٹم فوری متحرک ہو جاتا ہے۔

‘آئرن ڈوم’ میزائل سسٹم میں نصب خود کار نظام صحرا یا کھلے مقام کی جانب گامزن راکٹ کو نشانہ نہیں بناتا۔

ایک راکٹ لانچر کے ذریعے 20 میزائل داغنے کی گنجائش ہے۔
ایک راکٹ لانچر کے ذریعے 20 میزائل داغنے کی گنجائش ہے۔

‘اسرائیلی رفال ایڈوانس ڈیفنس سسٹم’ کی ویب سائٹ کی جانب سے جنوری میں جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ 10 برسوں کے دوران اسرائیل پر داغے گئے 2500 راکٹوں کو ناکارہ بنانے کی شرح 90 فی صد رہی۔

ایک میزائل کی تیاری پر 80 ہزار ڈالرز کے لگ بھگ لاگت آتی ہے۔ اسی وجہ سے صرف ان راکٹوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جن کے آبادی پر گرنے کا خدشہ ہو۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments