ڈی این اے میچ میکنگ: کیا دل کے معاملات میں بھی سائنس مدد کر سکتی ہے؟

ریبیکا تھورن - بی بی سی ورلڈ سروس


Heart under a microscope

عموماً روایتی رومانوی کہانیوں کا آغاز دو اجنبیوں کے ایک ٹیسٹ ٹیوب میں لعاب پھینکنے سے نہیں ہوتا۔

لیکن چیکو مٹسوئی نامی خاتون کو لعاب دہن کے ایک نمونے نے وہ جوابات دے دیے جن کی تلاش انھیں ایک عرصے سے تھی۔

تھوک کے اس نمونے کے تجزیے کے بعد انھیں اپنا زندگی کا ساتھی مل گیا تھا اور اب وہ اسے اپنا شوہر بنانے کے لیے تیار تھیں۔

نیٹ فلکس ٹی وی سیریز ’دی ون‘ اور اے ایم سی کی سیریز ’سول میٹس‘ کا مرکزی خیال سنگل مرد اور عورتوں کے ڈی این اے کو ممکنہ پارٹنرز کے ساتھ میچ کرنا ہے۔

لیکن اس ٹی وی سیریز کے لکھاریوں کے کمرے سے دور، ڈی این اے میچ میکنگ حقیقت کی دنیا میں پہلے سے ہی ہے۔ مختلف ویب سائٹس جیسا کہ ’چیکو‘ سنگل لڑکے اور لڑکیوں کو ان کی کیمسٹری کی بنیاد پر ڈیٹنگ کی سہولت فراہم کر رہی ہے جبکہ اس سائٹ کے ذریعے پہلے سے موجود جوڑوں کو ان کی ’جینیاتی مطابقت‘ کو ٹیسٹ کرنے کے لیے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔

ہم نے ان لوگوں سے بات کی ہے جو سچی محبت پانے کی غرض سے اپنا ڈی این اے استعمال کرتے ہیں تاکہ ہم معلوم کر سکیں کہ کیا دل کے معاملات سے سائنس کا بھی کوئی تعلق ہے۔

’زندگی بدلنے والا‘

چیکو مٹسوئی

Cheiko Mitsui
چیکو مٹسوئی کہتی ہیں کہ وہ کئی سال ’مسٹر رائٹ‘ ڈھونڈنے کی کوشش کے بعد مایوس ہو چکی تھیں

چیکو مٹسوئی تقریباً دس سال سے سچے پیار کی تلاش میں تھیں جب انھیں ایک دن ڈی این اے میچ میکنگ کا پتہ چلا۔

جاپان کے شہر ہاکوڈیٹ سے تعلق رکھنے والی 45 سالہ میٹسوئی کو 35 برس کی عمر میں طلاق ہو چکی تھی اور اس کے بعد انھیں احساس ہونے لگا تھا کہ شاید اب قسمت اُن پر مہربان نہ ہو۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں پارٹیوں میں اپنے دوستوں کے توسط سے کچھ لوگوں سے ملی تھی، اور میں نے ایک میرج ایجنسی میں اپنے نام کا اندراج بھی کرایا تھا لیکن مجھے صحیح آدمی نہیں مل رہا تھا۔‘

پھر مس مٹسوئی کا تعارف ’چیکو ڈیٹ‘ سے ہوا، جو ایک میچ میکر ہیں اور دعویٰ کرتی ہیں کہ انھوں نے اپنے 20 سالہ کیریئر کے دوران 700 جوڑوں کو کامیابی سے آپس میں ملوایا ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

رن مرید: ’یہ کوئی ہنسنے کی بات نہیں‘

’دونوں بازو، ٹانگ کٹ گئی تو میں نے سوچا کیا وہ مجھے چھوڑ دے گی؟‘

سال بدلا، دن بھی کچھ بدلے، لیکن مٹھو کی مٹھی کے لیے محبت نہیں بدلی

سنہ 2014 میں انھوں نے سوئٹزرلینڈ میں قائم کمپنی ’جین پارٹنر‘ کے ساتھ کام کرنا شروع کیا تھا۔ جین پارٹنر کا دعویٰ ہے کہ اس کی جینیاتی ٹیسٹنگ میچ میکنگ کے لیے ایک ’ایڈ آن‘ یعنی اضافی مدد ہے۔

جینیاتی ماہر اور جین پارٹنر کی بانیوں میں سے ایک تمارا براؤن کہتی ہیں کہ ’یہ اہم ہے کہ دونوں رُخ دیکھے جائیں، ایک بائیولاجیکل میچنگ یا جسے ہم کیمسٹری کہتے ہیں اور دوسرا رُخ سماجی مطابقت کا ہے۔ اور کسی بھی رشتے کی کامیابی کے لیے دونوں کا میچ کرنا ضروری ہے۔‘

ان نتائج کو حاصل کرنے کے لیے گاہکوں (یعنی وہ افراد جو کسی پارٹنر کی تلاش میں ہوتے ہیں) کے تھوک کے نمونے لیے جاتے ہیں اور ان کی انسانی لیوکوسائٹ اینٹیجن (ایچ ایل اے) جینز کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر براؤن کہتے ہیں کہ ’ایچ ایل اے ایک جین ہے جو بنیادی طور پر قوت مدافعت کے نظام کے لیے اہم ہے۔ لہذا کسی شخص میں زیادہ ایچ ایل ایز کے تنوع کا مطلب بہتر مدافعتی ردعمل ہے۔‘

’مرد اور خواتین ممالیے ان ایچ ایل ایز کو پہچان لیتے ہیں کیونکہ وہ ایسے بچے پیدا کرنا چاہتے ہیں جن میں بیماریوں کے خلاف زیادہ مدافعت ہو۔ یہ ایک آسان اصول ہے۔‘

جین پارٹنر کا نظریہ سنہ 1995 میں سوئٹزرلینڈ کے سائنسدان ڈاکٹر کلاز ویڈکائنڈ نے پیش کیا تھا۔ خواتین طالب علموں کے ایک گروپ سے کہا گیا کہ وہ مسلسل دو راتوں تک مختلف مردوں کی پہنی ہوئیں ٹی شرٹس سے آنے والی بُو کی درجہ بندی کریں۔ اس تجربے کے نتائج سے یہ سامنے آیا کہ خواتین نے ان مردوں کی ٹی شرٹس کو ترجیح دی جن کی ایچ ایل اے جینز اُن سے مختلف تھے۔

ڈاکٹر براؤن کہتے ہیں کہ جین پارٹنر نے اس نظریہ کو تقریباً 250 شادی شدہ جوڑوں پر استعمال کیا اور نتیجہ تقریباً اسی طرح کا ہی تھا۔

’جب آپ کسی سے ملتے ہیں تو صرف یہ نہیں ہوتا کہ آپ دیکھیں کے ملنے والا کیسا لگتا ہے، یہ کچھ اور ہے، اور جب وہ شخص واقعی، واقعی میں آپ کو دلچسپ لگتا ہے اور آپ اس کے متعلق کچھ کہہ نہیں سکتے، تو آپ اصل میں ایچ ایل اے کو محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔‘

’یہ بہت فطری عمل ہے، یہ بہت بنیادی سی بات ہے۔ یہاں تک کہ اگر لوگ بچے پیدا نہیں بھی کرنا چاہتے تو بھی یہ جبلت وہاں موجود ہی ہوتی ہے۔‘

میچ میکر چیکو (درمیان میں) کہتی ہیں کہ ان کے تقریباً 450 کلائنٹس نے ڈی این اے ٹیسٹ کرائے ہیں

Cheiko Mutisi
میچ میکر چیکو (درمیان میں) کہتی ہیں کہ ان کے تقریباً 450 کلائنٹس نے ڈی این اے ٹیسٹ کرائے ہیں

چیکو مٹسوئی کو امید تھی کہ جب وہ اپنے اگلے طویل مدتی ساتھی کا انتخاب کریں گی تو ڈی این اے کا تجزیہ انھیں ذہنی سکون دے گا۔

ستمبر 2018 میں انھیں 45 سالہ ٹوموہٹو کے ساتھ میچ کیا گیا۔ ایک ماہ کی ڈیٹنگ کے بعد دونوں نے فیصلہ کیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے ڈی این اے کو چیک کروائیں۔

مسز مٹسوئی کہتی ہیں کہ ’مکمل نتیجہ پورا 100 فیصد تو نہیں تھا، لیکن یہ تقریباً بالکل ٹھیک تھا۔ یہ نتیجہ حقیقت میں میری توقع سے کہیں بہتر تھا، لہذا میں خوش تھی۔‘

دو ہفتے بعد انھوں نے اپنا فیصلہ کر لیا۔ مسز مٹسوئی کہتی ہیں کہ ’ہمیں ذاتی طور پر واقعی بہت اچھا لگا اور ڈی این اے کا نتیجہ بھی اچھا تھا، لہذا ہم نے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔‘

جوڑے نے پہلی ملاقات کے ایک سال بعد ستمبر 2019 میں شادی کر لی۔ مسز مٹسوئی کہتی ہیں کہ وہ اپنے جینیاتی نتائج کے ساتھ اس بندھن میں محفوظ محسوس کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے نہیں پتہ کہ میں اس سے ڈی این اے کے بغیر شادی کر لیتی یا نہیں۔ شاید میں کر ہی لیتی، لیکن اس نے یقینی طور پر مجھے شادی کی طرف دھکیلا۔ اگر اس طرح دیکھا جائے تو اس نے میری زندگی بدل دی ہے۔‘

مسز مٹسوئی اپنے شوہر کے ساتھ

Cheiko Mitsui
مسز مٹسوئی کہتی ہیں کہ وہ امید کرتی ہیں کہ مستقبل میں دوسرے بھی اپنے پیار کو پا سکیں گے

تاہم برازیل کی یونیورسٹی آف ساؤ پالو میں ماہر جینیات ڈاکٹر ڈیوگو میئر خبردار کرتے ہیں کہ جب سائنس کی بات کی جائے تو ’فیصلہ تو ابھی آیا ہی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میچ میکنگ کے حوالے سے یہ خیال کہ مطابقت کا ہونا یا نہ ہونا ایک جینیاتی طور پر طے شدہ خصلت ہے، ذرا دور کی کوڑی لگتی ہے۔‘

’میں سمجھتا ہوں کہ اصل بات یہ ہے کہ یہ متنازع ہے۔ آپ کو کچھ مطالعات ایسے ملیں گے جو کہتے ہیں کہ ناخوشگوار میٹنگ (ملن) کے کچھ شواہد موجود ہیں، جس کا مطلب ہے کہ مختلف ایچ ایل اے کے ساتھ میٹنگ۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اس سے کہیں زیادہ تحقیق موجود ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کوئی اثر نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس نظریے کو میچ میکنگ کے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ’سکے کو ٹاس کے لیے اچھالنے سے زیادہ مختلف نہیں ہے‘ کیونکہ اس کا اثر بہت کم ہو گا، بے ترتیبی کے بہت قریب۔‘

کچھ سائنسدان کہتے ہیں کہ اس طرح ڈی این اے استعمال کرنے سے جینیات کے کردار پر بہت زیادہ زور پڑتا ہے

کچھ سائنسدان کہتے ہیں کہ اس طرح ڈی این اے استعمال کرنے سے جینیات کے کردار پر بہت زیادہ زور پڑتا ہے

مشکلات کے باوجود ایمی، جن کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے، امید کرتی ہیں کہ وہ کامیاب ہو جائیں گی۔

جاپان ہی سے تعلق رکھنے والی 32 سالہ مسیحی خاتون ایمی کا کہنا ہے کہ انھیں امید ہے کہ ڈی این اے میچ میکنگ انھیں کوئی ایسا ساتھی ڈھونڈنے میں مدد دے گی جس کے ساتھ وہ اپنی بقیہ زندگی گزار سکیں گی۔

گذشتہ سال چیکو ڈیٹ کی ڈی این اے سروس پر اندراج کرانے کے بعد سے ایمی دو افراد کے ساتھ ڈیٹ پر گئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں سمجھ آ گئی ہے کہ ٹیسٹنگ کا کچھ فائدہ ہے۔

’جب میں پہلے دو لڑکوں سے ملی تو مجھے ایسا لگا جیسے وہ بہت اچھے، بہت تعلیم یافتہ، انتہائی شریف تھے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ میں یہ بتا سکتی تھی کہ وہ بہت اچھے لوگ تھے لیکن پھر بھی کسی چیز کی کمی تھی، اور مجھے نہیں پتہ کہ کیوں۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ اسے کیسے بیان کروں۔‘

’جب میں نے چیکو سے بات کی اور ہم نے ڈی این اے نتائج کو دیکھا، تو دونوں لڑکے صرف دوستی کے زون میں آتے تھے۔ اور یہی وجہ تھی کہ اگرچہ میں ان کے ساتھ بہت آرام دہ محسوس کر رہی تھی، لیکن اس میں کچھ اضافی نہیں تھا۔ میرے لیے یہ ایک نہایت دلچسپ نتیجہ تھا۔‘

’زیادہ تیزی سے فیصلہ کریں‘

جنسی تعلقات کے مقابلے میں ’دوستی پر مبنی‘ کشش کا تصور ڈاکٹر براؤن کی ٹیم کے ایک جوڑے کے نتائج کے متعلق فراہم کردہ تجزیے کا ایک حصہ ہے۔

’کچھ لوگوں کے لیے جذباتی تعلق رکھنا اتنا اہم نہیں ہوتا، وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ وہ بس کسی کے ساتھ رہیں، حمایت کرنے والا اور ایک دوست ہو۔‘

’اس طرح کے معاملے میں حقیقت میں کسی ایسے شخص سے میچ کرنا ٹھیک ہے جو خاندان کی طرح محسوس ہوتا ہے، خاص طور پر اگر وہ بوڑھے ہیں اور انھیں اب بچوں کی ضرورت نہیں ہے یا وہ اب یہ نہیں چاہتے۔ لہذا میچ میکروں کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ کس طرف ہیں اور کلائنٹ کی ضرورت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وہ ان کے درمیان جنسی کشش کی سطح کو بھی دیکھ سکیں۔‘

چیکو ڈیٹ کا کہنا ہے کہ بیشتر افراد جو ڈی این اے سروس استعمال کرتے ہیں وہ ’اعلی تعلیم یافتہ‘ اور ’اعلی درجہ کی ملازمتوں‘ پر فائز ہوتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی جنس کے پاس واقعی کسی کو تلاش کرنے کا وقت نہیں ہوتا۔

’مجھے لگتا ہے کہ لوگ (ڈی این اے کو استعمال کرتے ہوئے) زیادہ تیزی سے فیصلہ کر سکتے ہیں اور محفوظ محسوس کر سکتے ہیں، وہ چیز جو میں انھیں دے سکتی ہوں، لہذا مجھے خوشی ہے کہ میں انھیں یہ احساس دے سکتی ہوں۔‘

’اس سے رشتہ ختم ہو سکتا تھا‘

میلیسا اور میز کہتے ہیں کہ جو جوڑے ڈی این اے ٹیسٹ کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں

Alison M jones photography
میلسا اور میز کہتے ہیں کہ جو جوڑے ڈی این اے ٹیسٹ کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں

آسٹریلیا کے علاقے کوئینز لینڈ سے تعلق رکھنے والی میلیسا کہتی ہیں کہ جب انھوں نے مطابقت کا ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا تو وہ اس وقت اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ایک مشکل وقت گزار رہی تھیں۔

انھوں نے ’ڈی این اے رومانس‘ نامی ایک ویب سائٹ کا استعمال کیا جس میں کہا گیا ہے کہ وہ ’ ڈی این اے مارکر کا استعمال کر کے لوگوں کے درمیان رومینٹک کیمسٹری کے بارے میں پیش گوئی کر سکتے ہیں، جس نے دکھایا ہے کہ انسانوں کے درمیان کشش میں اس کا کردار ہے۔‘

میلیسا کہتی ہیں کہ ’ماضی میں ان کے بہت زیادہ بوائے فرینڈ تھے جن کے ساتھ مطابقت پیدا نہیں ہو سکی، لہذا میں نے بہت زیادہ وقت ضائع کیا۔‘

سنہ 2017 میں ٹینڈر پر ان کی ملاقات میز سے ہوئی جو اپنی پہلی ڈیٹ کے لیے ان سے ملنے بذریعہ جہاز کانز آئے۔

میلیسا کہتی ہیں کہ ’میں نے انھیں ایئرپورٹ سے لیا اور یہ پہلا موقع تھا جب ہم ملے تھے۔ وہ واقعی سپیشل تھا اور میں واقعتاً گھبرائی ہوئی تھی، لیکن حقیقت میں یہ اچھا محسوس ہوا۔‘

DNA Romance testing kit

DNA Romance
ڈی این اے رومانس کو استعمال کرنے والوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے لعاب کا نمونہ جمع کرائیں

تاہم میلیسا اعتراف کرتی ہیں کہ ان کی پہلے سال کی ڈیٹنگ بہت بہتر نہیں تھی اور دونوں نے تعلق کچھ عرصے کے لیے توڑ بھی لیا تھا۔ جب وہ دوبارہ اکٹھے ہوئے تو انھوں نے میز کو راضی کیا کہ انھیں جینیاتی مطابقت کا ٹیسٹ کرانا چاہیے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم ابھی اکٹھے نہیں رہ رہے تھے، لہذا میں نے سوچا کہ ہم دونوں کے لیے واقعی اچھا ہو گا کہ ہم ایسا کریں۔ اگر سچ کہوں تو وہ واقعی اس کے بارے میں پُرجوش نہیں تھے، لیکن بعد میں وہ راضی ہو گئے۔‘

ان کے ڈی این اے رومانس کے تجزیے پر مبنی نتائج میں ان دونوں کی مطابقت کی درجہ بندی 98 فیصد آئی۔

میلیسا کہتی ہیں کہ میں واقعی خوش تھی۔ یہ جان کر اچھا لگا، اور یہ ایک تھوڑا اضافی چیک بھی تھا۔ میرے لیے یہ ہمارے تعلقات کی ایک اور چھوٹی سی تصدیق کی طرح تھا۔‘

جرمنی میں میکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار دی سائنس آف ہیومن ہسٹری سے تعلق رکھنے والے جینیاتی سائنس دان روڈریگو بارکیرا کہتے ہیں کہ اگرچہ پارٹنر کی سلیکشن میں ایچ ایل اے جینز کے کردار کے کچھ ثبوت موجود ہیں لیکن یہ اس طرح کی پیشن گوئی کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں کہ کوئی رشتہ کتنا کامیاب ہو گا۔

میکسیکو سٹی سے تعلق رکھنے والے محقق کہتے ہیں کہ ’جینز ملاپ اور اولاد پیدا کرنے کے متعلق پریشان ہوتے ہیں۔‘

’یہ جینز کسی اور چیز کی پرواہ نہیں کرتے۔ جبکہ انسانی رشتے بچے پیدا کرنے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں۔‘

اس کے باوجود میلیسا کہتی ہیں کہ اس ٹیسٹ نے دونوں کو اعتماد دیا اور انھوں نے شادی کر لی اور اب ان کے ہاں پہلا بچہ ہونے والا ہے۔

’مجھے لگتا ہے کہ یہ دلچسپ ہے، لیکن میں اسے سائنسی بھی مانتی ہوں۔ میں اس پر یقین رکھتی ہوں۔ شاید کچھ لوگ نہ رکھتے ہوں اور سوچتے ہوں کہ یہ ایک خبطی خیال ہے، لیکن مجھے اس کی سمجھ آتی ہے۔‘

تاہم 37 سالہ میلیسا اعتراف کرتی ہیں کہ جوڑے اس طرح اپنے تعلقات کو ٹیسٹ کرنے کے لیے خطرہ ضرور مول لیتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر اس وقت ٹیسٹ بہت اچھا نہ آتا تو یہ کوئی بہت ہی مختلف کہانی ہو سکتی تھی۔ شاید اس سے رشتہ ہی ختم ہو جاتا۔‘

میلیسا اور میز کے ہاں ان کا پہلا بچہ ہونے والا ہے

Melissa
میلیسا اور میز کے ہاں اس سال ان کا پہلا بچہ ہونے والا ہے

سیئنا اور روڈریگو مینیس کہتے ہیں کہ ابتدائی طور پر ڈی این اے میچ میکنگ کا تصور نئے شادی شدہ جوڑے کو ’ناممکن اور نہایت عجیب‘ لگتا تھا۔

اس کے باوجود جوڑے نے، جو خود کو سول میٹس یا روحانی ساتھی کہتے ہیں، کہا کہ وہ صرف تجسس کے لیے اس نظام کو پرکھنا چاہتے تھے۔ بعد میں ڈی این اے رومانس نے انھیں 90 جینیاتی مطابقت کی درجہ بندی دی تھی۔

’ہم دونوں حیران تھے کہ ویب سائٹ نے حقیقت میں سائنسی اعتبار سے وہی ثابت کیا جو ہم فطری طور پر محسوس کرتے تھے، لیکن ہم دونوں نتائج پر بہت زیادہ خوش تھے اور ہماری ڈھارس بندھی ہوئی تھی کہ ہمارا رابطہ کتنا گہرا ہے۔‘

ڈاکٹر میئر کے لیے ڈیٹنگ اور ریلیشن شپ سروسز میں جینیات کے ابھرنے سے پتہ چلتا ہے کہ سائنس کس طرح بیچی اور سمجھی جا رہی ہے۔

’میرے خیال میں سائنس کا نظریہ ہے کہ وہ واضح حقائق پیش کرتی ہے کیونکہ یہ اعداد و شمار کا ٹیسٹ کرتی ہے اور اس کے پاس ڈی این اے ہے اور مالیکیولر ٹیسٹ ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ حقیقت کے قریب ہے اور یہ کہ یہ دوسری قسم کی معلومات سے زیادہ قابل اعتماد ہے۔‘

’میرے خیال میں یہ سائنس کو اس کی صلاحیت سے زیادہ بیچنا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp