فرانس میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے آزادی اظہار کے دو پیمانے


فرانس کے ہفتہ وار جریدے شارلی ایبڈو میں رسول اللہ ﷺ کے بارے میں گستاخانہ خاکے شائع ہوئے تو مسلمانوں میں اس کے خلاف شدید رد عمل پیدا ہوا۔ مختلف مسلمان ممالک نے اس پر شدید احتجاج ہوا۔ کئی ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی تحریک بھی کی گئی۔ مسلمان ممالک کی حکومتوں نے اس پر فرانس سے شدید احتجاج کیا۔ اور پاکستان کی قومی اسمبلی نے اس کے خلاف قرارداد منظور کی۔

لیکن فرانس کی حکومت کا ایک ہی جواب تھا اور وہ یہ کہ “ہمارے ملک میں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے۔ ہم ایک چیز سے اختلاف تو کر سکتے ہیں لیکن اس پر پابندی لگانا ممکن نہیں کیونکہ فرانسیسی آئین کے آرٹیکل 10 اور 11 میں ہر شخص کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنی آزادانہ رائے قائم کرے اور زبان، تحریر اور اشاعت سے اسے دوسروں تک پہنچائے۔ ہم اس گناہ کبیرہ کے مرتکب نہیں ہو سکتے کہ آزادی اظہار پر کوئی پابندی لگائیں”۔ اور پورا یورپ فرانس کی تائید کر رہا تھا کہ آزادی اظہار تو ہماری عظیم اقدار کا ایک اہم حصہ ہے، ہم اس پر کوئی قدغن نہیں لگا سکتے۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ فرانسیسی آئین کے آرٹیکل 11 میں آزادی اظہار کی آزادی غیر محدود نہیں بلکہ اس کی کچھ حدود بھی بیان کی گئی ہیں۔ اور وہ حدود یہ ہیں کہ جب بھی اس آزادی کا غلط استعمال کیا جائے گا تو قانون بنا کر اس آزادی پر پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ فرانس کی تاریخ میں یہ پابندی کبھی نہیں لگائی گئی۔ فرانس میں کئی مرتبہ اس آزادی پر پابندی لگائی گئی ہے۔ اور وجہ یہ بیان کی گئی کہ اس آزادی کا استعمال اس طرح کیا جا رہا تھا کہ اس سے کسی اور کے حقوق مجروح ہو رہے تھے مثال کے طور پر کسی کی ناجائز توہین کی جا رہی تھی یا اسے ناجائز طور پر بد نام کیا جا رہا تھا یا اس کے نتیجے میں امن عامہ کو خطرہ تھا۔

فرانس میں انیسویں صدی کے دوران یہودیوں کے قتل عام یا ہولوکاسٹ کا انکار کرنے یا اس کو جائز قرار دینے پر پابندی ہے۔ نفرت انگیز تقاریر کرنے پر پابندی ہے۔ قومی اداروں کو بد نام کرنے پر پابندی ہے۔ فرانس کے پرچم اور قومی ترانے کی بے حرمتی کرنے پر پابندی ہے۔

2014 میں فرانس میں ایک مزاحیہ اداکار  امبالا امبالا کے ناٹک پر پابندی لگا گئی تھی کیونکہ وہ اپنے مزاح میں ایسی باتیں کہہ جاتے تھے جس سے یہودیوں کی دل آزاری ہوتی تھی یا ان کے خلاف جذبات کو فروغ ملتا تھا۔ انہوں نے اس فیصلہ کے خلاف عدالت سے رجوع کیا لیکن فرانس کی عدالت نے بھی ان کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ اور ان پر پابندی برقرار رکھی۔

اور ایسا بھی نہیں کہ یورپ میں ہر کارٹون یا خاکے کو آزادی اظہار کے نام پر برداشت کر لیا جاتا ہے۔ 2013 میں سنڈے ٹائمز میں ایک کارٹون شائع ہوا جس میں دکھایا گیا تھا کہ اسرائیلی وزیر اعظم انسانی لاشوں سے ایک دیوار تعمیر کر رہے ہیں۔ اس پر یہودی تنظیموں اور اسرائیل کی حکومت نے شدید احتجاج کیا۔ شور مچا۔ آخر کار اس اخبار کے ایڈیٹر اور پبلشر کو معذرت کرنی پڑی۔ اس وقت اس موقف کا اظہار نہیں کیا گیا کہ آزادی اظہار ہمارا حق ہے۔ ہم اس پر حملہ برداشت نہیں کر سکتے۔ اس سے صرف ایک ہفتہ قبل اسی جریدے میں ایک کارٹون شائع ہوا جس میں شام کے بشار الاسد صاحب کو ایک پیالہ سے خون پیتا دکھایا گیا تھا۔ اس پیالہ پر لکھا تھا کہ یہ بچوں کا خون ہے۔ اس پر کسی معذرت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی۔

دسمبر 2020 میں فرانس کی کابینہ نے ایک تنظیم سی سی آئی ایف پر پابندی لگا دی تھی۔ یہ تنظیم فرانس میں موجود اسلامو فوبیا کے خلاف آواز اٹھاتی تھی۔ اور فرانس کے وزیر داخلہ جیرالد دامانن نے بیان دیا تھا کہ یہ تنظیم فرانسیسی حکومت کے ان اقدامات کو جو کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے اٹھائے جا رہے ہیں اسلامو فوبیا کا نام دے دیتی ہے۔ اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر فرانس میں آزادی اظہار کی مکمل آزادی ہے تو پھر یہ آزادی اس تنظیم کو بھی ملنی چاہیے کہ وہ فرانس کی حکومت کے اقدامات پر اپنی رائے کا اظہار کرے۔ لیکن فرانس کی حکومت اس پر اتنا کیوں تلملائی کہ اس تنظیم پر پابندی ہی لگا دی۔

اب کل کی خبر کا جائزہ لیتے ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایک مرتبہ پھر فلسطین میں خون بہہ رہا ہے۔ مشرقی یروشلم میں شیخ جراح کے مقام سے فلسطینیوں کے جبری انخلا کے خلاف جلوس نکل رہے ہیں۔ حماص نے غزہ سے راکٹ فائر کیے اور اسرائیل کے طیاروں نے ان پر بمباری شروع کر دی۔ سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ سینکڑوں زخمی ہیں۔

فرانس کے وزیر داخلہ جیرالد دامانن  نے حکم جاری کیا کہ فرانس میں ان واقعات کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق جلوس نکالنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ بھلا کیوں نہیں ہو گی؟ اب تک تو فرانس پوری دنیا کو یہ لیکچر پلا رہا تھا کہ آزادی اظہار کی مکمل آزادی ہونی چاہیے اور ہم آزادی کی اس دیوی کے خلاف کچھ نہیں سن سکتے۔ آج اپنے ملک میں اس بات پر پابندی کیوں لگائی جا رہی ہے کہ فلسطینیوں کے حق میں کوئی جلوس نہیں نکالا جائے گا۔ نہ صرف یہ بلکہ فرانس میں فلسطینیوں سے ہمدردی رکھنے والے ایک پریشر گروپ کے سربراہ کو بھی گرفتار کر لیا گیا کیونکہ وہ جلوس نکالنے کی تیاری کر رہے تھے۔

شاید فرانس کے وزیر داخلہ تک یہ اطلاع پہنچ چکی ہو کہ فرانس 1950 کے یورپین کنونشن برائے انسانی حقوق کے اعلامیہ پر دستخط کر چکا ہے۔ اور اس کی رو سے سب کو پر امن اجتماع کا حق حاصل ہے۔ یہ ایک بودی دلیل ہے کہ جب 2014 میں جب اس قسم کے جلوس نکلے تھے تو امن عامہ کا مسئلہ ہو گیا تھا۔

اگر یہ منطق قبول کی جائے تو جب 1789 میں آزادی کے نام پر فرانس میں انقلاب آیا تھا تو اس کے نتیجہ میں بھی بد ترین خون خرابہ ہوا تھا۔ اور لوگوں کو اندھا دھند سزائے موت سنائی گئی تھی۔ کیا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ فرانس میں آزادی اور جمہوریت پر پابندی لگا دینی چاہیے؟

فرانس کی ممبر پارلیمنٹ ایلسا فاسیلون نے اس پر ٹویٹ کیا کہ احتجاج کرنا ایک بنیادی حق ہے اور وزیر داخلہ کا یہ کام ہے کہ وہ اس حق کی حفاظت کرے نہ کہ اس پر پابندی لگائے۔ مناسب ہوگا کہ اس موقع پر یورپین پارلیمنٹ فرانس میں آزادی اظہار کی حفاظت کے لئے آواز اٹھائے۔

کچھ ہفتہ قبل جب اس مسئلہ پر پاکستان کی قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا تو اس میں بہت سی تقاریر ہوئیں۔ اور ایک دوسرے پر جی بھر کر الزامات لگائے گئے۔ یہاں تک کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی صاحب نے سپیکر قومی اسمبلی کو جوتا مارنے کی دھمکی بھی دی۔ اگر وہ جوتا مارنے میں کامیاب ہو بھی جاتے تو کیا فرانس کی حکومت اپنی پالیسی تبدیل کر لیتی؟

پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں کسی نے بھی اس مسئلہ کے قانونی نکات کا تجزیہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہم نے اپنی سڑکوں پر توڑ پھوڑ تو کی لیکن اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ سارا یورپ فرانس کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ دلیل کا اثر دیر سے ہوتا ہے لیکن دیر پا ہوتا ہے۔ اگر پاکستان دلیل کے ساتھ اپنا موقف یورپ تک پہنچائے گا تو خود یورپ کا ایک طبقہ اس قسم کی حرکتوں کے خلاف احتجاج کرنے لگے گا۔ لیکن اگر ہم ایک دوسرے سے یہ جوتم پیزار کرتے رہے تو کوئی پاکستان کے موقف پر سنجیدگی سے غور بھی نہیں کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments