میں کسی چھوٹی ذات کا آدمی نہیں


آئی ای آر، پنجاب یونیورسٹی میں آتے ہی بہت کچھ نیا دیکھنے کو ملا، ہاسٹل نمبر 11 میں (بالخصوص) پنجاب کے بہت سے اضلاع کے اور بالعموم دوسرے صوبوں کے طلباء اپنے اپنے علاقوں کی روایات اور کلچر لے کر رہائش پذیر ہوئے (یعنی غیر روایتی تعلیم کا بہترین ذریعہ) ۔

میں نے جو سب سے اہم چیز نوٹس کی وہ یہ تھی کہ پنجاب کے زیادہ تر طلباء اپنے ناموں کے ساتھ رانا، جٹ، چوہدری وغیرہ کے سابقے اور لاحقے ضرور استعمال کرتے تھے،

کچھ طلباء کی پوشاک خوب تھی جیسے کلف لگے سفید رنگ کے کاٹن کے سوٹ، چمچماتی کالے رنگ کی چپلیں اور اسی طرح سرسوں کے تیل میں چپڑی زلفیں اور مونچھیں جن کو گاہے بگاہے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے کھڑا رکھنے کی کوشش بھی کی جاتی تھی (جس میں سب لوگ کامیاب نہیں ہوتے تھے ) جن طلبہ کی مونچھیں کھڑی نہیں ہوتی تھیں وہ دیسی ٹوٹکے استعمال کرتے، یعنی دیسی گھی اور مکھن، ان کے نزدیک مونچھ کا کھڑا ہونا بہت ضروری ہے ورنہ شرمندگی انسان کا مقدر، وہ کہتے ہیں نا مچھ نئیں تے کچھ نہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ طلباء میں دوستیاں اور دشمنیاں بھی ہوئیں، نظریاتی اختلافات بھی نظر آئے، اس دوران اگر کوئی بحث و مباحثہ تلخ کلامی تک پہنچ جاتا تو ایک فقرہ عام سننے کو ملتا۔

میں کوئی کمی دا بال آں؟ (میں کسی چھوٹی ذات کا آدمی نہیں) میں کسے نوں کی سمجھداں۔ میں تے کسے نوں اپنی ڈائری تے نہیں لکھدا۔

اس تڑی یا بھڑک کو سمجھنے میں تھوڑا ٹائم لگا کہ اس فقرے کا مطلب ہے کہ موصوف ایک کھاتے پیتے، زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، بڑوں نے زمین، بھینسیں اور شاید کچھ گدھے گھوڑے ترکے میں چھوڑ رکھے ہیں، یعنی ان کا اپنا کمال صرف اپنے پرکھوں کے کسی ابال کے نتیجے میں ان کا بال (بچہ) ہونا ہی تھا۔

سچائی تو اللہ جانے ہم نے کون سا جا کے دیکھ لینے تھے، البتہ اس جملے سے واسطہ یونیورسٹی میں دوران تدریس تک رہا۔

ایک دفعہ ایک طالبعلم کا کوئی مسئلہ ہوا اور طلبہ کے ایک جھنڈ کو تھانے جانا پڑ گیا، وہاں بات تلخ کلامی تک پہنچی تو ایک طالب علم سے رہا نہ گیا اور وہ بول اٹھا۔ میں کوئی کمی دا بال آں۔ تھانے دار طیش میں آ گیا، بتانے والے بتاتے ہیں کہ یا تو اونچی ذات پات کے اس نوجوان کو تھانے دار نے اپنے کمرے سے نکال دیا یا حالات دیکھتے ہوئے باقی طلباء اسے کمرے سے باہر لے گئے۔

تھانے دار نے اس موقع پر عظیم جملہ کہا جسے جلی حروف میں لکھنے کی ضرورت ہے کہ ”جو یہ کہتے ہیں اصل میں وہی ہوتے ہیں۔“

امریکہ میں آنے کے بعد بہت سی چیزوں پر غور کرنے کا موقع ملا تو یہ فقرہ اکثر میرے دماغ میں گھومتا ہے، پاکستان میں تو ہر معاملے میں مدد مل جاتی ہے مالی، ڈرائیور صفائی کرنے والے اور کھانا پکانے والے وغیرہ۔

میرا ایک امریکی پاکستانی دوست پاکستانی حالات سے اتنا ڈرا ہوتا ہے کہ وہ جب بھی پاکستان جاتا ہے تو مستقل اپنے ساتھ مسلح گارڈ لیے پھرتا ہے، میں نے کہا تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ بولا ایک تو دل کی تسلی رہتی ہے، پھر سستا بھی تو ہے اور لوگوں پر دھاک بھی بیٹھتی ہے،

یعنی (سب ٹیکسٹ میں ) میں کوئی کمی دا بال آں؟

لیکن امریکہ میں زیادہ تر کام اپنے ہاتھ سے ہی کرنا پڑتا ہے، بہت ہوا تو کسی بڑی پارٹی کے بعد آپ کسی کلیننگ کمپنی کو فون کرتے ہیں اور اگلے دن ایک عورت گاڑی میں اپنے ساز و سامان کے ساتھ دروازے پر موجود ہوتی ہے، جو 60 یا 70 ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے آپ کے، کچن، باتھ رومز اور لیونگ روم کی اچھی طرح سے صفائی کرتی ہے، جاتے ہوئے اچھی خاصی رقم اور شکریہ کی مستحق ٹھہرتی ہے، یعنی وہ آپ کی محسن اور آپ احسان مند،

اس لحاظ سے تو تمام امریکی یا امریکہ میں رہنے والے ایک نمبر کے کمی ہیں اور ان کی اولادیں کمیوں کے بال۔

ایک دن میں اپنے بیک یارڈ میں گھاس کاٹ رہا تھا تو میرا گورا ہمسایہ جو میڈیکل کی فیلڈ سے وابستہ اور کافی متمول ہے وہاں آ گیا، باتوں ہی باتوں میں میرے منہ سے نکل گیا کہ پاکستان میں میرا گارڈنر فلاں مشین استعمال کرتا تھا وہ حیرانی سے بولا

O man you had gardener in Pakistan, you must be a rich guy.

میں ہنسا اور اس کی حیرانی یہ کہہ کر کہ ”سستا ہوتا ہے“ ختم کرنے ہی والا تھا کہ میرے اندر سے آواز آئی۔

چل چھڈ پراں، اے پریس اے تے پریس ہی رین دے۔ ”تو کیڑا کوئی کمی دا بال ایں“۔

Me: I had a permanent cleaning lady there too.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments