ولائتی اور دیسی یہودی


ہماری یونیورسٹی میں ایک خطیم نام کا فلسطینی پڑھتا تھا۔ بہت جاندار ریسرچر ہے۔ لگاتار دو سال سے یونیورسٹی کا سٹوڈنٹ آف ائر کا ایوارڈ جیتتا آیا ہے۔ ہاربن انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی چین سمیت دنیا بھر کی چند بہترین درسگاہوں میں ہے۔ یہاں ایوارڈ کے لیے انتہائی کڑے معیار سے گزرنا پڑتا ہے۔ خطیم اب بیجنگ انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہے ‌۔ خطیم سے ایک دن ملاقات ہوئی۔ میرے لیے ویسے بھی ایسے سپر سٹار لوگوں سے ملنا اعزاز سے کم نہیں ہوتا۔

میں اپنے پروفیشنل آئیڈیلز کی بہت قدر کرتا ہوں۔ پیشہ ہر طرح کی صنفی درجہ بندی سے مبرا ہوتا ہے (profession has no gender) ۔ جیسے محقق، محقق ہوتا ہے وہ خاتون محقق یا مرد محقق نہیں ہوتا۔ خطیم کے ساتھ وقت کو میں زیادہ سے زیادہ سیکھنے کی غرض سے استعمال کرنا چاہ رہا تھا‌۔ خطیم بہت عاجز، کم گو انسان ہے۔ اس سے تحقیق کے حوالے سے کافی لمبی گفتگو ہوئی۔ اس سے میں نے پوچھا، اسرائیل کے ساتھ آپ کے معاملات کیسے ہیں؟ خطیم نے جواب دیا فلسطین کے اسرائیل کے ساتھ چند جگہوں پہ زمین کے تنازعات ہیں۔ ہمارے اجداد کسان تھے۔ یہودی جب آباد ہونا شروع ہوئے تو ان کے پاس پیسے تھے۔ فلسطینیوں نے ان سے پیسے لے کے زمینیں فروخت کیں۔ اب ساری زمینیں یہود کے پاس چلی گئی ہیں۔

یہودی سرمایہ دار لوگ تھے۔ انہوں نے ڈیجیٹل طریقے سے زراعت کو پروان چڑھایا ہے۔ کاروبار میں وہ پہلے سے تھے، اب واحد چیز زراعت لوکل لوگوں کے پاس تھی۔ وہ بھی انہوں نے لے لی۔ اس طرح وہ اپنے دیس میں پردیسی ہو گئے۔ یہودیوں نے فلسطینی زمینیداروں کو ایسے طریقے سے پھانسا ہے کہ اب معاملات غیر حل شدہ ہیں۔ مجبوراً لوگ علاقے سے ہجرت کر گے ہیں۔ اب ان کے ساتھ ویسا جانبدار سلوک کیا جاتا ہے۔ جو جمعیت اقلیت کے ساتھ کرتی ہے۔

اس نے کہا کہ آپ اقلیت سے کیسا سلوک کرتے ہو؟ اب میں کیا بتاؤں کہ ہم گرجا پہ قبضہ کر کے اس میں محفل نعت منعقد کرتے ہیں۔ میں نے اسے بتایا کہ یہ سب جگہ ہوتا ہے۔ آپ نے اسے یہودی پالیسی کا نام دیا ہے۔ جب کے ہمارے ہاں یہ نودولتیا پالیسی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ بھٹو کے دور کے بعد یہودی آباد کاری ہوئی ہے بس پس منظر مختلف ہے۔

بھٹو دور میں جب سوشل ازم کے ساتھ عربوں کی آئل اینڈ گیس انڈسٹری نے دھوم مچائی۔ تو پاکستان کے ہنرمند افراد عرب چلے گے۔ اب عربوں کو فصل کاشت نہیں کروانی تھی۔ اس لیے تمام ہنر مند افراد نائی، موچی، لوہار وغیرہ تھے۔ انہوں نے دوبئی سعودیہ جا کے ڈٹ کے محنت کی۔ پیچھے زمیندار کھیتوں کے علاوہ کچہری میں پھنس گیا۔ اب وکیل کو فیس دینے، راضی نامہ کے لیے پیسے درکار تھے۔ جو اس نے نائیوں کے ہاتھوں فروخت کر کے اپنے کورٹ کچہری کے کیس نپٹائے۔ اس کے علاوہ اس دور کی ٹیکنالوجی ٹی وی، وی سی آر، فریج، اور کیمرے بھی مصلیوں کے ذریعے پاکستان پہنچی۔ پھر ان مصلیوں کا بین الاقوامی سطح پہ ایکسپوژر ہو چکا تھا۔ بچوں کو اچھی تعلیم دلوا کے سرکاری نوکریوں میں بیٹھا دیا گیا۔ مصلیوں کے پاس جب مزید پیسہ آیا تو انہوں نے فیکٹریاں لگانی شروع کردیں۔

بھٹو کے دور کے بعد پاکستان کی ترجیحات بدل گئی۔ ضیاء صاحب کے دور میں نقد پیسہ ملنے سے فیکٹریاں بھی پیچھے رہ گئی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا ملک میں توانائی کا شدید بحران آ گیا۔ فیکٹریاں بند ہونا شروع ہو گئی۔ بات اوپر تک گئی مگر پاکستانی فیصلہ سازوں کو ہمیشہ ناک سے آگے کی چیز نظر نہیں آتی۔ انہوں نے اپنا دور کامیابی سے مکمل کرنے کے لیے شارٹ ٹرم فائدہ پالیسی اپناتے ہیں۔ جیسے اگر خون سے اچھے پیسے آئیں تو وہ ریڈ سیلز پیدا کرنا شروع کردیں گے۔

یہی وجہ ہے ہر چھے مہینے بعد کبھی بیجنگ اور کبھی واشنگٹن کی جھولی سے نمکو کھا رہے ہوتے ہیں۔ جب دونوں کی جھولی سے کچھ نہ ملے تو گھبراہٹ میں ہاتھ ماسکو کی جھولی میں ڈال کے روسی چاکلیٹ پکڑ لیتے ہیں۔ خیر چاکلیٹس سے، کہاں ہمارے موٹے پیٹ بھرتے ہیں۔ یہ تو بس تھوڑی دیر کے لیے پیٹ کا غم‌ غلط کرنے کے لیے دل لگی کرتے ہیں۔ یا یوں کہہ لیں ہم چاکلیٹ اپنے شیفس کو بلیک میل کرنے کے لیے کھاتے ہیں۔ اگر نقدی نہیں دو گے تو ہم چاکلیٹ کھا کے گزارہ کرنا شروع کردیں گے۔ جس پر مالک گھبرا جاتے ہیں۔ کیونکہ ایک دفعہ میاں صاحب نے کلنٹن کو پتے کھانے کی دھمکی بھی دی تھی۔ وہ بعد میں پتہ چلا کہ پان کے پتے کی بات ہو رہی ہے، کیونکہ منہ پہ جو خون کی لالی تھی، دراصل پان کی تھی‌۔ خیر اس وقت کے تھنک ٹینکس نے سب فیکٹری مالکان کو ہاؤسنگ سوسائٹیز کی طرف پیسہ لگانے کا کہا۔ مصلیوں (فیکٹری مالکان) نے یہودی پالیسی اپناتے ہوئے عام کسانوں کو حسین خواب دیکھا کے ان کی زمینیں سستے داموں خرید کے سوسائٹیز بنانی شروع کردیں۔

ان دیسی یہودیوں نے سیاسی لوگوں کے الیکشنز کے خرچے اٹھانا شروع کر دیے۔ یہ دیسی یہودی غلام گردشوں سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کے پاس ہر ایک کی دکھتی رگ ہوتی ہے۔ جسے وہ اپنے سرمائے سے رام کرتے ہیں۔ جیسے میڈیا ہاؤسسز خریدے گئے۔ اہم لوگوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد بڑے بڑے گھر تحفے میں دے کر اپنے پاس بڑی تنخواہ والی نوکری سے نوازا گیا۔ یہودی سرمایہ دارانہ نظریہ ہمیشہ اپنی قبیل کی طرح مخصوص طبقے کو نوازتا ہے۔ موجودہ سیاسی حکومت میں تمام دیسی یہودیوں کے دلال ہیں۔ جنہیں یہودی اپنے جہازوں میں بھر بھر کے لاتے رہے اور منافقت والا کلمہ پڑھا کے عوام کو بیوقوف بنایا گیا۔ یہ لوٹے ان یہودیوں کے پیسوں سے بھرے گے ‌۔ لوٹے اور ان کے لیڈران دیسی یہودیوں کے ایجنٹ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں چند دن پہلے غزہ کی پٹی پہ جھڑپیں ہوئی ہیں۔ مگر دلالوں کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگی۔ کیونکہ دلال اپنے انویسٹر کے خلاف زبان نہیں کھولیں گے ‌۔ ہمارے اور فلسطین میں فرق یہ ہے کہ فلسطینی کھولتے پانی میں مکمل ابلے ہوئے مینڈک ہیں، جبکہ ہمارے مینڈکوں کے پانی کا درجہ حرارت مزے والا ہے۔ اگر مزے بند نہ ہوئے تو عنقریب دیسی یہودی اقلیت سے ایسا سلوک کریں گے کہ دنیا یاد نہیں رکھے گی۔ کیونکہ یہاں ہر چیز پہ دیسی یہودیوں کا قبضہ ہے۔

میرا یہودی ایجنٹ سے مطالبہ ہے، خدارا اکانومی انڈسٹری سے چلتی ہے۔ انڈسٹری لگائیں۔ ایک انڈسٹری سو گھروں کا چولہا جلاتی ہے۔ ایکسپورٹ بڑھاتی ہے۔ یہ زمین ایکسپورٹ نہیں ہوتی۔ زمین خوراک پیدا کرتی ہے۔ نوکری نہیں دیتی۔ فیکٹری لگانے والوں کو سبسڈی دو۔ جی ڈی پی گروتھ بڑھے گی۔ ایک کروڑ نوکریاں ایک سال میں دے دو گے۔ اور یہ جو راگ الاپتے ہو کہ ضرورت سے زیادہ بجلی بنا دی، وہ بھی انڈسٹری لگنے سے استعمال ہو جائے گی۔

اگر ایسا نہیں کرو گے تو پھر اگلا فلسطین بننے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ بس افسوس یہ رہے گا، بہترین فلسطینی دماغ خطیم کی طرح دوسرے ممالک ہجرت کر جائیں گے۔ اقلیت ماری جائے گی۔ جبکہ اکثریت اتنی ظالم ہے، کہ اگر آج اقلیت کو پھانسی دینی شروع کردی جائے ‌ تو یقین کریں، یہ دیسی یہودی پھانسی میں استعمال ہونے والی رسی مہنگی کردیں گے۔ بلکہ ماسک سینی ٹائزر کی طرح بلیک میں رسی بیچیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments