پہلی ملاقات کے تین گھنٹے بعد شہید ہونے والے سپاہی کی یاد میں


فرنٹیئر کور کے نائیک حق نواز سے پہلی بار ہماری ملاقات 4 اپریل 2021 ء کو ہمارے بھائی محمد اختر علی کی وفات پر ہوئی تھی، دور پار کے رشتہ دار تھے۔ ہمارے بڑے بھائی ظفر علی نے ہمیں ایک دوسرے سے متعارف کرایا، دیکھنے میں خاموش طبع اور سلجھے ہوئے نظر آئے۔ ہماری مختصر سی بات ہوئی تھی۔

گزشتہ جمعرات کو مرحوم اختر بھائی کے چہلم کے سلسلے میں قرآن خوانی اور ختم شریف کا اہتمام کیا گیا تو وہ بھی تشریف لے آئے، دوپہر کو ہمارے پاس بیٹھے رہے، ہمیں ”نوائے اوچ“ کا یوٹیوب چینل شروع کرنے کا مشورہ دیا اور مختلف موضوعات پر کئی باتیں۔

شام کو ختم شریف کے بعد ہم سے پوچھنے لگے کہ ماضی کے اہم واقعات و حالات کے حوالے سے آپ تحریریں کیسے تیار کرتے ہیں؟ ہم نے شگفتگی سے کہا کہ حوالہ جاتی مواد کی مدد سے لکھنے اور نفس مضمون کو تیار کرنے میں صرف ایک بار محنت کرنی پڑتی ہے، پھر اسے اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کر کے دن کی مناسبت سے ہر بار کام چلا لیتے ہیں۔

افطار کے دوران انہوں نے دلیہ کی پلیٹ ہمارے آگے رکھ دی کہ اسے بھی چکھ لیجیے۔ لیکن وہ دلیہ ہم نے اکٹھے مل کر کھایا۔ اس دوران انہوں نے ہم سے ہماری فیس بک آئی ڈی کی بابت پوچھا اور ہمارے بتانے پر جھٹ سے ہمیں دوستی کی درخواست بھیج دی۔

تھوڑی دیر بعد انہوں نے واپس جانے کی اجازت مانگی تو ہمیں حیرانی ہوئی کہ رات کے اس سمے وہ کیسے جائیں گے؟ انہوں نے ہماری حیرانی بھانپتے ہوئے کہا کہ وہ دیگر اہل خانہ اور بچوں کے ہمراہ گاڑی پر آئے ہیں، رات کے کسی وقت منزل مقصود پر پہنچ ہی جائیں گے۔

رخصتی کے وقت بڑے تپاک سے ملے، جب آئے تھے تو محض مصافحہ پر اکتفا کیا تھا لیکن جاتے وقت خلاف توقع گلے لگایا۔

اور پھر۔ پھر ان کے جانے کے تین گھنٹے بعد اطلاع ملی کہ حق نواز ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہو گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی ان کی والدہ کا چہلم ہوا تھا۔

فیس بک ہے اور ان کی فرینڈ ریکوئسٹ۔ جس نے آنکھوں میں نمی کی فصل بو دی۔

مختصر سی ملاقات میں دوستی کی آشا دل میں دبا کر عروضی زمانوں سے باہر جانے والا جوان رعنا حق نواز ہمیشہ ہمیں یاد رہے گا۔

کسی دن ملیں گے
عروضی زمانوں سے باہر
شب استعارہ منائیں گے
تمثیل حسن ازل کی
کسی صد مثالی جبیں میں، حسیں میں تلاشیں گے
لفظوں کے اثقال سے
معنویت کو آزاد کر دیں گے
ابہام آلودہ دنیا سے نکلیں گے
ویراں ستاروں پہ رقص بلاغت کریں گے
کوئی ایسا پیکر تراشیں گے
جو کائناتی تصور سے بھی ماورا ہو
کسی خواب آمیز مجہول دن کو علامت بنا کر
محبت کی نثری حلاوت چکھیں گے
حقیقت لکھیں گے
نہ منزل نہ رستہ نہ کوئی سفر ہے
ہر اک سمت ”لا“ کا گزر ہے
ہر اک شے کا اپنا تناظر ہے، اپنی نظر ہے
کوئی کتنا اصلی ہے، نقلی ہے کس کو خبر ہے
زمینے! ترے کینوس پر
زمانوں کی پینٹنگ بناتے بناتے کبھی تھک گئے تو
ہم اس گھر میں جائیں گے مہمان بن کر
یگوں تک رہیں گے
ابھی دور تخلیق جاری ہے پیہم
ابھی ایک سرمستی طاری ہے ہر دم
ابھی ہم کو فرصت نہیں ہے
ملیں گے کسی دن ملیں گے
فراغت ہوئی تو
خدا سے بھی، تجھ سے بھی
دونوں جہانوں سے باہر ملیں گے
کسی دن عروضی زمانوں سے باہر ملیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments