انسانی شعور کی منزل


انسانی شعور انسانی وجود کو شناخت بخشتا ہے۔ ہمارا وجود کیا ہے۔ ہمارا وجود بنیادی طور پر مادی ذرات سے مل کر بنتا ہے۔ اگر ہم اس مادے پر غور و فکر کریں تو مادے کا چھوٹا زرہ ایٹم ہے اور اس سے بھی چھوٹے ذرات ہمارے وجود کا حصہ ہیں۔ یہ چھوٹے ذرات ایٹم میں پائے جاتے ہیں۔ ہمارے وجود کی بنیاد مادہ ہے اور بے شمار مادی ذرات سے بنا ہے۔ یہ مادی ذرات شعور کے حامل ہیں۔ ان ذرات میں کائنات کا شعور شامل ہے۔ یہ کائناتی شعور ان ذرات کی فطرت ہے۔

ان بنیادی ذرات میں جو شعور شامل ہے وہ ہمارے وجود کا حصہ بنتا ہے۔ ایٹم مل کر مالیکیولز بناتے ہیں اور پھر یہ مالیکیولز مل کر ہمارے جسم کے خلیات کی ترتیب کرتے ہیں اور خلیات سے ٹشوز اور پھر ٹشوز سے نظام اور نظامات مل کر اعضا بناتے ہیں۔ ہمارا وجود ایسے بہت سے نظامات کا رہین منت ہے۔ ان مختلف نظام ہائے حیات میں جینز کی شکل میں ہدایات اور کوڈنگ کا ایک نظام وجود پاتا ہے جو ایک حیاتیاتی اکائی کو جنم دیتا ہے۔

ان ذرات میں جو شعور موجود ہے اس کی ارتقائی منزل انسانی شعور کی ہے۔ نظام ہائے حیات میں یہ شعور دماغی میکانکی طریقہ کار کی بدولت اپنا اظہار کرتا ہے۔ دماغ ان پیچیدہ نظامات کو ایک مربوط شکل عطا کرتا ہے۔ دماغ نیورونز کے ذریعہ جسم کے نظامات کو جوڑتا ہے اور ربط میں رکھتا ہے۔ اس پورے میکانکی اور دماغی عمل میں شعور انتہائی اہم اور حیرت انگیز تخلیق نظر آتا ہے۔ انسانی وجود کی یہ صفت ہے کہ یہ اپنی شناخت کو برقرار رکھتا ہے اور احساس بھی، جس کے باعث اپنے گردوپیش میں ہونے والے واقعات کی وضاحت کرتا ہے۔

یہ شعور کیا ہے۔ کیا یہ ایک مادی خاصیت ہے۔ کیا یہ طبیعاتی اور کیمیاوی اجزا کی مخصوص ترتیب سے جنم لیتا ہے۔ کیا یہ زندگی کی برقی اکائیوں کی کارستانی ہے۔ کیا یہ اس دنیا سے پرے ما بعد الطبیعاتی پیداوار ہے اور اس ماورائی نظام کی کوئی کارروائی ہے جسے ہم سمجھنے سے ابھی تک قاصر ہیں۔ اگر حس کے اعتبار سے دیکھا جائے تو حسیات کا ایک پورا نظام ہے اور اس کے اعضا اس نظام کو واضح انفرادی شناخت عطا کرتے ہیں۔ شعور کی پہچان ذہانت کی ارتقائی شکل سے ابھرتی ہے۔

ذہانت سے وابستہ مختلف عوامل شعور کی شناخت کرواتے ہیں۔ ذہانت کا اظہار آرٹ، ادب، خیال، فکر، منطق اور جذبات کی صورت زندگی کے تمام پہلوؤں کو اپنے میں سمائے ہوئے ہے۔ انفرادی اور اجتماعی تہذیب و ثقافت، معاشرتی اکائیاں، علم، اخلاقیات انسانی زندگی کی نیرنگیوں کو شناخت بخش رہی ہیں۔ اگر انسان اپنی ذات کا شعور حاصل نہ کرے تو یہی عدم شعور ذاتی عدم وجود بن جاتا ہے۔ شعور کا حقیقی منبع و ماخذ کیا ہے اس سوال کا جواب ابھی تک سائنس کے لیے ایک معمہ ہے اور سائنس کو اسے ایک چیلنج کے طور پر تجرباتی اور عملی تصدیق فراہم کرنی ہو گی۔

ماضی میں شعور فلسفے اور نفسیات کا ہی موضوع تھا اور وہی لوگ اس میں دلچسپی لیتے جو انسانی نفسیات اور فلسفے سے آشنا ہوتے لیکن فی زمانہ یہ بات طے ہو گئی ہے کہ دماغی بیماریوں کا علاج صرف فلسفہ اور نفسیات کے دائرہ کار ہی میں نہیں آتا بلکہ یہ سائنس اور طب کا بھی موضوع ہے۔ دماغی ساخت اور میکانکیت پر تحقیق کی گئی ہے اور مزید ہو رہی ہے۔ دماغی سائنس اور میڈیکل کے علم کی مشترکہ مساعی سے دماغی امراض کی طبیعاتی، کیمیاوی اور حیاتیاتی اسباب کو تلاش کیا جا رہا ہے اور مقناطیسی مشینوں کے ذریعے بیماریوں کا پتا لگایا گیا ہے اور نئے طریقہ ہائے علاج دریافت ہو رہے ہیں اور دوائیں بنائی گئی ہیں اور تجرباتی اور عملی شکل کے بعد امراض دماغ کا علاج ہو رہا ہے۔

سائنس اس میدان میں تحقیقی پیش رفت کی طرف بڑھے جا رہی ہے اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے بھی نئے علاج دریافت ہو رہے ہیں۔ کمپیوٹر اور روبوٹ بنائے جا رہے ہیں جو شعوری درجہ کی حد تک کار گر ہیں۔ کئی ایسی تھیوریاں ہیں جن کی بدولت شعور کے ماخذ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق نیورون خلیے کے اندر انتہائی چھوٹی چھوٹی نالیاں ہیں۔ ان میں کوانٹم میکینکس کے عمل کے تحت لہروں کے ختم ہونے کی وجہ سے شعور جنم لیتا ہے۔

ایک اور تھیوری کے مطابق دماغی نیورونز کے تقسیم شدہ گروپس میں گچھوں کی شکل میں کیمیاوی عمل ہوتا ہے جس کی وجہ سے شعور ابھرتا ہے۔ شعوری نظام نیورونز کے آن آف ہونے کی شکل میں اپنا کام کرتا ہے۔ اسی نظام کے تحت شعور پیدا ہوتا ہے۔ یہ نیورونز پورے جسم میں پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ ڈارون کی تھیوری کے مطابق شعور بھی ارتقائی عمل کا ایک حصہ ہے۔ انسان کے ارتقا کے ساتھ اس کے دماغ اور اس کے میکانکی طریقہ کار بھی ارتقا ہوتا آیا ہے۔

انسانی دماغ کے خلیات نیورونز کے ارتقا کی سائنسی شہادتیں بھی اب دستیاب ہیں۔ فرانسس کرک اور جیمز واٹسن نے جینز کے ڈھانچے اور اس کی میکانکیت کے تجربات سے ثابت کیا ہے۔ شعور کے ساتھ تحت الشعور کا تعلق ہے اور تحت الشعور کا خواب کے ساتھ رشتہ بنا ہوا ہے۔ سگمنڈ فرائیڈ خواب کی ماورائی اور ما بعد الطبیعاتی وجوہات کو رد کرتا ہے۔ وہ خواب کو نفسیاتی حوالہ سے دیکھتا اور جانچتا ہے اور وضاحت کرتا ہے کہ خواب درحقیقت ہمارے تحت الشعور میں نہاں خوف اور خواہشات کی تسکین کا ایک ذریعہ ہوتے ہیں۔

جدید سائنسی آلات کے ذریعے سے دماغی اور نیند کے اوقات میں نیورونز کی میکانکیت اور طریقہ ہائے عمل کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کے یہ خلیات دماغی نیند اور عام حالت میں بدستور کام کرتے ہیں۔ ہمارے جسم میں بہت سے ایسے کام ہر وقت ہو رہے ہیں جو نیند اور عام حالت میں کبھی رکتے نہیں ہیں۔ ہمارے جسم میں ہونے والے عوامل سے دماغ ہر لمحے جڑا ہوتا ہے۔ نیند کے دوران دماغی پرت کا صرف شعوری عمل معطل رہتا ہے اور باقی تمام نظامات اپنی سرگرمیوں کو بدستور جاری رکھتے ہیں۔

نیند اور بیداری کی وجہ سے درجہ حرارت میں تفاوت کو معتدل رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ مادہ کیوں ہے۔ مادہ نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ شعور کا یہ سفر مادے سے جڑا ہے جو طبیعاتی اور مابعد الطبیعاتی عمل کا حصہ ہے۔ فلاسفروں نے اسے مابعد الطبیعاتی وجود تسلیم کیا لیکن اس مادی وجود سے اس کے تعلق سے بھی انکار نہیں کیا بلکہ اس سے باہم پیوست کر کے اس کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ شعور صرف فلسفہ کا ہی موضوع نہیں ہے بلکہ مادی جسم کا ایک حصہ ہونے کی وجہ سے کی وجہ سے جسم کے تمام افعال کی کارگزاری میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔

الزائمر، ڈمینشیا، کوما اور اس طرح کی دیگر دماغی امراض کی وجہ سے شعور معطل ہو جاتا ہے اور اس کا کردار محدود ہو کے رہ جاتا ہے۔ شعور کے افعال کا منبع مادی دماغ ہوتا ہے۔ گویا غیر شعوری مادہ شعور کو جنم دیتا ہے۔ شعور اصل میں مادے کو اپنی پہچان عطا کرتا ہے۔ دماغ اگر کائنات مان لیا جائے تو شعور زمان و مکان کی مانند ہو گا۔ اس کائنات کے بنیادی تعمیری اکائیاں شعور ہی ہیں۔ اس کائنات اور حیات انسانی کا ارتقا اور ترقی شعور کی ترقی میں ہی مضمر ہے۔

انسانی شعور مصنوعی شعور پیدا کر رہا ہے۔ انسانی ذہانت مصنوعی ذہانت کو پیدا کر رہی ہے۔ کیا یہ مصنوعی ذہانت سبقت لے جائے گی۔ کیا انسانیت کا مجموعی شعور بھی ہے اور یہ شعور انسانیت کی رہنمائی میں کہاں تک معاونت کر رہا ہے۔ کیا یہ شعور انسانیت کے مصائب و مشکلات کے حل کے لیے کوئی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ دماغ، شعور اور ذہانت اس پر سائنسی تحقیق کا عمل ہو رہا ہے۔ کیا انسان شعور اور ذہانت کی اس اگلی منزل تک پہنچ پائے گا جو اسے ایک نئی کائناتی شعوری مخلوق میں تبدیل کر دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments