پیرس اور روم کی سیر


جہاز کو زیورخ سے ٹیک آف کیے گھنٹہ بھر ہونے کو تھا اور نیچے زمینی خد و خال واضح ہونے لگے تھے جس سے منزل قریب آنے کی نوید ملی کہ اتنے میں اعلان ہوا کہ ہم پیرس کے چارلس ڈیگال ائرپورٹ پر اترنے والے تھے۔ کچھ دیر میں جہاز کی اونچائی تیزی سے کم ہونے لگی اور جلد ہی ہم لینڈ کر چکے تھے۔ امیگریشن کے ضابطوں سے فارغ ہو کر ٹرالی پر سامان رکھا اور باہر نکلے تو رات ہو چکی تھی۔ نزدیک ہی شہر لے جانے والی گاڑی پارک تھی۔ گاڑی کے حرکت میں آ جانے میں زیادہ وقت نہیں لگا اور ہماری گاڑی سڑکوں پر پھیلی پیلی روشنیوں میں فراٹے بھر رہی تھی۔

کچھ دیر بعد ہم ہوٹل پہنچ گئے۔ ہمارا کمرہ دوسری منزل پر کونے میں تھا اور ساتھ والے دو کمرے حامد علی خان صاحب اور ان کی فیملی کے لئے تھے۔ ہوٹل مجھے بہت پسند آیا کیونکہ عمارت کا نقشہ ہمارے ملتان والے ہوسٹل کی طرح تھا سوائے اس کے کہ درمیانی صحن مربع شکل میں تھا جبکہ ہوسٹل میں مستطیل تھا۔ فریش اپ ہونے کے بعد ہم نے کھانا کھایا اور جلدی سو گئے

دریائے سین کے کنارے واقع پیرس ایک خوبصورت شہر ہے جو آرٹ فیشن اور ثقافت کے لئے مشہور ہے۔ پیرس کی فیشن بوتیک اور آرٹ گیلیریز کی شہرت دنیا بھر میں ہے۔ یورپ میں سیاحوں کی اکثریت پیرس کا رخ کرتی ہے۔ پیرس کو روشنیوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے اور یہ نام اس شہر کو 1860 میں اس وقت دیا گیا تھا جب بجلی کا قمقمہ ایجاد نہیں ہوا تھا اور پیرس کی سڑکوں پر چھپن ہزار گیس لائٹس نصب کی گئی تھیں۔

اگلی صبح ناشتے کے بعد ہم پیرس میٹرو سٹیشن پہنچے۔ پیرس کی میٹرو یورپ کی مصروف ترین میٹرو ہے۔ لندن ٹیوب کے مقابلے میں نئی لگتی ہے۔ ہم نے سات ٹکٹ خریدنا چاہے تو اہلکار نے مشورہ دیا کہ ہم آٹھ ٹکٹ خریدیں تا کہ وہ ہمیں گروپ کا ٹکٹ دے سکے جو ہمیں سات ٹکٹ سے سستا پڑے گا۔ سب سے پہلے ہم لوور میوزیم دیکھنے کے لئے گئے جو کہ دنیا کا سب سے بڑا آرٹ میوزیم ہے۔ دریائے سعین کے دائیں کنارے پر واقع یہ عجائب گھر ایک خوبصورت اور وسیع و عریض عمارت کے اندر ہے اور شہر کا اہم لینڈ مارک ہے۔

مونا لیزا کی مشہور زمانہ پینٹنگ بھی اسی میوزیم کی زینت ہے۔ اس کے علاوہ بے شمار فن پارے اور آرٹ کے نمونے یہاں پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس میوزیم میں کل اڑتیس ہزار نوادرات محفوظ ہیں جن کو مختلف تہذیبوں کے اعتبار سے آٹھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے مثلاً مصری ثقافت کے نوادرات، رومن، یونانی، مشرقی، اسلامی وغیرہ۔ یہاں رکھے گئے نوادرات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ایک دن میں میوزیم دیکھنا ممکن نہیں۔ ایک دن میں تو ایک سیکشن ڈھنگ سے دیکھنا ممکن نہیں۔ دوپہر کو ہم ہوٹل پہنچے تو تھک چکے تھے۔ کچھ دیر آرام کیا اور ایفل ٹاور دیکھنے نکل گئے۔ بچے ایفل ٹاوڑ جانے کے لئے بہت خوش اور پر جوش تھے۔ ویسے میں بھی خوش تھا کیوں کہ پچھلی دفعہ جب میں پیرس آیا تھا تو اوقات کار نہ ہونے کے سبب ٹاور کے اوپر نہیں جا سکا تھا۔

ایفل ٹاور پیرس کا ایک بڑا لینڈ مارک ہے اور سچ کہیں تو یہ پیرس کی پہچان ہے۔ ایک سو بتیس سال قبل بنایا جانے والا لوہے کا جالی دار ٹاور ایک ہزار فٹ اونچا ہے۔ گسٹیو ایفل نامی انجینئر کی کمپنی نے اس کو تعمیر کیا اور یہ اسی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تعمیر سے لے کر چالیس سال تک یہ دنیا کا بلند ترین ٹاور شمار ہوتا رہا۔ اونچائی کے لحاظ سے ٹاور تقریباً ایک جیسے تین لیولز میں منقسم ہے۔ پہلے دو لیولز پر سیاحوں کے لئے کیفیٹیریا کی سہولت میسر ہے۔

اوپر جانے کے لئے سیڑھیاں بھی ہیں اور لفٹس بھی نصب ہیں مگر زیادہ تر لوگ لفٹس کا استعمال کرتے ہیں۔ ٹاور کی چاروں بنیادیں ایک دوسرے سے چار سو دس فٹ کے فاصلے پر ہیں اور اس طرح اس کا بیس مربع شکل میں ہے۔ چاروں بنیادی ستون پہلے لیول کی اونچائی پر چاروں طرف ایک محراب بناتے ہیں جس نے ٹاور کی خوبصورتی کو نمایاں کیا ہوا ہے۔

ہم لفٹ کے ذریعے ٹاور کے پہلے لیول پر آئے۔ یہاں سے گرد و نواح کے منظر سے محظوظ ہوئے۔ کچھ دیر بعد دوسری لفٹ کے ذریعے دوسرے لیول تک گئے اور پھر تیسرے اور آخری لیول تک پہنچے۔ ٹاور کے چاروں طرف سے نظارہ بہت خوب صورت تھا خاص طور پر دریا کی سمت کا نظارہ انتہائی دلکش تھا۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بہت سے پل بنے ہوئے تھے جو نہ صرف دیکھنے میں خوبصورت لگ رہے تھے بلکہ منظر کی چوکھٹ میں ایسے پیوست تھے کہ ان کے بغیر منظر سونا لگتا۔

تیسرے لیول سے کچھ اونچائی پر چوٹی تک صرف سیڑھیوں سے رسائی تھی۔ ہمارے ساتھی تو وہاں تک چڑھے تھے مگر ہماری بیگم صاحبہ تھک چکی تھیں اس لئے ہم نے یہیں تک اکتفا کیا۔ کچھ دیر کے لئے فضائی مناظر سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہم لفٹس کے ذریعے نیچے آئے۔ ایفل ٹاور کے قرب میں خوبصورت پارک ہے۔ ہم ایک جگہ بیٹھ گئے۔ دور تک ڈھلوان میں سبزے کی چادر بچھی تھی جس پر ایک قطار کے اندر رنگا رنگ پھولوں کی کیاریاں تھیں اور اس سے آگے فواروں کا ایک سلسلہ اور بیک گراؤنڈ میں ایفل ٹاور۔ ہم بہت دیر تک اس دلآویز منظر سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ شام کے قریب واپس ہوٹل پہنچے۔ اس کے بعد کہیں اور جانے کی ہمت نہ ہوئی۔

اگلے روز ہم نے پیرس شہر گھومنے میں گزارا۔ پیرس کی ٹیکسی کا سٹائل بڑا شاہانہ ہے جو مہنگی ترین بھی لگی مگر حیران کن بات یہ تھی کہ زیادہ تر ٹیکسیوں میں فرنٹ سیٹ پر بریف کیس دیکھ کر ہم یہی سمجھے کہ یہ اینگیجڈ ہے مگر حقیقت یہ تھی کہ وہ ڈرائیور کا بریف کیس تھا۔ چند ٹیکسی ڈرائیورز نے ہمیں یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم تین لوگ ہیں جبکہ ٹیکسی میں صرف دو مسافر بیٹھ سکتے ہیں۔ ہمارے ساتھ تیسری ہماری دو سال کی بیٹی تھی۔ خیر ایک ٹیکسی میں سوار ہوئے اور ہم آرک ڈی ٹرانمف دیکھنے گئے۔

آرک ڈی ٹرانمف فرانس کی فتوحات میں اور انقلاب فرانس کے دوران جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی یاد میں تعمیر کی گئی تھی۔ ویسے تو پیرس کی سبھی شاہراہیں انتہائی کشادہ ہیں۔ عظیم الشان آرک ڈی ٹرانمف بھی ایک کشادہ راونڈ اباوٹ کے درمیان میں تعمیر کی گئی ہے جہاں سے بارہ شاہراہیں نکلتی ہیں۔ آرک کی اونچائی پچاس میٹر ہے اور اوپر جانے کے لئے سیڑھیاں اور لفٹ دونوں سہولتیں میسر ہیں۔

پیرس میں اکثر کیفے و ریسٹورنٹ سڑک کے کنارے واقع ہیں۔ گاہکوں کے کھانے کا اہتمام بھی سڑک کے کنارے سجائی میزوں پر کیا جاتا ہے۔ ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا لیکن مجھے ذاتی طور پر بہت معیوب لگا۔ اس کے بعد ہم ہوٹل آ گئے۔ شام کے قریب ہماری روم جانے کے لئے فلائٹ تھی اس لئے آج کے دن پیرس میں اور کوئی مصروفیت نہیں تھی۔

ہم صحیح وقت پر ائرپورٹ پہنچ گئے۔ چارلس ڈیگال ائرپورٹ کی عمارت بہت خوبصورت اور پر کشش ہے۔ یہ عمارت ستاروں کے نکشتر کی طرح ڈیزائن کی گئی ہے اور مختلف ٹرمینلز کو سیٹیلائٹ کا نام دیا گیا ہے جو مختلف لیولز پر ہیں اور مختلف سمتوں سے ٹیڑھے ترچھے برقی زینوں کے ذریعے آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ ہم متعلقہ سیٹیلائٹ پر پہنچے اور جہاز پر سوار ہونے کے مراحل سے گزرنے لگے۔

پیرس سے روم دو گھنٹے کا سفر رات کے اندھیرے میں تھا اس لئے سوائے پیرس کی روشنیوں پر الوداعی نظر ڈالنے اور روم کے خوش آمدید کہتے ہوئے قمقموں کے سحر میں سما جانے کے علاوہ کوئی اور سرگرمی نہیں تھی۔ پرواز ہموار و خوشگوار رہی۔ ائرپورٹ سے سیدھا ہوٹل پہنچے۔ قریبی ریستوران سے کھانا کھایا۔ بل کئی ہزار لیرے بنا اور یہ اٹلی کی کرنسی کی بے توقیری کا پہلا سامنا تھا جو حیران کن بھی تھا اور کنفیوژن کا باعث بھی۔

روم یورپ کا سب سے پرانا شہر سمجھا جاتا ہے جو قبل مسیح زمانے سے مسلسل آباد ہے۔ یہ شہر پرانے کھنڈرات کے لئے بھی مشہور ہے۔ اگلا روز ہم نے روم شہر گھومنے میں گزارا۔ کولوسیم تقریباً دو ہزار سال پرانا ایمفی تھیٹر ہے۔ مسلسل کئی روز سے حالت سفر میں رہنے سے دونوں فیمیلیز تھکاوٹ کا شکار تھیں اس لئے کولوسیم کے اندر جانے کے لئے کوئی تیار نہیں تھا۔ باہر سے ہی دیکھا اور آگے نکل گئے۔ اٹالین پارلیمنٹ کی عمارت ہمیں بہت پسند آئی۔ انتہائی خوبصورت اور شان و شوکت والی عمارت تھی۔ اس کے بعد کچھ وقت شاپنگ ایریا میں گزارا اور شام تک واپس ہوٹل پہنچے۔ روم یورپ میں ہماری آخری منزل تھی۔

روم میں ایک دلچسپ مشاہدہ تھا کہ سڑکوں پر ٹریفک بہت زیادہ تھی اور گاڑیوں کی اکثریت فیئٹ 600 پر مشتمل تھی جو کہ وہاں کی تیار کردہ کار ہوا کرتی تھی۔ یہ گاڑی ہم نے پاکستان میں دیکھی ہوئی تھی مگر اندازہ نہیں تھا کہ وہاں کی سڑکوں پر پچھتر فی صد یہی گاڑی ہو گی۔ جاپانی گاڑیاں بہت کم تعداد میں نظر آئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments