چترال کی حسین آنکھ کا پھیلتا ہوا کاجل


شمال میں کسی حسین بیوہ کی اجڑی ہوئی مانگ جیسی ایک سڑک گزرتی ہے۔ پر اسرار پانیوں کے ساتھ چلتی ہے اور ہندوکش کی گہری کھائی میں جاکر ختم ہوجاتی ہے۔ یہاں صدیوں پرانا ایک مکان ہے جسے چترال کہتے ہیں۔ گئے وقتوں میں تجارتی قافلے یہاں دم لیتے تھے، اب یہاں بے اعتنائی کی دھول اڑتی ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ کر زندگی کو اس مکان میں اکڑوں بٹھا دیا گیا ہے۔ دبے قدموں یہاں داخل ہوں تو سو راتوں سے جاگی ہوئی آنکھیں آپ کا استقبال کرتی ہیں۔ ان آنکھوں میں کچھ خواب ہیں، جو کم از کم بھی اپنا بیان چاہتی ہیں۔ زندگی کے منہ میں لیکن جبر کا کپڑا ٹھونس دیا گیا ہے، خواب کیسے بیان ہوں۔ کوئی صاحب نظر ہو تو ان آنکھوں کے سرخ حاشیے پڑھ سکتا ہے، مگر کوئی کیوں پڑھے۔ یہاں جگہ جگہ بکھرے ہوئے ارمان دور دراز سے آنے والے سیاحوں کے لیے ایک تماشا ہیں۔ تماشا ہی نہ رہا تو بے چارے سیاح کہاں جائیں گے۔

بات یہ ہے کہ ہم جبر کے ایک بیانیے کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔ اس بیانیے نے ہمیں یہ بات کبھی تعلیم نہیں کی کہ دوسروں کی آنکھوں میں اپنے خواب سجانا بدتمیزی ہوتی ہے۔ ترقی کا اجتماعی دھارا ٹھیک رو میں تب ہی بہتا ہے جب کسی کی آنکھ میں سجے خواب کو اپنے دل کی راہداریوں سے گزرنے دیا جاتا ہے۔ جبر اور تسلط کی نفسیات آنکھوں کا پانی سکھا دیتی ہیں اور بنجر آنکھوں میں کوئی خواب اگر کھل بھی جائے تو تعبیر کی خوشبو سے محروم رہتا ہے۔

کشمیر کے شہر مظفر آباد سے گزریں گے تو بڑی سی ایک وادی میں ایک دوسرے کے کندھوں پر سوار کچھ مکان نظر آئیں گے۔ کسی کشمیری سے بھی اگر پوچھ لیں کہ یہ کون ہیں، تو جواب آئے گا کہ مہاجر ہیں۔ وقت میسر ہو تو سڑک سے ذرا نیچے اتر کر ان مہاجروں سے بات کریں۔ آپ سوال اردو میں کریں گے اور جواب کشمیری زبان میں آئے گا۔ ان کے بود و باش، خور و نوش اور رہن سہن میں اول و آخر کشمیر ملے گا۔ باتوں سے پھوٹنے والی مٹی کی مہک آپ کو کچھ کنفیوز کرے تو ان کا حسب نسب ٹٹولیں۔ طبعیت ذرا سی بھی حساس ہو تو یہ بات آپ کو دکھی کردے گی کہ یہ لوگ کسی بے پتا سیارے سے بھٹک کر یہاں نہیں آئے تھے۔ یہ تو جدی پشتی اور اصلی نسلی کشمیری ہیں جو اپنے ہی محلے میں اجنبی ہو گئے ہیں۔

اس زمین پر اب وہ مہاجر ہیں اور آپ مقامی ہیں۔ دراصل ذہین انسانوں نے خدا کی زمین پر لکیر کھینچی تو زد میں ایسے آنگن بھی آ گئے جہاں خاندان کے سارے افراد کبھی ساتھ بیٹھتے تھے۔ اب کوئی لکیر کے اس پار ہندوستان میں ہے، کوئی لکیر کے اس پار پاکستان میں ہے۔ کشمیر میں کوئی نہیں ہے۔

یہی منظر نامہ آپ کو پختونخوا وطن کی مغربی اور جنوبی پٹی پر بھی ملے گا۔ لکیر کھنچی اور ایک ہی زبان، تاریخ، ثقافت، حسب نسب اور مذہب کے لوگ دو مختلف ممالک کے باشندے ہو گئے۔ ماؤں نے اس سرزمین پر پہلا بچہ انیس سو سینتالیس کے بعد نہیں جنا تھا۔ پیدائش کی یہ روایت ان کے ہاں تب بھی تھی جب پیدائش لفظ یہاں اردو میں نہیں بولا جاتا تھا۔ کل ہی چھلکے سے نکلنے والا انسان دو ہزار برس سے اپنی زمین پر رہنے والے سے پوچھتا ہے، تم کون ہو اور یہاں کیا کر رہے ہو۔ خبردار جو تم نے خود کو افغان کہنے کی کوشش بھی کی۔ خود کو افغان کہنا ہے تو اپنا شناختی کارڈ قریبی لیٹر بکس میں ڈالو اور افغانستان چلے جاؤ۔ سبحان تیری قدرت!

لکیروں کی جو واردات دنیا نے ہم پر ڈالی وہ ہم اپنے ہی گھر میں دوسروں پر آزما رہے ہیں۔ اگر تاریخ کے کسی پنے پر آپ کو یہ لکھا ہوا دکھ جائے کہ گوپس یاسین اور چترال درا اصل ایک ہی وطن ہیں، تو سمجھ جائیں کہ یہ اس دور کا پنا ہے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ یعنی جو علاقے چترال میں تھے، اب چترال کے پڑوس میں واقع ہیں۔ پختونخوا وطن جو کبھی چترال کے پڑوس میں تھا، اب منہ بھر کے وہ چترال کو اپنا ضلع کہتا ہے۔ چترال کی گہری کھائیوں میں صدیوں پرانے مکان میں قید زندگی کے منہ سے کپڑا نکال کر اگر پوچھیے کہ تم خود بتاو تم نے کہاں جانا ہے، تو اس سے بولا تو کچھ نہیں جائے گا مگر بے ساختہ اس کی نگاہیں شندور کے اس پار لگ جائیں گی۔ پختونخوا کی طرف وہ کیوں دیکھے۔ جس گلی میں غالب کے طرف دار ہی نہ ہوں، اس گلی میں غالب اگر چلا بھی جائے تو پھر کعبے کس منہ سے جائے گا؟

چترال کا مقدر چترالیوں کے علاوہ اس ملک کے ہر باشندے نے لکھا ہے۔ بالکل ایسے ہی، جیسے کشمیر کی تقدیر کشمیریوں کے سوا دنیا کا ہر کاتب لکھ رہا ہے۔ کشمیریوں کو اول دن سے اپنے معاملات کے حل کے لیے اپنی نمائندگی چاہیے، مگر کشمیر ہی کے نمائندے کراچی میں حکومت پاکستان کے ساتھ بیٹھ کر جب گلگت اور لداخ کی تقدیر لکھ رہے تھے تو پوچھنا گوارا نہیں کیا کہ گلگت کے کاتب آئے نہیں یا کسی نے بلایا نہیں۔

چمن سے لے کر وزیرستان تک پشتونوں کا ایک ہی اصرار ہے کہ افغانوں کے ساتھ ہماری تاریخی جڑت ہے۔ ایک تاریخ اور ایک ہی ثقافت تو ہم رکھتے ہی ہیں ہم باہم ایک دوسرے کے عزیز بھی ہیں۔ سرحد کے پار اپنے خون سے اگر ہم راہ و رسم رکھیں تو کسی کو ہمارے بیچ جبر کی دیوار نہیں اٹھانی چاہیے۔ ہمیں اپنی شناخت اور تاریخ سے دستبردار نہیں کرنا چاہیے۔ بالکل ٹھیک، لیکن یہی پشتون اس بات پر مطمئن بھی ہیں کہ خود سے یکسر مختلف تاریخ، زبان، ثقافت اور تہذیب رکھنے والے چترال کی ناک میں زنگ آلود نکیل ڈال کر پختونخوا کے کھونٹے سے باندھ دیا جائے۔

چترال کا دل خاموش المیوں کی آسیب زدہ گزرگاہ بن گیا ہے۔ کسی مہمان کے آ جانے پر چترال کے منہ پر رونق جو آجاتی ہے تو لوگوں کو لگتا ہے کہ بیمار کا حال اچھا ہے۔ چترال اپنی ذات میں ایک بڑا علاقہ ہے، مالاکنڈ ڈویژن سے کھڑے ہو کر دیکھیں تو بہت چھوٹا لگتا ہے۔ تو وہاں سے دیکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ پاس جاکر کوئی دیکھے کہ وہ سہتا کیا ہے اور کہتا کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مجھے اندازہ ہے کہ گلگت ایک متنازعہ علاقہ ہے اور سرزمین اس کی بے آئین ہے، مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ ہم بچے ہیں اور کسی کی انگلی پکڑے بغیر ہم چل نہیں سکتے۔ اپنے زور پر جس نے خواندگی کی شرح بلند رکھی ہو، اس کی اہلیتوں کی ایسی ناقدری بھی کیا۔ بھلے وقتوں کی روایت یہ تھی کہ دور پار سے آنے والے لوگ مقامی باشندوں کی انگلی تھام کر چلتے تھے۔ تازہ زمانے میں مقامی باشندوں کو مسافر کی رہنمائی میں دریا پار کرنا پڑ رہا ہے۔ جو نہیں جانتے کہ ترچ میر کس طرف ہے اور کشمیر کس طرف، وہ مجھے گھر کا راستہ بتاتے ہیں۔

میرے پاس تو اپنا تعارف کروانے کا اختیار بھی نہیں ہے۔ ایک تعارف میں کراتا ہوں اور ایک بابو کراتا ہے، زمانہ بابو کا اعتبار کرتا ہے۔ یہ وہ بابو ہیں جن کی میز پر میری فائل آ جائے تو قدرے تحقیر سے کہتا ہے، داخو چترالے دے مڑا۔ تحقیر کے یہی رنگ جب یہ لاہور اور کراچی کے لہجوں میں دیکھتے ہیں تو شکایت کرتے ہیں۔ ایسے لوگ میرا تعارف کرائیں گے بھی تو کیا کرائیں گے۔ یہی کہ چترال میں لوگ اپنی بیٹیاں بیچتے ہیں اور چترال میں خالص سلاجیت ملتی ہے۔ ناف سے ذرا سا اوپر اٹھ کر بھی لوگ منظرنامہ دیکھ سکتے ہیں، مگر کیا کریں۔ یہاں تو کوئی قندیل جان سے گزر جائے تو ننگے پاؤں پر دھیان کرنے کی بجائے لوگ ننگی رانوں پر بحث کرتے ہیں۔ میں تو پھر بھی چترال ہوں۔

میں اپنی تقدیر آپ لکھتا تھا تو ممبئی، بدخشاں اور بخارا کے تجارتی قافلے یہاں اترتے تھے، اب ہمارے ہاتھوں میں لکیریں آپ بناتے ہیں تو دیر اور مالا کنڈ کے مزدور بھی مشکل سے آتے ہیں۔ واخان اور تاشقند کے لوگ ہمارے انگور کا پانی کشیدتے تھے، اب خریدار کے انتظار میں سوکھ کر ہمارے میوے مر جاتے ہیں۔

ساتھ جڑے ہوئے ممالک سے نکلنے والے اقتصاد کے جتنے دروازے تھے، اب مجھ پر بند ہیں۔ گنبد بے در میں بیٹھے بیٹھے اب زندگی کا دم گھٹنے لگا ہے۔ سانس لینے کو ایک لواری ٹنل کی کھڑکی کھلی ہے، اس کی چٹخنی بھی مگر سیانوں نے باہر کی طرف رکھی ہوئی ہے۔ ہم خود کھول سکتے ہیں اور نہ بند کر سکتے ہیں۔ کھلی ہے تو سخی بادشاہ کا کرم ہے، بند ہے تو کسی کا کیا جاتا ہے۔

سچ پوچھیے تو میرا بھی کیا جاتا ہے۔ آنکھ کا کاجل جو پہلے ہی بکھرا ہوا ہے، اور بکھر جاتا ہے۔ کم بختی یہ ہے کہ کاجل پھیلتا ہے تو میری آنکھ کی کشش اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ پہلے پہل سیاح آتے تھے، آنکھوں کی اسی لالیوں اور سحر خیزیوں کی بلائیں لیتے تھے۔ اب سرکار نے سیاحت کو اتنا فروغ دے دیا ہے کہ غیر ملکی سیاح ہمارا راستہ تک بھول گئے ہیں۔ اب بس یہ ہے کہ پڑے پڑے میری آنکھ کا کاجل سخت ہوجاتا ہے تو لوگ جنسی توانائی حاصل کرنے لیے دودھ میں گھول کر پی جاتے ہیں۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments