دنیا کی فارمیسی کہلانے والا انڈیا کیسے ویکسین کی کمی کا شکار ہوگیا؟

نِکل انعامدار اور اپرنا اپرنا ایلوری - بی بی سی نیوز


A medical worker displays a vial of the Covaxin vaccine against the Covid-19 coronavirus at a vaccination centre in Mumbai on May 9, 2021.

31 برس کی سنیہا مراٹھی کو کورونا ویکسین لگوانے کے لیے آن لائن وقت حاصل کرنے کے لیے لینے میں نصف دن لگ گیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ایسے ہی ہے کہ آپ کتنی برق رفتاری سے اپنی انگلیوں کا استعمال کرتے ہیں۔

’تمام سیٹیں تین سیکنڈ میں فِل ہو جاتی تھیں مگر ہسپتال نے ان کی باری کو آخری وقت پر یہ کہہ کر منسوخ کر دیا کہ ان پاس ویکسین ختم ہو گئی تھی۔

سنیہا کہتی ہیں کہ انھوں نے دوبارہ سے وقت حاصل کرنے کی کوشش کی۔

خیال رہے کہ انڈیا میں 18 سے 44 برس کے درمیان موجود آبادی کو ویکسین لگوانے کے لیے حکومتی پلیٹ فارم کو وِن پر اپنا اندراج کروانا ہوتا ہے۔

ویکسین کی خوراکوں کی طلب میں رسد بہت بڑھ رہی ہے اور ٹیکنالوجی کے استعمال کرنے والے انڈین کوڈ سے بھی ویکسین کے لیے وقت حاصل کر سکتے ہیں۔

سنیہا کوڈ لکھ کر بھیجنے سے قاصر ہیں۔ وہ ڈیجیٹل طور پر منقسم اس ملک میں بسنے والے ان لاکھوں ہندوستانیوں میں سے ہیں جن کو سمارٹ فون یا انٹرنیٹ تک رسائی حاصل نہیں ہے جو کہ موجودہ صورتحال میں ویکسین لگوانے کا واحد راستہ ہے۔

وزیراعظم مودی کی وفاقی حکومت نے بغیر مطلوبہ سپلائی کے جو کہ ایک اعشاریہ آٹھ بلین خوراکیں ہیں ویکسین کے لیے 960 ملین شہریوں کو اہل قرار دیا تھا۔

بدترین یہ ہے کہ یہ شدید کمی اس تباہ کن دوسری لہر کے درمیان اور جلد آنے والی تیسری لہر کے انتباہ کے موقع پر ہوئی۔

Chart showing India's Covid cases are on the rise as vaccination lags

پبلک ہیلتھ سے وابستہ ماہرین نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیراعظم مودی کی جانب سے ناقص منصوبہ بندی، ٹکڑوں میں کی جانے والی خریداری اور غیر منظم قیمتوں کی صورت میں کی جانے والی غلطیوں نے انڈیا میں ویکسین کی مہم کو ایک غیر منصفانہ مسابقت میں ڈال دیا۔

کس طرح دنیا میں سب سے بڑے ویکسین بنانے والے جسے عام ادویات کے لیے اکثر فارمیسی آف ورلڈ کہا جاتا ہے کے اپنے پاس بہت کم ویکسین رہ گئی۔

ٹکڑوں میں ویکسین منگوانے کی حکمتِ عملی

ایکسیس آئی بی ایس اے میں کوآرڈینیٹر اچل پرابھالا کا کہنا ہے کہ انڈیا نے ویکسین کا آرڈر دینے کے لیے جنوری تک انتظار کیا جبکہ وہ اس کے لیے بہت پہلے ہی اس کا آرڈر کر سکتا تھا۔ یہ ادارہ انڈیا برازیل اور جنوبی افریقہ میں ویکسین کی رسائی کے لیے مہم چلاتا ہے۔

جنوری سے مئی 2021 کے دوران انڈیا نے دو تصدیق شدہ ویکسینز آکسفورڈ کی ایسٹرا زینیکا جسے سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کی جانب سے بطور کوشیلڈ تیار کیا جا رہا ہے اور انڈین فرم بھارت بائیوٹیک کی 350 ملین خوراکوں کو خریدا۔

ایک خوراک کی قیمت دو امریکی ڈالر تھی جو کہ دنیا میں سستی ترین ویکسین ہے لیکن یہ ویکسین کی خوراکیں ملک کی 20 فیصد آبادی کو لگانے کے لیے ہی کافی ہیں۔

وزیراعظم مودی نے انڈیا کے کورونا کو شکست دیے جانے کا اعلان کیا اور مارچ میں ’ویکسین ڈپلومیسی‘ کے تحت انڈیا کے زیر انتظام موجود خوراکوں سے زیادہ کو برآمد کرنا شروع کر دیا۔

اس کے برعکس امریکہ اور یورپی یونین نے ایک سال پہلے ویکسین کو لگائے جانے کے لیے اس کی دستیابی سے قبل ہی ضرورت سے زیادہ مزید خوراکوں کا آرڈر دے دیا تھا۔

People in the age group of 45 above waiting to get a Covid vaccine at on May 10, 2021 in New Delhi, India.

انڈیا میں 100 ملین افراد جن کی عمر 45 برس سے زیادہ ہے ابھی تک ویکسین کی دوسری ڈوز لگوانے کے منتظر ہیں

برطانیہ اور امریکہ کے برعکس انڈیا نے 20 اپریل تک انتظار کیا۔ وبا کی دوسری لہر کے دوران ایس آئی آئی اور بھارت بائیو ٹیک کی پیداوار کو تیز کرنے کے لیے 610 ملین امداد بڑھائی گئی۔

آل انڈیا ڈرگ ایکشن نیٹ ورک میںشریک کنوینر ملینا آئسولہ کا کہنا ہے کہ مثال کے طور پر ایک اور ناکامی یہ تھی کہ یہ فیصلہ نہیں لیا گیا کہ انڈیا کی مینوفیکچرنگ صلاحیتوں، حیاتیات کی فیکٹریوں کا اندراج کیا جائے۔ انھیں ویکسین کی تیاری کی لائنز میں تبدیل کیا جا سکتا تھا۔

آل انڈیا ڈرگ ایکشن نیٹ ورک کے شریک کنوینر میلینی آیسوولا کے مطابق ایک اور ناکامی مثال کے طور پر ہندوستان کی مینوفیکچرنگ صلاحیتوں – حیاتیاتیات کی فیکٹریوں کی وسیع پیمانے پر اندراج نہ کرنے کا فیصلہ تھا، جسے ویکسین تیار کرنے والی لائنوں کے لیے استعمال میں لایا جاسکتا تھا۔

دوبارہ تین حکومتی فرمز سمیت کل چار فرمز کو کوویکسن بنانے کے حقوق دیے گئے جس میں جزوی طور پر پبلک فنڈنگ ہے۔

دوسری جانب اپریل کے آغاز میں روس میں سپتنک وی تیار کرنے والوں نے انڈیا کی میزبان فارما کمپنیوں کے ساتھ مینوفیکچرنگ کے معاہدے کیے جو یہ ویکسین تیار کرے گی۔

متاثرہ مارکیٹ

آئیسولہ کا کہنا ہے کہ ابتدا میں واحد خریدار کی حیثیت سے وفاقی حکومت ویکسین کی قیمت کے معاملے میں کہیں زیادہ فائدہ اٹھا سکتی تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ بڑی مقدار میں ویکسین لینے کے باعث اس کی قیمت دو امریکی ڈالر سے کم کرنے کی اجازت مل جاتی لیکن اس کے بجائے یہ قیمت اوپر گئی۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ یکم مئی سے اب ہر ریاست پر منصحر ہے اور اس کے اندر موجود ہسپتالوں پر کہ وہ مینیوفکچررز سے معاہدے کے معاملات درمیان میں موجود سہولت کار سے کیسے طے کر تے ہیں۔

حزب مخالف کی جماعتوں نے اسے سکینڈل قرار دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت ریاستوں کے درمیان کمزور مسابقت کو کھول کر خود اپنی ذمہ داری چھوڑ چکی تھی۔

ریاستوں کو کویشیلڈ کے لیے ویسکین کی دوگنی قیمت یعنی چار ڈالر دینی ہو گی اور کوویکسین کے لیے آٹھ ڈالر دینا ہوں گے۔

نتیجتاً ویکسین کے لیے ایک فری مارکیٹ ہے جو سرکاری اور نجی دونوں طرح کی مالی مدد سے تیار کی گئی ہے۔ نجی اسپتالوں میں اب ایک ہی خوراک کی قیمت 1500 روپے ہو سکتی ہے۔

https://twitter.com/malini_aisola/status/1391106197101576193

مختلف ریاستوں نے اب فائزر، ماڈرنا اور جانسن اینڈ جانسن سے دیگر ویسکینز درآمد کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔

لیکن کسی بھی ویکسین بنانے والی کمپنی نے ابھی تک یہ گارنٹی نہیں دی کہ وہ اگلے کچھ مہینوں میں اس کی سپلائی شروع کر دے گی کیونکہ امیر ممالک نے پہلے ہی ویکسین کی کھیپ وصول کرنے کے لیے آرڈر دے رکھا ہے۔

سپتنگ وی نے منظوری حاصل کر لی ہے لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ یہ ویکسین کب تک لگائی جائے گی۔

کیا انڈین ویکسین کی قیمت بہت زیادہ ہے؟

کچھ لوگوں نے آیی ایس ایس اور بھارت بائیوٹیک پر ’وبا کے دوران‘ منافع کمانے کا الزام عائد کیا ہے خاص طور پر پبلک فنڈنگ ملنے کے بعد۔

لیکن دوسرے کہتے ہیں کہ انھوں نے خاطر خواہ خطرہ مول لیا اور یہ کہ اس میں غلطی حکومت کی ہے۔

انڈیا واحد ملک ہے جہاں وفاقی حکومت ہی اکیلی خریدار نہیں ہے اور یہ ان چند ممالک میں سے ہے جہاں ویکسین مفت نہیں ہے۔

مگر عوام صحت کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ایس آئی آئی اور بھارت بائیو ٹیک کو اپنی ویکسین کی تیاری کی قیمت اور اس کے کمرشل کنٹریکٹس کے حوالے سے مزید شفافیت کی ضرورت ہے۔

مِس آئسولہ کا کہنا ہے کہ ایس آئی آئی کو اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ یہ ظاہر کرے کہ وہ تین سو ملین امریکی ڈالر کیسے خرچ کیے جو اسے انٹرنیشنل کوویکس سکیم اور گیٹ فاؤنڈیشن سے موصول ہوئے تھے۔ اس فنڈنگ کا مقصد یہ تھا کہ کم آمدن والے ممالک کی ویکسین کے لیے مالی مدد کی جائے۔

ایس آئی آئی ایسا کرنے میں ناکام ہو گئی ہے جس کی جزوی وجہ انڈیا سے برآمدات پر پابندی لگایا جانا ہے۔

اب انڈیا کو ویکسین کی 50 فیصد سپلائی کم آمدن والے ممالک کو کرنے کا وعدہ پورا نہ کرنے کے باعث ایسٹرا زینیکا کی جانب سے ایک قانونی نوٹس کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔

عوامی صحت کے ماہرین انڈین حکومت کے بھارت بائیوٹیک کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی سکروٹنی کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔

خاص طور پر جب سے انڈین کونسل برائے میڈیکل ریسرچ نے کہا ہے وہ کوویکسن کے ساتھ انٹلیکچول پراپرٹی شیئر کرتا ہے۔ لیکن ویکسین کی خوراک کی قیمت اکثر کویشیلڈ سے دوہری ہوتی ہے۔

اگرچہ انڈیا نے غیر ملکی ساختہ ویکسین کے پیٹنٹ کو ختم کرنے کی حمایت کی ہے لیکن اس نے کوویکسن کے لیے اسے معطل کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے آئی پی شیئر کی ہے مگر لیکن پھر ان کے مابین کیا معاہدہ ہوا تھا جس پر دستخط کیے گئے؟

اکٹر آننت بھن کہتے ہیں کہ کیا اس معاہدے نے حکومت کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ وہ ہنگامی صورتحال میں معاہدے کی شقوں سے روگردانی کر سکتی ہے؟

عالمی سطح پر اپنی پوزیشن کے برعکس اس نے ان تجاویز کی مخالفت کی جو اپوزیشن کی جانب سے دی گئیں تھی۔ ان میں کہا گیا تھا کہ منظور شدہ ویکسین کو بنانے کے لیے ادویات کی دیگر کمپنیوں کو بھی اجازت دی جائے یہ اقدامات نتیجہ خیز ثابت ہوں گے۔

ڈاکٹر بھان اس سے متفق ہیں کہ اس سطح پر اب ٹیکنالوجی کو دیگر فارم کمپنیوں میں منتقل کرنا اور ان کی استعداد بڑھانے میں وقت لگے لگا۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ واضح نہیں کہ اس میں سے کوئی بھی قدم پہلے کیوں نہیں اٹھایا گیا تھا۔

Chart showing how India's vaccine drive ranks globally.

ڈاکٹر بھن کہتے ہی کہ انڈیا کی ایک اعشاریہ چار بلین آبادی میں سے ستر فیصد آبادی کو بھی ویکسین لگانا ایک طویل اور صبر آّزما کام ہے۔ لیکن ویکسین کی مہم کے حوالے سے اس کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے یہ ناممکن کام نہیں تھا۔

لیکن حکومت نے فقط دو ہی کمپنیوں پر انحصار کے لیے انھیں کیوں منتخب کیا جو اب ویکسین کی سپلائی کو کنٹرول کر رہی ہیں اور اس کی قیمت کو بھی۔ یہ ایک سوال ہے جس کا کچھ لوگوں کو جواب دینا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32506 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp