چینی معیشت کا پہیہ خواتین کی وجہ سے گھومتا ہے!

رانا مِٹر - میزبان بی بی سی ریڈیو فور


آج کے چین میں زیادہ تر کمپنیاں خواتین صارفین کو اپنی جانب راغب کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔ متوسط طبقے کی خواتین خاص طور پر ان کا ہدف ہیں۔ جبکہ ورکنگ کلاس کی خواتین بھی بازار میں موجود مشہور برانڈز کی خواہش مند ہیں۔ آپ کو ٹی وی پر کاسمیٹکس، صحت مند کھانوں اور ڈیزائنر کپڑوں اشتہارات دیکھنے کے لیے کچھ خاص رقم کی ضرورت نہیں ہوتی۔

میں ایک مہاجر ورکر کے ایسے چھوٹے سے کمرے میں جا چکا ہوں جہاں چاپانی اسٹیریو اور کاسمیٹکس کے کئی طرح کے برانڈ موجود تھے جنھیں میرے جیسا شخص بھی پہچان سکتا تھا۔

چین میں بہت سی خواتین اس لیے صارف بنیں کیونکہ پہلے وہ ورکر بنیں۔ یہ کہانی کسی ایک چینی خاتون ورکر کی نہیں ہے بلکہ یہ لاکھوں خواتین ورکروں کی کہانی ہے۔

معاشی دوڑ میں امریکہ سے آگے نکلنے میں چین کی مدد کون کر رہا ہے؟

ماؤ کی کمیونسٹ پارٹی چین کو کیسے چلاتی ہے؟

انگریزوں نے چین سے چائے کا راز کیسے چرایا؟

اگر آپ یہ پوچھیں کہ چینی معیشت کا پہیہ کس طرح گھومتا ہے تو جواب ہو گا کہ اپنی خواتین کی وجہ سے۔

چین کے موجودہ اقتصادی منصوبے میں اس ضرورت کو مد نظر رکھا گیا ہے کہ برآمدات کے ذریعے ملک میں دولت پیدا کرنے کے بجائے اب زیادہ زور اپنے عوام کو اس قابل بنانے پر دیا جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ خریداری کریں۔

لیکن سنہ 1980 کی دہائی سے سنہ 2000 کی دہائی تک چین کی معاشی ترقی اور وسعت کی بنیاد صرف اس بات پر تھی کہ ایسی اشیاء بنائی جائیں جو باقی دنیا خریدنا چاہتی ہے۔ کپڑے، سمارٹ فون، فرنیچر وغیرہ۔

اور اکثر ان اشیاء کو بنانے والے ہاتھ خواتین کے ہوتے ہیں، نوجوان خواتین اور لڑکیاں دیہی علاقوں سے آتی ہیں اور فیکٹریوں کے سخت ماحول میں کام کرتی ہیں۔ ان ورکروں میں ڈپریشن اور خودکشی کی کہانیاں عام ہیں، کئی ایسے واقعات تو بڑی اور نامور کمپنیوں میں بھی ہوئے ہیں۔

کچھ فیکٹریوں کے ہاسٹلوں کی کھڑکیوں کے باہر تو ایسے حفاظتی جال لگے ہوتے ہیں کہ اگر کوئی خودکشی کی کوشش کرے تو ان میں گر کر بچ جائے۔ چین نے اس معاشی ترقی اور صارفین کی تعداد میں اضافے کی ایک قیمت بھی ادا کی ہے۔

چین میں فیکٹری ورکر

ریاست کو یہ فکر بھی لاحق ہو رہی ہے کہ معاشی آزادی کے ساتھ شادی اور خاندان کے بارے میں چینی خواتین کی سوچ تبدیل ہو رہی ہے۔

لیکن یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ چین نے اپنی معیشت کو وسعت دینے کے لیے اپنی نوجوان خواتین پر انحصار کیا ہو۔

ایک صدی قبل جب یہ کمزور ملک جارح سلطنتوں اور معاشی عدم استحکام سے نڈھال تھا تو اس صورتحال سے ایک صنعتی ملک بن کر ابھرا۔ اس صنعتی معیشت کا بڑی حد تک انحصار ایسی نوجوان دیہی خواتین پر تھا جو کام کی تلاش میں شہروں میں آ رہی تھیں۔ ہمیں ان میں سے اکثر کے نام تو نہیں معلوم لیکن ہمیں یہ معلوم ہے کہ ایسی خواتین کا وجود تھا۔

19 ویں صدی کے اواخر میں چین ایک صنعتی ملک بن گیا تھا یا کم از کم اس نے یہ سمت ضرور اختیار کر لی تھی۔ چین میں سرمایہ دارانہ نظام کے کئی پہلو دہائیوں اور صدیوں پہلے موجود تھے۔ 16ویں صدی سے چین میں پورسلین کی صنعتی پیمانے پر پیداوار ہو رہی ہے جس کی وجہ سے چین میں نہ صرف صارفین کی زندگیاں تبدیل ہو گئیں بلکہ اس کی وجہ سے چین کو عالمی تجارتی نیٹ ورک میں ایک بڑا اور اہم کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔

لیکن صنعتی کارخانے کا قیام ایک مزید بڑا قدم تھا جس نے چین کو دنیا کی جدید معیشت کا حصہ بنا دیا۔ اس صنعت کا محور کپاس تھی۔ 20ویں صدی کے ابتدائی برسوں میں شنگھائی اور اس کے آس پاس نئی فیکٹریاں وجود میں آئیں جہاں تیزی سے بڑھتی ہوئی مقامی مارکیٹ کے لیے کپڑے تیار ہوتے تھے۔

ان فیکٹریوں کو چلانے کے لیے نوجوان خواتین اور لڑکیوں کی ضرورت تھی تا کہ چین میں ٹیکسائل کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کیا جا سکے۔

ان فیکٹریوں میں کام کرنے کے حالات عموماً بہت خراب ہوتے تھے۔ یہ حالات تو اس زمانے میں مغربی ممالک میں بھی اچھے نہیں تھے۔ سنہ 1911 میں نیویارک کی ٹرائی اینگل شرٹ ویسٹ فیکٹری میں آتشزدگی کے ایک واقعے میں 150 ورکر ہلاک ہو گئے تھے۔

پھر بھی ینگزی ڈیلٹا میں قائم فیکٹریوں میں روز مرہ کے حالات ایسے تھے کہ ان میں کام کرنا یقیناً آسان نہیں تھا۔ فیکٹریوں میں جہاں روئی سے کپڑے کی بُنائی ہوتی ہے چھوٹے چھوٹے زرات ہوا میں اڑتے ہیں جو وہاں دیر تک کام کرنے والوں کے پھیپھڑوں کو بری طرح متاثر کرتے تھے۔ پھیپھڑوں کی بیماریوں کے علاوہ بھی ان چیختی اور شور مچاتی مشینوں کے درمیان بغیر کسی وقفے اور آرام کے مسلسل کام کرنا یقیناً بہت مشکل تھا۔

یورون نامی ایک خاتون نے مورخ ایمیلی کونگ کو انٹرویو میں ایک مخصوص تکلیف کے بارے میں بتایا جو کاٹن کے کام میں نہیں بلکہ ریشم کے کام سے ہوتی تھی۔

‘وہاں ابلتے ہوئے پانی سے بھرے دو بڑے ڈبے ہوتے تھے اور ان خواتین کو ریشم کے کیڑوں کے خولوں کو اپنے ہاتھوں سے پانی میں نیچے کی جانب دھکیلنا ہوتا تھا۔ ان کے ہاتھ روزانہ رات کو سوجے ہوئے ہوتے تھے۔ ہم میڈیکل سٹور سے مرہم خریدنے جاتے تھے۔ اس کے ہاتھوں میں رات کو بہت تکلیف ہوتی تھی۔’

کام کے بعد بھی حالات کچھ زیادہ بہتر نہیں ہوتے تھے۔ خواتین کو انتہائی سخت نگرانی میں فیکٹری کے ہاسٹل میں رہنا پڑتا تھا۔ کھانے پینے اور رہائش کی صورتحال انتہائی سخت تھی۔

پھر بھی کم از کم کچھ افراد کے لیے کبھی کبھی کچھ آسانی ہو جاتی تھی۔ انھیں کام سے چھٹی تو مشکل سے ملتی تھی لیکن جب بھی ملتی تو وہ اپنے پیسے اپنی مرضی سے خرچ کرتے۔ چاہے انھیں اپنی زیادہ تر کمائی خاندان کے بزرگ مرد کو ہی کیوں نہ دینی پڑتی ہو۔

چین میں فیکٹری سے اٹھتا ہو دھواں

اس وقت چین میں خواتین کی آبادی کا 60 فیصد جبکہ مردوں کی آبادی کا 75 فیصد افرادی قوت میں شامل ہے۔

شہروں میں تنخواہ دار طبقے سے پیدا ہونے والی معیشت میں خواتین کی شمولیت نئی نئی تھی۔ اور وہ خود اپنے بل بوتے پر ایک ورکر کے ساتھ ساتھ ایک صارف (کنزیومر) بھی بن رہی تھیں۔

اور ان کے لیے تفریح کے کئی مواقع بھی موجود تھے۔ نئے سال کی چھٹیوں میں وہ روایتی اوپرا اور موسیقی کے پروگرام میں شرکت کرنے جاتیں اور نئے سال کے کھانے اور مشروبات بھی اس تفریح کا حصہ ہوتے تھے۔

وہ نوجوان خواتین کی ایسی پہلی نسل تھی جو دیہی علاقوں سے نکل کر شہروں میں ایک صنعتی معاشرے میں کام کرنے آئی تھیں۔

یقیناً انھیں اپنی کمائی اپنے گاؤں بھیجنا پڑتی تھی لیکن پھر بھی ان کے پاس شہر میں باہر نکلنے اور خرچ کرنے کے لیے کچھ رقم ہوتی تھی۔ اور وہ کیا شاندار شہر تھا۔ روشنیوں سے جگمگاتا شہر جو بہت سارے ڈپارٹمنٹل سٹوروں سے بھرا پڑا تھا جہاں لوگ چین کی پہلی لفٹ یا یورپ سے آئے ہوئے نئے انداز کے کپڑے دیکھ سکتے تھے۔

فیکٹریوں میں کام کرنے والی یہ خواتین لیبر مارکیٹ میں داخل ہونے والی واحد خواتین نہیں تھیں۔ ایسی خواتین بھی تھیں جو کلرک یا ٹیچر بن کر نچلے درجے کے متوسط طبقے میں شامل ہو رہیں تھیں جو نیا پیدا ہو رہا تھا۔

ان خواتین میں سے جو پڑھی لکھی تھیں ان کی تفریح کے لیے نئی پبلیکیشنز کی بھرمار تھی۔ ایسے جریدے تھے جو فیشن، فلمی ستاروں کی زندگیوں اور رجحانات کے بارے میں خبریں شائع کرتے تھے۔ سنہ 1920 کی دہائی میں یہ فلمی ستارے شنگھائی کی فلمی انڈسٹری کا چہرہ بن کر ابھرے تھے۔

وی چیٹ

شہری علاقوں کی مڈل کلاس خواتین اب موبائل فون پر چیٹ ایپس استعمال کرتی ہیں اور مسلسل اس معیشت کا حصہ بھی بن رہی ہیں جس کی بنیاد ڈیجیٹل سروسز ہیں۔

تاہم آپ چینی معاشرے میں جتنا اوپر کی طرف دیکھتے اتنی ہی کم خواتین نظر آتی تھیں۔ خواتین اساتذہ تو کافی تھیں لیکن خواتین وکلاء بہت کم اور خواتین سیاستدان تو نہ ہونے کے برابر تھیں۔ لیکن یہ صورتحال مغربی ممالک سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی۔

دوسری جنگِ عظیم کے دوران چین میں کئی فیکٹریاں تباہ ہو گئیں حالانکہ ینگزی ڈیلٹا کے کئی حصوں میں جنگ کے ابتدائی مرحلے کے بعد صنعتی پیداوار دوبارہ شروع ہو گئی تھی۔ ملک کے جنوب مغربی علاقے میں جہاں قوم پرست حکومت چاپان کے سامنے ڈٹی ہوئی تھی وہاں بعض خواتین اسلحہ بنانے جیسی لازمی شعبے کی صنعتوں میں جاتی تھیں۔

سنہ 1940 کی دہائی میں شدید افراطِ زر اور چاپان کے ساتھ جنگ کے بعد ہونے والی خانہ جنگی کی وجہ سے خواتین اور مردوں کو صنعتوں میں کھپانہ بہت مشکل ہو گیا۔

سنہ 1949 میں جب چیئرمین ماؤ زے تنگ کی کمیونسٹ پارٹی اقتدار میں آئی تو اس وقت چین میں سوشل ازم کا مطلب کنزیومرازم کا خاتمہ نہیں تھا۔

سنہ 1950 کی دہائی میں تو ایسی کئی مہم چلائی گئی جن کے عنوان ہوتے تھے ‘اپنے آپ کو اپنے شوہر کے لیے خوبصورت بنائیں۔’ لیکن سنہ 1960 کی دہائی میں شروع ہونے والے کلچرل ریوولیوشن (تہذیبی انقلاب) نے اس سب کو سختی سے روک دیا۔

اس وقت کے چینی صدر لیو شاوکوئی کی اہلیہ وانگ گوینگ مے کی عوام کے سامنے تذلیل کی گئی۔ ان کا جرم یہ تھا کہ انھوں نے خاتونِ اول کی حیثیت میں غیر ملکی مہمانوں کا استقبال کرنے کے دوران مہنگے کپڑے اور زیورات پہنے تھے۔

اس زمانے میں کسی حد تک کم امیر خواتین بھی خوبصورت لباس پہنے پر مشکل کا شکار ہو سکتی تھیں کیونکہ ایسا کرنا بورژوا یا اعلیٰ طبقے کے طرزِ زندگی کی طرف ان کی پسندیدگی کو ظاہر کرتا تھا۔

تہذیبی انقلاب کے بارے میں دعوی کیا جاتا تھا کہ وہ خواتین کی آزادی کا دور تھا لیکن بہت ساری خواتین لیے وہ ایک انتہائی دشوار دور تھا۔ کسی بھی نوجوان خاتون کی جانب سے پر کشش نظر آنے کی ذرا سی بھی کوشش کو انقلاب سے انحراف سمجھا جاتا تھا۔

چینی خواتین

آج چین میں نسبتاً غریب خواتین کو بھی اب وہ مواقع حاصل ہیں جو ایک صدی قبل شنگھائی کے کارخانوں میں کام کرنے والی ان کی بہنیں خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتی تھیں۔

خواتین اور مردوں کے لیے ایک جیسے کپڑے بنائے جانے لگے۔ لیکن دراصل یہ کپڑے دیکھنے میں مردانہ نظر آتے تھے۔ اسے طرح تیانمن سکوائر پر چیئرمین ماؤ کی تعظیم میں کھڑے ہونے والے گارڈز کے لباس بھی تھے۔ کہنے کو تو یہ لباس یونی سیکس یا خواتین اور مردوں دونوں کے لیے تھے لیکن اصل میں یہ مردانہ لباس تھے۔

چیئرمین ماؤ کے تہذیبی انقلاب کے ختم ہونے کے بعد لیبر فورس کی واپسی شروع ہوئی اور وہ بڑھتی ہی چلی گئی۔ اس وقت چین میں خواتین کی آبادی کا 60 فیصد جبکہ مردوں کی آبادی کا 75 فیصد افرادی قوت میں شامل ہے۔

اتنی بڑی تعداد میں خواتین کے معاشی عمل میں شامل ہونے کا مطلب تھا کہ زیادہ اشیاء کی پیداوار اور خرید و فروخت ہو گی یعنی کنزیومرازم میں اضافہ ہو گا۔ ڈپارمنٹل سٹور دوبارہ کھلنے لگے اور اس صدی کے شروع تک سنہ 1930 کی دہائی والی رونق لوٹ آئی۔ خواتین صارفین اس مارکیٹ کا ایک انتہائی اہم حصہ ہیں۔

لیکن ریاست کو یہ فکر بھی لاحق ہو رہی ہے کہ معاشی آزادی کے ساتھ شادی اور خاندان کے بارے میں چینی خواتین کی سوچ تبدیل ہو رہی ہے۔

اس سال سرکاری اخبار پیپلز ڈیلی کے ایک ایڈیٹوریل میں ان لوگوں کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کیے گئے جن کے ذہنوں میں محبت کے نئے تصوارت ہیں اور جو کسی ایسے شخص کے ساتھ شادی کر کے زندگی گزارنے کے لیے تیار نہیں جو ان کے لیے کسی حد تک مناسب ہے۔

شہری علاقوں کی مڈل کلاس خواتین اب موبائل فون پر چیٹ ایپس استعمال کرتی ہیں اور مسلسل اس معیشت کا حصہ بھی بن رہی ہیں جس کی بنیاد ڈیجیٹل سروسز ہیں۔ یہاں تک کہ نسبتاً غریب خواتین کو بھی اب وہ مواقع حاصل ہیں جو ایک صدی قبل شنگھائی کے کارخانوں میں کام کرنے والی ان کی بہنیں خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی تھیں۔

لیکن ایک دھاگے نے، چاہے وہ روئی کا ہو یا ریشم کا، ان خواتین کو ایک دوسرے سے منسلک کیا ہوا ہے۔ گزشتہ سو سال سے ریاست، سرمائے کی نوعیت اور جنس کی جانب رویے چین کی خواتین کے لیے ایک مبہم فریم ورک رہے ہیں۔ یہ فریم ورک ایک طرف تو انھیں جکڑنے کی کوشش کرتا ہے لیکن کبھی کبھی آزادی حاصل کرنے کے ذرائع بھی مہیا کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp