کچھ اُدھر کا بھی اشارہ ۔۔۔


پاکستان کی خارجہ پالیسی کو کندھا دینے والے ایک صفحے پر دکھائی نہیں دیتے۔ یہ جی ایچ کیو،وزیر اعظم آفس اور دفتر خارجہ ہیں جن کی نمائندگی بالترتیب جنرل قمر جاوید باجوہ، عمران خان اورشاہ محمود قریشی کرتے ہیں ۔ یہ مضحکہ خیز صورت حال شاید ہی کسی اور جگہ اتنی واضح ہو جتنی بھارت کے حوالے سے۔یہ بات قابل غور ہے۔

اٹھارہ مارچ 2021 ء کو جلدبازی میں اسلام آباد میں ایک قومی سیمینار کا اہتمام ہوا۔ جنرل باجوہ کی ایک تقریر نے پاکستان کی پالیسی سوچ میں بنیادی تبدیلی کی جاندار بحث چھیڑ دی۔یہ تبدیلی جغرافیائی تدبیر سے معاشی تدبیر کی طرف پیش رفت تھی۔ اس کا بنیادی مرحلہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لاناتھا تا کہ مسلسل فوجی کشمکش کی وجہ سے پڑنے والا دفاعی دباؤ کم کیا جاسکے۔ اس کے فوراً بعدجنرل باجوہ کی ”تاریخی“ پیش رفت کی وضاحت کرنے اور اس کے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے آئی ایس پی آر نے دودرجن صحافیوں کو چنا۔

میڈیا کی جنرل باجوہ کے ساتھ سات گھنٹوں پر طویل گفتگو کو مندرجہ نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے: (1) انڈیا کے مشیر برائے قومی سلامتی، اجیت دول اور پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی، جنرل فیض حمید کے درمیان ”بیک چینل“کا آغاز مسلم لیگ ن کے وزیر اعظم، شاہد خاقان عباسی کی منظوری سے ہواتھا۔ اس کے نتیجے میں 24/25 فروری 2021ء کو لائن آف کنٹرول پر فائربندی کا معاہدہ عمل میں آیا۔ (2) بھارتیوں نے پاکستانیوں کو یقین دلایا کہ وہ دیگر معاملات پر بھی بات کرنے کے لیے تیار ہیں جو جامع مذاکرات کا حصہ تو نہیں لیکن ہر معاملے کو فرداً فرداً دیکھا جاسکتا ہے، اور جب صورت حال معمول پر لانے کے اقدامات اٹھائے جائیں تو کشمیر تنازع بھی اس عمل کا حصہ بن سکتا ہے۔

تاہم اپنا مخصوص زاویہ ئ نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں نے فوراً مندرجہ ذیل نکات کی نشاندہی کردی: (1)سرکاری اور عوامی سطح پر پاکستان کا موقف تھا کہ جب تک انڈیا پانچ اگست 2019 ء کے کشمیر پر قبضہ جمانے کے اقدام کو واپس نہیں لے گا، پاکستان اس کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں کرے گا، لیکن درحقیقت پاکستان کے انڈیا کے ساتھ پس ِپردہ رابطے جاری تھے۔ (2) یہ ”گفتگو“ سولین حکومت کی بجائے فوجی اسٹبلشمنٹ نے کی تھی، پھر بھی وہ فائر بندی کے معاہدے سے آگے تک جانے کی تجویز پیش کررہے تھے۔ (3) مجوزہ نتائج کو کسی قدر قانونی جواز دینے کی کوشش میں کہا گیا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران شاہد خاقان عباسی نے 2017 ء میں اس عمل کی منظوری دی تھی۔ تاہم مسٹر عباسی نے اس کی فوری تردید کردی۔ اس کا مطلب ہے کہ پس پردہ رابطے 2020 ء کے آخرمیں ہی شروع ہوئے تھے۔ (4) اس پر بھارتیوں کی طرف سے مکمل خاموشی تھی۔ اس سے اشارہ ملتا تھا کہ وہ اس پر مختلف موقف رکھتے ہیں، لیکن وہ اس کی تصدیق یا تردید نہیں کرنا چاہتے۔

وزیر اعظم نے وزارت تجارت کو گرین سگنل دیتے ہوئے بھارت سے چینی اور کپاس درآمد کرنے کی اجازت دے دی۔ رابطہ کمیٹی برائے معاشیات (ای سی سی) نے اس کی منظوری دے دی۔ لیکن جب پوچھا گیا کہ کیا یہ بھارت کے آرٹیکل 370 کی بحالی تک تجارت نہ کرنے کے فیصلے پر یوٹرن لے لیا گیا ہے تو کابینہ نے پرانی پالیسی کا اعادہ کردیا۔اس نے یوٹرن لیتے ہوئے بھارت سے تجارت پر پابندی عائد کردی۔

اب جی ایچ کیو اور وزیراعظم آفس الجھن میں ہیں کہ آگے کیسے بڑھیں۔ یہاں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار، شاہ محمود قریشی آگے بڑھے اور بڑی ڈھائی سے ٹی وی چینلز کو بتایا کہ آرٹیکل 370 ”بھارت کا اندرونی معاملہ“ ہے۔گویا اس پر بات کیے بغیر بھی معمول کے تعلقات کی بحالی کے لیے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔

اس پر ایک شور سا مچ گیا۔ وزیر اعظم، عمران خان کو صحافیوں کے ایک محدود گروپ کو بریفنگ دینی پڑی کہ جی ایچ کیو کی جو بھی خواہش ہو، وہ بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں لا سکتے جب بے روزگاری، مہنگائی اور غربت کی وجہ سے عوام کے احتجاج نے اُن کی حکومت کو ہلا ڈالا ہو اور حز ب اختلاف اُن کے خون کی پیاسی ہو۔ دو دن پہلے اُنہوں نے یہ اعلان کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ تعلقات معمول کی سطح پر لانے کے جنرل باوجوہ کے ”تزویراتی تبدیلی“ کے اقدام کا باضابطہ طور پر خاتمہ کردیا کہ اگست 2019 ء کے اقدام کی واپسی تک بھارت کے ساتھ کوئی بات نہیں ہوگی۔ لیجیے، شاہ محمود قریشی نے دانت پیستے، ڈائس پر مکہ مارتے ہوئے دبنگ لہجے میں کہا کہ”پاکستان کی خارجہ پالیسی دفتر خارجہ میں بنتی ہے“۔ گویا اس میں جی ایچ کیوکا کوئی عمل دخل نہیں۔

یہ جی ایچ کیو اور وزیر اعظم کے دفتر کے درمیان تازہ ترین رسہ کشی ہے۔ اس دوران وزیر خارجہ تعلقات استوار کرنے کی اپنی سی کوشش میں ہیں۔ سعودی عرب کے حوالے سے بھی پریشان کن طرزعمل کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ جس دوران اسٹبلشمنٹ کئی ایک وجوہ کی بنا پر ریاض کا غصہ دور کرنے کی کوشش میں ہے۔۔۔ سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف سعودی اتحاد فوج کی قیادت کررہے ہیں، ریاض میں نئے پاکستانی سفارت کار ایک سابق سی جی ایس، جنرل (ر) بلال اکبر ہیں، اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی عرب کے ان گنت دورے کیے ہیں تاکہ عمران خان کے غیر محتاط رویے کی وجہ سے پرنس محمد بن سلیمان کے غصے کو کم کرسکیں۔ عمران خان نے ترکی اور ملائشیا کے ساتھ مل کر سعودی قیادت میں او آئی سی کے مقابلے پر ایک بلاک بنانے کی کوشش کی تھی۔ اس کے علاوہ سعودی ولی عہد کی آشیر باد کے بغیر ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کرانے کی پیش کش کر ڈالی تھی۔

یہ بھی یاد ہوگا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات اگست 2020 ء میں اس وقت انتہائی نچلی سطح پر چلے گئے جب ہوش سے زیادہ جوش کا مظاہرہ کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے او آئی سی پر کڑی تنقید کی تھی کہ اس تنظیم نے 2019 ء میں کشمیر پر بھارت کے قبضے پر خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ اس پر جنرل باجوہ کو تعلقات سنبھالنے کے لیے ایک بار پھر سرگرم ہونا پڑا۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ شاہ محمود قریشی کیوں پاک فضائیہ کے اس طیارے میں سوار نہیں تھے جو وزیر اعظم عمران خان کو گزشتہ ہفتے ریاض لے کر گیا تھا۔ پرنس محمد بن سلیمان نے بھی عمران خان پر آتے ہی کوئی خزانوں کے منہ نہیں کھول دیے۔ اُنہوں پاکستان میں مستقبل کے کسی منصوبے، جس کی وضاحت نہیں کی گئی، میں نصف بلین ڈالر سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے۔

اس دوران جنرل باجوہ اور عمران خان کے تعلقات میں نئے تناؤ کے لیے میدان تیار ہے۔ شہباز شریف کیس کی جو بھی حقیقت یامعیار ہو، اُن کی رہائی نے حزب اختلاف اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان کسی قسم کی ”ڈیل“ کی افواہیں گرم کردی ہیں کہ مستقبل قریب میں حکومت کو چلتا کرنے کا پروگرام بن چکا۔ عمران خان کے میڈیا ٹرولز نے عدلیہ پر چڑھائی کردی کہ اس نے افسران کی بات مانتے ہوئے شہباز شریف کو رہا کردیا ہے۔ ردعمل میں حکومت نے ایف آئی اے اور نیب کو شہباز شریف کو دوبارہ گرفتار کرنے کا ہدف دے دیا ہے۔

بجٹ کا موسم آچکا۔ عام آدمی کے لیے زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ اس عالم میں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور جہانگیرترین فارورڈ بلاک کو کہیں سے ایک اشارے کی ضرورت ہے وہ میدان میں اتریں اور بجٹ منظور ہونے سے روک دیں۔ اس کا مطلب وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کا دروازہ کھولنا ہوگا۔ لیکن دوسری طرف عمران خان بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments