حیران کن مقناطیس توانائی کا نیا ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں

بین مورِس - بزنس ایڈیٹر


ڈاکٹر گریگ برِٹلز، ٹوکامیک انرجی

ڈاکٹر گریگ برِٹلز، ٹوکامیک انرجی

اپنے منصوبے کے بارے میں بتاتے ہوئے ڈاکٹر گریگ برِٹلز کی آنکھیں جوش سے چمک اٹھتی ہیں۔

‘یہ ہر انجنیئر کا خواب ہے کہ وہ کسی ایسے منصوبے پر کام کرے جو تکنیکی لحاظ سے مشکل ہو، جس کے لیے آپ کو نئی ٹیکنالوجی اور مشکل مسائل کے لیے حل ڈھونڈنا پڑیں، مگر ساتھ ہے وہ دنیا کے لیے بھی اہم ہو۔’

پانچ سال قبل آکسفورڈ یونیورسیٹی میں اپنی تحقیق مکمل کرنے کے بعد وہ برطانیہ کی ایک نئی کمپنی ٹوکامیک انرجی کے ساتھ کام کر رہے ہیں جو فیوژن ری ایکٹر بنانا چاہتی ہے۔

(فیوژن ٹھوس مادہ کو پگھلا کر مائع میں تبدیل کرنے کا عمل ہے جس کے دوران دو ہلکے نیو کلیائی یا ایٹم کے مرکزے باہم مل کر نسبتاً بھاری نیو کلیئس بناتے ہیں جس سے بہت زیادہ توانائی پیدا ہوتی ہے۔)

یہ بھی پڑھیے

دنیا کے پہلے توانائی کے مصنوعی جزیرے کی تعمیر کی منظوری

کیا سعودی عرب دنیا میں توانائی کے لیے ایک نیا ایندھن لا رہا ہے؟

یہ فیوژن کا عمل ہی ہے جو سورج اور ستاروں کو روشنی اور حرارت عطا کرتا ہے۔ اگر زمین پر یہ عمل دہرانے میں کامیابی ہوگئی تو ہمیں بہت تھوڑے سے ایندھن کو جلانے سے توانائی کا بہت بڑا ذریعہ میسر آ جائے گا اور اس عمل میں کاربن ڈائی آکسائڈ گیس بھی پیدا نہیں ہوگی۔ کون ایسا نہیں چاہے گا؟

اس کا اصول سمجھنے میں بہت سادہ ہے۔

ہائڈروجن کے ایٹموں، مناسب حرارت اور دباؤ کو فیوژن کے ذریعے ہیلیم میں بدلا جا سکتا ہے۔ اس عمل کے دروان ہائڈروجن کی کچھ کیمیت حرارت میں تبدیل ہو جاتی ہے جس سے بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔

مشکل یہ ہے کہ یہ عمل زمین پر کرنے کے لیے آپ کو ہائڈروجن کے آسوٹوپس کو کئی کروڑ ڈگری سینٹی گریڈ پر اس وقت تک گرم کرنا پڑے گا کہ وہ ٹوٹ کر مادے کی وہ شکل نہ اختیار کر لیں جسے پلازما کہتے ہیں۔

اس پلازما کو ایک محدود یا بند جگہ میں سمونا ہمیشہ مسئلہ رہا ہے۔

ستارے تو اپنی گرِیوِیٹی یا کشش کے ذریعے اسے قابو میں رکھتے ہیں، مگر زمین پر ایسا کرنے کے لیے سب سے عام طریقہ طاقتور مقناطیسی میدان ہیں۔

اس لیے سب سے بڑا چیلنج ایسے طاقتور مقناطیسوں کی تیاری ہے۔ ان کے اندر اتنی طاقت ہونی چاہیے کہ وہ انتہائی گرم، چکراتے ہوئے مادے کو بکھرنے سے روکیں، مگر اتنی زیادہ بجلی بھی استعمال نہ کریں جتنا کہ اس عمل کے نتیجہ میں پیدا ہوگی۔

ڈاکٹر بوب ممگارڈ اور ان کی ٹیم اس برس آگے چل کر کامن ویلتھ فیوژن سسٹمز (سی ایف ایس) میں ایک ایسے نئے مقناطیس کی آزمائش کریں گے جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ اس میدان میں بہت بڑی جست ہو گی۔

دس ٹن وزنی اور ڈی شکل کا یہ مقناطیس اتنا بڑا ہے کہ اس میں سے ایک آدمی با آسانی گزر سکتا ہے۔ اس کے گرد تقریباً 300 کلو میٹر لمبی خاص قسم کی الیکٹرومیگنیٹک ٹیپ لپیٹی گئی ہے۔

یہ ٹیپ بذات خود بھی انجنیئرنگ کا انمول شاہکار ہے، جسے بنانے میں کئی دہائیاں لگیں۔ اسے دھات کی ایک پٹی پر زمین پر انتہائی کمیاب اور اعلیٰ ترین موصل بیریم کاپر آکسائڈ کی تہہ چڑھا کر تیار کیا گیا ہے۔

اس سے بنائے گیے یخ بستہ لچھوں کے اندر سے بجلی نہایت کفایت کے ساتھ گزرتی ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ اس میں سے 40,000 ایمپئر کرنٹ گزرے گا۔ بجلی کی یہ مقدار ایک چھوٹے شہر کو روشن کرنے کے لیے کافی ہے۔

فیوژن کی صنعت میں یخ بستہ سے مراد ہے کہ اس ٹیپ کو منفی 253 ڈگری سینٹی گریڈ تک ٹھنڈا کیا جائے گا۔ آپ کو شاید یہ بات احمقانہ لگے مگر سپرکنڈکٹنگ کی دنیا میں اس کا شمار قدرے گرم اشیا میں ہوتا ہے۔

سی ایف ایس کے شریک بانی اور چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر ممگارڈ کہتے ہیں کہ ‘اس کا مطلب یہ کہ اس کے لیے ہم جو ریفریجریٹر استعمال کریں گے وہ آپ کے کچن کے اندر سما سکتا ہے۔

‘اس سے پہلے اسی کام کے لیے جس ریفریجریٹر کی ضرورت تھی اس کی جسامت آپ کے گھر جتنی ہوتی۔’

سی ایف ایس کے سربراہ ڈاکٹر بوب ممگارڈ

Bryce Vickmark
سی ایف ایس کے ڈاکٹر بوب ممگارڈ کہتے ہیں، مقناطیس اب کھلونے نہیں رہے

سی ایف ایس اس طرح کے 18 مقناطیس ایک چھلے کی صورت میں نصب کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس شکل کو ٹوکامیک کہتے ہیں، اور حال میں اس کے لیے امریکی ریاست میساچوسیٹس میں جگہ کا انتخاب بھی کر لیا گیا ہے۔

ڈاکٹر ممگارڈ کا کہنا ہے کہ ‘کسی تجربہ گاہ کی میز سے پرے اتنا بڑا مقناطیس صرف ہم نے ہی بنایا ہے۔ دوسری چھوٹی کمپنیوں نے صرف تجرباتی پیمانے پر ایسا کیا ہے۔

‘ہم اب اس مرحلے پر پہنچ گئے ہیں جہاں آپ فیوژن مشین بنا سکتے ہیں۔ آپ کسی کھلونے جیسی چیز سے ایک دم فیوژن کے مرحلے تک نہیں جا سکتے۔’

سی ایف ایس مقناطیس کا خاکہ

CFS
سی ایف ایس مقناطیس کے اندر تقریباً 300 کلو میٹر لمبی سُپرکنڈکٹِنگ یا اعلی ترین موصول ٹیپ استعمال کی گئی ہے

مقناطیسی ٹیکنالوجی کے میدان میں یہ پیشرفت برطانیہ میں ٹوکامیک انرجی کے فیوژن پراجیکٹ کے لیے بھی کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔

ڈاکٹر برِٹلز نے پچھلے پانچ برس اس کی تیاری پر صرف کیے ہیں اور اب وہ مشین بنانے میں مدد دے رہے ہیں جس میں کئی طاقتور مقناطیس ایک ساتھ مل کر کام کریں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘یہ بہت سارے کوائلز یا لچھوں کا اجتماع ہوگا جو آپ میں مل کر کام کریں گے اور باہم توازن پیدا کرنے کے لیے ایک دوسرے پر انحصار کریں گے۔ اس عمل کو کنٹرول میں رکھنا ہو گا ورنہ تمام قوتوں کا توازن بگڑ سکتا ہے۔

The magnets use tightly coiled superconducting tape

Tokamak Energy
ٹوکامیک انرجی کو نفیس سپرکنڈکٹنگ ٹیپ سے کوائل یعنی لچھے بنانے کا طریقہ نکالنا پڑا

ان مقناطیسی میدانوں سے پیدا ہونے والی قوتیں دماغ چکرا دینے والی ہیں۔ یہ مقناطیس بیضوی ٹوکامیک یا سیب کی شکل کے ایک فیوژن ری ایکٹر میں نصب کیے جائیں گے۔

تحقیق کے مطابق اس طرح ری ایکٹر کو چلانے کے لیے درکار توانائی کے مقابلے میں زیادہ توانائی پیدا کی جا سکے گی۔ یہ سی ایف ایس اور دوسروں کے زیر استعمال گول ٹکیہ نما ٹوکامیک سے زیادہ توانائی پیدا کریں گے۔

ڈاکٹر ڈیوڈ کِنگھم جو ٹوکامیک انرجی کے بانیوں میں سے ایک ہیں کہتے ہیں کہ ‘اصل چیلنج تجارتی فیوژن ہے۔ اور یہ بات ہمارے لیے کشش کا باعث ہے۔ ہم اسی لیے بیضوی ٹوکامیک پر توجہ دے رہے ہیں کیونکہ اس کے طویل المدتی فوائد زیادہ ہیں۔

‘میرے خیال میں ہماری ٹیکنالوجی 2030 کی دہائی میں فیوژن کے آزمائشی پلانٹ میں نصب کر دی جائے گی۔

‘میرے خیال میں یہ ایک عالمی دوڑ ہوگی۔ امریکہ میں نجی شعبے کے اندر ایسے کئی مواقع ہیں۔ اور ہم اس دوڑ کا حصہ ہوں گے۔’

ایک قابلِ عمل فیوژن ری ایکٹر کی امید ہمیشہ سے رہی ہے۔

اس کا سب سے بڑا منصوبہ اس وقت جنوبی فرانس میں زیرِ عمل ہے جس پر اب تک اربوں ڈالر خرچ ہو چکے ہیں۔ یہ مقررہ رفتار سے سست چل رہا ہے۔

تاہم زیادہ چھوٹے ڈیزائن، جیسا کہ ٹوکامیک انرجی اور سی ایف ایس کے ہیں، اب نجی سرمایہ کاروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا رہے ہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ تجارتی بنیادوں پر کام کر سکیں گے۔

ڈاکٹر وال وین لائروپ

Wal van Lierop
ڈاکٹر وال وین لائروپ کی کمپنی نے فیوژن ٹیکنالوجی میں کئی ملین ڈالر کی سرمایاکاری کی ہے

ڈاکٹر وال وین لائروپ نے اپنی کمپنی، کرائسیلِکس 20 سال پہلے قائم کی تھی اور 2008 سے وہ کینیڈین فرم جنرل فیوژن میں لاکھوں ڈالر لگا چکے ہیں۔

ان کے مطابق روایتی طور پر اس شعبے میں سرمایہ کاری کی کمی رہی ہے، مگر اب صورتحال بدل رہی ہے۔

‘اب میں اس میں زیادہ سرمایہ کاری اور زیادہ دلچسپی دیکھ رہا ہوں، لوگوں کو اب یہ بات سمجھ میں آ رہی ہے کہ یہ ٹیکنالوجی کا بہت بڑا شعبہ ہے اور اب اس کے بارے میں یہ تذبذب نہیں رہا کہ یہ 2050 تک کامیاب ہوگا یا نہیں۔’

ڈاکٹر وین لائروپ کہتے ہیں کہ اس کا امکانی حجم بہت زیادہ ہے۔ بجلی کی عالمی کھپت اس وقت تین ٹریلین ڈالر سالانہ کے قریب ہے جس میں اضافہ ہی ہوگا۔

‘اگر یہ (فیوژن) کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے تو یہ اس شعبے میں اتنی بڑی تبدیلی کا باعث ہوگا جو ہم نے کبھی نہیں دیکھی۔’

ادھر ڈاکٹر برِٹلز اعتراف کرتے ہیں کہ انجنیئرنگ کا ابھی بہت سا کام باقی ہے، مگر وہ پر اعتماد ہیں۔

‘ہم ان مسائل پر قابو پانے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں جو ہماری راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ مگر اس وقت ہم جس مقام پر ہیں وہاں سے ہمیں ایسی کوئی رکاوٹ نہیں دکھائی دے رہی جو ہمارا کام روک دے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32490 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp