پاکستان نیوی میں گزارے سنہرے دن: پہننا ہمارا یونیفارم اور پریڈ گراؤنڈ میں پہچننا


تیسرے دن صبح پانچ بجے اٹھے روٹین کے معاملات سے فارغ ہو کر سفید یونیفارم پہنی، لانگ بوٹ پہنے، سر پر نیول راؤنڈ کیپ سجائی، بیرک میں لگے قد آور شیشے میں اپنے آپ کو دیکھا کہ تیاری مکمل ہے۔ تیاری مکمل تھی۔ ساڑھے سات بجے ہم تنویر احمد جو کہ ہماری کلاس کا لیڈر تھا کی ہمراہی پریڈ گراؤنڈ کی طرف چل پڑے۔ تنویر احمد نے گراؤنڈ میں جو جگہ ہماری کلاس کے لئے مخصوص تھی وہاں پہنچ کر ہمیں فارمیشن میں کھڑا کر دیا۔ پریڈ انسٹرکٹر لیڈنگ سیلر ان کا رینک تھا ہمارے پاس آ گئے اور ہمیں کھڑے ہونے اور پریڈ کرنے کا طریقہ سمجھانے لگے۔

ایک صاحب پریڈ کرتے ہوئے گراؤنڈ میں آئے اور کوارٹر ڈیک کے سامنے کھڑے ہو گئے جن کے بارے معلوم ہوا کہ چیف پیٹی افسر ٹریننگ اللہ دتہ صاحب ہیں۔ پریڈ گراؤنڈ کا قانون ہے کہ جو کوئی بھی یونیفارم پرسن ( سیلر تا ایڈمرل ) پریڈ گراؤنڈ میں سے گزرے گا پریڈ کرتا ہوا گزرے گا۔ اس لئے اکثر سیلرز گراؤنڈ کے اطرافی راستوں سے ہی گزرتے تھے۔ ایک اور صاحب جو ان کے بالکل سامنے کچھ فاصلے پر کھڑے تھے اور پریڈ کو کمانڈ کر رہے تھے ان کا نام پیٹی افسر کوثر صاحب تھا۔ کوثر صاحب ہمارے سکول کے گنری انسٹرکٹر تھے۔ انتہائی گرجدار آواز میں کاشن (جو کام کرنا ہو اس کے لئے آرڈر دینے کو کاشن دینا کہتے ہیں) دے رہے تھے۔ ان کے پاس ایک سیٹی تھی جس کو وہ بجاتے اور جس وقت بجاتے تو جو کام اس وقت کرنا ہوتا وہ شروع ہو جاتا اور سیٹی پر ہی رک جاتا۔

کوثر صاحب نے پہلے سیٹی بجائی تو تمام ڈویژنز کے چیف صاحبان اپنے ڈویژن کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ دوسری سیٹی پر ٹریننگ چیف صاحب بھی اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے۔ ہر کلاس کے لیڈر نے اپنی کلاس کی حاضری رپورٹ چیف صاحب کو دی۔ اب ہر ڈویژن چیف نے اپنے ڈویژن کو ہوشیار باش کی پوزیشن میں کیا اور ٹریننگ چیف صاحب کو رپورٹ دینے چلے گئے۔ رپورٹ دینے کے بعد چیف صاحبان اپنے اپنے ڈویژن کے سامنے اپنی پوزیشنز پر واپس آ چکے تھے اور ڈویژن کو آسان باش کی پوزیشن پر کر دیا تھا۔

اسی دوران بگل بجنا شروع ہو گیا اس کا بگل کا مطلب تھا کہ تمام افسرز بھی گراؤنڈ میں اپنی مخصوص جگہ پر آ کر کھڑے ہو جائیں۔ بگل کی آواز پر افسرز آ کر کوارٹر ڈیک کے داہنی سائڈ پر کھڑے ہو گئے۔ اور جو افسرز ڈویژنز کے انچارج تھے وہ اپنے اپنے ڈویژنز میں اپنی مخصوص جگہ پر کھڑے ہو گئے۔ ڈویژنز چیف صاحبان نے اپنے اپنے ڈویژنز کی حاضری رپورٹ اپنے ڈویژن افسرز کو بھی دے دی۔ اس سے پہلے کچھ پیٹی افسرز اور چیف پیٹی افسرز کوارٹر ڈیک کے بائیں طرف والی سائڈ پر کھڑے ہو چکے تھے۔

پاکستان کا قومی پرچم لہرانے والی پارٹی اپنی مخصوص جگہ پر قومی پرچم لے کر آ گئی تھی۔ پریڈ گراؤنڈ کے کی پچھلی طرف جہاں سینما تھا وہاں پر سینئر سیلرز (سپاہی) بندوقیں تھامے فارمیشن میں کھڑے تھے انہیں گارڈ کہتے ہیں اور ان کے ساتھ بینڈ بھی کھڑا تھا۔ وہاں ایک افسر صاحب تلوار ہاتھ میں تھامے چاق و چوبند کھڑے تھے۔ جو کہ گارڈ اور بینڈ کی کمانڈ کر رہے تھے۔

ایک افسر صاحب جن کا رینک لیفٹیننٹ کمانڈر ( آرمی کے میجر کے برابر ) تھا آئے اور کوارٹر ڈیک پر چڑھنے لگے کوارٹر ڈیک پر چڑھ کر کھڑے ہو کر سیلوٹ کیا اور کوارٹر ڈیک کے بالکل وسط میں کھڑے ہو گئے۔ کوارٹر ڈیک کا یونٹ میں مقام بہت ہی مقدس ہے کوئی یونیفارم پرسن ( سیلر تا ایڈمرل ) کوارٹر ڈیک پر سیلوٹ کیے بغیر چڑھ نہیں سکتا۔ ( ٹریننگ کے دوران مجھ سے یہ غلطی انڈونیشین شپ پر چڑھتے ہوئے ہوئی تھی اس کو میں بیان کروں گا تفصیل کے ساتھ ) ۔

ٹریننگ چیف صاحب نے تمام پریڈ کو ہوشیار باش کا کاشن دیا اور کوارٹر ڈیک پر کھڑے افسر صاحب کی طرف پریڈ کرتے ہوئے گئے اور ان کے سامنے کھڑے ہو کر سیلوٹ کیا اور حاضری رپورٹ پیش کی اور واپس آ کر اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے۔ اس کے فوری بعد ایک سیٹی بجی اور ایک آواز گونجی جو کہ کاشن تھا گارڈ کمانڈر کا گارڈ داہنے سے بینڈ درمیان سے جلدی چل جیسے ہی یہ کاشن دیا گیا بینڈ نے انتہائی مدھر دہن بجانی شروع کر دی۔ ایسی زبردست دھن تھی کہ ہمارا جوش و ولولہ بڑھنے لگا۔

یہی دل میں خیال آنا شروع ہوا کہ اب ہم جنگ کے لئے محاذ پر جانے لگے ہیں۔ دشمن پر حملہ آور ہونے لگے ہیں۔ ہم اسی دہن میں مگن تھے کہ گارڈ ہمارے بائیں طرف سے نمودار ہوئی اور اس کے آگے تلوار تھامے افسر صاحب اور گارڈ کے پیچھے بینڈ اپنی دہن بکھیرتا ہوا چلا آ رہا ہے۔ جس فارمیشن میں پریڈ گراؤنڈ میں ڈویژنز کھڑے تھے ان کے سامنے سے مڑتے ہوئے کوارٹر ڈیک کے بالکل سامنے اور گراؤنڈ میں کھڑی فارمیشن کے بالکل وسط میں آ کر کھڑے ہو گئے اور گارڈ کے پیچھے بینڈ کی فارمیشن تھی کھڑے ہونے کے بعد بینڈ خاموش ہو گیا۔

سگنل پارٹی اپنی مخصوص جگہ پر تھی ان کے پاس گھڑی تھی اور ان کی مخصوص سیٹی پر قومی پرچم لہرایا جانا تھا۔ ٹھیک آٹھ بجے انہوں نے سیٹی بجائی تو پریڈ کے اپنے اپنے حصے کی کمانڈ کرنے والوں نے ہوشیار باش کے کاشن دینے شروع کر دیے اور گارڈ کمانڈر صاحب نے جنرل سلام سلام فنگ کا کاشن دینا شروع کیا ساتھ ہی بینڈ نے قومی ترانہ بجانا شروع کر دیا اور قومی پرچم لہرانے والی پارٹی نے قومی پرچم لہرانا شروع کر دیا۔ قومی پرچم لہرانے والے اتنے تربیت یافتہ تھے کہ بینڈ کے حساب سے جو قومی ترانہ بج رہا تھا ان کی پرچم لہرانے کی رفتار بھی اسی حساب سے تھی۔ جیسے ہی بینڈ نے قومی ترانہ مکمل کیا قومی پرچم بھی اپنی جگہ پر پہنچ گیا۔ پرچم کی رسیاں باندھ دی گئیں۔ گارڈ کمانڈر نے کاشن دیا نیچے فنگ اس کے ساتھ بینڈ بھی خاموش ہو گیا۔ ( جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments