بھٹو حکومت کے خلاف تحریک اور بیگم نسیم ولی خان کا ‘کالا دوپٹہ’


بیگم نسیم ولی خان (فائل فوٹو)
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی قوم پرست خاتون سیاسی رہنما اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے بانی رہنماؤں میں شامل بیگم نسیم ولی خان مختصر علالت کے بعد اتوار کو چارسدہ میں انتقال کر گئیں۔ بیگم نسیم ولی خان کے خاندانی ذرائع کے مطابق وہ عرصۂ دراز سے ذیابیطس اور عارضۂ قلب میں مبتلا تھیں۔

بیگم نسیم ولی خان 24 جنوری 1936 کو مردان میں امیر محمد خان کے گھر پیدا ہوئیں۔ ان کی شادی مرحوم خان عبدالولی خان کے ساتھ 1954 میں ہوئی تھی۔

وہ عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی صدر، ایک مرتبہ رُکن قومی اسمبلی اور تین بار رُکن صوبائی بھی منتخب ہوئیں۔

مرحوم ولی خان کی پہلی بیوی جو اسفند یار ولی خان کی والدہ تھیں کا انتقال 1947 میں اس وقت ہوا تھا جب خان عبدالولی خان قیامِ پاکستان کے بعد والد مرحوم باچا خان، بھائی غنی خان اور دیگر سیکڑوں ساتھیوں سمیت ملک کی مختلف جیلوں میں قید تھے۔

بیگم نسیم ولی خان کی مرحوم خان عبدالولی خان کے ساتھ شادی اس وقت ہوئی تھی جب وہ مردان کے سرکاری کالج میں زیرِ تعلیم تھیں۔

بیگم نسیم ولی خان نے از خود راقم کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ان کی شادی کے وقت وہ تھرڈ ایئر میں پڑھ رہی تھیں اور بعد میں انہوں نے مردان کے خواتین کالج سے ڈگری اور پشاور یونیورسٹی کے ہوم اکنامکس کالج سے ماسٹرز کیا تھا۔

نسیم ولی خان اور سابق وزیرِ اعظم بینظیر بھٹو (فائل فوٹو)
نسیم ولی خان اور سابق وزیرِ اعظم بینظیر بھٹو (فائل فوٹو)

بیگم نسیم ولی خان کے والد امیر محمد خان کا تعلق مرحوم باچا خان کے انتہائی با اعتماد ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ ان کے چھوٹے بھائی مرحوم اعظم خان سابق وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کی کابینہ میں دو بار وفاقی وزیر رہ چکے تھے۔

اعظم خان ہوتی کے بیٹے امیر حیدر خان ہوتی 2008 سے 2013 تک خیبر پختونخوا کے وزیراعلی رہ چکے تھے۔

سن 1954 میں خان عبدالولی خان کے ساتھ شادی کے بعد وہ گھریلو خاتون تھیں مگر 70 کی دہائی کے وسط میں جب مرحوم خان عبدالولی خان، اسفندیار ولی خان سمیت ‘اے این پی’ کے 73 اہم رہنماؤں سمیت ہزاروں کارکنوں کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کی مخالفت پر جیلوں میں ڈالا گیا تو وہ سیاسی محاذ پر سرگرم ہو گئیں۔

بیگم نسیم ولی خان کے سسر اس دور میں کبھی نظر بند اور کبھی افغانستان میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ 1975 میں اُنہوں نے نیشنل عوامی پارٹی کو کالعدم قرار دینے کے بعد ترقی پسند قوم پرستوں کے ساتھ مل کر نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی کی بنیاد رکھی جس نے نیشنل عوامی پارٹی کے منتشر کارکنوں کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

بھٹو حکومت کے خلاف تحریک میں کردار

سن 1976 میں نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی کے قیام کے بعد جب بیگم نسیم ولی خان نے عملی سیاسی زندگی کا آغاز کر دیا تو اس وقت خاندان کے تمام مرد بالغ افراد ملک کی مختلف جیلوں میں قید تھے۔

بیگم نسیم ولی خان نے اس وقت سیاست میں متحرک کردار ادا کیا جب پارٹی کے بیشتر کارکن اس وقت کے وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دور میں زیرِ عتاب تھے۔ اس دور میں اُن کا کالا دوپٹہ، اُن کی سیاسی جدوجہد کی پہچان بن گیا۔

اُنہوں نے بھٹو حکومت کے خلاف اپنی پہلی سیاسی تقریر میں کہا تھا کہ وہ یہ کالا دوپٹہ اس وقت نہیں اُتاریں گی جب تک بھٹو حکومت کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔

اس دوران ملک بھر کی مختلف سیاسی جماعتوں نے مل کر پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس سیاسی اتحاد نے بعد میں 1977 کے عام انتخابات میں مشترکہ طور پر حصہ لیا تھا اور پاکستان قومی اتحاد کے منتخب ہونے والے اراکینِ اسمبلی میں بیگم نسیم ولی خان بھی سرِ فہرست تھیں۔

البتہ، پی این اے کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے بائیکاٹ کی وجہ سے ملک میں سیاسی بحران پیدا ہو گیا جو بعدازاں پانچ جولائی 1977 کو مارشل پر منتج ہوا۔

مارشل لا کے نفاذ کو پاکستان قومی اتحاد میں شامل جماعتوں نے کامیابی قرار دیا تھا مگر مارشل لا کے نفاذ پر نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماؤں نے پہلے تحفظات کا اظہار کیا اور بعد میں پی این اے میں شامل دیگر جماعتوں جماعتِ اسلامی، جمعیت علمائے اسلام نے جنرل ضیاالحق کی فوجی حکومت میں وزارتیں قبول کر لیں۔

اس اقدام پر بیگم نسیم ولی خان نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کو اس اتحاد سے الگ کر لیا۔

سن 1977 میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد ملک بھر کی سیاسی جماعتوں کے گرفتار رہنما اور کارکنوں کو رہا کر دیا گیا جن میں خان عبدالوالی خان اور اسفند یار ولی خان بھی شامل تھے۔

مرد رہنماؤں کی رہائی کے بعد وہ سیاست میں زیادہ فعال نہ رہیں۔ 1986 میں عبدالولی خان نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کا نام تبدیل کر کے عوامی نیشنل پارٹی کر دیا جو اب بھی برقرار ہے۔

اے این پی کی پالیسیوں سے نالاں اور سیاست میں واپسی

بیگم نسیم ولی خان سیاسی محاذ میں 70 کی دہائی میں ہی زیادہ سرگرم رہیں۔ تاہم اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں وہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر تین مرتبہ رُکن صوبائی منتخب ہوئیں۔ تاہم ان کا سیاسی کردار زیادہ فعال نہیں تھا۔

البتہ نومبر 2013 میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے اُنہوں نے دوبارہ سیاست میں قدم رکھا۔

خیال رہے کہ 2013 کے عام انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد پارٹی حلقوں میں بے چینی پائی جاتی تھی۔

بیگم نسیم ولی خان نے انتخابات میں شکست کا ذمے دار اسفند یار ولی خان اور اعظم خان ہوتی کو قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بوڑھی ضرور ہیں، لیکن اب بھی وہ سیاست میں کردار ادا کر سکتی ہیں۔

البتہ، اس کے باوجود وہ علالت اور دیگر وجوہات کی بنا پر عوامی نیشنل پارٹی کی سیاست میں فعال کردار ادا نہ کر سکیں۔

سیاسی اور عسکری قیادت کا اظہارِ افسوس

پاکستان میں سیاسی، عوامی اور عسکری حلقوں کی جانب سے نسیم ولی خان کے انتقال پر اظہارِ افسوس کا سلسلہ جاری ہے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی بیگم نسیم ولی خان کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف شہباز شریف نے بھی بیگم نسیم ولی خان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

اپنی ٹوئٹ میں شہباز شریف نے کہا کہ وہ خیبرپختونخوا سے جنرل نشست پر منتخب ہونے والی پہلی خاتون رُکن اسمبلی تھیں جنہوں نے مشکل حالات میں سیاست کی۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments