سر بلند فلسطین اور سرنگوں عرب بادشاہ


پوراعرب سر نگوں ہو چکا ہے مگر غزہ پوری جرآت و ہمت سے کھڑا ہے۔

غزہ کے مظلوم سنی فلسطینیوں کی عملی مدد ولایت فقیہہ کے ماننے والے ایرانی ملا کر رہے ہیں لبنان سے حزب اللہ ان کے لئے آخری سہارا ہے برطانوی پارلیمنٹرین جارج گالوے نے کیا سچ کہا تھا سنی فلسطینیوں کی مدد ایرانی شیعہ ملا کر رہے ہیں جبکہ ہم عقیدہ اور ہم زبان عرب ریت میں سر چھپائے بیٹھے ہیں

‎فلسطینیوں کے شہید قائد شیخ یاسین نے برسوں پہلے کہا تھا ”جب ہم چھوٹے تھے تو سنا کرتے تھے کہ فلسطین مقبوضہ بن گیا ہے مگر سمجھتے تھے کہ اللہ کا شکر ہے باقی عرب آزاد ہیں۔ اب جب ہم بڑے ہو چکے ہیں تو پتہ چلا ہے کی سارا عرب مقبوضہ بن چکا ہے، صرف فلسطینی آزاد ہیں کیونکہ فلسطین کے غیور سر نگوں کرنے کے لئے تیار نہیں“

الاقصی سر بلند ہے اور فلسطینیوں کے مقدس لہو کی آبیاری کے بعد سرخرو رہے گی

سر زمین فلسطین پر عرب بدو اور اونٹ کی تمثیلی داستان ایک صدی سے دہرائی جا رہی ہے اب اس میں ظلم و بربریت بھی شامل ہو گئی ہے

‎صیہونی قوتوں کا عالمی سیاسی، معاشی اور سٹریٹیجک اثر و رسوخ اتنا گہرا اور مضبوط رہا ہے کہ بین الاقوامی برادری فلسطینیوں پر ظلم و ستم پر خاموش ہے بلکہ فلسطینیوں کو صبر اور برداشت کی تلقین کی جا رہی ہے

اسرائیلی وزارت خارجہ نے صیہونی ریاست کی حمایت کرنے والے 30 ممالک کے جھنڈے آویزاں کر دیے ہیں جو کھل کر اسرائیل وحشیانہ فوجی کارروائی کی حمایت کر رہے ہیں ان جھنڈوں میں بھارتی ترنگا شامل نہیں ہے کہ پلید مودی نے رواجاً فلسطینی ریاست کو بھی تسلیم کر رکھا ہے

یہودی میڈیا ساری دنیا کو بتا رہا ہے کہ بہتے فلسطینی مزاحمت کار غزہ میں سویلین آبادی کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں جب کہ غزہ کی کثیر منزلہ عمارات کو اسرائیل ملبے کے ڈھیر بنا رہے کہ ان کو فوجی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا تھا اور عالمی برادری نہایت بے شرمی سے اس صیہونی موقف کو قبول کر رہی ہے

‎ یہ صیہونی اثر و رسوخ واشنگٹن دہلی، بیجنگ، ماسکو، پیرس، برلن اور لندن سے لے کر مشرقی وسطی کی عرب ریاستوں تک پھیلا ہوا ہے اور بظاہر اس کی گرفت ٹوٹتی نظر نہیں آتی۔

الخدمت پاکستان کے سربراہ عبدالشکور جو خود بھی ساری جوانی امریکی سڑکوں پر لگا چکے ہیں اب دائیں بازو کے لبرل فکری رہنما قرار دیے جاتے ہیں بتاتے ہیں کہ

‎ شام، عراق اور لیبیا کی تباہی۔ مصر، سعودی عرب اور امارات کے سقوط، (سکوت، خاموشی نہ سمجھا جائے ) ۔ کے بعد

‎صیہونی ریاست تکبر، بربریت اور سفاکی کی انتہا تک پہنچ چکی ہے۔ اسے بظاہر یقین ہے کہ یو این او سمیت کوئی طاقت اب اس کا ہاتھ نہیں روک سکتی

‎ اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل مسلمانوں کے انتہائی متبرک دن ستائیس رمضان سے اب تک غزہ کی گنجان ترین آبادی کے سینکڑوں مقامات پر ہوائی حملے کر کے بچوں اور عورتوں سمیت ہزاروں بہتے فلسطینیوں کو شہید اور شدید زخمی کر چکا ہے۔

‎اسرائیل کا پہلا وزیراعظم بن گوریان ایک روز
‎ کچھ جلدی میں گھر سے جا رہا تھا کہ اس کی بیٹٰی نے یاد دہانی کروائی کہ آج دیوار گریہ

‎پر سالانہ دعا کا دن ہے۔ بن گوریان نے جواب دیا کہ ریاستی امور سے متعلق کچھ اہم کام نمٹانے ضروری ہیں۔ بیٹی نے کہا

سالانہ دعا سے اہم کام کیا ہو سکتا ہے جس پر آنجہانی بن گوریان نے تاریخی جواب دیا کہ

‎صرف دعاؤں سے کام ہوتے تو تمام عرب اور مسلمان حج کے اتنے بڑے اجتماع میں اسرائیل کی تباہی اور بربادی کی دعا مانگتے ہیں مگر عمل سے عاری ہیں، تو نتیجہ تمہارے سامنے ہے عرب اور مسلمان کس حال میں اور نوزائیدہ یہودی ریاست دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔ میں ریاستی امور طے کر کے شام کو دعا میں بھی شامل ہو جاؤں گا۔

یہ عمل اور جہد مسلسل کی دنیا ہے دعاؤں سے کب کوئی بلا سر سے ٹلی ہے

‎ایک ارب 50 کروڑ مسلمان اس 80 لاکھ کی آبادی والے ملک کے سامنے بے بس ہیں اور آہستہ آہستہ اس کی شرائط پر تعلقات استوار کرتے جا رہے ہیں

‎کسی گھر پر ڈاکو قبضہ کر لیں تو مزاحمت اور واگزاری کی کوشش تمام اہل خانہ کا حق اور فرض ہوتا ہے لیکن فلسطین اور کشمیر پر یہ منطق مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ نہ صرف مزاحمت چھوڑ دیں، بلکہ دل سے بھی تسلیم کر لیں کہ یہ گھر اب ڈاکووں کا ہو گیا۔

‎بعض ناخلف افراد خانہ کو گھر کا ایک آدھ کمرہ یا صرف راہداری دے کر یہ منوایا جا رہا ہے کہ بس یہی پورا گھر ہے۔ باقی سب ڈاکوؤں کی ملکیت ہے۔ ڈاکو اور ان کے سرپرست پورے کنبے میں سے صرف انہی ”باضمیر“ افراد کو جینے کا حق دے رہے ہیں، باقی سب دہشت گرد ہیں

امریکی فلسطین میں اپنے ٹٹو

‎محمود عباس کو صاحب ضمیر قائد قرار دیتے ہیں اب انہی ”با ضمیروں“ کو اپنے بھائی بندوں کے قتل عام پر لگایا جا رہا ہے۔ پوری دنیا اس عدل پر تحسین کے ڈونگرے برسا رہی ہے۔

غاصب قبضے کے دوسرے مرحلے میں

‎مظلوم گھرانے کے باقی تمام عزیزواقارب سے بھی یہ گردان شروع کروا دی گئی ہے کہ ”جب گھر کے اصل مالکوں نے ڈاکوؤں کو مالک تسلیم کر لیا ہے تو ہم کیا کریں“ انہیں یہ بھی یاد نہیں کہ معاملہ کسی عام گھر کا نہیں، محبوب کائنات ﷺ کی جائے امامت و معراج کا ہے جو خانہ خدا سے پہلے دنیابھر میں پھیلی مسلم امت کا پہلا قبلہ اول تھا۔

‎پوری دنیا میں ایک ہی راگ الاپا جا رہا ہے کہ مسئلہ فلسطین حل ہو گیا۔

‎یہ راگ الاپنے والے سب سے بہتر طور پر جانتے ہیں کہ روڈ میپ اور امن معاہدے، صہیونی دفاعی اقدامات کا حصہ ہیں۔ صہیونی افواج ہر ہتھکنڈہ استعمال کر لینے کے باوجود ستمبر 2000 میں شروع ہونے والی دوسری تحریک انتفاضہ کو کچلنے میں ناکام رہیں تو اب خود فلسطینیوں کو یہ مقدس فرض سونپ دیا گیا آزاد خیال صرف اسی لیے ”تمام تعریفوں کے لائق“ قرار دیے جا رہے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کی ”عسکری سرگرمیوں“ کے مخالف ہیں۔

‎یہ شکست خوردہ فلسطینی خود یہودیوں سے بھی زیادہ ”فلسطینی دہشت گردی“ کی مذمت کی، اس سے بڑھ کر ”پوری انسانی تاریخ میں یہودیوں پر توڑے جانے والے مظالم“ پر دکھ کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں،

گزشتہ دنوں سفر آخرت پر روانہ ہونے والے بھارتی عالم دین وحید الدین خان اسرائیل کا سالانہ دورہ کیا کرتے تھے اور اسی طرح کی شکست خوردہ سوچ کے علمبردار تھے کہ جینے کا حق مانگنے والے مظلوم بھارتی مسلمان ہوں یا صیہونی ظلم و بربریت کا شکار بہتے فلسطینی ان کی شدت پسندی، دہشت گردی کو جنم دیتی ہے اور مسلمان حکمرانوں کو مشورے دیتے تھے کہ

‎ ہندوؤں اور یہودیوں کے خلاف نفرت پھیلانے والوں یعنی یہودیوں کے قبضے اور ان کے مظالم کا ذکر کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔

‎اپنی تقاریر اور ارشادات میں انہوں نے کبھی فلسطینیوں کے حق آزادی، لاکھوں کی تعداد میں بے گھر فلسطینی مہاجرین کی واپسی یا مسجد اقصیٰ کی بازیابی کی طرف ادنی اشارہ نہیں دیا تھا

‎فلسطین میں دوستی کے معاہدے اس وقت نافذ کیے جاتے ہیں صیہونی فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت کچلنے میں ناکام ہو جاتے عجیب اتفاق یہ ہے کہ ابومازن شارون معاہدہ 2000 میں شروع ہونے والی دوسری تحریک انتفاضہ کو کچلنے میں ناکامی اور عراق پر امریکی قبضے کے بعد ہوا ہے۔ اس سے پہلے یاسر عرفات رابن معاہدہ 87 ء میں شروع ہونے والی پہلی تحریک انتفاضہ کو کچلنے میں ناکامی اور عراق کو تباہ کرنے کے بعد ہوا تھا۔ تب یاسر عرفات امن کے نوبل انعام کے حق دار ٹھہرے تھے۔

‎ستمبر 2000 میں دوسری تحریک انتفاضہ کا آغاز اس وقت ہوا تھا، جب عرفات رابن معاہدے کے منطقی ہدف کو پورا کرتے ہوئے ایرییل شیرون نے مسجد اقصیٰ میں گھسنا چاہا تھا۔ مسجد اقصیٰ کو شہید کر کے وہاں ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا قدیم صہیونی خواہش ہے۔ فلسطین میں گھسنے کے لیے عثمانی خلیفہ سے اجازت حاصل کرنے کی کوشش بھی اسی بنیاد پر کی گئی تھی کہ ”یہودیوں کو وہاں عبادت کو اجازت دی جائے“ ۔ برطانوی استبداد کی چھتری تلے فلسطین میں قدم جمانے سے لے کر، امریکی سرپرستی میں لاکھوں فلسطینی عوام سے ان کی شناخت اور سایہ سلب کرنے کے تمام مراحل میں، یہودیوں کی اصل توجہ مسجد اقصیٰ پر رہی۔

اقصیٰ کو نذرآتش کی کوشش، نمازیوں پر فائرنگ کے لاتعداد واقعات، آثار قدیمہ کی تلاش میں مسجد اقصیٰ کی بنیادیں کھوکھلی کرنا، تیسرے ہزاریے کو ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا خدائی عہد قرار دینا اور اب چالیس سال سے کم عمر کے تمام مسلمانوں کا مسجد اقصیٰ میں داخلہ ممنوع قرار دے دینا سب ایک ہی مکروہ سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ سینکڑوں صہیونی تنظیمیں اور ادارے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیے مالی و فنی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اس دوران میں نام نہاد امن معاہدے، عالم اسلام سے اسرائیل کے تعلقات، نئے مشرق وسطیٰ کا نقشہ سب بظاہر تنازعے کا حل ہیں لیکن عملاً یہ سب کچھ اسی وسیع تر صہیونی ریاست کی تکمیل کی جانب قدم ہیں جن کا ذکر ہزاروں صہیونی و صلیبی کتب میں کیا جا چکا ہے۔

‎ جنگ عظیم اول تک برطانیہ نے ان تمام صہیونی منصوبوں پر عمل کیا، اب یہ ذمہ داری امریکہ نے اپنے سر لی ہے پہلے (League of nation) جمعیت اقوام نے صہیونی قبضہ جائز قرار دیا، اب اقوام متحدہ اس قبضے کو مستحکم کر رہی ہے۔ تب عرب حکمرانوں کو عرب و عجم کا حکمران بنانے کا دھوکہ دیا گیا اور اب خود فلسطین میں کئی سراب گزیدہ دستیاب ہیں۔

1969 ‎میں مسجد اقصی کو نذرآتش کر کے شہید کرنے کی مذموم کوشش کی گئی تھی اس وقت سید بادشاہ مودودی رح نے اس پورے صہیونی منصوبے کا احاطہ کیا تھا یہ تقریر آج کے حالات پر بھی اسی طرح صادق آتی ہے امت مسلمہ کے لیے راستہ آج بھی وہی ہے جس کی راہ سید ابوالاعلے نے نصف صدی پہلے دکھائی تھی اور جو ہمیشہ سے رب کائنات کی سنت ہے، جہاد فی سبیل اللہ

ہی فلسطین کی آزادی کا واحد راستہ ہے
بابائے جمہوریت اور بلند آہنگ شاعر نوابزادہ نصر اللہ خان نے کچھ یوں کہا تھا
غارت گری اہل ستم بھی کوئی دیکھے
گلشن میں کوئی پھول، نہ غنچہ، نہ کلی ہے
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے

اسلم خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم خان

محمد اسلم خاں گذشتہ تین دہائیوں سے عملی صحافت کے مختلف شعبوں سے منسلک رہے ہیں اب مدتوں سے کالم نگار ی کر رہے ہیں تحقیقاتی ربورٹنگ اور نیوز روم میں جناب عباس اطہر (شاہ جی) سے تلمیذ کیا

aslam-khan has 57 posts and counting.See all posts by aslam-khan

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments