کیا دیومالائی قصے کہانیوں میں کچھ حقیقت بھی ہو سکتی ہے؟

مارک پائیسنگ - بی بی سی فیوچر


طوفان

اساطیری یا دیومالائی قصے کہانیاں ہزاروں سال سے چلی آ رہی ہیں جن میں انوکھی مخلوقات، پریاں اور دیوی دیوتا ہوتے ہیں۔ تاہم ان میں ماضی میں رونما ہونے والی ماحولیاتی تباہیوں کے شواہد بھی ہوتے ہیں۔

جن پر یہ گزرتی ہے ان کے لیے تو یہ دنیا کے ختم ہو جانے کے برابر ہوتا ہے۔

سان فرانسسکو کے قریب واقع سیاحتی مقام سٹینسن بیچ کے رہائشی اس مطالعے کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کی جدوجہد سے گزر رہے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پڑوس کا ایک بڑا حصہ 20 سال سے بھی کم عرصے میں ایک فٹ پانی کے نیچے ہوگا۔

متمول افراد تو اونچی بنیادوں پر مکانات تعمیر کر سکتے ہیں اور مہنگے دفاعی انتظامات کرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں جس سے وقتی طور پر پانی کی سطح میں بلندی سے بچا جا سکتا ہے لیکن غریبوں کو اپنے گھروں کا نقصان اٹھانا پڑے گا یا انھیں اونچی زمینوں پر منتقلی کا راستہ تلاش کرنا پڑے گا۔

ہمارا خیال ہے کہ اکیسویں صدی میں پہلی بار ہماری نسلوں کو اس نوعیت کے سانحے کا سامنا ہوگا، لیکن ایسا نہیں ہے۔

آخری برفانی دور کے اختتام کے ساتھ ہی تقریباً 15 ہزار سال قبل سمندر کی سطح بڑھنے لگی تھی۔

پگھلنے والی زمین کی برف کی وجہ سے اس وقت سے لے کر اب تک سمندر کی سطح میں اوسطاً 360 فٹ (120 میٹر) کے لگ بھگ اضافہ ہوا ہے بعض اوقات اس میں اتنی تیزی سے اضافہ ہوا کہ بہت سے خطے غرقابی سے دو چار ہو گئے اور لوگوں کو اس سے حفاظت کے لیے سخت جدوجہد کا سامنا رہا۔

سنہ 2050 تک عالمی سطح پر سطح سمندر میں تباہ کن تین فٹ (ایک میٹر) اضافے کے امکان کے ساتھ ہی لاکھوں افراد کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑ سکتا ہے۔

محققین نے اب سمندر میں سما جانے والی زمینوں اور غرقاب شہروں کے بارے میں قدیم کہانیوں کو ایک نئے انداز میں دیکھنا شروع کر دیا ہے۔

یہ ہمیشہ صرف اچھی کہانیاں نہیں ہوتیں جو شاعری اور اساطیر سے بھری ہوتی ہیں لیکن یہ وہ نالیاں ہیں جن سے اس زمانے کا مجموعی شعور ہم تک آتا ہے جس میں وہ حقائق پنہاں ہو سکتے ہیں جن سے ہزاروں سال قبل برف کی چادریں پگھلنے کے وقت انسان دوچار ہوا تھا۔

کچھ محققین کا کہنا ہے کہ سمندر میں پھینکی جانے والی گرم چٹانوں کی یا سمندری دیواروں کی تعمیر کی کہانیاں حقائق سے متعلق معلومات پر مشتمل ہو سکتی ہیں اگرچہ ان میں کسی حد تک مبالغہ آرائی اور تحریف سے کام لیا گیا ہو۔

پانی کی سطح میں اضافہ

وہ ہمیں اس بات کی معلومات دیتی ہیں کہ ہمارے باپ دادا نے سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح پر کیسا محسوس کیا اور انھوں نے اس کے تعلق سے کیا کیا۔ اور وہ اس بات کے شواہد بھی فراہم کرتے ہیں کہ ان کا ردعمل بہت حد تک ہمارے جیسا ہی تھا۔ قدیم لوگوں کی بصیرت در حقیقت مستقبل میں جانیں بچانے کا وسیلہ بن سکتی ہیں۔

یہ محقق جیومائتھولوجسٹ کہے جانے لگے ہیں۔

امریکی ماہر آتش فشاں ڈوروتھی ویتلیانو نے سنہ 1967 کے ایک لیکچر میں یہ اصطلاح وضع کی تھی (جو قدیم یونانی فلسفی یوہیمرس کے خیالات پر مبنی ہے جو مشہور افسانوں کے پیچھے حقیقی واقعات یا لوگوں کو ڈھونڈنے کے لئے نکل پڑے تھے۔)

اگرچہ جیومائتھولوجسٹ کی اٹلانٹس کی اساطیر کی ابتدا یا پھر لوک نیس عفریت کے متعلق تحقیقات سنسنی خیز انداز میں شہ سرخیاں حاصل کر سکتی ہیں لیکن یہ ان سائنسدانوں کا کام ہے وہ کبھی اساطیری یا فسانہ سمجھی جانے والی کہانیوں کا مطالعہ کریں جس میں خواندگی سے قبل کے لوگ قدرتی تغیر و تبدل کا کس طرح مشاہدہ کرتے تھے۔

کیلیفورنیا کی سٹینفورڈ یونیورسٹی میں فوکلورسٹ، قدیم سائنس کی ماہر اور تاریخ داں اور ’فرسٹ فوسل ہنٹرز‘ نامی کتاب کی مصنف ایڈرین میئر کہتی ہیں کہ ’جیومتھز سائنسی رویے کی ابتدائی شاخوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔‘

اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ قدیم دور کے لوگ گہری بصیرت رکھتے تھے۔ اور وہ اپنے قابل ذکر قدرتی قوتوں کو بیان کرنے کے لیے اپنے مقام اور وقت کے بارے میں بہترین عقلی، مربوط سوچ کا استعمال کرتے تھے۔

آج، شائع شدہ مطالعات، حوالہ جات اور گوگل سرچ کے نتائج کی بڑھتی ہوئی تعداد ظاہر کرتی ہے کہ سائنسی طبقے میں اس طرح کے کاموں میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔

ان میں ابتدائی انسانی تاریخ میں آتش فشاں کے پگھلنے جیسے واقعات یا یہاں تک کہ بائبل یعنی انجیل کے موضوعات جیسے کہ آتش فشاں، زلزلے اور طاعون سے لے کر عبرانی بائبل میں پائے جانے والی بڑے پیمانے پر منتقلی کی کہانیاں وغیرہ شامل ہیں۔

واشنگٹن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے اور ‘راکس ڈونٹ لائی: اے جیولوجسٹ انوسٹیگیٹس نوحز فلڈ’ نامی کتاب کے مصنف ڈیوڈ مونٹگمری کہا کہنا ہے کہ ماہرین ارضیات نے یہ سمجھنا شروع کر دیا ہے کہ حقیقت میں انسانیت کی قدیم روایات اور کہانیوں میں بہت سی معلومات موجود ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگرچہ یہ ہماری آج کی سائنس کے حساب سے مختلف نوعیت کی معلومات ہیں تاہم پھر بھی یہ معلومات تو ہیں۔‘

بہرحال بہت سی جیومتھز ختم ہوتی جا رہی ہیں اور ان میں موجود معلومات کے کھو جانے کا خطرہ ہے۔

یونیورسٹی آف سنشائن کوسٹ میں جغرافیہ کے پروفیسر اور جیولوجسٹ پیٹرک نن کا کہنا ہے کہ ‘بحر الکاہل کے جزائر پر آباد بوڑھے ہمیشہ مجھ سے شکایت کرتے رہتے ہیں کہ نوجوان ہر وقت اپنے فون پر مشغول رہتے ہیں اور وہ واقعی اپنے دادا دادی کی کہانیاں نہیں سننا چاہتے۔‘

پیٹرک نن کی حال ہی میں ایک نئی کتاب ‘ورلڈز ان شیڈو: سبمرجڈ لینڈز ان سائنس، میموری اور متھ’ آئی ہے۔ انھوں نے کہا: ‘مجھے لگتا ہے کہ دنیا میں ہر جگہ زبانی رویات ختم ہو رہی ہیں کیونکہ وہ سماج تعلیم یافتہ ہو رہے ہیں۔ جو زبانی علم تھا وہ غائب ہو رہا ہے لیکن پھر بھی یہ ان کا دیسی علم ہی جو انھیں سطح سمندر میں اضافے سے نمٹنے میں مدد فراہم کرے گا۔‘

نن دنیا کے معروف جیومائتھولوجسٹس میں سے ایک ہیں۔ ایک تربیت یافتہ ماہر ارضیات ہیں وہ عام طور پر شارٹس اور ٹی شرٹ جیسے بین الاقوامی لباس میں بحرالکاہل کے جزیروں کو جوڑنے والے راستوں پر چلنے والی چھوٹی کشتیوں پر ہاتھ میں وائس ریکارڈر کے ساتھ دیکھے جاتے ہیں۔

ان کی تحقیق وسیع بحر الکاہل میں بکھرے ہوئے جزیروں میں پائی جانے والی اساطیری کہانیوں پر مرکوز ہے جس میں تیونیمینو جیسے غائب ہو جانے والے جزیرے کی کہانی بھی شامل ہے۔

برف پگھل رہے ہیں

اپنے تازہ ترین تحقیقی منصوبے کے لیے نن کو اپنے پیر گیلے کرنے کی ضرورت نہیں پیش آئی۔

وہ آسٹریلیا اور شمال مغربی یورپ کی ہزار سالہ پرانی کہانیوں پر تحقیق کر رہے تھے کہ قدیم اقوام نے برف کے پگھلنے کے بعد سطح سمندر میں اضافے کے تعلق سے پیش آنے والے مختلف تجربات کو کس طرح سمجھا اور اس کا کس طرح حل نکالا۔

اہم بات یہ ہے کہ آسٹریلیائی سواحل پر تقریبا چھ ہزار سال قبل سطح سمندر میں اضافہ ہونا بند ہوگیا تھا جبکہ شمال مغربی یورپ میں یہ آج تک جاری ہے۔

نن نے جن آسٹریلیائی دیسی کہانیوں کے 23 گروپس کا مطالعہ کیا ان میں برف کے پگھلنے کے عہد کے بعد سے قطعہ ارضی کے بدلنے اور طرز زندگی میں ہونے والی تبدیلیوں کی سات ہزار سالہ یادداشت محفوظ ہیں۔ ان میں سے دو خاص گروہوں میں ان تبدیلیوں کے خلاف ان کی مزاحمت واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔

کوئینز لینڈ کے ساحل پر کیرنز کے آس پاس آباد دیسی لوگوں میں سے گونگانی جی نے یہ کہانی سنائی جس کے مختلف ورژن شمال مشرقی آسٹریلیا کے مختلف حصوں میں پائے جاتے ہیں۔

اس کہانی میں گونیہ نامی شخص کے برے سلوک کی وجہ سے سمندر کا پانی زمین پر سیلاب کے طور آجاتا ہے اور پھر وہ اس کو روکنے کے لیے لوگوں کو منظم کرتا ہے۔

ایک دوسری کہانی میں بتایا جاتا ہے کہ اس پانی سے بچنے کے لیے وہ لوگوں کو پہاڑ پر لے جاتا ہے جہاں سے پانی کو روکنے کے لیے وہ لوگوں کی مدد سے گرم چٹانوں کو سمندر میں پھینکنے کا کام کرتا ہے۔

ایسا کرنے سے وہ سب سیلاب کو آگے بڑھنے سے روکنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

نن اور ان کے ساتھیوں نے جو کہانی وہاں سنی تھی شمال مغربی یورپ میں قدرتی طور پر اس کا روپ بالکل مختلف تھا۔ ان 15 یا اس طرح کی دوسری کہانیوں میں ڈوبے ہوئے شہروں کی تقدیر کا ذکر ہے، جن میں سے ہر ایک میں نام مختلف ہیں اور یہ برٹنی کے ساحل، چینل آف آئیلنڈز، کارن وال اور ویلز کے علاقوں میں مرکوز ہیں۔

نن کا کہنا ہے کہ چند ہزار سالوں سے جاری یہ ‘ثقافتی تسلسل’ بڑی چیز رہی ہو۔ دو کہانیوں میں بڑے پیمانے پر شہر کے دفاع کا ذکر ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں کے باشندے کئی نسلوں تک سمندر کے خلاف ہاری جنگ لڑتے رہے۔

بریٹنی میں یہ کہانی وائز کے بارے میں ہے جہاں راجہ کنگ گریڈلن راج کرتے تھے۔ جس میں سمندر کے پانی سے دفاع کے ایک پیچیدہ سلسلہ تھا کہ جب لہریں کم ہوتیں یا طغیانی کم ہوتی تو اضافی پانی کو سمندر میں چھوڑنے کے لیے بند کے دروازے کھول دیے جاتے۔

ایک بار راجہ کی بیٹی داہوت جو ایک بدروح کی گرفت میں تھی اس نے سمندر کی اونچی لہروں کے دوران یہ دروازے کھول دیے اور شہر سیلاب زدہ ہوگیا جس کی وجہ سے اس شہر کو ترک کرنا پڑ گیا۔ ویسٹ ویلز میں اسی طرح کی ایک کہانی خلیج کارڈین میں واقع کینٹری گویلوڈ شہر کے بارے میں کہی جاتی ہے۔

جاسوس کا کام یہیں نہیں ختم ہو جاتا۔ نن نے کہانیوں میں مذکور ساحلوں کے نکتوں کو جوڑنے میں کامیابی حاصل کی اور ماضی میں سطح سمندر میں آنے والی تبدیلیوں کے علم سے ان کہانیوں کی عمر چھ سے آٹھ ہزار سال بتائی ہے۔

نن کہتے ہیں: ‘ایک چیز جو ہم ان قدیم کہانیوں سے سیکھ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ سطح سمندر میں اضافے کو روکنا بہت آسان نہیں ہے اور یہ کہ ہم سمندری دیواروں سے اسے نہیں روک سکتے۔ اس کا واحد طویل مدتی حل منتقلی ہے یعنی خطرے سے دوچار لوگوں کو خطرے کی جگہ سے دور لے جایا جائے۔

جزائر

‘میرے خیال سے دوسری چیز جو ہم سیکھ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ماحولیاتی دباؤ کی ان اقسام کے مؤثر ترین تدارک مقامی ہیں۔ یہ ایسی چیز ہے جس پر سائنس نے واقعتا صرف پچھلے پانچ سالوں میں ہی کام کیا ہے۔

’لیکن اگر آپ سات ہزار سال پہلے جائیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ لوگوں نے مقامی طور پر کارروائی کی تھی اور وہ اس کی افادیت پر یقین رکھتے تھے اور انھوں نے خود ہی اسے انجام دیا تھا۔ انھیں کہیں اور سے ہدایات کا انتظار نہیں تھا۔‘

جیومائتھولوجی میں فروغ کے باوجود اسے اب بھی کچھ ماہرین تعلیم ‘چھلکے’ کے طور پر دیکھتے ہیں۔

میئر کا کہنا ہے کہ ‘شاید سائنسدانوں اور مؤرخین میں اب بھی دقیانوسیت کا عنصر موجود ہے۔ لیکن جیومائتھولوجیکل کہانیوں کا اظہار شاعرانہ استعاروں اور فسانوں یا مافوق الفطری تصورات میں ہوا ہے اور تباہ کن واقعات اور قدرتی مظاہر کی تفصیل ہزاروں سال پر محیط ہوسکتی ہیں، اور اسی وجہ سے سائنس دان اور مؤرخین ان داستانوں میں پوشیدہ سچی حقیقت کو اپنے عقلی تصورات کی کسوٹی پر پورا اترتا نہیں دیکھتے۔’

نن اس دلیل کو اور زیادہ پرزور انداز میں پیش کرتے ہیں۔

‘میں ایک روایتی طور پر تربیت یافتہ ماہر ارضیات ہوں اور میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ بہت سارے روایتی طور پر تربیت یافتہ ماہرین ارضیات اس طرح کی چیزوں کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو ان میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن بہت حد تک یہ ایسی چیزیں ہیں جنھیں قدامت پسندی کہا جاتا ہے اور اسی وجہ سے لوگ ان پر غور نہیں کرنا چاہتے۔

‘پڑھے لکھے لوگ بھی زبانی روایات کی طاقت کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں کہ سیکڑوں سال تک نسل در نسل یہ منتقل ہو سکتی ہیں۔’

دوسرے مسائل بھی ہوسکتے ہیں۔ مقامی لوگوں کی کہانیاں لینے اور ان کے بارے میں تحقیق شائع کرنے والے ماہرین آسانی سے ثقافتی تخصیص کے الزامات کا باعث بن سکتے ہیں اگر وہ پہلے اس کے متعلق اجازت لینے جیسے عمل کی پیروی نہیں کرتے۔

صحرائے گوبی

جیومائتھولوجسٹ کو سائنسی سٹیبلشمنٹ میں جگہ بنانے میں ایک طویل سفر طے کرنا پڑا ہے اور ابھی اس کی منزل نہیں آئی ہے۔

ڈوروتھی ویتالیانو نے اصطلاح کو پہلی بار استعمال کرنے کے ایک سال بعد انھوں نے جرنل آف دی فوک لور انسٹی ٹیوٹ میں لکھا تھا کہ جیومائتھولوجسٹ ‘تاریخی اساطیر کا ارضیاتی اطلاق’ ہے اور یہ کہ جیومائتھولوجسٹوں سے ‘داستان کو تاریخ میں واپس لانے میں مدد مل سکتی ہے’۔

اور اس کے پانچ سال بعد انھوں نے ‘لیجنڈز آف دی ارتھ (1973) نامی اہم کتاب لکھی۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ اب اشاعت سے باہر ہے۔

سنہ 2004 میں 32 ویں بین الاقوامی جیولوجیکل کانگریس میں جیومائتھولوجی پر پہلا اجلاس ہوا یعنی کہ اس میں کم از کم تین دہائی کا وقت لگ گیا۔

اس وقت بزرگ ویتالیانو نے تقریبا 250 افراد کی گنجائش والے کمرے میں جہاں تقریباً 100 افراد موجود تھے کو اپنا کلیدی خطبہ پیش کیا۔ اس کے چار سال بعد ماہر آتش فشاں چل بسے لیکن اس سے قبل انھوں نے سنہ 2007 میں شائع ہونے والے اس موضوع کے متعلق ایک جائزے کو دیکھا تھا۔

نن کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے سنہ 1970 کی دہائی میں اپنی کتاب کو شائع کرنے میں بہت ہمت کا مظاہرہ کیا کیونکہ اس کے بعد بہت سے ماہر ارضیات نے لمبے عرصے تک ان سے دوری اختیار کر لی۔ یہ سنہ 2004 میں بین الاقوامی جیولوجیکل کانگریس میں منعقد ہونے والا اجلاس تھا جس نے بہت سارے سائنس دانوں کے ذہنوں میں جیومائتھولوجی کے لیے زمین ہموار کی۔‘

ویتالیانو نے جس شعبے کی بنیاد رکھی ہے اس نے فروغ کی منزلیں طے کرنی شروع کر دی ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ میئر کو دی فرسٹ فوسل ہنٹرز (2000) کے لیے تحقیق کرنے اور اسے لکھنے میں 20 سال کا عرصہ لگا ہو لیکن انھوں نے جو کتاب دی اس نے ’فوسل متھز‘ کا نیا تصور پیش کیا کیونکہ فوسلز کی قدیم دریافت کے شواہد کا یہ پہلا منظم مطالعہ تھا۔

میئر کے نام سے مشہور ماہر ارضیات نے یونانی اور رومی اساطیری جانور گرفن (جس کا سر اور بازو عقاب کا اور باقی جسم شیر کا ہے) سے کے درمیان کنکشن بنایا۔ ان دیومالائی کہانیوں کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ عینی شاہدین کی روداد کی طرح ہیں۔ اور ڈائنوسار کے حیرت انگیز فوسل جو صحرائے گوبی کی سطح پر پائے جاتے ہیں، وہ یورپ اور چین کو جوڑنے والے قدیم تجارتی راستے شاہراہِ ریشم کا راستہ ہے۔

گفن

اپنی تازہ ترین تحقیق میں انھوں نے چین کی ماہر قدیم سائنس لیڈا شنگ کے ساتھ کام کیا ہے اور اس میں انھوں نے اس بات پر تحقیق کی ہے کہ چینی زبانی روایات میں مقامی ڈائنوسار کو کس طرح بیان کیا گیا ہے۔

مئی 2021 میں ٹموتھی بربیری کی کتاب ‘جیومائتھولوجی: ہاؤ کامن سٹوریز آر ریلیٹڈ ٹو ارتھ ایونٹس’ آنے والی ہے اور یہ جیومائتھولوجسٹ کی پہلی نصابی کتاب ثابت ہو سکتی ہے۔

ویسٹ ورجینیا کی مارشل یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر بربیری کا کہنا ہے کہ ’میئر نے جیوماتھولوجی کو اگلے درجے پر پہنچا دیا ہے جہاں انھوں نے نہ صرف ارضیاتی واقعات پر نظر رکھی ہے جبکہ قدیم اسطیر پر بھی توجہ مرکوز کی ہے کہ قدیم لوگوں کے لیے کسی عجیب و غریب جانور کی ہڈیاں دیکھنا کتنا عجیب ہو سکتا تھا۔‘

آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جیومائتھولوجی ہمارے ماضی اور ہمارے مستقبل کے بارے میں ہمارے سوچنے کے انداز کو چیلنج کرتا ہے۔

میئر کا کہنا ہے کہ ’جیومائتھولوجی اس یقین کو چیلنج کرتی ہے کہ تمام افسانے اور داستانیں صرف افسانے اور کہانیاں ہیں۔ جیومتھس طبی علوم کی معلومات اور تفصیلات کے خزانے ہیں جو بصورت دیگر کھو جاتے۔‘

حتیٰ کہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے نئے جیومیتھز بھی تیار کیے جا جاسکتے ہیں تاکہ ان پر غور کیا جا سکے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال سے گلوبل وارمنگ اور آب و ہوا میں تبدیلی اور سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح نئی جیومیتھ ہو سکتی ہے۔‘

نن کا کہنا ہے کہ ’سب سے اہم سبق یہ ہے کہ ہم (اس کے ذریعے) زندہ رہیں گے۔‘

اُنھوں نے کہا کہ ’اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات سے مطابقت پیدا کرنے والے بن جائیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے بچ جائیں گے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp