بیگم نسیم ولی خان: پختون سیاست کا پانسہ پلٹنے والی اصولی خاتون

فاروق عادل - مصنف، کالم نگار


‘فخر! ایک کام کرنا، کام کے لیے بندہ ڈھونڈنا، بندے کے لیے کام کبھی مت ڈھونڈنا۔’

یہ فخر کاکاخیل تھے جنھوں نے بیگم نسیم ولی خان کی وفات کی خبر سنی تو غم میں ڈوبی ہوئی آواز میں ان کا ایک قول سنایا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن فخر نے یہ نصیحت یاد رکھی ہے اور سُکھی ہیں۔

بیگم نسیم ولی خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پختون قوم پرست تھیں لیکن فخر کا تجربہ کہتا ہے کہ اس نصیحت نے اُنھیں قوم پرستی سے اوپر اٹھا کر میرٹ کے اعلیٰ ترین اصول پر کار بند کر دیا۔ سیاسی تنظیم اور نظم و ضبط کے معاملے میں بھی وہ ہمیشہ اسی اصول پر کار بند رہیں۔

کسی شخص کا خاندانی پس منظر کیا ہے اور سیاست میں اس کی وابستگی کیا رہی، ایسے سوالوں کے جواب مشکل نہیں ہوتے لیکن تاریخ میں اس کے مقام کا تعین کیسے ہوگا، تعصبات اور وابستگیوں کی اثر انگیزی کے باعث ایسے معاملات اکثر انصاف سے محروم رہ جاتے ہیں۔

بیگم نسیم ولی خان کے مقام کے تعین کے لیے ان کے زمانے اور اس زمانے میں ان کے کردار کا تجزیہ نہایت غیر جانب داری کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے۔

بیگم نسیم ولی خان پاکستانی سیاست کی نہایت بھاری بھرکم شخصیت ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں عین اس وقت متعارف ہوئیں جب ان (بھٹو صاحب) کی سیاست اور طاقت کا سورج عین نصف النہار پر تھا اور ان کے مخالفین ایک طرح سے مایوسی کے عالم میں اپنا کوئی خاص مستقبل نہیں دیکھتے تھے۔

بالکل یہی زمانہ تھا جب پشاور یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا۔

یہ آٹھ فروری 1975 کی بات ہے جب ایک بم دھماکے میں (اس وقت کے) صوبہ سرحد کے سینئر وزیر حیات محمد خان شیرپاؤ ہلاک ہو گئے۔ اس واقعے نے صرف پاکستان ہی نہیں خطے کی سیاست میں بھی رجحانات کو بدل ڈالا۔

سابق صوبہ سرحد کی کمیونسٹ پارٹی کے رکن اور جلاوطنی کے زمانے میں اجمل خٹک کے ساتھی جمعہ خان صوفی نے اپنی کتاب ‘فریب ناتمام’ میں دعویٰ کیا ہے کہ دہشت گردی کے اس غیر معمولی واقعے کے ذمے دار پختون زلمے کے وابستگان تھے جو اس زمانے کی نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے نوجوانوں کی تنظیم تھی۔

بینظیر اور بیگم نسیم

جمعہ خان کے مطابق اس واردات کے دو ذمہ داران انور باچا اور امجد باچا افغانستان فرار ہو گئے تھے لیکن پاکستانی پولیس ان کے بارے میں کچھ ایسے سراغ لگانے میں کامیاب ہو گئی جن سے یہ انکشاف ہوا کہ اس دہشت گردی کی ذمہ دار نیپ ہے اور ایسی کارروائیوں کا حکم براہ راست ولی خان دیا کرتے تھے۔

اس بنا پر دیگر کے علاوہ اسفند یار ولی، بیگم نسیم ولی اور پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے نثار محمد خان کو اس مقدمے میں ماخوذ کر لیا گیا۔

جمعہ خان صوفی کے مطابق اسفند یار اور نثار محمد خان کی گرفتاری تو ایسی تھی جیسے گیہوں کے ساتھ گُھن پس جاتا ہے لیکن نسیم ولی خان کا نام اس مقدمے میں بلاجواز شامل نہیں کیا گیا تھا کیوںکہ وہ ان تمام معاملات سے پورے طور پر آگاہ تھیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے نظریاتی راہنما سینیٹر افراسیاب خٹک اس کہانی کو تسلیم نہیں کرتے۔

انھوں نے ایک انٹرویو میں مجھے بتایا تھا کہ شیرپاؤ کے قتل کے واقعے کو بعد میں افغانستان میں پیدا ہونے والے واقعات کی تمہید سمجھنا چاہیے کیونکہ افغانستان میں ’ثور انقلاب‘ جیسے بڑے واقعات یا عالمی نظام کو ہلا دینے والے واقعات جہاں بھی رونما ہوتے ہیں، ان سے قبل اس طرح حادثات رونما ہو جایا کرتے ہیں۔

افغانستان کے واقعات اور ان سے قبل حیات محمد خان شیرپاؤ کے قتل ایسے واقعات ہیں جن کی تفصیل لامتناہی ہے لیکن ثانی الذکر کا نتیجہ پاکستان کی قومی اور خاص طور پر صوبہ سرحد کی سیاست کے تناظر میں غیر معمولی نکلا۔

نیپ پر دہشت گردی کی ذمہ داری عائد کر کے اس پر پابندی لگا دی گئی اور پارٹی کے سربراہ خان عبدالولی خان کو چھوٹے صوبوں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کئی اہم رہنماؤں کے ساتھ پابند سلاسل کر دیا گیا اور ٹربیونل قائم کر کے حیدر آباد سازش کیس کے عنوان سے مقدمے کی سماعت شروع کر دی گئی۔

اس مقدمے کی سماعت کی رفتار انتہائی سست تھی۔ لگتا تھا کہ اس مقدمے کے فیصلے سے پہلے ہی ملزمان جیل میں مر مرا جائیں گے۔ یہ اندیشہ اس لیے پیدا ہوا کہ مقدمے میں حکومت کے گواہوں کی تعداد 500 تھی لیکن ایک برس کی کارروائی کے دوران میں جن میں سے صرف پانچ افراد کی گواہی ہوسکی۔

یہی سبب تھا کہ اس مقدمے اسیر اور ممتاز شاعر حبیب جالب نے دوران سماعت ایک قطعہ کہا:

کون کہتا ہے، اسیروں کی رہائی ہوگی

یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی

ہم غریبوں کا امیروں پہ ابھی تکیہ ہے

ہم غریبوں کی ابھی اور پٹائی ہوگی

مایوسی کی یہی صورت حال تھی جس میں بیگم نسیم ولی خان متحرک ہوئیں اور ان کے تحرک سے قومی سیاست کا ایک طرح سے پانسا پلٹ گیا۔

پختون روایت کے مطابق بیگم صاحبہ ایک گھریلو خاتون تھیں اور بعض روایات کے مطابق وہ برقع بھی اوڑھا کرتی تھیں لیکن نیپ پر پابندی اور حیدرآباد سازش کیس میں ان کے شوہر کی گرفتاری کے بعد وہ ایک طاقت ور شخصیت کے طور پر ابھریں پختون معاشرے میں جس کا تصور بھی نہیں کہا جا سکتا۔

یہ واقعہ کیسے رونما ہوا، اس کے پس پشت ان کے سسر اور ولی خان کے والد خان عبد الغفار خان کے مزاج کو بھی بڑا دخل تھا۔

ایک بار انھوں نے خود بتایا کہ ولی خان کی گرفتاری کے بعد پریشانی کے عالم میں اپنے سسر کے پاس پہنچیں اور درخواست کی کہ ان کی رہائی کی کوئی سبیل کی جائے۔ خان عبد الغفار خان نے انھیں نہایت حوصلہ شکن جواب دیا۔ انھوں نے کہا:

‘ولی خان میرا بیٹا ہے، وہ تو جیلوں کے لیے ہی پیدا ہوا ہے، تم اگر اپنے شوہر کو بچانا چاہتی ہو تو بچا لو۔’

کہا جاتا ہے کہ یہ واقعہ غفار خان کے خانوادے کی سیاست کا ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا اور ولی خان کی اسیری میں ان کی سیاست کو زندہ رکھنے والی نسیم ولی خان اور خان عبد الغفار خان کے انداز فکر کے درمیان ایک واضح خط امتیاز کھچ گیا اور نسیم ولی کی فکر کا دھارا مختلف زاویے پر بہنے لگا جس کا اندازہ ان واقعات کے بعد بھی کئی دفعہ ہوا، اس سلسلے میں بیگم صاحبہ کے ایک جملے کا حوالہ دیا جاتا ہے جو ان کی سیاست کی وضاحت کرتا ہے۔

یہ ولی خان کے انتقال کے بعد کی بات ہے جب انتخابات میں ٹکٹوں کی الاٹمنٹ کے موقع پر کسی نے کہا کہ باچا خان بابا ہوتے تو اس موقعے پر فلاں کو ٹکٹ دیتے۔

اس موقع بیگم صاحبہ نے کہا کہ وہ زمانہ بیت گیا، موجودہ زمانے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ آپ کی پارلیمانی طاقت کتنی ہے۔

خان عبد الغفار خان سے مایوس ہو کو بیگم صاحبہ خفیہ طور پر کابل پہنچیں جہاں ان دنوں اجمل خٹک مقیم تھے۔ اجمل خٹک نے ایک بار بتایا کہ کابل میں انھیں کسی نے خبر دی کہ انھیں کوئی عورت ملنے کے لیے آئی ہے۔

وہ فوراً باہر آئے تو دیکھا کہ ایک عورت ہے جس کی اوڑھنی اور جوتے پھٹے ہوئے ہیں۔ یعنی ان کی حالت ایسی تھی کہ انھیں بھی پہچاننے میں دشواری ہوئی۔

اجمل خٹک نے انھیں حوصلہ دیا۔ بیگم صاحبہ کا یہ دورہ کابل پاکستانی تاریخ میں کئی اعتبار سے یاد گار اور اہم رہا۔

بینظیر اور بیگم نسیم

نسیم ولی خان کو اعتماد حاصل ہوا کہ وہ کوئی سیاسی کردار ادا کر سکتی ہیں، اس کے علاوہ اجمل خٹک کے ذریعے ان کے روابط اہم سیاسی شخصیات سے روابط استوار ہوئے اور بیگم صاحبہ نے سنہ 1977 کی انتخابی مہم میں پاکستان قومی اتحاد کے جلسوں سے خطاب کر کے سیاسی گہما گہمی پیدا کر دی۔

کہا جاتا ہے کہ شروع میں بیگم صاحبہ جب اتحاد کے پلیٹ فارم پر آئیں تو بھٹو صاحب نے مذاق اڑایا کہ مولوی ایک عورت کے پیچھے چل پڑے ہیں لیکن بعد میں جب انھیں بیگم صاحبہ کے سیاسی رابطوں کی خبر ہوئی تو وہ غیر معمولی طور پر سنجیدہ ہو گئے۔

بھٹو کی سنجیدگی کیوں اہم تھی، اس کا اندازہ پاکستان قومی اتحاد کے سیکرٹری جنرل پروفیسر غفور احمد نے اپنی کتاب’ پھر مارشل لا آ گیا’ اور پیپلز پارٹی کے راہنما مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب ‘اور لائن کٹ گئی’ میں لکھا ہے کہ قومی اتحاد میں مارشل لا کے مسئلے پر جب اختلاف پیدا ہوا تو بیگم نسیم ولی خان نے اصغر خان کا ساتھ دے کر پانسا پلٹ دیا۔ اس طرح نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی کے سربراہ سردار شیر باز خان مزاری بھی اسی گروپ میں چلے گئے۔

جنرل ضیا الحق کے جہاز کے حادثے کے بعد شروع ہونے والے سیاسی دور میں بیگم نسیم ولی کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو گیا اور وہ اے این پی میں بھی فیصلہ کن پوزیشن میں آ گئیں۔ پارٹی سیاست میں وہ اپنے بھائی اعظم خان ہوتی کی طرف داری کیا کرتی تھیں، اجمل خٹک کو بات پسند نہ تھی، اس وجہ سے پارٹی میں شدید کشیدگی پیدا ہو گئی۔

اس مرحلے پر بیگم صاحبہ کی سیاسی بصیرت ہی بروئے کار آئی اور ان کی تجویز پر اجمل خٹک کو اے این پی کا سربراہ منتخب کر کے بحران کو ٹالا گیا۔ بعد میں جب جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا اور اعظم خان ہوتی کی گرفتاری عمل میں آئی تو بیگم صاحبہ کے خیال میں اس کے پس پشت بھی اجمل خٹک ہی تھے۔

اپنے کثیر جہتی (متنازع یا غیر متنازع) سیاسی کردار کے باوجود بیگم نسیم ولی خان کی شخصیت کے کئی ایسے پہلو ہیں جس کے باعث قومی سیاست میں انھیں تادیر یاد رکھا جائے گا۔

ان میں ایک یہ ہے کہ سابق صوبہ سرحد اور موجودہ خیبرپختونخوا میں وہ پہلی خاتون ہیں جو عام انتخابات (1977) میں صوبائی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں اور بانی پاکستان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے بعد بھی وہی پہلی خاتون ہیں جنھوں نے قومی سیاست میں ہنگامہ خیز کردار ادا کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp