سبط علی صبا: یارِ بے پروا کے لئے ایک کالم


یہ شعر آپ نے پڑھا نہیں تو سُنا ضرور سُنا ہوگا:

دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی

لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنالئے

 اِس لافانی شعر کے خالق، سیالکوٹی ہم وطن اور شاعری میں میرے سینئر سید سبطِ علی صبا کی اکتالیسویں برسی 14 مئی کو گزری۔ صبح ہی صبح فیس بُک پر اُن کے فرزند میشاق علی جعفری کی تحریر پڑھ کر مجھے صبا مرحوم کی دنیا سے اچانک روانگی کا وہ المناک دن یاد آ گیا، جس کا نقش ذہن سے کبھی محو نہیں ہوتا۔ اُس وقت برٹش ہائی کمیشن اسلام آباد میں ایک سال بطور انٹرپرٹر نو کری کر کے مجھے گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کا لیکچرر مقرر ہوئے چوتھا سال تھا۔ مہینے میں دو ایک مرتبہ وِیک اینڈ والدین کے پاس واہ کینٹ میں گزرتا۔ وہی جگہ جہاں میری ابتدائی تعلیم ہوئی اور جو پاکستان آرڈنینس فیکٹری سے وابستگی کی بنا پر سبطِ علی صبا کا مسکن بھی رہی۔

خوب یاد ہے کہ اُس اختتامِ ہفتہ مَیں نے معمول سے ہٹ کر تین دن کی اضافی چھٹی اتوار کے ساتھ ملا لی تھی۔ سوچا کہ واپسی پہ بدھ کی صبح راولپنڈی سے بس پکڑ کر کھاریاں پہنچوں گا، جہاں واہ کالج میں انگریزی کے استاد اور میرے دوست افتخار یوسف رشتہء ازدواج میں منسلک ہونے والے تھے۔ ارادہ یہی کہ تقریبِ شادی میں شریک ہو کر کھاریاں سے لاہور روانہ ہو جاؤں اور پھر اگلے روز سے کالج میں تدریسی فرائض سنبھال لئے جائیں۔ میرا منصوبہ کیسے تہس نہس ہوا، یہ بھی عجب کہانی ہے۔ پہلے تو صبحِ کاذب کے وقت میرے والد پہ ہائی بلڈ پریشر کا حملہ ہوا اور مجھے بھائی زاہد کی مدد سے انہیں بے ہوشی کے عالم میں پی او ایف ہاسپٹل لے جانا پڑا۔ مریض کی صور ت حال کے پیشِ نظر یہ طے تھا کہ اب انہیں کئی روز وہیں رہنا ہو گا۔

چند ہی گھنٹے گزرے ہوں گے کہ اسپتال ہی میں سبطِ علی صبا کے بارے میں یہ روح فرسا خبر ملی کہ صبح ڈیوٹی پہ جاتے ہوئے دل کا دورہ پڑا اور چوالیس برس کی عمر میں حدودِ وقت سے آگے نکل گئے۔ میرے مولا، یہ کیا ہوا؟ کوئی نہ پوچھے کہ ہمارے لئے یہ کتنا عجیب و غریب، کسِ قدر غمناک اور کیسا ناقابلِ یقین واقعہ تھا۔ تب تک صبا کے بہنوئی اور ہمارے بہت پیارے مشترکہ دوست سید حسن ناصر ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کی غرض سے ریڈیو پاکستان راولپنڈی کے لئے نکل چکے تھے۔ وہاں فون کیا گیا۔ ناصر کو بستی کاریگر (موجودہ لالہ رخ) کے بس اسٹاپ سے موٹر سائیکل پہ لینا میری ذمہ داری تھی۔ ناصر، جو پاکستان آرڈنینس فیکٹری میں ورکس مینجر تھے، میرے سامنے بس سے اترے اور شدید صدمے کی حالت میں ایک دھماکے کے ساتھ سڑک پہ گر پڑے۔ کچھ نہ پوچھئے کہ انہیں صبا کے گھر تک کیسے پہنچایا ۔

سہ پہر کو نمازِ جنازہ کے لئے ایک ہجوم امڈ آیا۔ ذاتی عزیز اور دوست، شاعر، ادیب، ہر عمر اور طبقہ کے چاہنے والے۔ لوگ کھُلی سڑک پر صفیں باندھ رہے تھے کہ ایک مقامی نعت خواں نے بلند آواز سے کہا: ”ہم اِس مولوی کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے۔“ اشارہ مسلکی اختلاف کی طرف تھا، جس کا حاضرین میں سے اُس وقت تک کسی کے ذہن میں شائبہ نہیں تھا۔ پہلے تو یہ اعتراض سمجھ میں نہ آیا۔ پھر قیصر عابدی نے، جو بزرگ شاعر ظفر ابن متین کے داماد تھے، بہت شائستگی سے کہا ”سنی بھائی اپنا امام لے آئیں، ہم اُن کے پیچھے نماز پڑھ لیں گے۔“ مَیں ابھی نوعمر تھا، لیکن یہ مشورہ دیے بغیر نہ رہ سکا کہ دونوں مولوی صاحبان یکے بعد دیگرے امامت کرا لیں اور ہر کوئی اپنی مرضی کے امام کے پیچھے نماز ادا کر لے۔

الحمد للہ ایسا ہی ہوا۔ عینی شاہدین تصدیق کریں گے کہ اکثر قریبی دوستوں، مقامی شعرائے کرام، واہ کے محنت کشوں اور کئی ایک افسروں نے، جو سب غم سے نڈھال تھے، کسی تنگ نظری کے بغیر، برضا و رغبت دونوں اماموں کے پیچھے نماز ادا کی تھی۔ تو کیا دنیا سے ناوقت اُٹھ جانے والے کی بڑائی اسی میں ہے کہ اُس کے اعزاز میں آگے پیچھے دو جماعتیں ہوئیں؟ یہ صبا مرحوم کی عوامی قبولیت کا محض ایک پہلو ہے۔ ذاتی بات کروں تو میرا کھاریاں اور پھر لاہور تک کا سفر بیچ میں رہ گیا تھا۔ بس، سبط علی صبا کی یہ غزل کئی روز تک حواس پہ چھائی رہی::

ہر صبح پرندوں نے یہ سوچ کے پر کھولے

 اِن آہنی پنجروں کے شاید کوئی در کھولے

 زردار کے کمرے کی دیوار کے سائے میں

 بیٹھے ہیں زمیں زادے کشکولِ نظر کھولے

 ہم سہل پسندوں نے آنکھیں ہی نہیں کھولیں

 دھرتی تو ازل سے ہے گنجینہء زر کھولے

 ساون میری آنکھوں سے خوں بن کے برستا ہے

 جب کوئی زمیں زادی دربار میں سر کھولے

 سبط علی نے یہ غزل ہمارے کچنار روڈ والے گھر میں زمان ملک کے ایما پہ ہونے والے نجی مشاعرے میں سنائی تھی، جس کی نظامت علی مطہر اشعر نے کی۔ تب شاہد نصیر دنیا سے جا چکے تھے، مگر یادوں کے اِس البم میں پنڈی اور واہ کے شعرا میں سے ڈاکٹر ظہیر فتح پوری، پروفیسر سجاد شیخ، سبط علی صبا، ظفر ابن متین، حسن ناصر، نظیر اختر اور سجاد بابر کی تصویریں بھی اب باقی نہیں رہیں۔ بس ظہیر فتح پوری کی غزل کی گونج ہے جس کا گیت نما آہنگ صبا کے جانے کا اشارہ دے رہا تھا:

 جگ میلہ، جیون نو ٹنکی، سُکھ جھولا

 سب دھوکا ہے لیکن جو ہمیں جینا ہو

 لمحے کشکول لئے گزرے جاتے ہیں

 اِک سکہ ء غم، اے زیست کہ جی ہلکا ہو

 سیالکوٹ کے قصبہ کوٹلی لوہاراں میں پیدا ہونے والے سبط علی صبا نے اولین ملازمت پاک فوج میں کی اور ریزرو کے طور پہ 1965 ء میں ٹینک سے ٹینک ٹکرانے کی کارروائی میں بھی حصہ لیا۔ واہ کا یہ مشاعرہ اِس لئے بھی یاد گار ہے کہ اُسی شام جید نظم گو پروفیسر آفتاب اقبال شمیم نے جنگ کے دنوں کا ایک منفرد واقعہ سنایا جس کا مرکزی کردا ر سبطِ علی صبا ہیں۔ کہنے لگے: ”مَیں کلاس میں پڑھا رہا تھا۔ ایک لڑکے نے آ کر بتایا کہ کوئی آپ سے ملنے آیا ہے اور کہتا ہے بہت ضروری کام ہے۔ مَیں کلاس سے نکلا۔ دیکھا کہ جوبلی ہال کے باہر ایک فوجی ٹینک کھڑا ہے، ساتھ ہی مکمل جنگی لباس میں ایک باوردی جوان۔ غور کیا تو سبطِ علی صبا۔ آواز آئی:”ہماری رجمنٹ یہاں سے گزر رہی تھی، سوچا یار کو ملتا جاؤں۔“ گورڈن کالج کی تاریخ میں یہ پہلا اور آخری واقعہ ہو گا کہ ’بیٹل ڈریس‘ میں ملبوس کوئی فوجی جوان دوست کو ملنے کے لئے ٹینک پر سوار ہو کر آیا۔

 سبط علی صبا کی کئی باتیں پھر ذہن پہ طلوع ہو رہی ہیں۔ فوجی جیون کے پس منظر میں شاعری، پھر اُنہیں پہلی بار کب دیکھا تھا، کس کس موقع پہ مجھے صبا سے شاباش ملی، فانوسِ ادب اور بزمِ فروغ ِ سخن کے ادبی اور ’دیوار کیا گری‘ والے شعر پہ سجاد بابر کا ابتدائی مشورہ کہ ’کچے‘ کو ’خستہ‘ کر لو۔ یہ کہانیاں اور ہم عصروں میں سے حلیم قریشی، جلیل عالی، بشیر آذر، الیاس صدا، جاوید خان اور انٹرنیشنل ٹیکنیکل اکیڈمی والے پرویز الطاف شاہ کے قصے ایک دلپذیر موضوع ہیں۔ فی الوقت تو ’یارِ بے پرواہ‘ کے نام سے سبط علی صبا پہ آفتاب اقبال شمیم کی نظم سنئے، جو ہمارے نجی مشاعرے کے چند ہی دن بعد دوبارہ پیکنگ یونیورسٹی چلے گئے اور جب پلٹے تو ’یارِ بے پروا‘ دنیا میں نہیں تھا:

 مجھے ملنے نہیں آیا

عظیم الشان سناٹے کی اِس اقلیم میں

شاید مجھے تنہا، بہت تنہا حسن ابدال تک جانا پڑے گا

ایک متحر ک خلا کے ساتھ

اک بے انت دُوری کے سفر پر

کیوں نہیں آیا؟

ہمیشہ کا وہ سیلانی

ذرا اُس کو صدا دو

وہ یہیں ان خوشبووں کی اوٹ میں شاید چھپا ہو

کیا خبر وہ یارِ بے پروا کسی چاہت کے کنجِ خواب میں

 دبکا ہوا ہو

 ہاں صدا دو نا۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments