ایک پتھر



انتساب:
1948 میں فلسطینیوں کے جبری انخلا کی یاد میں منائے جانے والے دن النکبة ( 15 مئی) کے نام

پچپن سالہ وجیہہ الشکل حارث نے اپنے اوزاروں کو دیکھا پھر اس پہلی اینٹ کو جس سے اس نے اپنے مکان کے توڑنے کے عمل کو شروع کرنا تھا۔ اس نے ہاجرہ کو اشارہ کیا کہ وہ وہاں سے چلی جائے مگر وہ اس سے آ کر لپٹ گئی۔ حارث کی آنکھوں کا جیسے بند ٹوٹ گیا تھا لیکن ہاجرہ کے تمام آنسو پہلے ہی برس چکے تھے۔ ’کوئی بات نہیں، ہم تو ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ اور پھر وہ پرے ہو گئی۔ حارث نے ہتھوڑا اٹھایا مگر اینٹ پہ ضرب نہ لگا سکا۔ دبلی پتلی ہاجرہ آگے بڑھی، بہت مشکل سے اس نے ہتھوڑے کو سنبھالا اور اینٹ پہ زور سے دے مارا۔ دونوں کے دل دہل گئے جیسے ان کے اندر ایک بم پھٹ گیا ہو جیسے اس ضرب نے ان کی روحوں کو گھائل کر دیا ہو۔

اسرائیل کے مشرقی یروشلم کے قبضے کے تین سال بعد حارث کو یروشلم کی بلدیہ سے نوٹس ملا کہ اس کا مکان غیر قانونی ہے اور ناجائز زمین پر بنا ہوا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ سات سے زیادہ نسلوں سے آباد یہ مکان کیسے غیر قانونی ہو سکتا تھا۔ حارث دو سال تک اس نوٹس کی تنسیخ کے لئے تگ و دو کرتا رہا۔ اپیلیں دائر کیں، کچہریاں بھگتیں، این جو او کے دروازے کھٹکھٹائے، وہ سب جگہ گیا اور سب کچھ کیا۔ اب تین ماہ پہلے اس کی اپیل عدالت عالیہ نے سماعت کے لئے مسترد کر دی تھی اور بلدیہ کا جرمانہ بڑھتا جا رہا تھا۔

حارث اس مکان کی ایک ایک اینٹ ایک ایک پتھر سے واقف تھا، درودیوار، کھڑکی، چھت، حتی کہ اس مکان کی ہر میخ اس کے خاندان کا حصہ تھی۔ یہ صرف پتھروں، سیمنٹ، لوہے اور لکڑی سے بنی ہوئی کوئی چیز نہیں تھی۔ اس نے ہر خوشی ہر غمی کے موقع پر ساتھ نبھایا تھا، دسیوں انسانوں کو اپنی چہار دیواری میں پہلا سانس لیتے دیکھا اور آخری ہچکی لیتے سنا، جنگ کے دنوں میں امن کا گہوارہ بنا، اپنے مکینوں کو زمانے کی سختیوں سے بچایا اور پانی ہوا روشنی اور سائے کی نعمتوں سے اپنے چاہنے والوں کی پذیرائی کی۔ اس مکان کے اندر اور بھی کتنے مکان تھے! ہر سال اس کے گھنے درختوں میں بے شمار گھونسلے بنتے۔ صبح کے وقت پورا گھر ان گھونسلوں کے باسیوں کی وجہ سے چہچہا اٹھتا۔ حارث اور ہاجرہ آنکھ کھلنے کے بعد بھی کچھ دیر لیٹے رہتے اور ان پرندوں کی کوک میں گم ہو جاتے۔

دو ماہ کی انتھک مشقت کے بعد حارث اپنے آبائی مکان کو توڑ چکا تھا اپنے ہی ہاتھوں سے۔ اس کے دونوں ہاتھ چھالوں سے بھر گئے تھے۔ ’میرے آبا و اجداد کے ہاتھ بھی تو چھالوں سے لبریز ہوئے تھے جب انہوں نے اس مکان کی اینٹیں اور پتھر چنے، چھت ڈالی، رنگ و روغن دے اس کو سجایا اور اس کو ایک شکل دی لیکن میں نے اس کی ایک ایک اینٹ اور پتھر کو توڑ کر اس کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔‘ وہ ان دو ماہ زخمی پرندے کی طرح تڑپتا رہا۔ آخری دن اس نے ایک پتھر کو اٹھا کر اپنے تھیلے میں ڈالا اور بھائی کے گھر چلا گیا جہاں وہ پہلے ہی منتقل ہو چکا تھا۔

حارث کام سے واپسی پر اپنے گھر کے ملبے کے سامنے چند لمحوں کے لئے رک جاتا۔ ایک دن اس نے دیکھا کہ وہاں تنظیم برائے آباد کاری کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ ’کیا کچھ نئے مہاجرین کو بسانے کے لئے میرے گھر کو اجاڑنا ضروری تھا؟‘ اس دن کے بعد سے حارث سونے سے پہلے ضرور اس مکان کے ملبے سے لائے ہوئے پتھر کو دیکھتا اور کبھی کبھار اس سے ہم کلام بھی ہوتا، وہ روز اپنی زمین پہ نئی عمارت کی تعمیر کی تیاریاں دیکھنے جاتا اور رک کر ایک فلسطینی مزدور سے صرف ایک دو منٹ کے لئے بات کرتا کیوں کہ زیادہ دیر ٹھہرنے کی وجہ سے وہ پولیس کی نظروں میں آ سکتا تھا۔ ایک دن وہ اپنے محبوب پتھر کو ایک تھیلے میں ڈال کر ساتھ لے کر آیا اور اسی مزدور سے سلام و دعا کرنے کے بعد تھیلا اس کے حوالے کر دیا۔ گھر پہنچا تو ہاجرہ نے گھورتے ہوئے پوچھا۔ ’یہ تمہارا سانس کیوں اتنا پھول رہا ہے۔ سب خیریت ہے نا!‘

وہ ہاجرہ کے بالکل قریب آ گیا۔ ’ہاجرہ ہاجرہ وہ مکان اب بھی ہمارا ہے۔‘
’وہ کیسے؟ حارث کیا بلدیہ نے نوٹس واپس لے لیا ہے؟‘ ہاجرہ کی آواز کتنی اونچی ہو گئی تھی!
’نہیں نہیں۔ بلدیہ نے نوٹس واپس نہیں لیا۔‘
’پھر۔‘ اس نے حارث کا ہاتھ پکڑ کر اسے کرسی پہ بٹھایا۔ ’ہمارا کیسے ہو گیا!‘

’میں صحیح کہہ رہا ہوں۔‘ حارث کا چہرہ کھل گیا۔ ’اس نئی عمارت کی بنیادوں میں ہمارے گھر کا پتھر پڑ گیا ہے۔‘

حوالہ جات: یہ کہانی درج ذیل ویڈیو سے متاثر ہر کر لکھی گئی۔
https://interactive.aljazeera.com/aje/2017/jerusalem-2016-home-demolitions/index.html


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments