بستی بے داد گراں


وہ موت سے نہیں ڈرتا لیکن خوف زدہ ہے۔ وہ اس کارواں میں شامل ہے جو ایک پتھریلی زمین کو ہموار کر کے اس میں خوبصورت بستی بسانا چاہتا تھا۔ ان پتھروں سے پہلے ایک گھنا جنگل ہے جس میں خونخوار درندے ہیں۔ کچھ نظر آتے ہیں کچھ پوشیدہ ہیں۔ ان کی آوازیں رات کی تاریکی اور کمرے کی چپ چاپ میں خوف زدہ کر دیتی ہیں۔ وہ موت کے علاوہ کسی سے بھی نہیں ڈرتا۔ وہ جانتا ہے کہ موت ایک بڑا سچ ہے۔ بندے میں زندہ رہنے کا کوئی مقصد اور تمنا نہ ہو تو سب بیکار ہے۔

لیکن چونکہ پتھریلی زمین کو ہموار کر کے ایک بستی بسانا اس کا مقصد ہے اس لیے اسے زندہ رہنے کی تمنا ہے اور یہ تمنا ہی اسے موت سے خوف زدہ بھی رکھتی ہے۔ درندوں کی آوازیں بعض اوقات دہلا دیتی ہیں اور ایسے میں اس پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے لیکن کچھ دیر بعد وہ اپنے حواس پر قابو پا ہی لیتا ہے۔ جو علم و ہنر اسے میسر ہے اس کے سبب وہ زندگی موت کی باتیں بخوبی سمجھتا ہے۔ اسے تصورات اور امکانات کا ادراک ذرا مختلف طریقے سے ہے۔ زندگی اور موت کے اس فلسفے اور شعور کو نظر انداز کر کے وہ پتھریلی راہ ہموار کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ گو درندے قدم قدم پر راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں

یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے سے پہلے یسر نا القرآن سے لے کر کنفیوشش، لاوز، بدھاء مھاویرا، زرتشت، سقراط بقراط افلاطون، الکندی، الرازی سے لے کر ابن رشد، سماجیات، تاریخ، فلسفہ، ڈیکارٹ اور روسو، ایڈم سمتھ، اور جارج ہیگل، مارکس سے لے کر ٹراٹسکی اور آرٹیفیشیل انٹیلی جنس تک وہ سب پڑھ چکا تھا اور بہت سے وراثتی جبر اپنے دماغ سے اتار چکا تھا۔ اسے استاد اچھے ملے تھے جن کی تربیت اس کے کام آئی اور کتابوں کا مطالعہ اس کے اندر گہرا اترتا اور اس پر اثر کرتا گیا۔

وہ کئی کئی دن تازہ مطالعہ کی ہوئی کتاب کے اندر ہی بسر کرتا۔ ایسا نہیں کہ وہ روزمرہ کے کاموں سے فارغ تھا۔ ملازمت، جس سے اب وہ ریٹائر ہو چکا ہے، گھر گھرہستی کے تمام فرائض وہ اپنی مقدور بھر کوشش سے بطریق احسن انجام دینے کی کوشش کرتا رہا تھا۔ وہ اب بھی کتاب کے جادو میں رہتا ہے۔ مطالعے کا یہ جادو اس کے لیے بہ یک وقت سکون بخش اور تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔ اسے اپنے ارد گرد کچھ اور نظر آتا ہے اور کتابوں میں کچھ اور ہی لکھا ہوتا ہے۔

یہی وہ کونفلیکٹ ہے جسے سمجھنے میں اس کی زندگی مصروف ہوتی گئی۔ کارواں کے باہر بستی کے لوگ اس کی اس مصروف زندگی کو بے مصرف زندگی کہتے ہیں۔ اس نے اپنے کئی خواب کسی اور وقت کے لیے اٹھا دیے تھے کہ پہلے وہ اس گھنے جنگل میں چھپے روایتی عفریتوں سے نبرد آزما ہونا چاہتا ہے، اس نے ٹھان رکھی ہے کہ جنگل میں چھپی رجعت پسندی اور پسماندہ سوچ سے جنگ کرتا وہ آخر کار راستہ بنا کر ہی دم لے گا۔ راستہ بنانے کے لیے اسے ان پتھریلی اور نا ہموار کھائیوں اور پگڈنڈیوں کو بھی سر کرنا ہے، وہ چاہتا ہے کہ جو کچھ اس نے سیکھ رکھا ہے اور جس کے لیے اس نے بے پناہ تگ و دو کی ہے، اسے اپنے دوستوں اور اگلی نسل تک پہنچائے۔

اور اس کام میں وہ کسی مصلحت یا مروت کا قائل نہیں، خواہشوں کی آلودگی پاکیزگی، فاصلے، کابلی یا تھکاوٹ۔ اس نے سب کو تج کر رکھا ہے، لیکن وہ خود بہت مشکل میں ہے۔ لوگ اس کی باتیں دھیان سے سنتے ہیں، سراہتے ہیں، اس کے کہے جملوں کو بعض اوقات اپنے نام سے سوشل میڈیا پر بھی چلا دیتے ہیں لیکن غور کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ان کے اہداف میں پیسہ کمانا اور سٹیٹس کی سیڑھیاں چڑھنا نمایاں ہے۔ ایسے میں وہ اپنے آپ کو بعض اوقات بہت اکیلا محسوس کرتا ہے۔

وہ اپنے بہت قریبی ساتھی کی آنکھوں میں اپنا خواب دیکھنا چاہتا ہے لیکن جنگل اور پتھریلی زمین کی آب و ہوا اتنی مسموم ہے کہ اس کی اپنی آنکھیں زنگ آلود ہوتی جا رہی ہیں۔ اس کے کمرے کے باہر دانہ چگنے والی فاختہ بھی شام ہوتے ہی کہیں اور کوچ کی تیاری کرتی ہے۔ یوں وہ اس کے سامنے دل کی بھڑاس بھی نہیں نکال سکتا۔ سورج ڈوب جاتا ہے، تاریکی پھیل جاتی ہے۔ ہر چیز بے صدا ہو جاتی ہے۔ وہ اپنا محاسبہ بھی کرتا رہتا ہے کہیں اس سارے میں اس کا اپنا دوش تو نہیں لیکن اسے یقین ہے کہ اس کے وجود کے باہر کی دنیا غرضوں، خواہشوں، بے اعتدالیوں، ظلم اور جور سے بھری ہے اور لوگ منافقت کے عادی ہو کر اس میں اس حد تک پھنس چکے ہیں کہ ان کا نکلنا محال ہے۔ یا شاید وہ نکلنا ہی نہیں چاہتے۔

کیا میں کوئی مصلح یا ریفارمر ہوں۔ وہ سوچتا ہے۔ کیا میں نے سماج سدھار کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود وہ ارد گرد پھیلی جہالت، مفاد پرستی اور منافقت پر اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہے۔ بعض اوقات اسے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ابھی اس کے کان، آنکھیں اور چہرہ زمین پر جا گریں گے۔ چائے اس کا پسندیدہ مشروب ہے اور سہ پہر کی چائے کے کپ سے اٹھنے والی بھاپ اس کے سامنے کئی شکلیں بناتی بگاڑتی رہتی ہے۔ اچھی صورت، اچھی مورت، اچھی فلم، اچھی کہانی اور اچھی موسیقی شروع ہی سے اس کی کمزوری رہے ہیں لیکن اب وہ کسی ایسی کیفیت میں ہے کہ دور سے آتے کسی پسندیدہ گیت کے بول، باغ میں کھلی پھول کی نوزائیدہ پنکھڑی، چاند کی چاندنی یا گھاس پہ گری شبنم، کسی میں اسے کوئی لطف نہیں ملتا۔ اس کے ارد گرد کی ہوا میں ممانعت اور انکار ہے۔ چیزیں اسے اصلی روپ میں کیوں نظر آتی ہیں، وہ سوچتا ہے تو چہرے پر حیرت کا زرد رنگ پھیل جاتا ہے۔

نیند میں وہ خواب میں پتھروں سے ٹکرانا، راہ ہموار کرنا، بستی میں خوبصورت پھول لگا کر خوش ہوتا ہے لیکن انکھ کھلنے پر وہ دیکھتا ہے کہ سب کچھ ویسا ہی ہے، نہ آسمان بدلا نہ زمین۔ بر چیز اپنی جگہ پر جامد، ماہ و سال اور شب و روز شاید برف کی طرح جم گئے ہیں، نہ کہیں قدموں کی چاپ ہے نہ دروازہ کھلنے کی آواز، نہ کہیں بارش، نہ پھول نہ پت جھڑ۔ بہت دیر سے ایک ہی موسم ہے۔ شیلف میں رکھی کتابوں پر دھول جمی ہے۔ یہاں اب مطالعے کا رواج ہی نہیں رہا، دماغوں میں جالے ہیں اور دلوں میں لالچ کی حکمرانی۔

شہر کی گلیوں میں دھواں اور گھروں کے اندر تاریکی اور بھوک ہے اور اس بھوک نے زندگی کا چلن بدل کے رکھ دیا ہے، اب نہ کوئی پتھر کاٹتا ہے نہ نہرٰیں نکالتا ہے۔ بھوکا بھوک میں مجبور اور بھرے پیٹ والا بھرے پیٹ میں مگن ہے۔ ویسے بھی محنت مشقت اور تلاش کی جگہ ایک کلک نے لے لی ہے۔ اس کی اپنی اولاد اس کی بات کی تصدیق کے لیے گوگل کرتی ہے یہی حال رہا تو آنے والے چالیس پچاس برسوں میں یہ بچے شاید ایلگورتھم میں ملبوس ہوں۔ وہ سوچتا ہے۔

گھنے جنگل کو صاف کرنے اور فرسودہ جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے کی خواہش آپ بھی موجود ہے لیکن کبھی کبھی کراہت کی صورت میں ابھرتی ہے اور اس کی سانسوں سے قے کی صورت باہر نکل آتی ہے۔ وہ ایک گہری آزمائش میں ہے لیکن ہمت جتائے رکھتا ہے۔ اب اسے ایک اور خوف نے گھیر رکھا ہے کہ معلوم نہیں اس کی سانسیں اسے اتنی مہلت دیں گی کہ وہ اپنا خواب پورا ہوتا دیکھ سکے گا یا نہیں۔ جہاں کہیں، جتنا

بھی ہو سکے، جتنا بھی موقع مل سکے وہ اپنا کام جاری رکھنا چاہتا ہے۔ شاید کچھ اور لوگ بھی ایسا کر رہے ہوں۔ ان سب کے کاموں کو جمع کرنے والا بھی کوئی بو شاید اور اس شاید کے آگے پھر ایک گہرا سناٹا اور تاریکی ہے۔

تم اپنی جان کیوں ہلکان کیے دے رہے ہو؟

وہ اس سے پوچھتی ہے تو وہ تلخ سی مسکراہٹ سے مسکرا دیتا ہے کہ جو خواب اس نے بھر پور جوانی میں دیکھا تھا اسے تو ہر صورت پورا کرنے کی سعی کرنی ہی ہے۔ جوانی میں دیکھے خواب بڑھاپے تک پیچھا نہیں چھوڑتے۔ وہ اپنے اس خواب کو خالی باتوں کے لباس سمیت گہرے گڑھے میں تو دفن نہیں کر سکتا۔ ہاں عمر کی اس منزل میں اسے خود دفن ہو جانے کا خوف ضرور ہے لیکن اس سے زیادہ کام ادھورا رہ جانے کا خوف ہے

اس کاروان میں اس کے بہت ساتھی تھے۔ پتھریلے علاقے میں بہت سی چٹانیں تھیں گہری کھائیاں اور گھاٹیاں بھی۔ دوستوں کا جذبہ بہت جواں تھا، اتنا جواں کہ وہ درندوں اور عفریتوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اور کسی بھی قیمت پر اس زمین کو ہموار کر کے سب کے لیے برابر کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اس پتھریلی زمین کا گچھ حصہ ہموار کیا بھی لیکن ایک روز ایک بہت بڑی مونچھوں اور سرمے سے سیاہ کی ہوئی آنکھوں والا عفریت ان سے ٹکرا گیا اور کارواں تتر بتر ہو گیا۔

اس کارواں کے کچھ لوگ جان سے گئے، کچھ جان بچانے کی خاطر بستی ہی چھوڑ گئے، کچھ نے ارادہ بدل لیا اور کچھ این جی اوز کو پیارے ہو گئے۔ اس صورت حال نے اسے بھی بہت ابتر کیا۔ کافی عرصہ اس نے اپنی زبان بند رکھی لیکن اس کا قلم چلتا رہا، اس کا جذبہ اب تک قائم ہے لیکن اب وہ اکیلا ہے اور تنہائی میں کڑھتا رہتا ہے کہ زمین کا جو حصہ صاف کیا تھا وہ پھر لالچ، حرص، بنیاد پرستانہ جنون اور رجعت پسندی کے پتھروں سے اٹا پڑا ہے۔

شکست اسے اندر ہی اندر طنز کے تیروں سے چھلنی کرتی رہتی ہے۔ پابندیاں بہت ہیں، آس پاس گھورنے والی آنکھیں بھی کم نہیں، تعزیرات کے دو موئی سانپ ہیں۔ لیکن وہ شکست تسلیم نہیں کر سکتا کہ اس کا جذبہ ابھی تک ماند نہیں پڑا، ہاں عمر کے اس حصے میں وقت کم رہ جانے کا قلق اس کے لیے سوہان روح بن چکا ہے۔ وہ موت سے نہیں ڈرتا لیکن کیا وہ اسے ادھورا کام مکمل کرنے کے لیے کچھ وقت دے گی؟ ہر رات اسے ایسے لگتا ہے کہ اس کا نروس بریک ڈاؤن ہو جائے گا اور اگلی صبح وہ نہ جانے کس حالت میں ہوگا لیکن پتھریلی زمین کو سب کے لیے ہموار کر کے آسودہ بستی بسانا اب بھی اس کا اولین خواب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments