لندن میں شہباز شریف اور نواز شریف برائے فروخت


مجھے یہ فقرہ لکھتے ہوئے بہت عجیب سے لگ رہا ہے لیکن کیا کروں سچ اور حقیقت لکھنے پر مجبور ہوں میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو پھر بھی چند شرارتی لوگ من پسند لوگوں کے ساتھ محبت جتانے کے لیے منفی سوچ کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ یہ دنیا ایسی خامیوں کے ساتھ چلتی رہتی ہے لیکن انجام ٹھیک نہیں ہوتا۔

آج ہم فوٹو یعنی تصویر سے متعلق بعض حقائق پر روشنی ڈالیں گے۔

تصویر خوبصورتی، خاموشی، تاثرات نمایاں ظاہر کرتی ہے۔ یہی تو ہے کہ ہم فوٹو بنوانے کے بعد بار بار دیکھتے ہیں۔ بچپن سے بوڑھے ہونے تک آپ کی زندگی کے گزرے لمحات کی یادیں ہوتی ہیں۔ فوٹو مہربان بھی ہے اور نامہربان بھی۔ ایک طرف تو وہ کسی اصلی چہرے کا بدل ہے۔ دوسری طرف اس میں دیکھنے والے کی تمام تر دلچسپی اور توجہ اصلی چہرے پر ضرور جاتی ہے۔ شاعر نے بھی کچھ اس طرح بیان کی ہے۔

بھیج دی تصویر اپنی ان کو یہ لکھ کر شکیلؔ
آپ کی مرضی ہے چاہے جس نظر سے دیکھیے

اب میں اصل مدعا کی طرف آتا ہوں تاکہ آپ بھی فوٹو کے دونوں رخ دیکھ سکیں۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی فوٹو برطانیہ میں چند پاؤنڈز عیوض خوب بکتی ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف پاکستانی سیاست میں ایک نام ہے۔ آپ نے فریج کمپنی کا اشتہار دیکھا ہو گا کہ ”نام ہی کافی ہے۔“ اس لیے میں اور آپ اس حقیقت سے منہ نہیں پھیر سکتے، لیکن اس دنیا میں دس نمبری کے سوداگروں کی بھی کمی نہیں اور لالچی لوگ جب تک زندہ ہیں۔ یہ سوداگر بھوکے نہیں مر سکتے۔

نواز شریف جب بھی پاکستان سے آئے ان کے ارد گرد آپ نواز شریف سے پیار کرنے والے نئے چہروں کو ضرور دیکھتے ہوں گے کیونکہ نواز شریف سے نون لیگ ہے۔ ہر کارکن نواز شریف کے ساتھ فوٹو، وڈیو بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ چھوٹے ورکر سے لے کر بڑے ورکر تک یہی کوشش رہتی ہے۔ میں بڑے قریب سے یہ دیکھ چکا ہوں بلکہ جب وہ میڈیا کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں تو چند مافیا اپنی فوٹو بنوانے کے لیے آپ کو صرف ڈنڈا نہیں مارتے بلکہ کہنیاں، دھکے اتنے کہ آپ سوال پوچھنا، دوبارہ کھڑے ہونے کی پوزیشن بھی کھو چکے ہوتے ہیں۔ کیونکہ اگر ان کی فوٹو نہیں بنے گی تو پاکستان سے سادہ کارکنان جو شریف برادران سے پیار کرتے ہیں کیسے لٹیں گے۔ کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جو نواز شریف کے ارد گرد کھڑے ہیں وہ میاں برادران کے نزدیک ہیں۔

اصل میں میاں برادران کو خود بھی نہیں پتہ ہوتا کہ ان کے پیچھے کون کون کھڑا ہے۔ چند فوٹو مافیا پاکستانیوں سے پیسے بٹورتے ہیں کہ ہم میاں صاحب کو کہ کر یہ کام کروا دیں گے۔ آپ کا سلام دے دیں گے۔ میاں صاحب سے ملاقات کروا دیں گے۔ میرے ڈائریکٹ تعلقات ہیں۔ حالانکہ فوٹو کے دوسری طرف دیکھئیے یہ سچ نہیں ہے کیونکہ میاں صاحب فوٹو اس نظر سے نہیں بنواتے کہ میری فوٹو کو ٹکے ٹوکری بیچا جائے۔

شاید میاں شہباز شریف کے ساتھ فوٹو بنوانا شاید نواز شریف سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ میرا خیال ہی نہیں بلکہ یقین ہے۔ شہباز شریف صاحب کو معلوم ہے کہ فوٹو مافیا سرگرم ہے۔ میرے سامنے دو مختلف موقع پر شہباز شریف نے دو لوگوں کو اپنے ساتھ کھڑا ہونے سے منع کیا، ویسے مجھے اس وقت بہت برا لگا کہ کم از کم شہباز شریف کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ کئی مہینوں سے روزانہ باہر کھڑے ہوتے تھے تاکہ فوٹو بنے اور اپنے لیڈر سے ملاقات کریں لیکن شاید میاں شہباز شریف ایسے مافیا کی حقیقت جانتے ہیں۔ اسی لیے وہ اپنی تصویر کی دو سو پاؤنڈ کی سیل سے بچانا چاہتے تھے۔

بڑے میاں صاحب اپنے ارد گرد نظر ڈالیں اور فوٹو مافیا کی شناخت کریں اگر یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں کہ سو پاؤنڈ میں بھی بک سکتی ہے۔ یعنی نواز شریف کے ساتھ فوٹو بنا کر لوگوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ میاں صاحب میرے رابطے میں ہیں۔ میاں صاحب سے بات کرتا ہوں، مجھے یقین ہے کہ نواز شریف ان سو پاؤنڈ، مافیا کی جلد پہچان کر لیں گے اور یہ سلسلہ فوٹو کے ساتھ دیہاڑی بازوں کے شکنجے سے اپنے پیار کرنے والوں کو بچا لیں گے۔

یہ تو بیچارا سو پاؤنڈ والا ہے لیکن بڑے فوٹو ڈان لاکھوں کما رہے ہیں۔ جس کی جتنی قریبی فوٹو اس کے اتنے دام، برطانیہ کی سرکاری تنخواہ کے مطابق سو پاؤنڈ دیہاڑی تو بنتی ہے۔ باقی جتنا زیادہ پیار اتنا مال اکٹھا اس لیے آپ جب نواز شریف کے ساتھ فوٹو بنوانے لگیں تو مافیاز سے بچیے گا۔ پہلی بات مافیاز آپ کو اس مقام تک پہنچنے نہیں دے گا۔

ایک اہم بات جو نواز شریف سے ملنے اور فوٹو بنوانے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں، ان کو لندن ہیڈ کوارٹر بلا لیا جاتا ہے اور بس۔ میں آگے تفصیل میں جانا مناسب نہیں سمجھتا کہ ان کو کتنا خرچہ کرنا پڑتا ہے۔

میاں نواز شریف کے ساتھ میری بھی کچھ فوٹو ہیں لیکن فوٹو بیچنے کا کبھی تصور بھی نہیں، نہ جانے یہ کس قسم کے لوگ ہیں جو یہ کام دن رات مصروف ہیں۔ بہت سے نواز شریف کے حقیقی لوورز اپنے قائد سے پیار کے چکر میں ان مگر مچھوں کے ہاتھوں لٹنے پر مجبور ہیں۔

ویسے نواز شریف ان سب کو ایک سال پہلے تک شاید نام بھی نہ جانتے ہوں لیکن پھر بھی یہ گروہ مسلسل نواز شریف سے والہانہ محبت کا دعوی کرتے ہیں۔ کم از کم اپنے لیڈر کے نام پر دھوکہ دہی نہیں کرنی چاہیے، شاید میاں صاحب کو معلوم ہو کہ میری فوٹو بک رہی ہے۔ وہ بکنے دینا چاہتے ہوں شاید ان کارکنوں نے میاں نواز شریف کو اعتماد میں لے لیا، بہت سارے پاکستانی ان کی فوٹو دیکھ کر اپنی سیاست کے لیے ملاقات کروانے کی بھی ڈیلیں چل رہی ہیں۔ مجھے یہ شک نہیں یقین سے لکھ رہا ہوں بلکہ ایک دو لوگ تو پیسے بھی کھا چکے ہیں۔ ویسے سیاست بڑی بے رحم ہوتی ہے۔ اوہ ہاں پیسے لینے والے بہت بڑے سوداگر ہیں۔ ان کا نظام زندگی ایسے ہی کما کر اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں۔

اب پتہ نہیں یہ حرام ہے یا حلال؟ یہ تو کوئی علامہ ہی بتا سکتا ہے۔ سیاست میں حلال اور حرام کی پہچان ختم ہو جاتی ہے، شاید۔ قارئین برطانیہ میں نوکری کر کے پیسہ کمانا انتہائی مشکل ہی نہیں بلکہ حلال کمائی ایک امتحان ہوتا ہے اور دوسری طرف حرام کمائی اور کام میں سواد ہوتا ہے اور شاٹ کٹ لگ جاتا ہے۔

اب تک کتنی وڈیو بک چکی؟ کتنی فوٹو بک چکی؟ ان کے خریدار کون ہیں؟ یہ سب فوٹو مافیا جانتا ہے۔ بلکہ لٹنے والے رو رو کر بتاتے ہیں کہ مجبوراً دینا پڑتا ہے۔ میاں صاحب سے گزارش ہے کہ آپ اپنے دائیں بائیں فوٹو مافیا کی پہچان کریں ورنہ یہ آپ کو ایک کھانے کے عوض بھی بیچیں گے کیونکہ مافیاز کو عزت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔

میری اس تحریر سے اگر کسی کو یہ بات ناگوار گزرے تو معافی چاہوں گا اور امید کرتا ہوں کہ میری تحریر سے فوٹو اور وڈیو بیچنے والا وہ گروہ زیادہ معافی مانگے کیونکہ لکھنے اور نشاندہی کروانے والے سے زیادہ گنہگار فوٹو مافیا ہے جو یہ سودے بازی کرتا ہے۔ یہ شو کرواتے ہیں کہ نواز شریف سے بات کریں گے۔ وغیرہ وغیرہ، نوبت آگے تک پہنچ چکی ہے۔

ایک بار پھر لکھ رہا ہوں کہ اچھی سوچ کے ساتھ فوٹوز بنانا کوئی جرم نہیں اس کا منفی استعمال جرم ہے۔ لٹنے والے جو ان کے ہتھے چڑھتے ہیں۔ کو بھی ایسی کالی بھیڑوں سے بچنا چاہیے اور اللہ ہم سب کو حلال نصیب فرمائے امین تاکہ ہم اپنے بچوں کی پرورش حلال روزی سے کر سکیں، جب تک ایسے لوگ معاشرے میں موجود ہیں۔ جھوٹ، خوشامد، نا انصافی، فراڈ، جرم، منافقت ختم نہیں ہو سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments