کہانیوں میں ہیرو کے کردار کو بدلنا ہوگا


‎ہم اپنے بچپن سے ہی ہمت اور حوصلے کی نجانے کتنی کہانیاں اور مثالیں سنتے آئے ہیں، جن میں سے بیشتر کسی سخت وقت کا سامنا کرنے یا پھر موقع کی مناسبت سے ہمیں سنائی گئیں، ان کہانیوں میں اکثر ہیرو ایک غیر معمولی کردار کا حامل ہوتا ہے جو کہ بہادری کے ساتھ مشکل حالات سے لڑتا ہے، ایسا شخص غربت کے باوجود پڑھ لکھ کر بڑا افسر بھی بن جاتا ہے یا پھر کسی حادثے میں معذوری کے باوجود بھی مشکل حالات سے لڑ کر کوئی نہ کوئی کارنامہ سرانجام دے کر سماج کو چونکا دیتا ہے۔

اس طرز کی روایتی کہانیوں میں ہیروئن بہادر نوجوان لڑکی ہوا کرتی ہے جو بیمار باپ اور لاچار ماں کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ چھوٹے بہن بھائیوں کی پرورش کرتی ہے یا پھر کوئی خوبرو بیوہ جسے اپنے خاوند کی وفات کے بعد فوراً آئرن لیڈی کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے بچوں کو پڑھاتے لکھاتے، ان کی شادیاں کرتے اور پھر ہنسی خوشی رہتے بیان کیا جاتا ہے۔

‎ہمت اور بہادری کی ان داستانوں میں انسان کا کردار ہمیشہ ایک ”سپر مین“ کا سا پیش کرنے کے بعد پڑھنے والے کو جیسے تیسے یہ باور کرانے کی سر توڑ کوشش کی جاتی ہے کہ غم کے بعد سنبھلنے کو بس ایک ہی لمحہ درکار ہوتا ہے اور دنیا اسی ہمت پر ہنستے کھیلتے قائم ہے مگر لفظوں کی دنیا سے پرے حقیقت میں کسی حادثے کے بعد زندگی 180 درجے کے زاویے پر بدل جاتی ہے۔

بلند و بالا حوصلے کی کہانیاں لکھنے والے یہ بتانے سے گریز کرتے ہیں کہ اچانک صدمے کے بعد دکھ دیمک کی طرح چاٹ کر اندر ہی اندر سے انسان کو کھوکھلا کرنے لگتا ہے اور ہم غم کے مختلف درجوں سے گزرتے رہتے ہیں مگر اپنی بہتری کے لئے کچھ کر نہیں پاتے گویا غم کی کیفیت میں ایک ٹھہراؤ آ جاتا ہے یا پھر کسی ٹراما سے دو چار ایسے افراد اگر غم سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے بھی ہیں تو بہت جلد ناکامی سے دوچار ہو جاتے ہیں، یہ کسی کہانی میں نہیں لکھا ہوتا ہے۔

‎کسی اچانک صدمے کے بعد ایک مرحلہ گزرنے والی تلخ حقیقتوں کے وجود سے ہی انکار کا ہوتا ہے اور اس کیفیت میں غم میں مبتلا انسان کو مہینوں بیت جاتے ہیں اور ایسے فرد کو اس نفسیاتی کیفیت سے نکلنے کے سب راستے بند نظر آتے ہیں، سارے موٹیویشنل اقوال کتابوں کے صفحوں پر دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور کچھ مدد نہیں کر پاتے اور یوں ڈپریشن یا دیگر نفسیاتی عوارض تک پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔

ایسے میں غم کی شدت سے رہائی کی کوشش ہو یا پھر ایک کے بعد دوسری بے بسی کا سامنا ہو، متاثرہ فرد کو ہر شے جھنجھلاہٹ میں اضافہ کرتی معلوم ہوتی ہے، اوپر سے کچھ نہ بدل پانے کی بنیاد پر ایسا شخص خود پر غصہ بھی کرنے لگتا ہے۔

جذباتی کیفیات کے اظہار کو نارمل کرنے کے لئے ایسی کہانیاں لکھی جانا چاہئیں جن میں ہیرو، سپرمین کے بجائے ایک روتا ہوا آدمی ہو، جو چوٹ لگنے پر آنسو پینے کی بجائے چیختا چلاتا ہو، جہاں باپ کے مرنے کے بعد بیٹی پر فوراً آئرن لیڈی بن کر سامنے آنے کا معاشرتی دباؤ نہ ہو، جہاں مضبوط نظر آنے کا پریشر لئے بغیر جذبات کو ظاہر کیا جا سکے، کہانی میں رونے کو کمزوری کی علامت بتانا اور بہتے آنسوؤں کو بزدلی گرداننے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، حقیقت سے دور یہ کہانیاں عام آدمی کی کہانی نہیں ہوتیں۔

تصوراتی دنیا کی کہانیوں نے اور باہمت انسانوں کی فرضی داستانوں نے ٹراما کے شکار کسی بھی فرد کے لئے معاشرتی دباؤ بڑھا دیا ہے، اگر کہانیوں میں حقیقت پسندی کو بیان کیا جائے تو اس سے سماج کا آئیڈیل ازم کم از کم عام آدمی کی سوچ کے مطابق اپنے معیار کو طے کرے گا، ایسا نہیں ہے کہ یاسیت کو فروغ دیا جائے بلکہ ہمت کو اس درجے نہ لے جایا جائے کہ جس تک عام آدمی کی پہنچ تک نہ ہو، ہمیں غیر معمولی کرداروں کی نہیں بلکہ اپنے جیسوں کی کہانیوں کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments