غدار اور غداری بزبان مریم


پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر اسیر رکن قومی اسمبلی جناب جاوید لطیف کی انکوائری ریکارڈنگ وائرل تھی، جس میں وہ چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ میں نے کیا غلط کہا ہے، میں غلط کو غلط کہوں گا، کوئی مجھے نہیں روک سکتا۔ یہ ایک دن کا ریمانڈ مانگیں تو ان کو دس دن کا ریمانڈ دیں، دس دن کا مانگیں تو مہینے بلکہ میری پوری زندگی کا ریمانڈ دیں مگر میں سچ بولنے سے نہیں ہٹوں گا، میں ان سب کے نام لوں گا جنہوں نے اس ملک سے کھلواڑ کیا ہے اور اس کی بربادی کے ذمہ دار ہیں۔ مجھے تفتیش کے دوران اہلکار کہتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں آپ بالکل بے قصور ہیں مگر ہم پر اوپر سے بہت دباؤ ہے۔

میں کچھ دن سے محترمہ مریم نوز کی خاموشی پر نالاں تھی کہ مخالفین حمزہ شہباز اور اور پھر جناب شہباز شریف کی رہائی کو ڈیل ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ اگرچہ مجھے پڑھنے والے میرا جھکاؤ مسلم لیگ کی جانب ہونے کا شکوہ بھی کرتے ہیں جبکہ میں نے ابھی تک اپنا ووٹ کبھی کاسٹ نہیں کیا مگر ہاں میں یہ بات تسلیم کرتی ہوں کہ میں اور مجھ جیسے کئی نوجوانوں نے جب مریم نواز کو ہاتھ میں آئین کی کتاب پکڑ کر شہریوں کو ان کے حقوق اور سول حکومت کی بے بسی کی داستانیں روسٹر پر کھڑے ہو کر سپیکر میں بتائیں تو مجھے توجہ سے سننا پڑا۔

ان کی ہر بات ہی سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ آج پھر ابھی ابھی انہوں نے شیخوپورہ میں قومی اسمبلی کے اسیر ممبر جاوید لطیف کے گھر کے باہر اپنی خاموشی توڑ کر مجھے اپنی جانب متوجہ کیا۔ مریم نواز بہت ناراض ہیں اور غداری کی وضاحت کچھ اس طرح سے کرتی ہیں کہ ہمارے ذہنوں میں سوال اٹھتے ہیں۔ غداری کی جو وضاحت وہ دیتی ہیں اس کے مطابق تو ہم سب غدار کہلاتے ہیں۔ یعنی جو شخص اداروں کی مضبوطی کی بات کرے وہ غدار، جو شخص اداروں کی آہنی حدود کی بات کرے وہ بھی غدار، جو شخص ملک کی بات کرے وہ غدار، جو شخص جزا سزا کی بات کرے وہ بھی غدار، جو شخص طاقت کے ایوانوں پہ تنقید کر دے وہ بھی غدار۔ وہ کہتی ہیں :

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

مگر ساتھ ہی وہ سابق وزیراعظم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انہوں نے سر اٹھانے کا فیصلہ کر لیا ہے، انہوں نے اصل غداروں کو بے نقاب کر دیا ہے اور عوام جان چکی ہے کہ اصل میں غدار کون ہیں لہٰذا اب نہ تو سابق وزیراعظم خود سر جھکائیں گے اور نہ ہی عوام کا سر جھکنے دیں گے۔

مریم نواز شریف نے کہا کہ عوام جان چکے ہیں کہ ملک کا آئین 73 سالوں میں کسی منتخب وزیراعظم نے نہیں توڑا، پھر بھی وہ اپنی مدت پوری نہیں کرسکے اور جنہوں نے ملک کا آئین توڑ کر سنگین غداری کی انہیں راتوں رات ملک سے باہر بھجوا دیا گیا۔ جسٹس وقار سیٹھ کی عدالت ہی لپیٹ دی گئی کیونکہ انہوں نے سابق جنرل پرویز مشرف کو غداری کی سزا سنائی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ غدار کو تو آپ تحفظ دیتے ہیں، ملک سے باہر بھجوا دیتے ہیں اور عدالتیں اڑا دیتے ہیں۔ کس نے منتخب وزیراعظم نواز شریف کے گھر کی دیواریں کودی تھیں، کیوں اس لاقانونیت کو قبولیت بخشی گئی، آخر کب تک اس ملک کے قانون کو کھلونا سمجھ کر برتا جائے گا۔

مریم نواز شریف نے مہنگائی اور عوام کی بے بسی کا ذکر کرتے ہوئے گویا عوامی نبض پر ہاتھ رکھ دیا، انہوں نے دکھ سے کہا کہ شدید گرمی میں رمضان کے دوران عوام کو ایک ایک کلو چینی کی قطاروں میں کھڑا کیا گیا اور وزراء فطرانے اور چندے کے اسٹالز پر بیٹھے دکھائی دیے، یہ وہ ایشو تھا جس پر ساری قوم ہی دکھی ہے کہ حکومتیں پالیسیاں بناتی ہیں ناں کہ چندے کے اسٹال۔ حکومت کے حامیوں نے بڑی دلیری سے پچھلی حکومتوں کے قرضوں کو لے کر لفظوں کی آڑ لینے کی کوشش کی مگر شاید عوام اب اتنی بیزار ہو چکی ہے کہ تبدیلی کے جھنڈے کے رنگ بہت پھیکے پڑ گئے ہیں۔

مریم نواز شریف نے للکارا کہ اگر نواز شریف غدار ہے تو پھر ضمنی انتخابات میں عوام نے مسلم لیگ نواز کے نمائندوں کو کیوں منتخب کیا، اس لیے کہ عوام اب حقیقت جان چکے ہیں۔ اب آپ کا پول کھل چکا ہے۔ اور اس اندھیری رات کی صبح طلوع ہونے کو ہے۔

مریم نواز شریف نے مزید کہا کہ آپ نے تو مذہب کو بھی نہیں چھوڑا، بتائیں کیوں آپ نے فیض آباد دھرنے ایک منتخب وزیراعظم کے خلاف کروائے اور ملک کی ترقی کا پہیہ جام کیا؟ اور پھر آر ٹی ایس بٹھا کر ایک سلیکٹڈ وزیراعظم کو لایا گیا اور عوامی مینڈیٹ کی توہین کی گئی۔ پھر اس کے دور میں اسی تنظیم کو کالعدم قرار دیا گیا، مذہب کے نام پر خونریزی ہوئی، مساجد میں گھس کر لوگوں کو شہید کیا گیا اور پولیس کو شہید ہونے کے لئے سڑکوں پر بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا، اس بربریت کا جواب کون دے گا؟

وہ کہتی ہیں میں بتاؤں کہ غدار کون ہے؟ وہ جو انڈیا میں بیٹھ کر ہماری ایجنسیوں کو دہشت گرد کہتا تھا، جنہوں نے کشمیر کا سودا کیا، جس نے گولڈ سمتھ کی کمپین چلائی اور یہودیوں کا وہ رشتے دار آج پاکستان کی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھ کر فلسطین کے حق میں ایک ٹویٹ کو اپنی کامیابی سمجھتا ہے، عوام سب کچھ جان چکے ہیں۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ عوام کے فیصلے عوام پر چھوڑ دو، عوام اور ان کے لیڈران کے درمیان سے ہٹ جاؤ۔

میرے لیے یہ بات بہت معنی خیز تھی کہ دختر نواز شریف (جو کہ تین بار منتخب وزیراعظم ہیں ) نے کس کو عوام اور ان کے جمہوری لیڈران کے درمیان سے ہٹ جانے کا کہا؟ یہ سوال میں اپنے قارئین پہ چھوڑتی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments