کہو ان سے جو اگلے مورچوں سے صلح کا پیغام دیتے ہیں



ڈھاکہ کے پلٹن گراؤنڈ میں ایک تقریب کے دوران جنرل امیر عبداللہ نیازی نے انڈین آرمی کے کمانڈر جنرل اروڑہ کے ساتھ بیٹھ کر ہتھیار ڈالنے کی ایک دستاویز پر دستخط کیے اور اپنا پستول نکال کر میز پر رکھ دیا۔ اس وقت کے ذمے داروں کی نا اہلی اور عاقبت نااندیشی کی وجہ سے پاکستان کو بھارت کے ہاتھوں بہت بڑی ہزیمت اٹھانا پڑی۔ اس دن کو پاکستان کی تاریخ میں سیاہ ترین دن کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ ہتھیار ڈالنے کی یہ تقریب ایک طرح سے مشرقی پاکستان سے دستبرداری کا اعلان بھی تھا۔

اس شکست اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے زخم 50 سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ابھی تک مندمل نہیں ہو سکے۔ سقوط ڈھاکہ پر بہت کچھ لکھا، پڑھا اور سنا جا چکا ہے۔ مشرقی پاکستان میں شکست کے بعد اس وقت کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے بحالت مجبوری اقتدار مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کو منتقل کر دیا۔ جناب بھٹو نے صدر پاکستان کا عہدہ سنبھالتے ہی متعدد جرنیل ریٹائر کر دیے تھے۔ انہوں نے اس کا اعلان ایک تقریر میں کیا۔ جو رات گئے نشر اور ٹیلی کاسٹ کی گئی تھی۔ میں اس دور میں جوانی کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔ مجھے بڑی بے چینی سے بھٹو صاحب کی تقریر کا انتظار تھا۔ جو رات کے ایک بجے کے بعد نشر ہوئی تھی۔ شہید بھٹو نے جن جرنیلوں کو ریٹائر کیا تھا۔ ان میں میجر جنرل غلام عمر کا نام بھی شامل تھا۔ مبصرین کے مطابق وہ سقوط ڈھاکہ کے ذمے داروں میں شمار کیے جاتے تھے۔ جس کی وجہ سے ان کو سبکدوشی کا پروانہ تھمایا گیا تھا۔

جنرل عمر کے دو صاحبزادے اسد عمر اور زبیر عمر اس وقت سیاست کے میدان میں بڑا فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسد عمر تحریک انصاف میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے پہلے موصوف نے بڑے دعوے کر رکھے تھے۔ وہ اس حوالے سے بڑے پرجوش بھی تھے۔ کہ اقتدار ملتے ہی معیشت کی ڈولتی ہوئی کشتی کو کنارے تک بحفاظت پہنچا دیں گے۔ مگر کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا کے مصداق وہ معیشت کو اٹھانے کے بجائے مزید تنزلی کی طرف لے گئے۔ ان کی ناکامی کے بعد کپتان نے ان سے خزانے کی کنجیاں واپس لے کر حفیظ شیخ کے سپرد کردیں۔ جو اب شوکت ترین کو تھما دی گئی ہیں۔ جنہوں نے کپتان کی معاشی ٹیم کے تین سالوں میں اٹھائے ہوئے اقدامات کو ملکی معیشت کے لئے تباہ کن قرار دے دیا ہے۔

جنرل عمر کے بڑے سپوت زبیر عمر اس وقت نون لیگ میں کافی متحرک ہیں۔ اور اکثر ٹاک شوز میں اپنی جماعت کی نمائندگی کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک ٹی وی ٹاک شو میں انہوں نے فرمایا تھا کہ نون لیگ کی پنڈی کے مکینوں سے صلح ہو چکی ہے۔ وہ کئی مہینے پہلے آرمی چیف سے دو ملاقاتیں بھی کرچکے تھے۔ جس کا میڈیا میں بڑا چرچا رہا۔ ایک دفعہ جب آرمی چیف اپنی فیملی کے ساتھ اسلام آباد کلب آئس کریم کھانے پہنچے۔ تب بھی زبیر عمر کو ان کے اردگرد منڈلاتے دیکھا گیا۔ تاکہ چیف سے ان کی ملاقات ہو سکے۔ مگر ذرائع کہتے ہیں کہ ان کو جنرل صاحب کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا گیا۔

ویسے تو وہ اپنے آپ کو نواز شریف اور مریم نواز کا ترجمان کہلواتے ہیں۔ مگر وہ مریم نواز کے ساتھ کبھی بھی کسی تقریب میں نظر نہیں آئے۔ درحقیقت مریم نواز صاحبہ جہاں بھی جاتی ہیں۔ وہاں ان کی تقریر میں الفاظ کا چناؤ اپنے والد میاں نواز شریف کے بیانیے سے مطابقت رکھتا ہے۔ لہذا زبیر عمر جو اسٹیبلشمنٹ کی گڈ بک میں شامل ہیں۔ اپنے آپ کو اچھا بچہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ایسی تقاریب سے دور رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔

زبیر عمر نون لیگ کے صدر میاں شہباز شریف کے انداز سیاست کے ساتھ اپنے آپ کو comfortable سمجھتے ہیں۔ اسی تناظر میں وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ صلح اور دوستی کے دعوے کرتے رہتے ہیں۔ زبیر عمر کی آرمی چیف سے ملاقاتوں کو موجودہ حکومت نے بہت اچھالا تھا۔ اور شریف خاندان پر ڈیل کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔ مگر ایک معمولی سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ میاں نواز شریف ووٹ کی عزت اور ایک با اختیار وزیراعظم کے نعرے سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اور نہ ہی وہ اپنے چھوٹے بھائی کی مفاہمت پر مبنی پالیسی کو اختیار کریں گے۔ کیوں کہ اس طرح کی پالیسی کے نتائج ملک کے لئے کبھی فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتے۔

ماضی میں ایک پاکستانی شخصیت نے کسی غیر ملکی صدر سے پاکستانی معیشت کی بحالی کا نسخہ پوچھا تو اس کے جواب میں موصوف نے فرمایا تھا کہ پاکستان میں فیصلہ سازی کے دو مراکز ہونے کی وجہ سے بیرونی دنیا کو معاملات طے کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ اسی لئے پاکستان اب تک ترقی کی منزلیں تک طے نہیں کر سکا۔ اور نہ ہی اس وقت تک آگے بڑھے گا۔ جب تک وہ ایک با اختیار وزیراعظم کے ساتھ دنیا کے ساتھ بات نہیں کرے گا۔

میاں نواز شریف بھی دراصل یہی چاہتے ہیں کہ وزیراعظم اور کابینہ با اختیار ہو۔ اور کوئی غیر متعلقہ شخصیت ان کے کاموں میں مداخلت نہ کرے۔ میاں صاحب آئندہ کے سیٹ اپ میں تمام اداروں کو ان کی آئینی حدود کے اندر دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ایسا اقتدار ہرگز نہیں چاہتے۔ جس میں ان کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہوں۔ اور وہ یکسوئی کے ساتھ امور مملکت نہ چلا سکیں۔

ابھی میں نے یہ مضمون شروع ہی کیا تھا۔ کہ مجھے ممتاز صحافی ابصار عالم کا تازہ کالم پڑھنے کا موقع ملا۔ انہوں نے لیاقت بلوچ کے بیٹے کا ٹورنٹو یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کرنے کے ذکر کے ساتھ جناب بھٹو شہید کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک اور شہید وزیراعظم کے خلاف اس وقت کی مذہبی جماعتوں کے اس پروپیگینڈے کا بھی ذکر کیا۔ جس میں ان کے ختنے نہ ہونے کو بنیاد بنا کر حکومت کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی گئی تھی۔ کاش لیاقت بلوچ اپنے بیٹے کو متعلقہ غیر ملکی یونیورسٹی میں داخل کرانے سے پہلے یہ چیک کرلیتے کہ اس ادارے کے تدریسی عملے کا ختنہ ہوا ہے یا نہیں تو زیادہ مناسب ہوتا۔

جناب ابصار عالم نے ماضی سے لے کر اب تک اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سیاسی امور میں مداخلت کا ذکر تو کیا ہے۔ مگر وہ سیاستدانوں میں موجود ان کالی بھیڑوں کو کیوں بھول گئے۔ جو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اسٹیبلشمنٹ کو کندھا فراہم کرتے ہیں۔ اور جو مشرف کو بار بار وردی میں صدر منتخب کرانے کا ببانگ دہل اعلان کیا کرتے تھے۔

ماضی میں جب ظفراللہ جمالی مرحوم کی جگہ چوہدری شجاعت کو وزیراعظم منتخب کیا گیا۔ اس وقت مرحوم امین فہیم نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ کہ حقیقی جمہوریت کی بحالی کا سفر بڑا طویل دکھائی دے رہا ہے۔ آج 15 سال گزرنے کے بعد بھی ہنوز یہ سفر جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔ کب سیاست میں سلیکشن اور کٹھ پتلیوں کا تماشا ختم ہوگا۔ عوام کب سکھ چین اور خوش حالی کا دور دیکھیں گے۔ کاش بڑے عہدوں پر بیٹھے فیصلہ ساز ہوش کے ناخن لے سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments