راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ تعمیر سے قبل ہی متنازع کیوں ہو گیا ہے؟

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


پنجاب حکومت کی طرف سے اربوں روپے کی لاگت کا راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ تعمیر کے آغاز سے پہلے ہی تنازعات کا شکار ہو گیا ہے۔ قومی احتساب بیورو (نیب) نے اس منصوبے میں ہونے والی مبینہ بے ضابطگیوں کی تحقیقات کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

گذشتہ چند روز سے پاکستان کے مقامی میڈیا پر راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے کے نقشے میں مبینہ طور پر تبدیلی کروانے سے متعلق جن افراد کے نام لیے جا رہے ہیں ان میں وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ساتھی زلفی بخاری کے علاوہ وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان بھی شامل ہیں۔

ان دنوں پر مبینہ طور پر اس منصوبے پر ناجائز اختیارات کا استعمال کرنے اور اس سے فائدہ حاصل کرنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ایف آئی اے کو پشاور بی آر ٹی کی تحقیقات روکنے کا حکم

بی آر ٹی منصوبہ: ’جزوی افتتاح‘ یا ’آزمائشی آغاز‘

لارنس روڈ پراجیکٹ: لاہور کو شہری سیلاب سے بچانے کا منصوبہ کیا ہے؟

تاہم وزیر اعظم کے معاون زلفی بخاری نے پیر کی شام اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ ٹوئٹر پر اس حوالے سے اعلان کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’وزیرِ اعظم عمران خان نے ہمیشہ کہا ہے کہ اگر کسی سرکاری عہدیدار کا نام کسی انکوائری میں آئے تو اسے اپنا نام الزامات سے پاک ہونے تک اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔

https://twitter.com/sayedzbukhari/status/1394307371934097408?s=20

’میں اس حوالے سے ایک مثال قائم کرنے جا رہا ہوں اور میں نے رنگ روڈ انکوائری میں لگائے گئے الزامات اور میڈیا کی جانب سے کی گئی غلط بیانی سے اپنا نام پاک ہونے تک مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

وزیر اعظم کو جب اس منصوبے کے نقشے میں مبینہ تبدیلی کا علم ہوا تھا تو انھوں نے پنجاب حکومت کو فوری طور پر اس کی تحقیقات کا حکم دیا تھا جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے چیف سیکرٹری پنجاب کو اس تمام معاملے کی تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ کیا ہے؟

رنگ روڈ

سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور میں راولپنڈی اور اسلام آباد میں بڑھتی ہوئی ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے رنگ روڈ کے منصوبے کی ابتدائی طور پر منظوری دی گئی تھی جس کے تحت راولپنڈی کے علاقے روات سے ایک سڑک تعمیر کی جانی تھی جسے راولپنڈی شہر کے باہر سے ہوتے ہوئے ترنول کو جی ٹی روڈ اور پھر موٹر وے کو ملانا تھا۔

اس رنگ روڈ کی تعمیر سے جی ٹی روڈ سے پنجاب سے صوبہ خیبر پختونخواہ جانے والی ٹریفک اور بالخصوص ہیوی ٹریفک نے رنگ روڈ استعمال کرنا تھا جس کی وجہ سے اسلام آباد ہائی وے پر ہیوی ٹریفک کا دباؤ کم ہونا تھا۔

سنہ 2016 میں اس منصوبے پر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے اصول کے تحت اس کی ابتدائی فزیبلٹی رپورٹ تیار کرنے کے منصوبے پر کام شروع ہوا اور اس منصوبے میں نیسپاک کو بھی شامل کیا گیا جبکہ راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (آر ڈی اے) کو ان تمام امور کی نگرانی کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

رنگ روڈ منصوبے کے حوالے سے نیسپاک کی ابتدائی رپورٹ کو ایشیئن انفراسٹریکچر انویسٹمنٹ بینک نے منطور کر لیا تھا۔

ایشیئن انویسٹمنٹ بینک نے آسان شرائط پر اس منصوبے کے لیے 40 کروڑ ڈالر کے قرضے کی پیشکش بھی کی تھی۔ اس بینک کے ساتھ مذاکرات سنہ 2018 میں ہوئے تھے اور دو سال سے بھی زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود دوبارہ کوئی مذاکرات نہیں ہوئے۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور میں اس منصوبے پر عملی طور پر آغاز نہیں ہو سکا تھا اور سنہ 2018 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اس منصوبے پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا اور گذشتہ برس اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے پیپر ورک پر دوبارہ کام شروع کیا گیا تھا۔

اس منصوبے میں ہونے والی بےقاعدگیوں کے بارے میں جب مقامی میڈیا پر خبریں آئیں تو وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس معاملے کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا۔

رپورٹ میں کیا کہا گیا ہے؟

چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک کو راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے میں بے ضابطگیوں کے حوالے سے حقائق کو منظر عام پر لانے کی ذمہ داری سونپی گئی جنھوں نے کمشنر راولپنڈی ڈویژن کی سربراہی میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی جس نے چند روز قبل اس بارے میں رپورٹ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو پیش کی ہے۔

زلفی بخاری

اس رپورٹ میں راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے میں مبینہ طور پر ہونے والی بےضابطگیوں کی ذمہ داری اس وقت کے راولپنڈی ڈویژن کے کمشنر محمد محمود اور لینڈزایکوزیشن کلیکٹر وسیم علی تابش پر ڈالی گئی ہے اور ان دونوں سرکاری افسران کا معاملہ نیب بھجوانے کی سفارشات پیش کی گئی ہیں۔

اس رپورٹ میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ دونوں افسران نے غیر قانونی طور پر دو سے تین ارب روپے اس منصوبے کے لیے زمین کی خریداری کی مد میں خرچ کیے ہیں۔

اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ سابق کمشنر راولپنڈی محمد محمود کے ایک بھائی کا نجی ہاوسنگ سوسائٹی مکہ سٹی کے ساتھ تعلق کا انکشاف ہوا ہے۔

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سابق کمشنر نے اپنے بھائی کو فائدہ پہنچانے کے لیے یا اس کے ذریعے بے نامی طریقے سے خود کو فائدہ پہنچانے کے لیے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن قواعد و ضوابط اور انتظامی قوانین کی دھجیاں اڑانے پر محمد محمود کے خلاف ڈسپلنری ایکشن لے۔

لینڈز ریکوزیشن کلکٹر کے بارے میں اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وسیم علی تابش نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ضلع اٹک میں دو ارب سے زائد کی رقم خرچ کی اور اتنی بڑی رقم کی ادائیگی اٹک لوپ کے رینٹ سینڈیکیٹ کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئی تھی۔

اس رپورٹ میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ توقیر شاہ اور نیسپاک کے چند افسران بھی ان بے ضابطگیوں کے ذمہ دار ہیں۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رینٹل سنڈیکیٹ میں ملوث تمام لوگوں کے خلاف تحقیقات کی جائیں اور ایسا کرنے سے استفادہ کرنے والے بے نامی حصہ دار بھی سامنے آ سکتے ہیں۔

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے میں آنے والی 12 نجی ہاؤسنگ سوسائیٹیز اور ان کے اثاثوں کی چھان بین کرنے کی ذمہ داری فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور ایف آئی اے کو دی جائے۔

اس کے علاوہ اس رپورٹ میں یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ ان ہاؤسنگ سوسائیٹیز میں موجودہ یا ریٹائرڈ افسران کے بے نامی حصہ دار ہونے کے حوالے سے تحقیقات کی جائیں۔

اس رپورٹ کی روشنی میں ڈپٹی کمشنر راولپنڈی اور ڈپٹی کمشنر اٹک کے علاوہ اے ڈی سی آر راولپنڈی، اے سی راولپنڈی صدر اور فتح جنگ اور چیف آفیسر فتح جنگ تحصیل کونسل کو تبدیل کر دیا گیا ہے اور اس رپورٹ میں یہ سفارش کی گئی ہے کہ متعقلہ حکام ان افراد سے ان کی مجرمانہ غفلت اور خاموشی پر ان کا مؤقف بھی ضرور معلوم کریں۔

اس رپورٹ میں فوج کے دو سابق افسران جن میں میجر جنرل ریٹائرڈ سلیم اسحاق اور کرنل ریٹائرڈ عاصم ابراہیم پراچہ شامل ہیں کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں قومی سلامتی کے حساس اداروں کا نام استعمال کرنے اور رینٹل سنڈیکیٹ میں ان کے کردار کے حوالے سے بھی معلومات اکھٹی کی جائیں۔

قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے راولپنڈی رنگ روڈ کے منصوبے میں مبینہ بدعنوانی کے معاملے کی تحقیقات کا حکم ڈی جی نیب راولپنڈی کو دیا ہے۔

نیب کی طرف سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ نیب اس معاملے کا ہر پہلو سے جائزہ لے گا تاکہ ذمہ داروں کا تعین کر کے ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔

زلفی بخاری اور غلام سرور خان کا نام کیوں لیا جا رہا ہے؟

اس رپورٹ میں سیاست دانوں کا ذکر نہیں ہے تاہم اس حوالے سے وفاقی وزیر برائے ہوابازی غلام سرور خان اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی ذلفی بخاری کا نام لیا جا رہا ہے۔

راولپنڈی کے حکام کے مطابق جس علاقے سے یہ رنگ روڈ گزرے گی وہاں پر زلفی بخاری کے رشتہ داروں کی کافی زمین ہے۔

وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے اس فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی میں شامل دو افراد نے اس رپورٹ سے اتفاق نہیں کیا اور نہ ہی ان کے دستخط اس رپورٹ پر موجود ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ اس معاملے کو منگل کے روز کابینہ کے اجلاس میں اٹھائیں گے اور وزیر اعظم سے مطالبہ کریں گے کہ اس معاملے کی دوبارہ تحقیقات کروائی جائیں۔

انھوں نے کہا کہ جس علاقے سے یہ رنگ روڈ گزرے گی وہاں پر نہ تو ان کی اور نہ ہی ان کے رشتہ داروں کی زمنیں ہیں۔

پیر کے روز ان کی جانب سے کی جانے والی ایک پریس کانفرنس کے دوران بھی غلام سرور خان کافی غصے میں تھے اور انھوں نے اس معاملے پر الزام تراشی کرنے کی بنا پر میڈیا کے کچھ نمائندوں اور حزب مخالف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنے کا اعلان کیا۔

غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ اگر سوسائٹی کے کسی مالک کے ساتھ ان کا کوئی تعلق ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کا اس ہاؤسنگ سوسائٹی میں کچھ شیئر ہے۔

پاکستان مسلم لیگ نواز نے مطالبہ کیا ہے کہ رنگ روڈ منصوبے کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں جن افراد کا ذکر ہے ان کے نام ای سی ایل میں شامل کیے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp